آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
آج عبدالستار ایدھی صاحب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کا پیغام ہمارے لئے کھلی کتاب کی طرح ہے۔
محبت، خلوص، اخلاق، رواداری، حساسیت، ہمدردی، ایثار، انکساری، اپنی ذات کی نفی اور دوسروں کیلئے احترام کے جذبات کا آئینہ دار، تہذیب و تمدن کا پاسدار، جغرافیائی ثقافت کا علمبردار یہ تمام چیزیں اگر کسی ایک شخصیت میں شامل کرلی جائیں تو پھر خوبیوں کے اس امتزاج کو فقط عبدالستار ایدھی کہتے ہیں۔
یکم جنوری 1928ء کو گجرات کے چھوٹے سے قصبے بانٹوا میں پیدا ہونے والا شجرِ سایہ دار کہ جس کے سائے تلے لاکھوں یتیم، مسکین، لا وارث، اپنوں کے ٹھکرائے ہوئے سایہ تلے تھے، مشیت ایزدی کہ وہ سایہ دار درخت ہم میں نہ رہا۔ عبدالستار ایدھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کے دنیا سے رخصت ہونے پر معروف کہانی کار مبشرعلی زیدی کے مطابق قائد اعظم اور حکیم محمد سعید کے بعد آج تیسرا عظیم پاکستانی رخصت ہوا۔
عبدالستار ایدھی جب 11 برس کے تھے تو ان کی والدہ پر فالج کا اٹیک ہوگیا تھا اور اسی فالج کے باعث ان کی والدہ کا دماغ بھی متاثر ہوا۔ بس یہی زندگی کا وہ موڑ تھا کہ جہاں عبدالستار ایدھی نے خدمت انسانیت کی روح کو سمجھ لیا جو شاید بڑے بڑے زعم میں مبتلا افراد اپنی پوری زندگی بسر کرنے کے بعد بھی نہیں سمجھ پاتے ہیں۔ ایدھی صاحب نے اپنی والدہ کی خدمت کے لئے کسی نرس کی خدمات لینے کے بجائے اس باہمت بچے نے ساری ذمہ داری اپنے سر لے لی اور ماں کو کھانا پانی دینا، ہاتھ منہ دھلانا، کپڑے تبدیل کرانے سمیت دیگر ساری ذمہ داریاں پوری کرنے لگے اور یہی انسانیت کے کام آنے کا وہ جذبہ تھا جو شاید ماں کی دعا کی صورت میں اس بچے کو ملا اور اور پھر اس کے فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن نے ہزاروں ایسی ماؤں کی خدمت کی کہ جن کا سب کچھ اس دنیا میں ہوتے ہوئے بھی کوئی نہیں تھا یا پھر ان کے سگے رشتے ہی ان کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
والدہ کی وفات کے بعد انہوں نے مخلوق خدا کی خدمت کے لئے کوئی باضابطہ کام کرنے کا سوچا لیکن وسائل کی کمی تھی، مگر اس کے باوجود ایدھی صاحب اپنے مقصد پر ڈٹے رہے۔ پاکستان بننے کے چھٹے دن ہی وہ یہاں آگئے تھے، شروعات میں ٹھیلا لگایا اور بعد میں اپنی انتھک محنت لگن اور جستجو سے کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں کپڑوں کے بیوپاری بن گئے۔ کچھ ہی عرصے اس کام سے منسلک رہنے کے بعد ایدھی صاحب نے یہ کام چھوڑ کر اپنے قریبی دوست حاجی غنی عثمان کی مدد سے ایک کلینک کا آغاز کیا کہ جہاں ڈاکٹر مریضوں کو بالکل مفت دیکھتے اور بغیر کسی پیسے کے دوائیں فراہم کرنے لگے۔ خدمت انسانیت کے ان کاموں کو دیکھ کر میمن برادری کے کچھ افراد نے ایدھی صاحب کی مدد کی جس سے انہوں نے 2 ہزار روپے کی ایک عدد گاڑی لی، بعد ازاں اسی گاڑی کو ایدھی صاحب نے ایمبولینس بنالیا تھا۔ جس میں وہ پوری کراچی کا چکر لگاتے تھے اور جہاں کوئی زخمی، بیمار یا لاوارث نظر آتا اس کو فوری مدد فراہم کرتے تھے۔
فنڈز کی کمی جب آڑے آئی تو عبدالستار ایدھی کبھی شادی بیاہ کی تقریبات تو کبھی کسی کے میت کے موقع پر جا کر برتن دھوتے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کبھی اخبار بیچا تو کبھی بھیک تک مانگی مگر مقصد صرف ایک تھا اور وہ مخلوق خدا کی خدمت۔ آج پاکستان کے چپہ چپہ میں غریبوں، مسکینوں، لاوارثوں، یتیموں، بیمار افراد کے سہارے کے طور پر ایدھی صاحب کا قائم کردہ ایدھی سینٹر موجود ہے۔
ان گناہ گار آنکھوں نے ایسے مناظر بھی دیکھے کہ جب سپر ہائی وے پر ایک ڈمپر کی ٹکر سے موٹر سائیکل سوار کا جسم ٹکڑوں میں بٹ گیا اور میت کے قریب آنے کو بھی کوئی تیار نہیں تھا ایسے میں تقریباً 25 منٹ بعد ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس آتی ہے جس سے ایک ضعیف شخص اترتا ہے اور میت کے ٹکڑوں کو جمع کرنا شروع کرتا ہے۔ وہ کوئی اور نہیں بلکہ عبدالستار ایدھی ہی تھے کہ جنہوں نے اس میت کو بھی کہ جس کے قریب آنے کو بھی کوئی تیار نہ تھا اکٹھا کرکے اٹھایا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ تم کس بات سے ڈرتے ہو؟ ہم سب کو ایک نہ ایک دن مر جانا ہے۔
وطن عزیز پر منڈلاتے استعماری سازشوں کے بادل جب منتخب حکومتوں کو اقتدار سے نکال باہر کرچکے، تب سیاسی حلقوں میں ایک بازگشت یہ بھی سنی گئی کہ ٹیکنو کریٹ کی حکومت بنا کر عبدالستار ایدھی کو نگراں وزیر اعظم اور بعد ازاں کسی حلقے سے بلا مقابلہ منتخب کرکے پاکستان کا وزیراعظم بنوایا جائے۔ مگر اقتدار کے کانٹوں سے بچتا بچاتا یہ صوفی صفت درویش خصلت رکھنے والا ہمدردی کا پیکر ان محلاتی سازشوں کا شکار نہ ہوا۔
شیشے کے فرش پر ہاتھی کا رقص دیکھنے کی خواہش مند یہ قوم تضادات کا مجموعہ بھی کچھ یوں نظر آتی ہے کہ آئینی سربراہ کا علاج دنیا کے مہنگے ترین اسپتالوں میں قوم کے خرچ پر ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، لیکن کردار کی یہ مضبوطی اور اخلاص کا یہ عالم توم لاحظہ فرمائیے کہ پاکستان بلکہ دنیا بھر میں موجود فلاحی اداروں کو قائم کرنے اور امتیازی حیثیت رکھنے والا، بابائے خدمت مخیر حضرات کے چندے اور عطیات کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسپتال میں اپنا علاج کراتا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے ایک ہمعصر فلاحی ادارے کے سربراہ کا یہ جملہ یاد آجاتا ہے کہ پاکستان میں فلاح و بہبود اور سماجی خدمت کے روحانی باپ کا درجہ بلاشبہ عبدالستار ایدھی کو ہی دیا جاسکتا ہے۔
آج کے دن صرف فیصل، قطب، الماس اورسدرا ایدھی یتیم نہیں ہوئے بلکہ آج وہ ہزاروں، لاکھوں یتیم جو ایدھی صاحب کی کفالت میں پل رہے تھے وہ ایک بار پھر یتیم ہو گئے ہیں۔
ایدھی صاحب کیا گئے ایسا لگ رہا ہے جیسے اپنے گھر سے کوئی جنازہ اٹھنے والا ہے اور ایسا محسوس بھی کیوں کر نہ ہو کہ جب کسی گھر میں کوئی شخص ذہنی توازن کھو چکنے کے بعد اپنے اہل و عیال کو مارنا پیٹنا شروع کردے، اپنے کپڑے پھاڑنے لگے تو کچھ دیر برداشت کرنے کے بعد اس کے اہل خانہ ہی اس شخص کو ایدھی سنیٹر چھوڑ کر آتے ہیں اور یہ ایدھی صاحب کا احسان عظیم ہے کہ وہ اس ذہنی توازن کھو دینے والے شخص کا علاج کرا کے واپس اس کے گھر بھیج دیتے ہیں، ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں۔
آج عبدالستار ایدھی صاحب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کا پیغام ہمارے لئے کھلی کتاب کی طرح ہے اور وہ پیغام فقط اور فقط اتنا ہے کہ
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یکم جنوری 1928ء کو گجرات کے چھوٹے سے قصبے بانٹوا میں پیدا ہونے والا شجرِ سایہ دار کہ جس کے سائے تلے لاکھوں یتیم، مسکین، لا وارث، اپنوں کے ٹھکرائے ہوئے سایہ تلے تھے، مشیت ایزدی کہ وہ سایہ دار درخت ہم میں نہ رہا۔ عبدالستار ایدھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کے دنیا سے رخصت ہونے پر معروف کہانی کار مبشرعلی زیدی کے مطابق قائد اعظم اور حکیم محمد سعید کے بعد آج تیسرا عظیم پاکستانی رخصت ہوا۔
عبدالستار ایدھی جب 11 برس کے تھے تو ان کی والدہ پر فالج کا اٹیک ہوگیا تھا اور اسی فالج کے باعث ان کی والدہ کا دماغ بھی متاثر ہوا۔ بس یہی زندگی کا وہ موڑ تھا کہ جہاں عبدالستار ایدھی نے خدمت انسانیت کی روح کو سمجھ لیا جو شاید بڑے بڑے زعم میں مبتلا افراد اپنی پوری زندگی بسر کرنے کے بعد بھی نہیں سمجھ پاتے ہیں۔ ایدھی صاحب نے اپنی والدہ کی خدمت کے لئے کسی نرس کی خدمات لینے کے بجائے اس باہمت بچے نے ساری ذمہ داری اپنے سر لے لی اور ماں کو کھانا پانی دینا، ہاتھ منہ دھلانا، کپڑے تبدیل کرانے سمیت دیگر ساری ذمہ داریاں پوری کرنے لگے اور یہی انسانیت کے کام آنے کا وہ جذبہ تھا جو شاید ماں کی دعا کی صورت میں اس بچے کو ملا اور اور پھر اس کے فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن نے ہزاروں ایسی ماؤں کی خدمت کی کہ جن کا سب کچھ اس دنیا میں ہوتے ہوئے بھی کوئی نہیں تھا یا پھر ان کے سگے رشتے ہی ان کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
والدہ کی وفات کے بعد انہوں نے مخلوق خدا کی خدمت کے لئے کوئی باضابطہ کام کرنے کا سوچا لیکن وسائل کی کمی تھی، مگر اس کے باوجود ایدھی صاحب اپنے مقصد پر ڈٹے رہے۔ پاکستان بننے کے چھٹے دن ہی وہ یہاں آگئے تھے، شروعات میں ٹھیلا لگایا اور بعد میں اپنی انتھک محنت لگن اور جستجو سے کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں کپڑوں کے بیوپاری بن گئے۔ کچھ ہی عرصے اس کام سے منسلک رہنے کے بعد ایدھی صاحب نے یہ کام چھوڑ کر اپنے قریبی دوست حاجی غنی عثمان کی مدد سے ایک کلینک کا آغاز کیا کہ جہاں ڈاکٹر مریضوں کو بالکل مفت دیکھتے اور بغیر کسی پیسے کے دوائیں فراہم کرنے لگے۔ خدمت انسانیت کے ان کاموں کو دیکھ کر میمن برادری کے کچھ افراد نے ایدھی صاحب کی مدد کی جس سے انہوں نے 2 ہزار روپے کی ایک عدد گاڑی لی، بعد ازاں اسی گاڑی کو ایدھی صاحب نے ایمبولینس بنالیا تھا۔ جس میں وہ پوری کراچی کا چکر لگاتے تھے اور جہاں کوئی زخمی، بیمار یا لاوارث نظر آتا اس کو فوری مدد فراہم کرتے تھے۔
فنڈز کی کمی جب آڑے آئی تو عبدالستار ایدھی کبھی شادی بیاہ کی تقریبات تو کبھی کسی کے میت کے موقع پر جا کر برتن دھوتے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کبھی اخبار بیچا تو کبھی بھیک تک مانگی مگر مقصد صرف ایک تھا اور وہ مخلوق خدا کی خدمت۔ آج پاکستان کے چپہ چپہ میں غریبوں، مسکینوں، لاوارثوں، یتیموں، بیمار افراد کے سہارے کے طور پر ایدھی صاحب کا قائم کردہ ایدھی سینٹر موجود ہے۔
ان گناہ گار آنکھوں نے ایسے مناظر بھی دیکھے کہ جب سپر ہائی وے پر ایک ڈمپر کی ٹکر سے موٹر سائیکل سوار کا جسم ٹکڑوں میں بٹ گیا اور میت کے قریب آنے کو بھی کوئی تیار نہیں تھا ایسے میں تقریباً 25 منٹ بعد ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس آتی ہے جس سے ایک ضعیف شخص اترتا ہے اور میت کے ٹکڑوں کو جمع کرنا شروع کرتا ہے۔ وہ کوئی اور نہیں بلکہ عبدالستار ایدھی ہی تھے کہ جنہوں نے اس میت کو بھی کہ جس کے قریب آنے کو بھی کوئی تیار نہ تھا اکٹھا کرکے اٹھایا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ تم کس بات سے ڈرتے ہو؟ ہم سب کو ایک نہ ایک دن مر جانا ہے۔
وطن عزیز پر منڈلاتے استعماری سازشوں کے بادل جب منتخب حکومتوں کو اقتدار سے نکال باہر کرچکے، تب سیاسی حلقوں میں ایک بازگشت یہ بھی سنی گئی کہ ٹیکنو کریٹ کی حکومت بنا کر عبدالستار ایدھی کو نگراں وزیر اعظم اور بعد ازاں کسی حلقے سے بلا مقابلہ منتخب کرکے پاکستان کا وزیراعظم بنوایا جائے۔ مگر اقتدار کے کانٹوں سے بچتا بچاتا یہ صوفی صفت درویش خصلت رکھنے والا ہمدردی کا پیکر ان محلاتی سازشوں کا شکار نہ ہوا۔
شیشے کے فرش پر ہاتھی کا رقص دیکھنے کی خواہش مند یہ قوم تضادات کا مجموعہ بھی کچھ یوں نظر آتی ہے کہ آئینی سربراہ کا علاج دنیا کے مہنگے ترین اسپتالوں میں قوم کے خرچ پر ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، لیکن کردار کی یہ مضبوطی اور اخلاص کا یہ عالم توم لاحظہ فرمائیے کہ پاکستان بلکہ دنیا بھر میں موجود فلاحی اداروں کو قائم کرنے اور امتیازی حیثیت رکھنے والا، بابائے خدمت مخیر حضرات کے چندے اور عطیات کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسپتال میں اپنا علاج کراتا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے ایک ہمعصر فلاحی ادارے کے سربراہ کا یہ جملہ یاد آجاتا ہے کہ پاکستان میں فلاح و بہبود اور سماجی خدمت کے روحانی باپ کا درجہ بلاشبہ عبدالستار ایدھی کو ہی دیا جاسکتا ہے۔
آج کے دن صرف فیصل، قطب، الماس اورسدرا ایدھی یتیم نہیں ہوئے بلکہ آج وہ ہزاروں، لاکھوں یتیم جو ایدھی صاحب کی کفالت میں پل رہے تھے وہ ایک بار پھر یتیم ہو گئے ہیں۔
ایدھی صاحب کیا گئے ایسا لگ رہا ہے جیسے اپنے گھر سے کوئی جنازہ اٹھنے والا ہے اور ایسا محسوس بھی کیوں کر نہ ہو کہ جب کسی گھر میں کوئی شخص ذہنی توازن کھو چکنے کے بعد اپنے اہل و عیال کو مارنا پیٹنا شروع کردے، اپنے کپڑے پھاڑنے لگے تو کچھ دیر برداشت کرنے کے بعد اس کے اہل خانہ ہی اس شخص کو ایدھی سنیٹر چھوڑ کر آتے ہیں اور یہ ایدھی صاحب کا احسان عظیم ہے کہ وہ اس ذہنی توازن کھو دینے والے شخص کا علاج کرا کے واپس اس کے گھر بھیج دیتے ہیں، ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں۔
آج عبدالستار ایدھی صاحب ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کا پیغام ہمارے لئے کھلی کتاب کی طرح ہے اور وہ پیغام فقط اور فقط اتنا ہے کہ
اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔