اے کاش وہ اس ملک کا فنکار نہ ہوتا
دنیا کے ہر ملک میں فنکاروں کی راہ میں آنکھیں بچھائی جاتی ہیں اوران کی قدر و منزلت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی
ISLAMABAD:
دنیا کے ہر ملک میں فنکاروں کی راہ میں آنکھیں بچھائی جاتی ہیں اوران کی قدر و منزلت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی مگر پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں فنکاروں کو نہ ہی قدرکی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی عزت، آبرو اور زندگی کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو ان کی بیماری کی صورت میں انھیں بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں ملک کے لیجنڈ گلوکار مہدی حسن مرحوم کے بارے میں ایک خبر نظر سے گزری کہ مہدی حسن کے انتقال کے چار سال گزرنے کے بعد بھی اس عظیم فنکار کے شایان شان وہ یادگار قائم نہ کی جاسکی جس کا اعلان بڑے کروفر کے ساتھ ان کے انتقال کے بعد کیا گیا تھا۔ مہدی حسن جو ایک ایسے فنکار تھے جو لاکھوں دلوں کی دھڑکن رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ان کی جادو بھری آواز قوم کا سرمایہ رہی ہے اور رہے گی ان کی آواز میں گائے گئے وطن کی محبت اور عظمت کے نغمے جو کبھی بھلائے نہیں جاسکتے:
اپنی جاں نذرکروں اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں
......
خطہ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام'
شہیدوں کو غازیوں کو شہسواروں کو سلام
......
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے
مہدی حسن کی آواز، چائے خانوں، کچے گھروں، محلوں،کھیتوں اورکھلیانوں تک میں یکساں طور پر مقبول تھی۔ گلوں میں رنگ بھرے گا کر مہدی حسن نے فیض احمد فیض جیسے خواص کے شاعر کو عوام تک پہنچایا۔احمد فراز کی غزل رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ جب یہ غزل عام لوگوں تک پہنچی تو احمد فرازکی شاعری کی ہر جگہ دھوم مچ گئی۔
جو بھی مہدی حسن کو سنتا تھا وہ اس کی طلسماتی آوازکے سحر میں ڈوب جاتا تھا اور اردو غزل کو صحیح معنوں میں عوام تک پہنچانے کا سہرا بھی مہدی حسن کی خوبصورت آواز ہی کو جاتا ہے مجھے وہ تقریب بھی اچھی طرح یاد ہے جو کراچی ٹیلی ویژن اسٹیشن کے احاطے میں مہدی حسن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی جس میں وفاقی سیکریٹری اطلاعات اور منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان ٹیلی ویژن نے شرکت کی تھی اور اس تقریب میں نامور شاعروں اور موسیقاروں کو بھی مدعو کیا گیا تھا جن میں احمد فراز، نثار بزمی، خواجہ پرویز، موسیقار ایم۔اشرف، مسرور انور، لاہور اورکراچی سے میں نے بھی شرکت کی تھی۔
لیجنڈ گلوکار اپنی علالت کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر تھے تو انھیں وہیل چیئر پر لایا گیا تھا۔ اس تقریب کے میزبان انور مقصود تھے۔ تمام مشہور شخصیات نے مہدی حسن کو بڑے خوبصورت انداز میں خراج تحسین پیش کیا تھا اور مہدی حسن اپنی علالت کی وجہ سے آبدیدہ ہوگئے تھے۔ تقریب کے آخر میں مہدی حسن کو علاج کی غرض سے پانچ لاکھ کی ایک حقیر رقم کا چیک پیش کیاگیا، اور وہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف تھی جب کہ اس سے پچاس گنا رقم حکومت کے عہدیداران، وزیروں اور مشیروں کے علاج کے بہانے بیرون ملک جانے پر محض ان کے سیر سپاٹے پر ہر سال خرچ کی جاتی ہے اور اس رقم کا کہیں آڈٹ بھی نہیں ہوتا۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے ہمارے ملک کا مہدی حسن جیسا عظیم فنکار جس نے ساری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا وہ اپنی زندگی میں اپنے علاج کے لیے پریشان رہا اور حکمراں چشم پوشی کرتے رہے اور اپنا دامن بچاتے رہے اور حکومت کنی کتراتی رہی۔ جس ملک میں عوامی خدمت کے جھوٹے دعویدار اپنے دفتروں کی سجاوٹ اور تزئین کے لیے ہر سال کروڑوں روپے خرچ کردیتے ہیں مگر مہدی حسن کے علاج کے لیے ان کی زبانیں خاموش ہی رہتی تھیں جس ملک میں ہزاروں گھوسٹ اسکولوں، جعلی اسپتالوں، فرضی ملازمین کے ناموں پر کروڑوں روپے کا ٹیکہ قومی خزانے کو لگایا جاسکتا ہے مگر نامور گلوکار مہدی حسن کی یادگار بنانے کے لیے کہیں پیش رفت نظر نہیں آتی اربوں روپوں کی جھوٹی فلاحی اسکیمیں بنائی جاتی ہیں وہ اسکیمیں عمل پذیر نہیں ہوتیں مگر اربوں روپے ہضم کرلیے جاتے ہیں اور انھیں کسی قسم کا حساب بھی نہیں دینا پڑتا ہے۔
یہ ہے ہماری آج کی جمہوری حکومت اور یہ کردار ہے ہمارے آج کے عوامی نمایندوں کا جو کسی صورت میں عوامی نمایندگی کے اہل ہی نہیں ہیں۔ مہدی حسن صحیح معنوں میں عوامی فنکار تھا۔ وہ اپنے علاج کے لیے حکومت کے تعاون کا حقدار تھا۔ وہ مہدی حسن جو سروں کا شہنشاہ تھا۔ وہ مہدی حسن جو سروں کا آسمان تھا جس کی گائیکی نے اردو شاعری اور اردو غزل کو جلابخشی تھی وہ اپنی زندگی میں قدم قدم پر ترستا رہا۔ اگر مہدی حسن ہندوستان میں ہوتا تو وہاں کے لوگ اسے سروں کا دیوتا سمجھ کر اپنے مندروں میں اس کے بت بنا کر رکھ دیتے۔ ان کی ایسی یادگار بناتے کہ دنیا اسے دیکھتی آج کے جھوٹے جمہوری حکمرانوں سے کل کا وہ بادشاہ بہتر تھا جس نے اپنی چہیتی بیوی کی محبت میں ہندوستان میں تاج محل جیسی ایک عظیم اور انمول عمارت بطور یادگار تعمیر کی تھی ۔
آج بحیثیت ایک قوم ہم سب عظیم گائیک مہدی حسن کی روح کے سامنے ازحد شرمندہ ہیں۔ ہم نے نہ اس کی زندگی میں اس کو اس کے شایان شان وہ عزت دی نہ وہ رتبہ دیا جس کا وہ حقدار تھا۔ یہ وہی مہدی حسن تھا کہ کسی بڑے آدمی کے فنکشن میں اس کی آمد کے موقع پر میں نے اپنی آنکھوں سے بڑے بڑے بیوروکریٹس کو مہدی حسن کے قدموں میں بچھے دیکھا ہے۔ مہدی حسن کے ناز نخرے اٹھاتے دیکھا ہے میں نے تو بعض مواقعے پر شہر کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو مہدی حسن کی گاڑی سے ان کا ہارمونیم اٹھاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
مہدی حسن ایک عام فنکار نہیں تھا وہ اس صدی کا بہت بڑا فنکار تھا یہی مہدی حسن جب شاہ نیپال کی دعوت پر نیپال گیا تھا تو نیپال کے بادشاہ نے اپنے محل کے دروازے سے آگے بڑھ کر مہدی حسن کا پرتپاک خیرمقدم کیا تھا۔ مہدی حسن وہ واحد گلوکار ہے جس کی آمد پر نیپال کے بادشاہ نے اس مایہ ناز فنکار کو اپنے ملک میں آنے پر 21 توپوں کی سلامی دی تھی اور یہ اعزاز دنیا میں آج تک سوائے مہدی حسن کے دنیا کے کسی بھی گلوکار کو نصیب نہیں ہوا۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ہماری حکومت چار سال گزرنے کے بعد بھی اس کی ایک یادگار کی تعمیر کا وعدہ نہ نبھا سکی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے کارپردازوں کے کانوں پرکوئی جوں بھی نہیں رینگتی اور نہ ہی انھیں کسی قسم کی ندامت کا احساس ہوتا ہے۔ اے کاش مہدی حسن اس ملک کا فنکار نہ ہوتا۔
دنیا کے ہر ملک میں فنکاروں کی راہ میں آنکھیں بچھائی جاتی ہیں اوران کی قدر و منزلت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی مگر پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں فنکاروں کو نہ ہی قدرکی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی عزت، آبرو اور زندگی کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو ان کی بیماری کی صورت میں انھیں بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں ملک کے لیجنڈ گلوکار مہدی حسن مرحوم کے بارے میں ایک خبر نظر سے گزری کہ مہدی حسن کے انتقال کے چار سال گزرنے کے بعد بھی اس عظیم فنکار کے شایان شان وہ یادگار قائم نہ کی جاسکی جس کا اعلان بڑے کروفر کے ساتھ ان کے انتقال کے بعد کیا گیا تھا۔ مہدی حسن جو ایک ایسے فنکار تھے جو لاکھوں دلوں کی دھڑکن رہے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے ان کی جادو بھری آواز قوم کا سرمایہ رہی ہے اور رہے گی ان کی آواز میں گائے گئے وطن کی محبت اور عظمت کے نغمے جو کبھی بھلائے نہیں جاسکتے:
اپنی جاں نذرکروں اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں
......
خطہ لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام'
شہیدوں کو غازیوں کو شہسواروں کو سلام
......
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے
مہدی حسن کی آواز، چائے خانوں، کچے گھروں، محلوں،کھیتوں اورکھلیانوں تک میں یکساں طور پر مقبول تھی۔ گلوں میں رنگ بھرے گا کر مہدی حسن نے فیض احمد فیض جیسے خواص کے شاعر کو عوام تک پہنچایا۔احمد فراز کی غزل رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ جب یہ غزل عام لوگوں تک پہنچی تو احمد فرازکی شاعری کی ہر جگہ دھوم مچ گئی۔
جو بھی مہدی حسن کو سنتا تھا وہ اس کی طلسماتی آوازکے سحر میں ڈوب جاتا تھا اور اردو غزل کو صحیح معنوں میں عوام تک پہنچانے کا سہرا بھی مہدی حسن کی خوبصورت آواز ہی کو جاتا ہے مجھے وہ تقریب بھی اچھی طرح یاد ہے جو کراچی ٹیلی ویژن اسٹیشن کے احاطے میں مہدی حسن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی جس میں وفاقی سیکریٹری اطلاعات اور منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان ٹیلی ویژن نے شرکت کی تھی اور اس تقریب میں نامور شاعروں اور موسیقاروں کو بھی مدعو کیا گیا تھا جن میں احمد فراز، نثار بزمی، خواجہ پرویز، موسیقار ایم۔اشرف، مسرور انور، لاہور اورکراچی سے میں نے بھی شرکت کی تھی۔
لیجنڈ گلوکار اپنی علالت کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر تھے تو انھیں وہیل چیئر پر لایا گیا تھا۔ اس تقریب کے میزبان انور مقصود تھے۔ تمام مشہور شخصیات نے مہدی حسن کو بڑے خوبصورت انداز میں خراج تحسین پیش کیا تھا اور مہدی حسن اپنی علالت کی وجہ سے آبدیدہ ہوگئے تھے۔ تقریب کے آخر میں مہدی حسن کو علاج کی غرض سے پانچ لاکھ کی ایک حقیر رقم کا چیک پیش کیاگیا، اور وہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف تھی جب کہ اس سے پچاس گنا رقم حکومت کے عہدیداران، وزیروں اور مشیروں کے علاج کے بہانے بیرون ملک جانے پر محض ان کے سیر سپاٹے پر ہر سال خرچ کی جاتی ہے اور اس رقم کا کہیں آڈٹ بھی نہیں ہوتا۔
یہ کتنا بڑا المیہ ہے ہمارے ملک کا مہدی حسن جیسا عظیم فنکار جس نے ساری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا وہ اپنی زندگی میں اپنے علاج کے لیے پریشان رہا اور حکمراں چشم پوشی کرتے رہے اور اپنا دامن بچاتے رہے اور حکومت کنی کتراتی رہی۔ جس ملک میں عوامی خدمت کے جھوٹے دعویدار اپنے دفتروں کی سجاوٹ اور تزئین کے لیے ہر سال کروڑوں روپے خرچ کردیتے ہیں مگر مہدی حسن کے علاج کے لیے ان کی زبانیں خاموش ہی رہتی تھیں جس ملک میں ہزاروں گھوسٹ اسکولوں، جعلی اسپتالوں، فرضی ملازمین کے ناموں پر کروڑوں روپے کا ٹیکہ قومی خزانے کو لگایا جاسکتا ہے مگر نامور گلوکار مہدی حسن کی یادگار بنانے کے لیے کہیں پیش رفت نظر نہیں آتی اربوں روپوں کی جھوٹی فلاحی اسکیمیں بنائی جاتی ہیں وہ اسکیمیں عمل پذیر نہیں ہوتیں مگر اربوں روپے ہضم کرلیے جاتے ہیں اور انھیں کسی قسم کا حساب بھی نہیں دینا پڑتا ہے۔
یہ ہے ہماری آج کی جمہوری حکومت اور یہ کردار ہے ہمارے آج کے عوامی نمایندوں کا جو کسی صورت میں عوامی نمایندگی کے اہل ہی نہیں ہیں۔ مہدی حسن صحیح معنوں میں عوامی فنکار تھا۔ وہ اپنے علاج کے لیے حکومت کے تعاون کا حقدار تھا۔ وہ مہدی حسن جو سروں کا شہنشاہ تھا۔ وہ مہدی حسن جو سروں کا آسمان تھا جس کی گائیکی نے اردو شاعری اور اردو غزل کو جلابخشی تھی وہ اپنی زندگی میں قدم قدم پر ترستا رہا۔ اگر مہدی حسن ہندوستان میں ہوتا تو وہاں کے لوگ اسے سروں کا دیوتا سمجھ کر اپنے مندروں میں اس کے بت بنا کر رکھ دیتے۔ ان کی ایسی یادگار بناتے کہ دنیا اسے دیکھتی آج کے جھوٹے جمہوری حکمرانوں سے کل کا وہ بادشاہ بہتر تھا جس نے اپنی چہیتی بیوی کی محبت میں ہندوستان میں تاج محل جیسی ایک عظیم اور انمول عمارت بطور یادگار تعمیر کی تھی ۔
آج بحیثیت ایک قوم ہم سب عظیم گائیک مہدی حسن کی روح کے سامنے ازحد شرمندہ ہیں۔ ہم نے نہ اس کی زندگی میں اس کو اس کے شایان شان وہ عزت دی نہ وہ رتبہ دیا جس کا وہ حقدار تھا۔ یہ وہی مہدی حسن تھا کہ کسی بڑے آدمی کے فنکشن میں اس کی آمد کے موقع پر میں نے اپنی آنکھوں سے بڑے بڑے بیوروکریٹس کو مہدی حسن کے قدموں میں بچھے دیکھا ہے۔ مہدی حسن کے ناز نخرے اٹھاتے دیکھا ہے میں نے تو بعض مواقعے پر شہر کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو مہدی حسن کی گاڑی سے ان کا ہارمونیم اٹھاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
مہدی حسن ایک عام فنکار نہیں تھا وہ اس صدی کا بہت بڑا فنکار تھا یہی مہدی حسن جب شاہ نیپال کی دعوت پر نیپال گیا تھا تو نیپال کے بادشاہ نے اپنے محل کے دروازے سے آگے بڑھ کر مہدی حسن کا پرتپاک خیرمقدم کیا تھا۔ مہدی حسن وہ واحد گلوکار ہے جس کی آمد پر نیپال کے بادشاہ نے اس مایہ ناز فنکار کو اپنے ملک میں آنے پر 21 توپوں کی سلامی دی تھی اور یہ اعزاز دنیا میں آج تک سوائے مہدی حسن کے دنیا کے کسی بھی گلوکار کو نصیب نہیں ہوا۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ہماری حکومت چار سال گزرنے کے بعد بھی اس کی ایک یادگار کی تعمیر کا وعدہ نہ نبھا سکی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے کارپردازوں کے کانوں پرکوئی جوں بھی نہیں رینگتی اور نہ ہی انھیں کسی قسم کی ندامت کا احساس ہوتا ہے۔ اے کاش مہدی حسن اس ملک کا فنکار نہ ہوتا۔