مقامی سطح پر سیاسی سرگرمیوں میں تیزی

شہداد کوٹ بے نظیر بھٹو کا روایتی حلقۂ انتخاب اور سیاسی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے پیپلز پارٹی کا قلعہ بھی مانا جاتا ہے۔


Deedar Sumro November 27, 2012
شہداد کوٹ سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہونے والے میر نادر علی مگسی وزیرِ خوراک ہیں۔ فوٹو : پی پی آئی / فائل

شہدادکوٹ میں سیاسی جماعتیں اگلے عام انتخابات کے لیے اپنی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر چکی ہیں۔ ماضی کے برعکس اس مرتبہ یہ سیاسی جماعتیں مختلف حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتری ہیں اور ان کی سرگرمیاں وقت کے ساتھ تیز ہوتی نظر آرہی ہیں۔

تاہم پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ شہداد کوٹ شہید بے نظیر بھٹو کا روایتی حلقۂ انتخاب رہا ہے اور سیاسی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے پیپلز پارٹی کا قلعہ بھی مانا جاتا ہے، جس کی فصیل میں 1988 کے بعد صرف 2002 کے عام انتخابات میں دراڑ ضرور پڑی تھی۔ یہاں اس وقت پی پی پی کے امیدوار کو الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لینے والے سلطان احمد کھاوڑ نے شکست دی تھی۔ تاہم قومی اسمبلی کی نشست پی پی پی کے امیدوار نے کام یابی حاصل کی تھی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری کی ہمشیرہ اور پارٹی کی راہ نما فریال تالپور اس حلقے سے بلا مقابلہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں، جب کہ 1988 سے 2008 تک کے انتخابات میں 5 مرتبہ رکن سندھ اسمبلی منتخب ہونے والے میر نادر علی مگسی دوبار وزیر بننے کا تجربہ بھی کر چکے ہیں اور اس وقت وزیرِ خوراک ہیں۔

اتنی بڑی سیاسی سپورٹ کے باوجود شہر کی حالت انتہائی خراب ہے، شہری بنیادی سہولتوں اور ضرورتوں سے محروم ہیں، اداروں میں کرپشن، اقربا پروری عروج پر ہے، جب کہ مقامی سطح پر بے روزگاری کا عفریت نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نگل رہا ہے۔

پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت شہری مسائل سے مکمل طور پر لا تعلق نظر آتی ہے، جس کا فائدہ اٹھانے کے لیے ان کی مخالف سیاسی جماعتیں سرگرم ہو چکی ہیں اور اگلے عام انتخابات میں ان کا عوام کے مسائل پر آواز اٹھانا سود مند ثابت نظر آرہا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ (ن)، فنکشنل لیگ بھی شامل ہیں، جب کہ انتخابی میدان میں اترنے کے لیے قوم پرست جماعتیں بھی اپنی سیاسی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پیپلزپارٹی میں غیراعلانیہ طور پر شامل ہونے والے چانڈیہ قوم کے سربراہ نواب سردار خان چانڈیو بھی انتہائی سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔

ہمارے ملک کی تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ مفاد پرست سیاست دانوں نے برسرِ اقتدار جماعت کا ساتھ چھوڑنے میں ہمیشہ تاخیر کی ہے، مگر صرف شہدادکوٹ کا جائزہ لیں تو پیپلزپارٹی کے اقتدار میں ہونے کے باوجود اسے متعدد اہم شخصیات نے الوداع کہہ دیا۔ تاہم اس میں مرکزی قیادت کا کوئی قصور نظر نہیں آتا بلکہ یہ ان عہدے داروں کی وجہ سے ہے، جنھوں نے اپنے مفادات کی دوڑ میں عوام اور پارٹی کے جیالوں کے درمیان دوریوں کو ختم یا کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے اگلے عام انتخابات میں پی پی پی کے امیدواروں کو عوامی رابطہ مہم کے دوران سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس صورت حال کا فائدہ اٹھانے کے لیے مسلم لیگ (ن) نے شہداد کوٹ میں ڈیرے ڈال دیے ہیں، ماضی میں ان کے مرکزی یا صوبائی قائدین تو دور کی بات، ضلعی سطح کے راہ نما بھی خود کو پریس ریلیز تک محدود رکھتے تھے، لیکن اب مختلف صورت حال دیکھنے میں آرہی ہے۔ تھوڑے عرصے کے دوران مسلم لیگ (ن) کے مرکزی راہ نما لیاقت علی جتوئی، ماروی میمن، صوبائی صدر سید غوث علی شاہ، سیکریٹری جنرل سلیم ضیاء، راجا انصاری اور دیگر نے یہاں کا دورہ کیا اور میڈیا کانفرنسوں اور جلسوں کے ذریعے اپنے وجود کا احساس دلایا ہے۔ مقامی سطح پر اس سیاسی جماعت کو فعال بنانے کے لیے حال ہی میں اس میں شمولیت اختیار کرنے والے مغیری برادری کے غیبی خان مغیری نے اہم کردار ادا کیا ہے، ان کی شمولیت سے تھوڑے عرصے میں پارٹی کی افرادی قوت میں اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے مقامی صحافیوں کے اعزاز میں اپنی رہایش گاہ پر عشائیہ دیا، جس کے دوران کہا کہ سندھ کے با اثر سیاسی خاندانوں نے زرداری پارٹی کی کرپشن اور ان کی سندھ دشمن پالیسیوں کے باعث مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے کے لیے رابطہ کیا ہے، اب سندھ کارڈ پیپلزپارٹی کے پاس نہیں ہے۔ میر غیبی خان مغیری نے کہا کہ انتخابات میں شہدادکوٹ کے حلقے پر پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے حکمت عملی طے کی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) ضلع قمبر شہدادکوٹ میں عوام کو سرپرائز دے گی۔ دوسری جانب فنکشنل لیگ بھی اگلے سیاسی اور انتخابی معرکے کے لیے خاصی سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔

پارٹی کے ڈویژنل صدر سید اکبر شاہ راشدی پارٹی کو فعال بنانے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ ان کی کوشش سے مختلف برادریوں کی سرکردہ شخصیات کی فنکشنل لیگ میں شمولیت متوقع ہے اور سیاسی مبصرین نے جلد مقامی سطح پر بڑی سیاسی تبدیلی کا امکان ظاہر کیا ہے۔ باخبر ذرایع بتا رہے ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر خالد محمود سومرو ماضی کی طرح این اے 207 سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ وہ ماضی میں شہید بے نظیر بھٹو کے مدمقابل رہے ہیں، جس میں انھیں کام یابی تو نہیں ملی، لیکن اس حلقے میں ان کا ووٹر بھی موجود ہے، جب کہ مسلم لیگ (ن) کے راہ نما اور سردار ممتاز علی خان بھٹو پہلے ہی پی پی پی کے امیدوار کے مقابلے میں اس حلقے سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر چکے ہیں۔ پی پی پی کی متوقع انتخابی امیدوار فریال تالپور ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابی اتحاد نگراں حکومت کے قیام کے بعد وجود میں آسکتے ہیں، کیوں کہ موجودہ حکومت سے سیاسی و قبائلی شخصیات کے مفادات جڑے ہوئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں