امریکا میں دل کے اندرازخود گھل کرختم ہوجانے والے ’’اسٹینٹ‘‘ کی تیاری

عام طورپراسٹینٹ دل کے اندرموجود رہتے ہیں لیکن امریکا میں پہلی مرتبہ ختم ہوجانے والےاسٹینٹ تیارکرنے کی منظوری دیدی گئی


ویب ڈیسک July 09, 2016
صرف امریکا میں ہر سال 8 لاکھ 50 ہزار سے زائد مریضوں کو اسٹینٹ لگائے جاتے ہیں۔ فوٹو: بشکریہ ایبٹ کمپنی

امریکا میں فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی ( ایف ڈی اے) نے ایک ایسے اسٹینٹ کے انسانی استعمال کی منظوری دیدی ہے جو بند شریانوں کو کھولنے کے بعد دل کے اندرازخود گھل کرختم ہوجائے گا جب کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سالانہ لاکھوں افراد دل کی شریانوں کے بند ہوجانے سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

ایبٹ کمپنی نے اپنی ایجاد کوایبزورب اسٹینٹ کا نام دیا ہے جودل کی بند شریانوں کو کھولنے کے بعد دھیرے دھیرے گھل کرختم ہوجائے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ دھاتی اسٹینٹ دل کی شریانوں میں موجود رہتے ہیں اورآگے چل کر کسی پیچیدگی کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔

ایبٹ کا یہ جدید اسٹینٹ پلاسٹک کے اجزا سے تیارکیا گیا ہے اور3 سال کے اندراندر گھل کر بالکل ختم ہوجائے گا، اس وقت جو اسٹینٹ موجود ہیں وہ دھاتی جالیوں پر مشتمل ہوتے ہیں جن کی شکل پین کے اسپرنگ جیسی ہوتی ہے جو چربی اوردیگر اجزا سے بند شریان میں جاکر کھل جاتے ہیں اور خون کا بہاؤ شروع ہوجاتا ہے جسے ' اینجیوپلاسٹی' کا عمل کہتے ہیں۔

صرف امریکا میں ہر سال 8 لاکھ 50 ہزار سے زائد مریضوں کو اسٹینٹ لگائے جاتے ہیں تاہم 2007 سے 2008 کے درمیان امریکا میں کئے گئے ایک سروے کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ اسٹینٹ والی شریانوں میں خون کے لوتھڑے بننے کی شرح بڑھ جاتی ہے اور ان کے کچھ سائیڈ افیکٹس بھی ہوتےہیں، اس کے بعد اندر رہ جانے والے اسٹینٹ کے متبادل پر کام شروع کیا گیا۔

دوسری جانب امراضِ قلب کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اسٹینٹ کو انسانوں پر آزمانے کے کئی سال بعد ان کے نتائج کا جاننا بھی ضروری ہے تاکہ ان کے اثرات کو اچھی طرح پرکھ لیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں