ایلون ٹوفلر دنیا یکسر بدلنے والی ہے آخری حصہ

اسکولوں میں تعلیم و تربیت کے طریقے بالکل مختلف ہونے والے ہیں


Zahida Hina July 10, 2016
[email protected]

ٹوفلر کہتا ہے کہ ہماری نگاہوں کے سامنے ایک نیا تمدن وجود میں آ رہا ہے اور ساری دنیا میں پھیلے ہوئے بینائی سے محروم افراد اسے کچلنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یہ نیا تمدن خاندانی رشتوں کا نیا انداز، کام کے بدلے ہوئے طریقے، محبت کے نئے آداب، روز مرہ زندگی کے نئے ڈھنگ، نئے معاشی اور اقتصادی ڈھانچے اور نئے سیاسی تضادات سامنے لا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ انسان کے اجتماعی شعور پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے اور اسے تبدیل کر رہا ہے۔

اس نئے تمدن کے ٹکڑے آج اس دنیا میں موجود ہیں۔ کروڑوں انسان مستقبل سے ہم آہنگ ہونے کے لیے اپنی زندگیوں کو آج بدل رہے ہیں اور کروڑوں ایسے ہیں جو مستقبل سے خوف زدہ ہیں، یہ لوگ ماضی میں پناہ لینے کی بے سود کوشش کر رہے ہیں اور اس مرتی ہوئی دنیا کو زندہ کرنے میں کوشاں ہیں جس میں انھوں نے جنم لیا تھا۔

اس نئے تمدن کی پیدائش ہماری زندگیوں کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ یہ وہ واقعہ ہے جو ہمیں آیندہ برسوں کو سمجھنے میں مدد دے گا۔ یہ اتنا ہی مہتمم بالشان واقعہ ہے جو ہزاروں برس پہلے اس وقت پیش آیا تھا جب دنیا کو پہلی لہر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور انسان نے کھیتی باڑی کرنا شروع کر دی تھی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ دنیا کو تلپٹ کر دینے والی دوسری لہر اتنا ہی اہم اور سنسنی خیز واقعہ ہے جب صنعتی انقلاب نے انسانی زندگیوں کو آن کی آن میں تبدیل کر دیا تھا اور اب ہم ہیں جو تیسری لہر کے تھپیڑے کھا ر ہے ہیں۔

یہ ''تیسری لہر'' ہمارے خاندانوں کو ادھیڑتی ہوئی، ہماری اقتصادیات کو تہہ و بالا کرتی ہوئی اور ہمارے سیاسی نظاموں کو مفلوج کرتی ہوئی آج سب پر اپنے اثرات ڈال رہی ہے۔ یہ طاقت اور اقتدار کے قدیم رشتوں کو دعوت مبارزت دے رہی ہے، یہ بااثر اور مراعات یافتہ طبقات اور افراد کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے اور یہ وہی پس منظر ہو گا جس میں کل طاقت اور اقتدار کی لڑائیاں لڑی جائیں گی۔ یہ ابھرتا ہوا تمدن، روایتی صنعتی تمدن سے متصادم ہے اور اس سے متضاد بھی۔ یہ ایک طرف نہایت اعلیٰ ٹیکنالوجی پر انحصار کرتا ہے اور دوسری طرف صنعت دشمن ہے۔

یہ ''تیسری لہر'' ایک ایسی زندگی کا آغاز کر رہی ہے جس میں زندگی گزارنے کے طور طریقے توانائی کے متنوع اور نت نئے ذرایع پر منحصر ہیں۔ اس کے تحت پیدا وار کے وہ طریقے وجود میں آ رہے ہیں جس کے سبب فیکٹریوں میں مصنوعات کی تیاری کے انداز بدل رہے ہیں۔ ایک نیا ادارہ وجود میں آ رہا ہے جو شاید ''الیکٹرانک کاٹیج'' کے نام سے یاد کیا جائے۔

اسکولوں میں تعلیم و تربیت کے طریقے بالکل مختلف ہونے والے ہیں اسی طرح مالیاتی اداروں اور کاروباری دفتروں کی شکل بھی کچھ سے کچھ ہونے والی ہے۔ یہ ابھرتا ہوا تمدن ہم سے نئے رویوں اور نئے طور طریقوں کا طلبگار ہے۔ یہ ہمیں یکسانیت اور مرکزیت سے دور لے جانا چاہتا ہے۔ یہ توانائی کے ذرایع، دولت اور اقتدار کے ارتکاز کو بھی بہت آگے لے جانے کا خواہش مند ہے۔

یہ نیا تمدن نو آبادیاتی نظام کے بعد وجود میں آنے والی نوکر شاہی کا تختہ الٹ دے گا، قومی ریاست کے کردار کو کم کرے گا اور نیم خود مختار اقتصادی نظاموں کو جنم دے گا۔ اسے ایسی حکومتوں کی ضرورت ہو گی جن کا نظام پیچیدہ ہوئے بغیر موثر ہو اور اس کے ساتھ ہی آج کی نسبت کہیں زیادہ جمہوری ہو۔

ان سب باتوں سے قطع نظر ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ تیسری لہر کا تمدن اشیاء کی پیداوار کرنے والوں اور انھیں خریدنے والوں کے درمیان تاریخی دوری کو بھی کم کر دے گا اور مستقبل میں ایک ایسا سماج وجود میں آئے گا جسے تعمیر کرتے ہوئے اگر ہم انسانوں نے تھوڑی سی بھی ذہانت استعمال کر لی تو معلوم تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک سچے اور انسان دوست تمدن کی بنیاد پڑے گی۔

سب سے پہلے تو ہمیں ایک طاقتور تجزیاتی رویہ اپنانا ہو گا۔ اس رویے کو اپنا کر ہم تاریخ کو تبدیلیوں کی عظیم الشان لہروں کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس بارے میں ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ تبدیلیوں کی ان لہروں میں سے جب کوئی لہر ساحل پر آ کر ٹوٹتی ہے اور قلب سمندر سے نئی لہر اٹھتی ہے تو ہماری توجہ اس نئی لہر کی اٹھان پر ہونی چاہیے کیونکہ یہی وہ مقام ہے جہاں تاریخ کا تسلسل ٹوٹتا ہے، نئے خیالات جنم لیتے ہیں اور کسی پرانی صورتحال کا خاتمہ ہوتا ہے۔

ہم جب اٹھتی ہوئی لہر کے مرکز پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے تو ہمارے سامنے تبدیلیوں کے ظہور پذیر ہونے کے نقش و نگار اپنی تمام تفصیل کے ساتھ ابھریں گے اور ہم اس پر اثر انداز ہونے کے اہل ہو سکیں گے۔ ہم اگر اس بات کو سادہ سے خیال سے آغاز کریں کہ انسان کے سماجی ارتقاء میں زراعت کا آغاز پہلا اہم سنگ میل تھا اور انسانی تاریخ کا دوسرا اہم ترین موڑ صنعتی انقلاب تھا۔ یہ دونوں ایسے معاملات نہ تھے جو ایک دن میں ظہور پذیر ہو گئے بلکہ یہ تبدیلی کی ایک ایسی لہر کی نشاندہی کرتے ہیں جو ایک مخصوص رفتار سے حرکت کر رہی تھی۔

تبدیلی کی پہلی لہر کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے تمام انسان چھوٹے چھوٹے گروہوں کی صورت میں اکٹھے زندگی گزارتے تھے۔ یہ خوراک کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے تھے۔ ان گروہوں کا گزر تھوڑی بہت کھیتی باڑی کرنے، پھل، اکھٹا کرنے، مچھلیاں پکڑنے، شکار کرنے یا جانوروں کو پالنے پر تھا۔ آج سے تقریباً دس ہزار سال پہلے حقیقی زرعی انقلاب کا آغاز ہوا اور وہ آہستہ آہستہ اس سارے کرئہ ارض کے دیہاتوں ، بستیوں اور چرا گاہوں تک پھیلتا چلا گیا اور اس کے ساتھ ہی ایک نیا طریق زندگی بھی ہر طرف چھا گیا۔

اس ''پہلی لہر'' کا خاتمہ سترہویں صدی کے اختتام تک نہیں ہوا تھا کہ اچانک سارے یورپ میں صنعتی انقلاب کا نقارہ بجنے لگا اور اس کے ساتھ ہی تبدیلیوں کی دوسری عظیم الشان لہر اٹھی جو ساری دنیا کو اپنے زیرنگیں لے آئی۔ اس کی رفتار آندھی طوفان کی سی تھی تب ہی تین صدیوں میں ساری دنیا کی کایا پلٹ گئی، چنانچہ ان دونوں انقلابوں کی رفتار کے تجزیے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دو جدا اور ایک دوسرے سے مختلف عمل دنیا میں ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ لیکن ان کی رفتار میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ آج ''پہلی لہر'' اپنی موت مر چکی ہے۔ جنوبی امریکا اور پاپوا نیوگنی میں چند مٹھی بھر قبائل ہیں جنھوں نے ابھی تک کھیتی باڑی نہیں سیکھی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ زرعی انقلاب ابھی ان تک پہنچ نہیں پایا ہے۔ لیکن ان چند گنی چنی مثالوں کے علاوہ زرعی انقلاب کا یا ''پہلی لہر'' کا خاتمہ بالخیر ہو چکا ہے۔

اسی دوران ''دوسری لہر'' نے چند صدیوں کے اندر یورپ، شمالی امریکا اور دنیا کے بعض دوسرے خطوں میں انسانوں کی زندگی میں ایک انقلاب عظیم برپا کر دیا اور ابھی تک وہ ایسے بہت سے ملکوں میں پھیلتی چلی جا رہی ہے جو کہ بنیادی طور پر زرعی ہیں لیکن اسٹیل ملیں، گاڑیوں کے یا کپڑے کے کارخانے لگا رہے ہیں، ریل گاڑیوں کے ڈبے بنا رہے ہیں اور کھانے پینے کی اشیاء کو مہر بند کر رہے ہیں۔

صنعتی انقلاب جس تیز رفتاری سے پھیلا تھا، اس کی رفتار ابھی تک محسوس کی جا سکتی ہے اور ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ دوسری لہر ابھی زندہ ہے اور اس کی زندگی کے ثبوت و شواہد ہم دنیا بھر میں محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ عمل ابھی جاری ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک زیادہ اہم عمل شروع ہو چکا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد کی دہائیوں میں جب صنعتی انقلاب کی لہر اپنی انتہاؤں کو چھو رہی تھی، اسی وقت ''تیسری لہر'' کا آغاز ہو چکا تھا اور وہ ساری دنیا پر چھا جانے کے لیے اٹھ رہی تھی۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ اس کی اٹھان لوگوں کو نظر نہیں آ رہی تھی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ لہر جس چیز کو چھو رہی تھی اس کی قلب ماہیت ہو رہی تھی۔ چنانچہ اس وقت عالم یہ ہے کہ متعدد ممالک تبدیلی کی دو بلکہ تین بالکل مختلف لہروں کا بیک وقت دباؤ محسوس کر رہے ہیں۔ یہ وہ لہریں ہیں جو مختلف رفتار سے چل رہی ہیں اور ان کے پیچھے جو قوت ہے اس کی طاقت بھی یکساں نہیں۔

ایلون اور ہیڈی ٹوفلر نے اپنی ان تین کتابوں میں جو ایک دوسرے کا تسلسل کہی جاتی ہیں، زندگی کا ایسا نقشہ کھینچا ہے جس میں ہم نہ چاہنے کے باوجود داخل ہو چکے ہیں۔ ایسا بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں ہی نہیں ہوا ہے، دنیا کے دور افتادہ ترین دیہاتوں میں بھی ہنگامہ خیز تبدیلیوں کی لہریں پہنچ چکی ہیں اور وہ وہاں کے رہنے والوں کی زندگیاں تلپٹ کر چکی ہیں۔

ٹوفلر کے نوشتوں کو ایک تسلسل سے پڑھ جائیے تو وہ نہ صرف حال کو ماضی کے تناظر میں دیکھتا ہے بلکہ ان سماجی تبدیلیوں کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے جنھیں اختیار کر کے مستقبل میں نسل انسانی اور عظیم الشان انسانی تہذیب کو تباہی و بربادی سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ بیسویں صدی میں پیدا ہونے والا ایک ایسا انسان تھا جس نے ایک جمہوری اور خود کفیل جنت ارضی کا خواب دیکھا۔ ہماری آیندہ نسلیں اس خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھ سکیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں