چائلڈ لیبر اور جبری مشقت
چائلڈ لیبر کے خاتمے کے حوالے سے آج کل ملک میں بہت شور مچایا جا رہا ہے
FAISALABAD:
چائلڈ لیبر کے خاتمے کے حوالے سے آج کل ملک میں بہت شور مچایا جا رہا ہے۔ چائلڈ لیبر ہمارے ملک میں کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی یہ مسئلہ روشناس ہو گیا تھا۔ اس مسئلے کی جڑیں سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں، جب تک سرمایہ دارانہ نظام باقی رہے گا چائلڈ لیبر کسی نہ کسی شکل میں باقی رہے گی۔
چائلڈ لیبر کے خاتمے کے حوالے سے ہر دور میں آوازیں اٹھتی رہی ہیں، لیکن یہ آوازیں اندر سے ہمیشہ کھوکھلی رہی ہیں اور کسی حکومت نے خلوص دل اور سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی، لہٰذا چائلڈ لیبر باقی ہی نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی حکومت نے اس مسئلے کے پیدائشی اسباب کو دانستہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی، ہمیشہ لیپا پوتی کے نسخوں سے چائلڈ لیبرکو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ مچھر ہمارے گھروں، بستیوں کا ایک سنگین مسئلہ بنے ہوئے ہیں ہمارے منافع بخش کاروباری معاشرے میں سیکڑوں مچھر مار دوائیں اور اسپرے ایجاد ہوئے ہیں اور بلدیاتی ادارے مچھروں کے خاتمے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرکے اسپرے مہم بھی چلاتے ہیں لیکن ہماری کرپشن کی روایت کے مطابق یہ اسپرے مہم سر پر سے گزر جاتے ہیں اور اس کے لیے مخصوص کروڑوں کا فنڈ دو پرکے مچھر کھا جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا کسی حکومت نے مچھروں کی افزائش کرنے والے گندے پانی کے جوہڑوں کو ختم کرنے کی کوشش کی؟ نہیں اس لیے کہ سیکڑوں مچھر مار ادویات کے کارخانے یہ دوائیں، اسپرے اورکوائل بیچ کر کروڑوں روپے کما رہے ہیں، اگر واقعی مچھروں کا خاتمہ ہو جائے تو ان سیکڑوں کارخانوں اور ان میں کام کرنے والے ہزاروں کارکنوں کا کیا ہو گا؟ یہ سوال اصل میں کوائل اور اسپرے بنانے والوں سے کرنا احمقانہ حرکت ہو گی کہ یہ لوگ تو اس منافع بخش نظام کا حصہ ہیں جسے ہم سرمایہ دارانہ نظام کے نام سے جانتے ہیں۔
جبری مشقت بھی چائلڈ لیبر جیسی ہی ایک مہلک بیماری ہے۔ چونکہ ہمارے ملک میں خدا کے فضل سے ابھی تک جاگیردارانہ نظام زندہ و تابندہ ہے، لہٰذا جبری مشقت معاشرے کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہے۔ پورے پورے خاندانوں کو وڈیرے یرغمال بنا کر اپنی نجی جیلوں میں قید کر دیتے ہیں اور بچوں، خواتین سمیت پورے خاندان سے جبری مشقت کراتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی کی نشان دہی یا اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے نجی جیلوں پر چھاپے مار کر ان جیلوں میں برسوں سے جبری مشقت کرنے والوں کو برآمد کیا جاتا ہے اور انصاف کی عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے، جہاں جبری مشقتوں کو یہ خوش خبری سنائی جاتی ہے کہ ''اب وہ آزاد ہیں اور آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔''
کیا ہمارے انصاف کے دیوتاؤں کو یہ علم نہیں کہ ہمارے ملک میں ہزاروں نوجوان بیچلر اور ماسٹر کی ڈگریاں جیبوں میں رکھ کر نوکری کی تلاش میں اپنے بال سفید کر رہے ہیں، انصاف کی مہربانی سے جبریہ مشقت سے آزاد ہونے والے جب جبریہ بے روزگاری میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو پھر وہ خود صیاد کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں کہ جبریہ مشقت اور وڈیروں جیلوں میں اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے آدھے پیٹ ہی سہی زندہ رہنے کے لیے تھوڑی سی غذا تو ملتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سارے بے روزگار بھوک سے تنگ آ کر دانستہ کوئی جرم کرتے ہیں اور جیل اس لیے چلے جاتے ہیں کہ جیل میں دو وقت روٹی تو مل جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی اصل میں ایک ایسی جیل ہے جس میں کروڑوں انسان زندہ رہنے کے لیے دو وقت کی روٹی کے حصول میں بند ہیں، آپ لاکھ دلفریب بیانات دیں، بجٹ میں اربوں کا فنڈ مختص کریں، چائلڈ لیبر اور جبری مشقت اس وقت تک جاری رہیں گے، جب تک روزگار اور گزارے کے مطابق معاوضہ نہیں ملتا۔
ہمارے حالیہ بجٹ میں بھی ان مسائل کا احاطہ کرنے کے لیے کروڑوں نہیں اربوں کی رقم رکھی گئی ہے۔ صرف پنجاب میں مزدوروں کی فلاح کے لیے 65 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پنجاب کے وزیر محنت کا کہنا ہے کہ حکومت پنجاب نے مالی سال 2016-17ء کے بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت چائلڈ لیبر اور جبری مشقت کے خاتمے کے لیے 65 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔
علاقائی سطح پر چائلڈ لیبرکی مانیٹرنگ، بھٹہ مزدوروں کو قومی شناختی کارڈ اور سوشل سیکیورٹی کارڈز کے اجرا اور انفارمل سیکٹر میں آکوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ اسٹینڈرڈ کے مطابق کام کی جگہ کو بہتر بنانا محکمہ لیبر اور اضافی وسائل کے خصوصی اہداف میں شامل ہوں گے۔ اس لمبی چوڑی لفاظی اور تاویلات کا لب لباب یہ ہے کہ 2016-17ء کے بجٹ میں چائلڈ لیبر اور جبری مشقت کے خاتمے کے لیے بھاری رقوم رکھی گئی ہیں اور یہ بھاری رقوم جن کے اعداد دیکھ کر ہی دل بھاری ہو جاتا ہے، روایت کے مطابق راستے ہی میں کہیں گم ہو جائیں گی اور چائلڈ لیبر تک پہنچ ہی نہیں پائیں گی۔
جیساکہ ہم نے مچھروں کے حوالے سے اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے کہ مچھر کوائل اور اسپرے سے ختم نہیں ہوتے جب تک ان کی افزائش کی گندی جگہوں کا خاتمہ نہیں کیا جاتا۔ بعینہ یہی صورتحال چائلڈ لیبرکی ہے، جب باپ کی آمدنی سے یا باپ کی بے روزگاری سے گھر کا گزر بسر نہیں ہوتا تو باپ اپنے بچوں کو خود چائلڈ لیبر کی طرف دھکا دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے گھر کے بالغ افراد کو ایسا روزگار فراہم کرنا ضروری ہے جس کی آمدنی سے گھر کے اخراجات پورے ہوسکیں۔ ہماری نااہل حکومتوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ ہر سال بجٹ میں مزدوروں کی تنخواہ میں ایک ہزار روپے کا اضافہ کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتی ہیں۔ کسی وزیر خزانہ کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ ایک سال کے دوران بڑھنے والی مہنگائی کا جائزہ لے کر اس کے تناسب سے مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ کرے تاکہ مزدور مہنگائی کا مقابلہ کرسکیں۔
چائلڈ لیبر کے خاتمے کے حوالے سے آج کل ملک میں بہت شور مچایا جا رہا ہے۔ چائلڈ لیبر ہمارے ملک میں کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی یہ مسئلہ روشناس ہو گیا تھا۔ اس مسئلے کی جڑیں سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں، جب تک سرمایہ دارانہ نظام باقی رہے گا چائلڈ لیبر کسی نہ کسی شکل میں باقی رہے گی۔
چائلڈ لیبر کے خاتمے کے حوالے سے ہر دور میں آوازیں اٹھتی رہی ہیں، لیکن یہ آوازیں اندر سے ہمیشہ کھوکھلی رہی ہیں اور کسی حکومت نے خلوص دل اور سنجیدگی سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی، لہٰذا چائلڈ لیبر باقی ہی نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی حکومت نے اس مسئلے کے پیدائشی اسباب کو دانستہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی، ہمیشہ لیپا پوتی کے نسخوں سے چائلڈ لیبرکو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ مچھر ہمارے گھروں، بستیوں کا ایک سنگین مسئلہ بنے ہوئے ہیں ہمارے منافع بخش کاروباری معاشرے میں سیکڑوں مچھر مار دوائیں اور اسپرے ایجاد ہوئے ہیں اور بلدیاتی ادارے مچھروں کے خاتمے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کرکے اسپرے مہم بھی چلاتے ہیں لیکن ہماری کرپشن کی روایت کے مطابق یہ اسپرے مہم سر پر سے گزر جاتے ہیں اور اس کے لیے مخصوص کروڑوں کا فنڈ دو پرکے مچھر کھا جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا کسی حکومت نے مچھروں کی افزائش کرنے والے گندے پانی کے جوہڑوں کو ختم کرنے کی کوشش کی؟ نہیں اس لیے کہ سیکڑوں مچھر مار ادویات کے کارخانے یہ دوائیں، اسپرے اورکوائل بیچ کر کروڑوں روپے کما رہے ہیں، اگر واقعی مچھروں کا خاتمہ ہو جائے تو ان سیکڑوں کارخانوں اور ان میں کام کرنے والے ہزاروں کارکنوں کا کیا ہو گا؟ یہ سوال اصل میں کوائل اور اسپرے بنانے والوں سے کرنا احمقانہ حرکت ہو گی کہ یہ لوگ تو اس منافع بخش نظام کا حصہ ہیں جسے ہم سرمایہ دارانہ نظام کے نام سے جانتے ہیں۔
جبری مشقت بھی چائلڈ لیبر جیسی ہی ایک مہلک بیماری ہے۔ چونکہ ہمارے ملک میں خدا کے فضل سے ابھی تک جاگیردارانہ نظام زندہ و تابندہ ہے، لہٰذا جبری مشقت معاشرے کا ایک لازمی حصہ بن گئی ہے۔ پورے پورے خاندانوں کو وڈیرے یرغمال بنا کر اپنی نجی جیلوں میں قید کر دیتے ہیں اور بچوں، خواتین سمیت پورے خاندان سے جبری مشقت کراتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی کی نشان دہی یا اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے نجی جیلوں پر چھاپے مار کر ان جیلوں میں برسوں سے جبری مشقت کرنے والوں کو برآمد کیا جاتا ہے اور انصاف کی عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے، جہاں جبری مشقتوں کو یہ خوش خبری سنائی جاتی ہے کہ ''اب وہ آزاد ہیں اور آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکتے ہیں۔''
کیا ہمارے انصاف کے دیوتاؤں کو یہ علم نہیں کہ ہمارے ملک میں ہزاروں نوجوان بیچلر اور ماسٹر کی ڈگریاں جیبوں میں رکھ کر نوکری کی تلاش میں اپنے بال سفید کر رہے ہیں، انصاف کی مہربانی سے جبریہ مشقت سے آزاد ہونے والے جب جبریہ بے روزگاری میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو پھر وہ خود صیاد کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں کہ جبریہ مشقت اور وڈیروں جیلوں میں اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے آدھے پیٹ ہی سہی زندہ رہنے کے لیے تھوڑی سی غذا تو ملتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سارے بے روزگار بھوک سے تنگ آ کر دانستہ کوئی جرم کرتے ہیں اور جیل اس لیے چلے جاتے ہیں کہ جیل میں دو وقت روٹی تو مل جاتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی اصل میں ایک ایسی جیل ہے جس میں کروڑوں انسان زندہ رہنے کے لیے دو وقت کی روٹی کے حصول میں بند ہیں، آپ لاکھ دلفریب بیانات دیں، بجٹ میں اربوں کا فنڈ مختص کریں، چائلڈ لیبر اور جبری مشقت اس وقت تک جاری رہیں گے، جب تک روزگار اور گزارے کے مطابق معاوضہ نہیں ملتا۔
ہمارے حالیہ بجٹ میں بھی ان مسائل کا احاطہ کرنے کے لیے کروڑوں نہیں اربوں کی رقم رکھی گئی ہے۔ صرف پنجاب میں مزدوروں کی فلاح کے لیے 65 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پنجاب کے وزیر محنت کا کہنا ہے کہ حکومت پنجاب نے مالی سال 2016-17ء کے بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت چائلڈ لیبر اور جبری مشقت کے خاتمے کے لیے 65 کروڑ روپے مختص کیے ہیں۔
علاقائی سطح پر چائلڈ لیبرکی مانیٹرنگ، بھٹہ مزدوروں کو قومی شناختی کارڈ اور سوشل سیکیورٹی کارڈز کے اجرا اور انفارمل سیکٹر میں آکوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ اسٹینڈرڈ کے مطابق کام کی جگہ کو بہتر بنانا محکمہ لیبر اور اضافی وسائل کے خصوصی اہداف میں شامل ہوں گے۔ اس لمبی چوڑی لفاظی اور تاویلات کا لب لباب یہ ہے کہ 2016-17ء کے بجٹ میں چائلڈ لیبر اور جبری مشقت کے خاتمے کے لیے بھاری رقوم رکھی گئی ہیں اور یہ بھاری رقوم جن کے اعداد دیکھ کر ہی دل بھاری ہو جاتا ہے، روایت کے مطابق راستے ہی میں کہیں گم ہو جائیں گی اور چائلڈ لیبر تک پہنچ ہی نہیں پائیں گی۔
جیساکہ ہم نے مچھروں کے حوالے سے اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے کہ مچھر کوائل اور اسپرے سے ختم نہیں ہوتے جب تک ان کی افزائش کی گندی جگہوں کا خاتمہ نہیں کیا جاتا۔ بعینہ یہی صورتحال چائلڈ لیبرکی ہے، جب باپ کی آمدنی سے یا باپ کی بے روزگاری سے گھر کا گزر بسر نہیں ہوتا تو باپ اپنے بچوں کو خود چائلڈ لیبر کی طرف دھکا دینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے گھر کے بالغ افراد کو ایسا روزگار فراہم کرنا ضروری ہے جس کی آمدنی سے گھر کے اخراجات پورے ہوسکیں۔ ہماری نااہل حکومتوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ ہر سال بجٹ میں مزدوروں کی تنخواہ میں ایک ہزار روپے کا اضافہ کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتی ہیں۔ کسی وزیر خزانہ کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ ایک سال کے دوران بڑھنے والی مہنگائی کا جائزہ لے کر اس کے تناسب سے مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ کرے تاکہ مزدور مہنگائی کا مقابلہ کرسکیں۔