امریکا کدھرجارہا ہے

یہ نظام اب اتناکمزوراور لاغر ہوگیا ہے کہ ذرا سا جھونکا بھی برداشت کرنے کوتیار نہیں


Zuber Rehman July 09, 2016
[email protected]

آج سے تقریبا ڈیڑھ سوسال قبل کامریڈ میخائل ایلیگزنڈرباکونن نے کہا تھا کہ ''جس طرح غلامی اور جاگیرداری نظام ختم ہوا،اسی طرح سرمایہ داری کا بھی خاتمہ ہوگا اورفطری،کمیونسٹ یا امداد باہمی کا نظام قائم ہوکر دنیا ایک ہوجائے گی۔'' آج اس کا ثبوت قدم قدم پرمل رہا ہے۔کارل مارکس نے بھی'داس کیپٹل' میں کہا ہے کہ ''جوں جوں سائنس اورٹیکنالوجی میں ترقی ہوگی ایک جانب دولت کا انبارہوگا تو دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج ''آج دنیا بھرمیں یہی ہورہا ہے ۔ ایک طرف چند فی صد افراد دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں تو دوسری طرف ساڑھے پانچ ارب کی آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پرمجبور ہے۔

یہ نظام اب اتناکمزوراور لاغر ہوگیا ہے کہ ذرا سا جھونکا بھی برداشت کرنے کوتیار نہیں ۔ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے فیصلے پر آج پوری سرمایہ دار دنیا ہل کر رہ گئی ہے ، جب کہ چھوٹے چھوٹے دوممالک کیوبا اورعوامی جمہوری کوریا پر اس کا کوئی اثرنہیں پڑا، اس لیے کہ وہاں سرمایہ داری نہیں ہے۔ یہ وہی امریکا ہے جس کے عوام نے 1732 میں جارج واشنگٹن کی قیادت میں برطانوی سامراج سے لڑ کے آزادی حاصل کی، جارج واشنگٹن ، آرمی کے کمانڈرانچیف بھی تھے، پھر 1809 میں پیدا ہونے والے ایک لکڑہارے کے بیٹے ابراہام لنکن نے امریکا میں غلامی کی آئینی شکل ختم کروانے اورامریکا کو متحد رکھنے کی جدوجہد کی۔ 1861 میں امریکا کے سولہویں صدرمنتخب ہوئے اور 1865 میں قتل کردیے گئے ۔

اسی امریکا کے عوام نے نسلی امتیازاورآزادی کے لیے مارٹن لوتھرکنگ جونئیرکی قیادت میں عظیم جدوجہد کی، انھوں نے1963 میں واشنگٹن میں مارچ کیا ،لنکن میموریل میں تاریخی خطاب کیا جہاں ڈھائی لاکھ کا اجتماع تھا، ان کے خطاب کا عنوان '' میراخواب ہے'' تھا اور 1967 میں 'ویتنام کے عقب ' کے عنوان سے تاریخی خطاب کیا ۔ آج اسی امریکا میں 2014 تک امریکی محنت کشوں کی پیداواریت میں بہترعشاریہ دوفیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ اس عرصے میں ایک عام محنت کش کی اجرت محض نوعشاریہ دوفیصد اضافہ ہوا ہے ۔

امریکا میں امیرترین افراد صفرعشاریہ ایک فیصد کے پاس نوے فیصد آبادی سے زیادہ دولت ہے۔ چارکروڑساٹھ لا کھ افراد حکومت کے مقررکردہ غربت کے معیار سے نیچے زندگی گذاررہے ہیں ۔ امریکا میں بچوں میں غربت کی بیس عشاریہ پانچ فیصد شرح اضافہ صنعتی ممالک میں تقریبا سب سے زیادہ ہے ۔ معاشی بحران سے تباہ حال یونان میں یہی شرح بیس عشاریہ چار فیصد ہے ۔اس وقت امریکا میں غذائی قلت اورعدم تحفظ کا شکار کی شرح پندرہ فیصد ہے ۔ بے روزگاری کی حقیقی شرح دس عشاریہ پانچ فیصد ہے۔امریکا کا کل قرضے کا چھیالیس فیصد یعنی چارعشاریہ چھ ڈالر غیرملکی حکومتوں سے لیا گیا ہے ۔ان میں سب سے بڑا قرضہ چین سے لیا گیا ہے۔ چین کے پاس ایک عشاریہ دوٹریلن امریکی ڈالرکے بانڈز اور نوٹ ہیں ۔ چین امریکا کا کینیڈا کے بعد دوسرا بڑا تجارتی حصے دار ہے ۔ 2015میں تیل نکالنے والی امریکی 67 کمپنیاں دیوالیہ ہوئی ہیں ۔

رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں یہی امریکا بارہ عشاریہ دو پانچ ٹریلن ڈالرکا مقرو ض تھا جو اسی رفتار سے بڑھتے ہوئے سال کے آخر تک بارہ عشاریہ چھ آٹھ ٹریلن ڈالر تک جاپہنچے گا ۔گھریلو آمدنی میں پینسٹھ فیصد اضافہ ہوا اور میڈیکل کے اخراجات میں اکاون فیصد جب کہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں سینتیس فیصد اضافہ ہوا ہے ۔امریکا کی عراق اور افغانستان میں شکست نے عسکری طاقت کے حدودکو ظاہرکردیا ہے۔ روس اور چین نے کئی جگہوں پرکھلے عام امریکا کو چیلینج کیا ہے ۔ یوکرائن کے مسئلے پر روس کی یکطرفہ کارروائی امریکا اور اس کی کٹھ پتلی یوکرائنی حکومت کے لیے ہزیمت کا باعث بنی۔ جنوبی چینی سمندر میں چین امریکا کو مسلسل اشتعال دلارہا ہے اور اپنی بحری طاقت میں توسیع کررہا ہے ۔ مشرق وسطیٰ اور خصوصا شام اور عراق میں ایران کی سفارتی اورفوجی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس سے تعلقات بحال کرنے کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا ہے ۔کیوبا سے تعلقات کی بحالی بھی کئی دہائیوں سے جاری معاشی ناکا بندی اور جبرکی پالیسی کی ناکامی کا کھلا اعتراف ہے۔

امریکا نے پانچ سومیلن ڈالر سے شام میں ہزاروں جنگجوؤں کو تربیت دی تھی لیکن گزشتہ برس امریکی جنرل لائیڈ آسٹن کے مطابق ان میں صرف چار سے پانچ جنگجو میدان میں موجود تھے۔ سعودی اوراسرائیل اتحادی اب امریکا کو آنکھیں دکھا رہے ہیں ۔ جدید ترین لڑاکا طیارے ایف پینتیس پرایک عشاریہ پانچ ٹریلن ڈالراخراجات آچکے ہیں لیکن اس کے باوجود سینیٹ آرمڈ سروسزکمیٹی کے چئیرمین جان میکنن نے فوجی تاریخ کے سب سے مہنگے پراجیکٹ کو ایک اسکینڈل اوراخراجات میں تجاوزکو شرمناک قراردیا ہے۔ نومولود بچوں کی اموات صنعتی ممالک میں سب سے زیادہ امریکا میں چھ عشاریہ ایک فیصد ہے۔ دوہزارچودہ میں چھتیس فیصد امریکیوں نے کم آ مدنی کی وجہ سے اپنا علاج کروانے سے گریزکیا ۔

امریکا میں سب سے زیادہ میڈیکل بلوں میں باسٹھ فیصد لوگ دیوالیہ ہوتے ہیں ۔ یہاں ایک کمرے کا کرایہ ادا کرنے کے لیے پندرہ عشاریہ پانچ صفرڈالر فی گھنٹہ اور دوکمروں کے لیے انیس عشاریہ پینتیس ڈالرفی گھنٹہ کمانے کی ضرورت ہے جب کہ اجرت فی گھنٹہ کم ازکم سات عشاریہ دو پانچ ڈالر فی گھنٹہ ہے ۔ایک سفید فام مردکی ایک ڈالرکی کے مقابلے میں اسی کام کے ایک سفید فام عورت کو اناسی سینٹ ، ایک لاطینی عورت کو پچپن سینٹ اورایک سیاہ فام عورت کو ساٹھ سینٹ ملتے ہیں ۔ فوربیس میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک عام سیاہ فام خاندان کے پاس ایک اوسط سفید فام خاندان کے مقابلے میں چھ فیصد دولت ہے جب کہ لاطینی خاندان کے پاس آٹھ فیصد ۔

2015 میں آتشی اسلحے سے مر نے والوں کی تعداد تیرہ ہزاردوسو چھیاسی تھی ۔ سرعام شوٹنگ کے تین سوبہتر واقعات ہوئے جن میں چار سو پچتھر قتل اوراٹھارہ سوستر افراد زخمی ہوئے ۔ فنانشل ٹائمز کے مطا بق امریکا میں گولی سے مر نے والے لوگوں کی تعداد پاکستان میں دہشت گردی سے مرنے والوں سے زیادہ ہے۔ یہاں سالانہ بیالیس ہزار سے زیادہ خود کشیاں ہوتی ہیں۔پولیس کے ہاتھوں بارہ سوسات افراد قتل ہوئے ۔ نشہ اور نشہ ورادویات کے استعمال سے سینتالیس ہزار پچپن افراد ہلاک ہو ئے۔ ہر روز اٹہترافراد ہیروئن اور اس جیسے نشہ آور چیزوں کی استعمال سے ہلاک ہورہے ہیں ۔

امریکا کے جیلوں میں تیئس لا کھ افراد قید ہیں ۔ یہ تعداد چین اور بھا رت کے قید میں مقید افراد سے زیادہ ہیں ۔امریکا دنیا کے تین ممالک میں شامل ہے جہاں خواتین کو زچگی کے دوران تنخواہ کے ساتھ چھٹی کا قانون نہیں ہے ۔ دوسرے دو ممالک انتہائی غریب اور پسماندہ پا پوا نیوگینی اور لیسوتھو ہیں ۔اب سرمایہ داری نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ لوگ خود ملکوں کی سرحدیں توڑ رہے ہیں ۔

لا کھوں عوام حال ہی میں مشرق وسطیٰ سے یورپ پہنچ رہے ہیں ، اگر دنیا کی سر حدیں ختم کردی جائیں تو عوام کے بیشترمسائل حل ہوجائیں گے۔ آسٹریلیا اورکینیڈا کی ڈھائی اور ساڑھے تین کروڑکی آبادیاں ہیں جب کہ وسائل بے تحاشا ہے ۔اگر بھارت ، پاکستان اور چین سے ا سٹریلیا اور کینیڈا میں کروڑوں لو گوںکومنتقل کردیا جائے تو ایشیا کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔اسی طرح افریقہ سے اگرکروڑوں لو گوں کو یورپ اور امریکا منتقل کردیا جائے توافریقی عوام کے مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں ۔ سچے جذبوں کی قسم ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے، اس وقت کوئی طبقہ نہ ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں