عید کا دن

چند دن قبل خیبرپختونخوا کے صدر ظفر اقبال جھگڑا صاحب سے ایک تقریب میں ملاقات ہوئی

Amjadislam@gmail.com

چند دن قبل خیبرپختونخوا کے صدر ظفر اقبال جھگڑا صاحب سے ایک تقریب میں ملاقات ہوئی تو انھیں اس بات پر بہت سی مبارکبادیں سمیٹتے پایا کہ ان کی کوششوں سے کئی برسوں کے بعد اس بار ماہ رمضان کا آغاز پورے ملک میں ایک ساتھ ہوا ہے اور اب امید کی جانی چاہیے کہ عید بھی ایک ہی دن منائی جائے گی کسی نے لقمہ دیا کہ مولانا پوپلزئی صاحب عمرے کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے ہیں کہیں اس بار وہاں دو عیدیں نہ ہوجائیں! یہ تو خیر ایک دل لگی کی بات تھی مگر حقیقت یہی ہے کہ اس زمانے میں جب ٹیکنالوجی ہمیں کسی خاص وقت اور جگہ پر چاند کے نظر آنے کے بارے میں سوفیصد صحیح اطلاع فراہم کرسکتی ہے ہم لوگ ہر سال اس ضمن میں کوئی نہ کوئی تنازعہ کھڑا کرکے دو دو عیدیں کرتے ہیں اس اعتبار سے یہ بہت احسن اور حوصلہ افزا بات ہے کہ پیار محبت اور گفت و شنید سے اس شرمندگی آمیز مسئلے کو حل کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی گئی ہے امید کی جانی چاہیے کہ اس بار نہ صرف عید کے موقع پر اس تازہ تر روایت کو برقرار رکھا جائے گا بلکہ آیندہ بھی اس پر باقاعدگی سے عمل درآمد ہوگا۔

عیدالفطر اپنی بنیاد میں تو ایک مذہبی تہوار یقینا ہے لیکن پوری اسلامی دنیا میں یہ اپنے اپنے علاقے کی مقامی تہذیب، کلچر اور روایت سے مل کر ایک ''ثقافتی تہوار'' کی صورت بھی اختیار کرچکا ہے۔ بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں ایک ہزار برس تک ہندو اکثریت کے ساتھ مل جل کر رہنے سے اس کی ایک اپنی انفرادیت قائم ہوگئی ہے مثلاً چاند رات کا اہتمام، چوڑیوں، کپڑوں اور جوتوں کی خصوصی خریداری اور نماز عید کے بعد سویوں سے متعلق ڈشز کی تیاری ایسی باتیں ہیں جو باقی کی اسلامی دنیا سے ہمیں واضح طور پر مختلف کرتی ہیں چند برس قبل تک ایک دوسرے کو عید کارڈ بھجوانے کی رسم بھی اس کہانی کا ایک اہم باب تھی۔

اب اس کی جگہ SMS نے لے لی ہے سو کچھ اداروں کی طرف سے بھجوائے جانے والے عید کاروں سے قطع نظر اب یہ روایت تقریباً دم توڑ چکی ہے اور آیندہ نسلوں کو شاید یہ سن کر یقین ہی نہ آئے کہ ایک زمانے میں کس کس بلا کے خوب صورت، دلچسپ اور خیال افروز عید کارڈ چھپا کرتے تھے اور یہ کہ عیدی میں ملنے والے کڑکڑاتے ہوئے نئے کرنسی نوٹوں کا لمس اور خوشبوں بچوں کے لیے کیا معنی رکھتے تھے! آج کے بچے ملاوٹ، مہنگائی اور سیکیورٹی خطرات کی وجہ سے ان بہت سی تفریحات سے بھی محروم کردیے گئے ہیں جو صرف عید کے دنوں سے مخصوص تھیں ٹھیلوں سے آلو چنے اور فروٹ چاٹ خرید کر کھانا، بار بار شربت اور بوتلیں پینا، چڑیا گھر یا عجائب گھر کی سیر کو جانا یا دوستوں کے ساتھ مل کر بے مقصد آوارہ گردی کرنا، جھولے جھولنا یا لائن میں لگ کر بلکہ اسے توڑ کر نئی فلموں کی ٹکٹیں لینا۔ اب ایک قصۂ پارینہ بن چکے ہیں۔

رونق میلے کی جگہ ایک بے معنی سے شوروغوغا نے لے لی ہے۔ کچھ احباب کا خیال ہے کہ یہ صرف ہماری نسل کا ناسٹیلجیا ہے جو ایک جگہ پر رک گیا ہے ورنہ نئی نسل اپنے طریقے سے آج بھی عید کو اسی طرح سے انجوائے کرتی ہے جیسے ہم لوگ کیا کرتے تھے۔ اس بات میں جزوی حقیقت ہوسکتی ہے مگر اس تبدیلی کو صرف ہمارے ناسٹیلجیا Nostalgia تک محدود کرنا بھی یقینا پورا سچ نہیں ہے عین ممکن ہے کہ بہت امیر اور بہت غریب طبقوں کی حد تک ماحول کی یہ تبدیلی زیادہ اہم نہ ہو کہ دونوں طبقے بالترتیب وسائل کے افراط اور ان کی شدید کمی کے باعث اپنی اپنی دنیا میں گم ہیں مگر متوسط طبقے کے افراد کے لیے یہ یقینا ایک ناپسندیدہ اور ناخوشگوار تبدیلی ہے کیونکہ یہی ایک ایسا طبقہ ہے جو صرف اپنی اقدار سے چمٹا رہتا ہے بلکہ ان کی ترقی میں سرگرم اور ان کے زوال سے دل گرفتہ بھی ہوتا ہے۔

قمری کیلنڈر کے اعتبار سے وطن عزیز کے قیام کو غالباً 71 سال مکمل ہوگئے ہیں کہ چاند کے حساب سے ہر سال عیسوی کیلنڈر کے ساتھ دس دن کا فرق پڑجاتا ہے اس ''چاند کے حساب'' سے مجھے مرحوم شاعر اور سینئر دوست نظر امروہوی صاحب کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے یہ غالباً 2004ء کی بات ہے ہم لوگ آسٹریلیا کی ایک فلائٹ میں ہم سفر تھے۔ میں اور پیرزادہ قاسم سڈنی ایئرپورٹ پر امیگریشن کے مرحلے سے فارغ ہوکر نظر بھائی کا انتظار کررہے تھے جو ہم سے چند منٹ کے فاصلے پر آسٹریلین امیگریشن افسر سے بات کررہے تھے اور غالباً افسر کے آسٹریلوی لہجے کی انگریزی سے اس کی بات کو ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پارہے تھے۔ افسر نے پاسپورٹ پر ان کی عمر دیکھتے ہوئے خیرسگالی اور Age is to be respected کے انداز میں میزبان نے انگریزی میں کہا کہ آپ اسی برس کے ہیں؟ اس پر نظر بھائی نے قہقہہ لگاتے ہوئے اردو میں جواب دیا۔


''ارے بھائی چاند کے حساب سے بیاسی کا ہوگیا ہوں''

حساب کوئی بھی ہو دعا یہی ہے کہ رب کریم ہمارے اس پیارے وطن کو ہر طرح کی اندرونی اور بیرونی آفتوں سے محفوظ رکھے اور ہم پر اپنا خاص کرم فرمائے کہ فی الوقت تو اس کے محبوب نبیؐ کی امت پر بہت کڑا وقت آن پڑا ہے۔ انتشار، افتراق، جہالت، علم دشمنی، فرقہ بندی اور اخلاقی پستی ہمیں ایک قافلے کی جگہ پھر سے ہجوم اور بھیڑ کی شکل دے رہی ہے۔

اشیا کی ہوس نے ہماری شاندار اخلاقی روایات کو تہیس نہیس کرکے رکھ دیا ہے۔ امیر اپنے وسائل اور غریب اپنے مسائل میں گھرے رہنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور اور غیر متعلق ہوتے جارہے ہیں اور ہمارے بیشتر اہل نظر اہل زر کی حاشیہ نشینی اور ''خبر'' میں رہنے کے شوق میں اپنے ضمیر کی آواز کو سننے کے بجائے اس کا سودا کرنے میں زیادہ عافیت محسوس کرتے ہیں رب کریم سے دعا اور التجا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے بتائے ہوئے رستوں پر اس طرح چلنے کی توفیق عطا فرمائیں کہ ہم ایک دوسرے کو کہنیاں مار کر آگے بڑھنے کے بجائے ہاتھوں میں ہاتھ لے کر چلنا اوردوسروں کو بھی وہی حق دینا سکیھیں جو ہم اپنے لیے مانگتے ہیں اور اس عید کو ہمارے لیے اس خوشگوار سفر کا نقطۂ آغاز بنادے۔ آخر میں عید کے حوالے سے لکھا ہوا ایک شعر جو غالباً اس موضوع پر میرا واحد شعر ہے ؎

جس طرف تُو ہے اُدھر ہوں گی سبھی کی نظریں

عید کے چاند کا دیدار، بہانہ ہی سہی!
Load Next Story