لاکھوں کروڑوں کی کہانی …

میرے پسینے چھوٹ رہے تھے، میں نے کافی دیر انتظار کیا تھاکہ دن ڈھل جائے


Shirin Hyder July 10, 2016
[email protected]

''میرے پسینے چھوٹ رہے تھے، میں نے کافی دیر انتظار کیا تھاکہ دن ڈھل جائے اور میں گھر میں داخل ہوں تو کسی کو میرے چہرے کی کیفیت نظر نہ آئے... میری بیوی تو اس وقت گھر کے کام کار اور بچوں کے ساتھ بک جھک کرنے میں اس قدر مصروف ہوتی تھی کہ اسے چند منٹ کے بعد علم ہوتا تھا کہ میں گھر میں داخل ہوا ہوں، بچے اس وقت ہا ہا کار مچائے ہوئے ہوتے تھے، آپسیں لڑائیاں، اسکولوں کے مسائل، فلاں چیز ہے تو فلاں نہیں، ان کی ماں کسی کو دوسرے کے بیگ سے نکال کر چیز دے دیتی، کسی کو خالی تسلی اور کسی کو وعدہ کہ پہلی تاریخ آتے ہی سب سے پہلے اس بچے کا مسئلہ حل کرے گی، '' تمہارے باپ کی ایمانداری کی سزا مجھ اکیلی ہی کو نہیں، ہم سب کو بھگتنا ہے بیٹا!! '' جب اسے علم ہوتا کہ میں گھر میں آگیا ہوں تو وہ بچوں کے ساتھ اپنے مصروفیت کے سیشن کا اختتامی جملہ کہتی۔

میں کیا کرتا؟ بچوں کی محرومیوں کو کس طرح دور کرتا، پچیس ہزار کی تنخواہ، اس پر اوور ٹائم بھی لگاتا تھا، گھر میں مریضہ ماں ، چار بچے اور ان کے مسائل اور ان میں الجھ کر ہم میاں بیوی کو اپنے مسائل تو یاد ہی نہ تھے۔ وہ بیسیاں ڈال ڈال کر چار پیسے جمع کرتی تو کوئی نہ کوئی ضرورت منہ کھولے آن کھڑی ہوتی، کسی کی مرگ، کسی بہن کی زچگی، کسی کی سسرال کا کوئی مسئلہ۔ مسائل کے اس انبار تلے دبے ہوئے کئی بار سوچا کہ کیا کروں، خود کوختم کر لوں، ایک لمحے کے لیے بھی اپنا خیال نہ آتا، اس سوچ کے ساتھ بھی ماں کے دل کی تکلیف کا خیال آتا اور سوچتا کہ بیوی تو کچھ نہ کچھ راستہ ڈھونڈ لے گی، بچوں کا کیا ہو گا... ان سب مسائل سے نمٹتے ہوئے اب صورت حال یہ ہو گئی تھی کہ لگتا تھا بچوں کی تعلیم ادھوری رہ جائے گی یا کسی روز مالک مکان اس ڈربہ نما گھر سے بھی نکال باہر کرے گا، گلی کا دکاندارکسی روز بیچ گلی میں روک کر بلند آواز سے پکارے گا، '' صاحب چھ ماہ سے میرا بل نہیں چکایا، اب کے ادھار سودا نہیں دینے والا میں!!'' اور میں کچھ نہ کر سکوں گا، میری سفید پوشی کی چادر بیچ گلی کے تار تار ہو جائے گی۔

میں نے اس روز، اپنے اصولوں کا سودا کر لیا تھا، وہ کیا تھا جو میرے ارد گرد سب کر رہے تھے، وہ کیا تھا جسے کرنے کی ترغیب میری بیوی کب سے دے رہی تھی۔ جس ملک میں امیروں کے کتوں کو سب کچھ نصیب ہو اور اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے والے ترس کر رہ جائیں وہاں ضمیر کو سلانے والوں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے، میں بھی اب تک اپنی ذات کی اکائی کو سنبھالے ہوئے تھا۔

اپنے ضمیر کو سینچ سینچ کررکھا ہوا تھا مگر اس روز میں نے سب کچھ بھول بھال کر صرف اپنے بچوں کے مفادات کا سوچا تھا اور اپنی ماں کے بہتر علاج کے لیے میں نے کسی سے وہ رقم لے لی تھی جس پر میرا کوئی حق نہ تھا اور اس کے عوض صرف مجھے فائلوں کے انبار تلے دبی ہوئی اس کی فائل کو اوپر کی سطح پر، یعنی دو تین فائلوں سے نیچے رکھنا تھا، اس کے عوض اس نے مجھ سے جو مصافحہ کیا تھا، وہ خالی ہاتھ کا نہ تھا، اس میں ہلکے بھورے رنگ کے چند نوٹ دبے ہوئے تھے۔

وہ نوٹ میری ماہانہ تنخواہ سے بھی زیادہ تھے... نوٹ بالکل سوکھے تھے مگر میرے ہاتھوں کو پسینہ آ گیا تھا ۔ میں نے ارد گرد دیکھا، کوئی میری طرف متوجہ نہ تھا نہ ہی کسی کو اس بات سے غرض تھی کہ میری میز پر دھری فائلوں میں سے کوئی فائل اوپر آ گئی تھی، میں دن بھر باقی میزوں پر یہ سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھتا تھا مگر مجھے کبھی اندازہ نہ ہوا تھا کہ رقم کس طرح لوگوں کو دی جاتی تھی جب تک کہ میں نے خود اس ضرورت مند سے الوداعی مصافحہ نہ کیا تھا۔

جس وقت میں اپنے گھر میں داخل ہوا تو میری ماں ( جس کی چارپائی کو سردیوں گرمیوں میں برآمدے میں ہی جگہ مل پاتی تھی کہ اندر دو کمروں میں ہم پہلے ہی چھ نفوس تھے) نے مجھے دیکھتے ہی پوچھا، '' تم ٹھیک تو ہو ماں کے لال؟ '' میرے ماتھے سے پسینہ پھوٹ نکلا، دنیا کی واحد عورت جس کے سامنے میں جھوٹ نہیں بول سکتا۔'' تھوڑی طبیعت خراب ہے ماں جی! '' میں نے ان کے پاس بیٹھ کر ان کا ہاتھ تھام لیا، '' آپ پریشان نہ ہوں !! '' میں نے انھیں دلاسہ دیا۔

'' نہیں بیٹا... '' ماں جی نے کہا، '' بات کچھ زیادہ ہی پریشانی والی لگتی ہے، یہ تو میرے بیٹے کا چہرہ ہی نہیں لگ رہا!!''

'' ابھی منہ ہاتھ دھوؤں گا ماں جی تو چہرہ ٹھیک ہو جائے گا!! '' میں نے بات کو مذاق میں اڑا کر منہ دوسری طرف پھیر لیا کہ اس سے زیادہ ان کا سامنا کرنے کی مجھ میں سکت نہ تھی ۔رات سونے کے وقت تک بھی رقم اسی طرح میری جیب میں تھی، سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ کس سے کیا بہانہ کروں ، کیا بیوی کو بتاؤں ؟ مگر فی الحال میں نے اس خبر کو خود تک ہی محدود رکھا۔میں نے کچھ خریدا اور نوٹ دکاندار کی طرف بڑھایا، اس نے الٹ پلٹ کر نوٹ کو دیکھا اور غور سے مجھے دیکھنے لگا، '' صاحب یہ نوٹ آپ کو کہاں سے ملا ہے؟ '' میں چونک گیا۔'' نوٹ کہاں سے ملتے ہیں؟ '' میں نے اس کے سوال کا جواب سوال سے دیا۔

'' آپ کے پاس ایسا ایک ہی نوٹ ہے؟ '' اس نے اگلا سوال کیا۔'' کیا تم سے خریدے گئے سامان کابل اس ایک نوٹ سے زیادہ ہے؟ '' میں نے پھر اس کے سوال کے جواب میں سوال کیا، اس کا انداز مجھے بوکھلا رہا تھا۔

'' آپ یہ نوٹ غور سے دیکھیں!! '' اس نے نوٹ مجھے واپس کیا، میں نے اس نوٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھا، رنگ ، سائز... سب کچھ ٹھیک تھا، میں نے نوٹ اسے واپس کیا، اس نے پھر نوٹ میری طرف بڑھایا، '' اس پر لکھی عبارت کو غور سے پڑھیں جناب!!''

'' کیا لکھا ہو گا... ' رزق حلال عین عبادت ہے، تو کیا اسے یہ معلوم ہو گیا ہے کہ میں نے یہ نوٹ حلال ذریعے سے نہیں کمایا، نوٹ لے کر میں نے جیب سے عینک نکالی، ناک پر جمائی اور عبارت کو پڑھنے لگا، ' رزق حرام کمانے والے پر لعنت ہے'، نوٹ پر لکھی عبارت کو پڑھ کر میں شرم سے لال ہو گیا، میں نے نوٹ واپس جیب میں ڈالا، جانے یہ اسٹیٹ بینک نے ایسی عبارت نوٹ پر کیوں لکھی ہے، میری بڑبڑاہٹ پر دکاندار کی استہزاء بھری ہنسی نے مجھے احساس دلا دیا کہ وہ مجھے کوئی فراڈیا سمجھ رہا تھا...

شکر ہے کہ میں اپنے گھر سے دور دراز کسی دکان پر تھا ورنہ گلی کا دکاندار تو پورے محلے میں اس بات کا اشتہار لگا دیتا۔ میں مرے مرے قدموں سے واپس لوٹا تو کسی پتھر سے ٹھوکر کھا کر گرنے کو تھا کہ آنکھ کھل گئی، شکر ہے کہ وہ خواب تھا، میر ا دل چاہا کہ میں اسی وقت ان نوٹوں کو چیک کروں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ دینے والا مجھے جعلی نوٹ دے گیا ہو، مگر میں ایسا کوئی رسک نہ لے سکتا تھا، اس لیے دن چڑھنے کا انتظار کرنے لگا۔

دن چڑھتے ہی میں نے چیک کیا، نوٹوں میں کوئی مسئلہ نہ تھا، بس خواب ، خواب ہی تھا، میں نے حسب معمول چائے کے ساتھ پاپوں کا ناشتہ کیا اور دفتر روانگی سے پہلے ماں جی کے پہلو میں رکھی کرسی پر بیٹھا، '' کیسی طبیعت ہے ماں جی؟ '' میں نے ان کا ہاتھ تھام لیا۔

'' طبیعت ٹھیک نہیں ہے بیٹا... رات عجیب سا خواب دیکھا، خواب میں دیکھا کہ تم اچانک آگ میں گر گئے ہو، میں مدد کو چیخ چلا رہی تھی، بھاگ بھاگ کر کسی کو مدد کے لیے بلا رہی تھی، مگر کوئی سن نہ رہا تھا، میں نے ہاتھ اٹھا کر اللہ سے فریادیں کیں، اے میرے پیارے رب، میرے محنت مزدوری کر کے کھانے والے بیٹے کو تو ہی آگ سے بچانے والا ہے!! میرا اتنا کہنا تھا کہ آگ خود بخود بجھ گئی، اسی لیے طبیعت کچھ بوجھل سی ہے کہ ایسا خواب کیوں دیکھا میں نے؟ '' ماں جی کے خواب نے میرے وجود میں پسینے چھڑا دیے تھے۔'' چلتا ہوں ماں جی!!'' کہہ کر میں اٹھا۔

'' اللہ تجھے اور تیرے بچوں کو سلامت رکھے، اس نے تجھے زندگی صحت والی اولادیں دیں ، انھیں اور تجھے ہمیشہ حلال رزق نصیب ہو اور اللہ تجھے حرام کے ایک نوالے سے بھی محفوظ رکھے، تیری کمائی میں برکت ہو، تیری دنیا اور آخرت دونوں اچھی ہوں !!'' انھوں نے ہاتھ اٹھا کر حسب معمول دعائیں دیں۔

میں ٹوٹتے ہوئے قدموں سے گھر سے نکلا، مجھے جا کر خواجہ صاحب کی فائل واپس اسی جگہ پر رکھنا تھی اور ان کی دی ہوئی رقم بھی لوٹانا تھی، میرے دل نے فیصلہ کر لیا تھا، میری ماں کی دعاؤں میں اثر تھا تو اللہ نے مجھے اپنے خواب سے بھی اور ماں کے خواب سے خبردار کر دیا تھا، مجھے پہلی غلطی پر ہی وارننگ مل گئی تھی، مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی میری اسی کمائی میں برکت بھی دے گا اور میری دنیا اور آخرت بھی ٹھیک کرے گا۔ زندگی میں جتنے بھی عذاب سہہ لوں گا، آخرت کے عذاب سہنے کی سکت نہ ہوگی مجھ میں... میری ماں کی دعائیں ضایع نہیں ہوں گی، کسی نہ کسی وقت اور کسی انداز سے ضرور پوری ہوں گی، انشاء اللہ!!''

اس نے اپنی کہانی مکمل کی اور مجھ سے کہا کہ میں اس کی کہانی لکھوں ، زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچاؤں، یہ اس کی نہیں، ہمارے ملک کے لاکھوں کروڑوں افراد کی کہانی ہے۔ اس کی کہانی کو لکھتے وقت مجھ پر جو کیفیت طاری ہے، وہ خوف کی کیفیت ہے، ان لوگوں کا سوچ رہی ہوں جو برائی کی دلدل میں گوڈے گوڈے پھنس چکے ہیں، ان کی مائیں بھی دعائیں کرتی ہوں گی مگر وہ ہر خوف سے آزاد ہیں ، اسی لیے تو ہمارے معاشرے کا توازن بگڑ چکا ہے۔ اللہ سب کو ہدایت دے... آمین!!!ا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں