عبدالستار ایدھی دکھی انسانیت کا عظیم خادم
درویش صفت مسیحا اور سماجی کارکن کی تدفین سرکاری، ریاستی اور عسکری انتظامات و اہتمام سے ہوئی۔
عالمی شہرت یافتہ سماجی رہنما، دکھی انسانیت کے درد آشنا اور ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ عبدالستار ایدھی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ پاکستان اپنے ایک بے لوث سماجی ''سپاہی'' اور عظیم شخصیت سے محروم ہو گیا۔ ان کی رحلت کے ساتھ ہی موت کی دہلیز تک پہنچی انسانیت سے محبت کا ایک لازوال باب بند ہوا۔ آج سماجی خدمت کے سارے شجر سایہ دار اشکبار ہیں بلکہ ٹوٹے دلوں کو جوڑنے والے ایدھی کی تدفین پر تاریخ کی آنکھوں سے بھی آنسو چھلک پڑے، انہیںآہوں سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
اس درویش صفت مسیحا اور سماجی کارکن کی تدفین سرکاری، ریاستی اور عسکری انتظامات و اہتمام سے ہوئی، نماز جنازہ کے انتظامات حکومت سندھ نے کیے، سندھ، خیبر پختونخوا میں تین دن جب کہ وزیراعظم کی جانب سے ایک دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا۔ ایدھی کے فرزند فیصل ایدھی نے تدفین کے موقع پر اگرچہ اپیل کی کہ کوئی پروٹوکول نہ دیا جائے، مگر وہ اس کے حقدار تھے، دوسری جانب مملکت خداداد میں سیاسی و سماجی سطح پر تقسیم شدہ سماج بھی ایدھی کے دنیا سے رخصت ہونے پر انسان دوستی کے درد مشترک میں شریک تھا۔ ہزاروں لوگ ان کے جنازے میں شریک تھے۔
ان کی عمر 92 برس تھی، ان کے گردے فیل ہو گئے تھے، شوگر کا عارضہ بھی لاحق تھا، 6 دہائیوں سے قوم، دکھی انسانیت کی خدمت، یتیموںاور غریبوںکی کفالت کرنے والے، لاوارثوں کے امین، بھوکوں کو کھانا کھلانے والے، لاوارث بچوں کے باپ، بے سہارا بچیوں اور عورتوں کو سہارا دینے والے عظیم سماجی رہنما کے انتقال کی خبر ان کے صاحبزادے فیصل ایدھی نے ایس آئی یو ٹی کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے دی۔ ان
کی نماز جنازہ نیشنل اسٹیڈیم میں ہفتے کو بعد نماز ظہرادا کی گئی جس میں عبدالستارایدھی کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق ایدھی ولیج سپرہائی وے میں ہوئی۔ فیصل ایدھی نے بتایا کہ ایدھی ولیج میں تدفین کی وصیت انھوں نے مرنے سے قبل کی تھی، وصیت کے مطابق ان کے پہنے ہوئے کپڑے بھی ان کے ساتھ رکھے گئے۔ انھوں نے پسماندگان میں بیوہ بلقیس ایدھی،2 صاحبزادوں قطب ایدھی، فیصل ایدھی، 2 صاحبزادیوں کبریٰ اور الماس ایدھی کو سوگوار چھوڑا ہے۔ نماز جنازہ کے انتظامات حکومت سندھ نے کیے۔
عبدالستارایدھی کی طبیعت کافی عرصہ سے ناساز تھی، سانس لینے میں دشواری کی وجہ سے انھیں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا، ڈاکٹروں کے مطابق ان کے گردوںکی پیوندکاری ممکن نہیں رہی تھی، کھانا پینا بند ہونے سے وہ کمزور ہو گئے تھے۔ صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، سیاسی و مذہبی رہنماؤں، سماجی شخصیات اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ایدھی کے انتقال پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہارکیا ہے۔ عالمی رہنماؤں کی طرف سے تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔
بلاشبہ پوری قوم ایدھی کے انتقال پر صدمے کی کیفیت سے دوچار ہے۔ خاندانی ذرایع کے مطابق سانس کی تکلیف، شوگر کے مرض اور طویل العمری کے باعث ان کے گردے تبدیل نہ کیے جا سکے۔ عبدالستار ایدھی کا2013ء سے ڈائیلاسس کیا جا رہا تھا۔ ایدھی فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے بانی عبدالستار ایدھی28 مئی کو بھارتی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے، ان میں لڑکپن سے ہی سماجی خدمت کا جذبہ نمایاں تھا، ابتدائی تعلیم کے دوران ہی وہ گھر سے ملنے والے2 پیسے میں سے ایک پیسہ ضرورت مندوں پر خرچ کرتے تھے، 11 سال کی عمر میں ہی انھوں نے خدمت کرنا سیکھ لیا تھا،19 سال کی عمر میں وہ ماں کی شفقت سے محروم ہو گئے، ان کے خاندان نے تقسیم ہند کے بعد4 ستمبر1947ء کو پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں میٹھادر کو اپنا مسکن بنایا جو عمر عزیز کے آخری دن تک ان کا سیکریٹریٹ رہا۔
ستار ایدھی پاکستان میں فلاح و بہبود، سادگی سچائی اور خیرات و خدمت کی تہذیبی روح تھے اور ایک زوال آمادہ سماج میں جہاں انسانی اقدار، خاندانی نظام، اور سماج کا شیرازہ بکھرنے کا عمل جاری ہو اور سیاست الزام تراشی، بدعنوانی، اور اخلاقی اساس سے محروم اور وعدہ فراموشی پر استوار ہو وہاں ایدھی بے سہاروں کا سہارا بنے اور کسی سیاسی نعرہ بازی کے بغیر خدمت انسانیت میں مصروف رہے۔ وہ ملکی سیاست کے سب سے بڑے اور معتبر عوامی نقاد تھے۔
ان کے ملکی و غیر ملکی اعزازات کا کوئی شمار نہیں۔ انہیں عالمی برادری پاکستان کا سافٹ چہرہ قراردیتی تھی، عالم اسلام اور مغرب ان کی سماجی خدمات کا معترف رہا۔ ان جیسی موت بہت کم لوگوںکو نصیب ہوتی ہے، ایدھی کی شخصی عظمت ان کے کرادر کی استقامت اور خدمت سے مشروط تھی، وہ معاشرہ کے حاشیوں پر رہنے والے ان ہزاروں لاکھوں افتادگان خاک سے گہری وابستگی رکھتے تھے جنہیں اپنوں نے دھتکار دیا تھا۔ ایدھی نے ہر ترغیب اور پیشکش کو مسترد کیا حتی ٰ کہ اپنے بیرون ملک علاج کی پیش کش سے بھی معذرت کر لی۔
انھوں نے سماجی کاموں کی ایک ایسی فلاحی سلطنت قائم کی جس میں ان کی درویشی کے سائے میں خدمت کا سارے انتظامات ہوتے تھے، ان کی ایمبولینس سروس کو دنیا کی بڑی سروسوں میں شمار کیا گیا، ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت دو طیارے، 1200 ایمبولینسز اور درجنوں فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں، 100 سے زاید شہروں میں نیٹ ورک ، 300 مراکز جب کہ 15 عمارتوں میں ''اپنا گھر'' قائم ہیں۔ مواچھ گوٹھ میں لاوارث افراد کے لیے قبرستان قائم کیا۔
1980ء میں ایدھی لبنان جاتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار بھی ہوئے،2006 ء میں وہ 16 گھنٹے کے لیے ٹورنٹو ایئرپورٹ پر زیر حراست رہے، اسی سال امیگریشن حکام نے جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر ان کا پاسپورٹ اور دیگر کاغذات ضبط کرتے ہوئے گھنٹوں تفتیش کی، لیکن بعد میں معذرت کرتے ہوئے انہیں جانے کی اجازت دی۔ لوگ کہتے ہیں کہ فریاد کی کوئی لے نہیں ہے، ایدھی نے ثابت کیا کہ سچائی، خدمت خلق اور عوام سے محبت کی بھی کوئی سیاسی و منافقانہ لے نہیں ہوتی، دوسروں کے کام آنے کا جذبہ دریا بن کر ہمدردی اور رحم دلی کے سمندروں میں گرتا ہے۔
کتنا دلچسپ تضاد ہے کہ پاکستان ایک طرف دہشتگردی کا میدان جنگ بنا ہوا ہے، ملک کے تمام شہر دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں مگر ایک شخص تمام تر غارت گری کے باوجود اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹا۔ ان کی ایمبولینسوں پر فائرنگ ہوئی، ڈرائیور مارے پیٹے گئے، ان کو کام کرنے سے کئی بار روکا بھی گیا، ایک بار ایدھی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے واشگاف اعلان کیا تھا کہ انہیں کام نہیں کرنے دیا جاتا، بعض قوتیں ان کی جان لینا چاہتی ہیں، مگر ایدھی نے غریب اور لاچار خاندانوں سے اپنا عہد محبت خوب نبھایا۔
بڑی سے بڑی تقریب میں ملیشیا کی قمیض شلوار اور جناح کیپ پہنے شرکت کرتے، ان کی شخصیت اور ان کی خدمات نئی نسل کے لیے نصاب کا درجہ رکھتی ہیں۔ ایدھی نے در حقیقت وہ سارے کام خاموشی سے کیے جو سیاست دان اپنے منشور میں ببانگ دہل پیش تو کرتے تھے مگر کرتے کبھی نہیں۔ ایدھی کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا، وہ اپنی ذات، افکار اور عمل میں سرمد و منصور کے قبیلہ سے ہی تھے۔ دنیا نے ایک بار مدر ٹریسا کی موت کا غم سہا تھا اور اب اسے ایدھی کے ابدی سفر پر روانہ ہونے کا صدمہ سونے نہیں دیگا۔
حقیقت یہ ہے کہ خیراتی کاموں میں مملکت خداداد کا کوئی ثانی نہیں، لوگوں نے ایدھی فاؤنڈیشن کو اپنے وسیع مکانات عطیہ کیے، لیاری سے ایدھی کا رشتہ دم آخر تک رہا۔ ان کی گاڑیاں بچوں کے نئے ملبوسات اور غریبوں کے لیے بکرے کا کئی من گوشت پابندی سے پہنچایا کرتی تھیں، یہ سروس شہر قائد میں جاری ہے۔ انھوں نے مادر وطن کو اپنی تمام زندگی سپرد کر دی تھی، اپنے شب و روز اس پر نچھاور کر دیے تھے اور موت سے قبل اپنی آنکھیں بھی عطیہ کر دیں۔ اب فیصل ایدھی والدہ بلقیس ایدھی کی مشاورت سے ایدھی فاؤنڈیشن کی ذمے داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ایدھی کے مشن کو ادارہ جاتی حیثیت دے کر اس مشعل کو ہمیشہ فروزاں رکھا جائے۔ قوم کو ایدھی کے ورثہ خدمت کی حفاظت کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔
اس درویش صفت مسیحا اور سماجی کارکن کی تدفین سرکاری، ریاستی اور عسکری انتظامات و اہتمام سے ہوئی، نماز جنازہ کے انتظامات حکومت سندھ نے کیے، سندھ، خیبر پختونخوا میں تین دن جب کہ وزیراعظم کی جانب سے ایک دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا۔ ایدھی کے فرزند فیصل ایدھی نے تدفین کے موقع پر اگرچہ اپیل کی کہ کوئی پروٹوکول نہ دیا جائے، مگر وہ اس کے حقدار تھے، دوسری جانب مملکت خداداد میں سیاسی و سماجی سطح پر تقسیم شدہ سماج بھی ایدھی کے دنیا سے رخصت ہونے پر انسان دوستی کے درد مشترک میں شریک تھا۔ ہزاروں لوگ ان کے جنازے میں شریک تھے۔
ان کی عمر 92 برس تھی، ان کے گردے فیل ہو گئے تھے، شوگر کا عارضہ بھی لاحق تھا، 6 دہائیوں سے قوم، دکھی انسانیت کی خدمت، یتیموںاور غریبوںکی کفالت کرنے والے، لاوارثوں کے امین، بھوکوں کو کھانا کھلانے والے، لاوارث بچوں کے باپ، بے سہارا بچیوں اور عورتوں کو سہارا دینے والے عظیم سماجی رہنما کے انتقال کی خبر ان کے صاحبزادے فیصل ایدھی نے ایس آئی یو ٹی کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے دی۔ ان
کی نماز جنازہ نیشنل اسٹیڈیم میں ہفتے کو بعد نماز ظہرادا کی گئی جس میں عبدالستارایدھی کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق ایدھی ولیج سپرہائی وے میں ہوئی۔ فیصل ایدھی نے بتایا کہ ایدھی ولیج میں تدفین کی وصیت انھوں نے مرنے سے قبل کی تھی، وصیت کے مطابق ان کے پہنے ہوئے کپڑے بھی ان کے ساتھ رکھے گئے۔ انھوں نے پسماندگان میں بیوہ بلقیس ایدھی،2 صاحبزادوں قطب ایدھی، فیصل ایدھی، 2 صاحبزادیوں کبریٰ اور الماس ایدھی کو سوگوار چھوڑا ہے۔ نماز جنازہ کے انتظامات حکومت سندھ نے کیے۔
عبدالستارایدھی کی طبیعت کافی عرصہ سے ناساز تھی، سانس لینے میں دشواری کی وجہ سے انھیں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا، ڈاکٹروں کے مطابق ان کے گردوںکی پیوندکاری ممکن نہیں رہی تھی، کھانا پینا بند ہونے سے وہ کمزور ہو گئے تھے۔ صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، سیاسی و مذہبی رہنماؤں، سماجی شخصیات اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ایدھی کے انتقال پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہارکیا ہے۔ عالمی رہنماؤں کی طرف سے تعزیت کا سلسلہ جاری ہے۔
بلاشبہ پوری قوم ایدھی کے انتقال پر صدمے کی کیفیت سے دوچار ہے۔ خاندانی ذرایع کے مطابق سانس کی تکلیف، شوگر کے مرض اور طویل العمری کے باعث ان کے گردے تبدیل نہ کیے جا سکے۔ عبدالستار ایدھی کا2013ء سے ڈائیلاسس کیا جا رہا تھا۔ ایدھی فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے بانی عبدالستار ایدھی28 مئی کو بھارتی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے، ان میں لڑکپن سے ہی سماجی خدمت کا جذبہ نمایاں تھا، ابتدائی تعلیم کے دوران ہی وہ گھر سے ملنے والے2 پیسے میں سے ایک پیسہ ضرورت مندوں پر خرچ کرتے تھے، 11 سال کی عمر میں ہی انھوں نے خدمت کرنا سیکھ لیا تھا،19 سال کی عمر میں وہ ماں کی شفقت سے محروم ہو گئے، ان کے خاندان نے تقسیم ہند کے بعد4 ستمبر1947ء کو پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں میٹھادر کو اپنا مسکن بنایا جو عمر عزیز کے آخری دن تک ان کا سیکریٹریٹ رہا۔
ستار ایدھی پاکستان میں فلاح و بہبود، سادگی سچائی اور خیرات و خدمت کی تہذیبی روح تھے اور ایک زوال آمادہ سماج میں جہاں انسانی اقدار، خاندانی نظام، اور سماج کا شیرازہ بکھرنے کا عمل جاری ہو اور سیاست الزام تراشی، بدعنوانی، اور اخلاقی اساس سے محروم اور وعدہ فراموشی پر استوار ہو وہاں ایدھی بے سہاروں کا سہارا بنے اور کسی سیاسی نعرہ بازی کے بغیر خدمت انسانیت میں مصروف رہے۔ وہ ملکی سیاست کے سب سے بڑے اور معتبر عوامی نقاد تھے۔
ان کے ملکی و غیر ملکی اعزازات کا کوئی شمار نہیں۔ انہیں عالمی برادری پاکستان کا سافٹ چہرہ قراردیتی تھی، عالم اسلام اور مغرب ان کی سماجی خدمات کا معترف رہا۔ ان جیسی موت بہت کم لوگوںکو نصیب ہوتی ہے، ایدھی کی شخصی عظمت ان کے کرادر کی استقامت اور خدمت سے مشروط تھی، وہ معاشرہ کے حاشیوں پر رہنے والے ان ہزاروں لاکھوں افتادگان خاک سے گہری وابستگی رکھتے تھے جنہیں اپنوں نے دھتکار دیا تھا۔ ایدھی نے ہر ترغیب اور پیشکش کو مسترد کیا حتی ٰ کہ اپنے بیرون ملک علاج کی پیش کش سے بھی معذرت کر لی۔
انھوں نے سماجی کاموں کی ایک ایسی فلاحی سلطنت قائم کی جس میں ان کی درویشی کے سائے میں خدمت کا سارے انتظامات ہوتے تھے، ان کی ایمبولینس سروس کو دنیا کی بڑی سروسوں میں شمار کیا گیا، ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت دو طیارے، 1200 ایمبولینسز اور درجنوں فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں، 100 سے زاید شہروں میں نیٹ ورک ، 300 مراکز جب کہ 15 عمارتوں میں ''اپنا گھر'' قائم ہیں۔ مواچھ گوٹھ میں لاوارث افراد کے لیے قبرستان قائم کیا۔
1980ء میں ایدھی لبنان جاتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار بھی ہوئے،2006 ء میں وہ 16 گھنٹے کے لیے ٹورنٹو ایئرپورٹ پر زیر حراست رہے، اسی سال امیگریشن حکام نے جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر ان کا پاسپورٹ اور دیگر کاغذات ضبط کرتے ہوئے گھنٹوں تفتیش کی، لیکن بعد میں معذرت کرتے ہوئے انہیں جانے کی اجازت دی۔ لوگ کہتے ہیں کہ فریاد کی کوئی لے نہیں ہے، ایدھی نے ثابت کیا کہ سچائی، خدمت خلق اور عوام سے محبت کی بھی کوئی سیاسی و منافقانہ لے نہیں ہوتی، دوسروں کے کام آنے کا جذبہ دریا بن کر ہمدردی اور رحم دلی کے سمندروں میں گرتا ہے۔
کتنا دلچسپ تضاد ہے کہ پاکستان ایک طرف دہشتگردی کا میدان جنگ بنا ہوا ہے، ملک کے تمام شہر دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں مگر ایک شخص تمام تر غارت گری کے باوجود اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹا۔ ان کی ایمبولینسوں پر فائرنگ ہوئی، ڈرائیور مارے پیٹے گئے، ان کو کام کرنے سے کئی بار روکا بھی گیا، ایک بار ایدھی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے واشگاف اعلان کیا تھا کہ انہیں کام نہیں کرنے دیا جاتا، بعض قوتیں ان کی جان لینا چاہتی ہیں، مگر ایدھی نے غریب اور لاچار خاندانوں سے اپنا عہد محبت خوب نبھایا۔
بڑی سے بڑی تقریب میں ملیشیا کی قمیض شلوار اور جناح کیپ پہنے شرکت کرتے، ان کی شخصیت اور ان کی خدمات نئی نسل کے لیے نصاب کا درجہ رکھتی ہیں۔ ایدھی نے در حقیقت وہ سارے کام خاموشی سے کیے جو سیاست دان اپنے منشور میں ببانگ دہل پیش تو کرتے تھے مگر کرتے کبھی نہیں۔ ایدھی کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا، وہ اپنی ذات، افکار اور عمل میں سرمد و منصور کے قبیلہ سے ہی تھے۔ دنیا نے ایک بار مدر ٹریسا کی موت کا غم سہا تھا اور اب اسے ایدھی کے ابدی سفر پر روانہ ہونے کا صدمہ سونے نہیں دیگا۔
حقیقت یہ ہے کہ خیراتی کاموں میں مملکت خداداد کا کوئی ثانی نہیں، لوگوں نے ایدھی فاؤنڈیشن کو اپنے وسیع مکانات عطیہ کیے، لیاری سے ایدھی کا رشتہ دم آخر تک رہا۔ ان کی گاڑیاں بچوں کے نئے ملبوسات اور غریبوں کے لیے بکرے کا کئی من گوشت پابندی سے پہنچایا کرتی تھیں، یہ سروس شہر قائد میں جاری ہے۔ انھوں نے مادر وطن کو اپنی تمام زندگی سپرد کر دی تھی، اپنے شب و روز اس پر نچھاور کر دیے تھے اور موت سے قبل اپنی آنکھیں بھی عطیہ کر دیں۔ اب فیصل ایدھی والدہ بلقیس ایدھی کی مشاورت سے ایدھی فاؤنڈیشن کی ذمے داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ایدھی کے مشن کو ادارہ جاتی حیثیت دے کر اس مشعل کو ہمیشہ فروزاں رکھا جائے۔ قوم کو ایدھی کے ورثہ خدمت کی حفاظت کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔