غلامی سے سپر مین تک کا سفر پہلا حصہ
وہ سیاہ فام بچہ ہر اتوار کی طرح اس صبح بھی اپنی ماں کے ساتھ چرچ جا رہا تھا
KARACHI:
وہ سیاہ فام بچہ ہر اتوار کی طرح اس صبح بھی اپنی ماں کے ساتھ چرچ جا رہا تھا۔ راستے میں اس نے ایک خوبصورت چرچ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ''ماں، آج میں اس چرچ میں جاؤنگا'' ماں نے نرمی سے سمجھاتے ہوئے جواب دیا ''بیٹا ہم وہاں نہیں جاسکتے، وہ چرچ سفید فام لوگوں کا ہے'' بچے نے ذرا سوچ کر ماں سے پوچھا ''ماں، ہم کالے، گوروں کے چرچ، بسوں، ریسٹورنٹ میں کیوں نہیں جا سکتے؟'' بچے کے اس سوال کا اس تعصب بھرے امریکی معاشرے کی طرح اس بے بس ماں کے پاس بھی کوئی جواب نہ تھا لہٰذا یہ سوال بچپن سے ہی اس بچے کے دل و دماغ میں اٹک کے کہیں رہ گیا اور وقت کے ساتھ اس کی جڑیں مزید گہری ہوتی چلی گئیں۔ وہ فقط رنگت کی بنا پر گوروں کو افضل اور کالوں کو پست تسلیم کرنے، ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے غلامانہ، ہتک آمیز سلوک کو نصیب کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔
چودہ سال بیت گئے۔ 25فروری 1964۔ وہی بچہ Cassius Clay اب 22 سالہ نوجوان کے روپ میں دنیا کے سامنے باکسنگ رنگ میں لوگوں کے ہجوم میں گھرا عالم دیوانگی میں پسینے سے شرابور جسم اور نم آنکھوں سے شدت جذبات سے چلا رہا تھا "I shook up the world...I am the king of the world" (میں نے دنیا کو ہلادیا، میں دنیا کا بادشاہ ہوں، میں کہہ رہا تھا کہ میں یہ کر دکھاؤں گا) اس نے باکسنگ کی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سٹ کردیا تھا، غیر متوقع، حیرت انگیز طور پر عالمی ہیوی ویٹ ٹائٹل جیت لیا تھا۔ وہ انتہائی جذباتی کیفیت میں دنیا خصوصاً اپنے اس تعصب پرست امریکی معاشرے کو للکار رہا تھا، جہاں لوگ اس کے عالمی چیمپئن بننے کے دعوؤں کو فقط دیوانے کی بڑ سمجھتے آئے تھے۔ میڈیا، عوام، کوئی اس ظریفانہ مزاج نوجوان کو سنجیدہ لینے کے لیے تیار نہ تھا، جس نے چار سال قبل 1960 کے اولمپکس مقابلوں میں باکسنگ میں گولڈ میڈل جیتا تھا اور اسی چھوٹی سی کامیابی کے جوش میں اب موجودہ عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن کو مقابلے کا چیلنج کرتا رہا تھا۔
31 سالہ مضبوط جسامت کے تجربہ کار، مشہور عالمی چیمپئن Sonny Liston کا 22سالہ Cassius Clay نامی معمولی اولمپکس گولڈ میڈلسٹ سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ میڈیا، نوے فیصد لوگ اس مقابلے کو Mis-match (بے جوڑ) قرار دے رہے تھے۔Liston بھی ہم پلہ مدمقابل نہ ہونے کے باعث اس چیلنج کو قبول اور مقابلہ کرنے سے صاف انکار کرچکا تھا مگر نوجوان 'کلے' یہ مقابلہ کرنے پر بضد اور اسے جیتنے کے مسلسل دعوے کر رہا تھا۔ صحافی طنز کرتے ہوئے اس سے سوال کرتے کہ اسے کیوں یہ خیال آیا کہ وہ واقعی عالمی چیمپئن بن جائے گا، تو وہ ان کا جواب بھی انتہائی خوداعتمادی و حاضر جوابی سے کبھی طنزیہ، کبھی جذباتی انداز سے دیتا۔ مثلاً ایک دفعہ جواب دیا ''اس لیے کہ میں تیز رفتار ہوں، جوان ہوں، ہینڈسم ہوں، عالمی چیمپئن کو مجھ جیسا خوبصورت ہونا چاہیے، لسٹن جیسا بدصورت نہیں!'' ایک اور جگہ کہا ''میں اس لیے عالمی چیمپئن بنوں گا کیونکہ میں صرف ایک فائٹر ہی نہیں، ایک شاعر بھی ہوں، ایک پیغمبر ہوں، ایک پیش گو ہوں، میں باکسنگ کی دنیا کا مسیحا ہوں، اگر مجھے نکال دیا جائے تو کھیل مردہ ہوجائے گا۔''
'لسٹن' کا مقابلہ کرنے سے انکار، عوام اور میڈیا کے حوصلہ شکن رویے بھی کلے کی ہمت توڑ سکے نہ ہی اس کے مضبوط ارادے میں کوئی دراڑ ڈال سکے۔ اس نے لسٹن کو مقابلے پر آمادہ کرنے کے لیے اب ایک دوسری تکنیک اپنائی۔ اب وہ میڈیا پر، ٹریننگ سینٹر جہاں لسٹن ٹریننگ کیا کرتا، یہاں تک کہ رات کی خاموشی میں اس کے گھر جا کر لاؤڈ اسپیکر سے شور مچاتے ہوئے اسے بزدل، اس سے خوفزدہ قرار دیتا، جو شکست سے بچنے کے لیے مقابلے سے فرار اختیار کر رہا تھا۔
وہ ہر جگہ اسے تنگ کرتا، طیش دلاتا لہٰذا مجبوراً اسے چیلنج قبول کرنا پڑا۔ مقابلے کی تاریخ طے ہوئی، کلے فائٹ کے دن تک اسے چڑاتا، اپنی فتح کی پیش گوئی اور اس کی شکست کا دعویٰ کرتا رہا۔ کسی کو یقین نہ تھا کہ وہ مسخرا نظر آنیوالا نوجوان واقعی اسے شکست دیکر عالمی چیمپئن بن جائے گا۔ رائے عامہ اس کے خلاف اور حریف کے حق میں تھی۔ مقابلے کا دن آیا، فائٹ ہوئی اور کلے نے وہ کر دکھایا جس کا کسی کو یقین نہ تھا، دنیا حیران رہ گئی، اس نے واقعی دنیائے باکسنگ کو ہلا کر رکھ دیا مگر یہ جھٹکا اس امریکی تعصب پرست معاشرے کے لیے اس سے کم تھا جو دھچکا وہ نوجوان ایک روز بعد اسے پہنچانے والا تھا۔ عالمی چیمپئن بننے کے دوسرے ہی روز جوشیلا 'کلے' پریس کے سامنے نمودار ہوا اور اسلام قبول کرنے کا دھماکے دار اعلان کرکے کیشز کلے سے 'محمد علی' بن گیا۔
علی کی اس معجزاتی فتح کے پیچھے کون سی غیبی قوت کارفرما تھی اس کا انکشاف بعد میں ہوا۔ وہ چار سال قبل 1961 میں خفیہ طور پر اسلام قبول کر چکا تھا۔ اللہ اور قرآن سے اس کا تعلق قائم ہو چکا تھا۔ یہی قوت ایمانی تھی جو اس کی طاقت و خود اعتمادی کا اصل سرچشمہ تھی جس نے پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود کبھی اس کے قدم ڈگمگانے نہ دیے۔ اس نے دل میں یہ ارادہ کرلیا تھا کہ عالمی چیمپئن بننے کی صورت میں وہ فوراً دنیا کے سامنے اپنے اسلامی عقیدے کا اعلان کر دیگا۔ 'محمد علی' بننے کے اعلان نے پورے امریکا میں ہلچل اور اسلامی دنیا میں خوشی کی لہر دوڑا دی۔ مختلف اسلامی ممالک سے بڑی تعداد میں محبت و خیر سگالی کے پُرخلوص پیغامات محمد علی کو موصول ہونے لگے جس کا اقرار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ''مسلمان ہونے کے بعد مجھے پوری اسلامی دنیا سے جو عزت و محبت ملی ہے، وہ میرا انمول سرمایہ ہے۔ بطور سیاہ فام عیسائی میں گوروں کے چرچ نہیں جاسکتا تھا، گورے کی بس میں سفر اور ہوٹل میں کھانا نہیں کھا سکتا تھا مگر مسلمان ہونے کے بعد مجھے ان تمام تعصبانہ پابندیوں اور غلامانہ رویوں سے نجات مل گئی۔ 'کیشز کلے' میرا دور غلامی کا نام تھا، 'محمد علی' میری آزادی کا نام ہے۔''
1972میں اپنے کیریئر کے دور عروج پر فقط تیس برس کی عمر میں 'حج' کی خواہش محمد علی کو خانہ کعبہ لے گئی جہاں انھوں نے مختلف رنگ، زبانوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بہت بڑی تعداد میں پہلی بار اکٹھے عبادات کرتے دیکھا، جو ان کے لیے ایک نیا اور انتہائی روحانی تجربہ ثابت ہوا۔ جس کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے خود بتایا کہ ''میری زندگی میں بہت سے اچھے لمحات آئے مگر جو احساسات اس وقت تھے جب میں حج کے دن جبل عرفات پر (مکہ سے باہر) کھڑا تھا وہ سب سے انمول تھے۔
اس وقت میں نے وہاں خود کو ایک ناقابل بیان روحانی کیفیت و ماحول میںگھرِا پایا جہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ میرے سامنے اللہ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی توبہ اور اس کی رحمتوں کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ وہ روح کو شادمانی عطا کرنیوالا ایک انتہائی متاثر کن تجربہ تھا۔ مختلف رنگ، نسل، شہریت کے لوگ... بادشاہ، سربراہانِ مملکت اور غریب ممالک کے عام لوگ، سب ایک ساتھ دو سادہ، سفید کپڑوں کے ٹکڑوں میں لپٹے اللہ کی عبادت میں مشغول تھے، کسی بھی احساس برتری یا کمتری کے بغیر۔ وہ اسلام میں برابری کے تصورکا ایک شاندار عملی مظاہرہ تھا۔'' فریضۂ حج کی ادائیگی کے دو سال بعد 1974 میں محمد علی نے دوسری اور پھر 1978 میں تیسری بار عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن کا ٹائٹل جیتا اور تین دفعہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے دنیا کے پہلے اور واحد باکسر بن گئے، جن کا یہ ریکارڈ آج تک قائم ہے۔ (جاری ہے)