پاکستان کی خارجہ پالیسی اندیشہ ہائے دور دراز
مضبوط عزم کی بنا پر انسان میں تعمیری، تخلیقی اور حد درجہ مثبت عمل پیدا ہوتا ہے
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ مضبوط ارادے، اچھے خیالات اور تعمیری سوچ انسان کے لیے وہ چٹانیں ہیں کہ جن سے زمانے کی منہ زور آندھیاں اور طوفان بھی ٹکرا کر اپنا رخ موڑ لیتے ہیں۔ اس مضبوط عزم کی بنا پر انسان میں تعمیری، تخلیقی اور حد درجہ مثبت عمل پیدا ہوتا ہے اور وہ کمزور اور ناتواں ہونے کے باوجود بھی خود کو توانا محسوس کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح قومیں علم، تحقیق اور اپنے تازہ افکار سے آگے بڑھتی اور تاریخ پر اپنے نقوش ثبت کرتی ہیں۔
جس طرح ہمارے اور آپ کے گھروں کے سربراہوں کی گھر چلانے کی پالیسی ہے، بالکل اسی طرح ہر ملک کی بھی ایک پالیسی ہوتی ہے جسے داخلی اور خارجی معاملات میں احسن طریقے سے بروئے کار لایا جاسکتا ہے اور جس کے بغیر کسی ملک کی فلاح اور بقا دونوں کی سلامتی ممکن نظر نہیں آتی۔ اور یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ''خارجہ پالیسی'' ایک حساس معاملہ ہے۔
آج کی دنیا میں حکومتیں اور ریاستیں داخلی اور خارجی معاملات کے حوالے سے بڑے بڑے فیصلے تنہا کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں، انھیں فیصلہ سازی میں ان اداروں سے مشاورت کرنا پڑتی ہے جن کا زیر غور معاملات سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے کہ سیاست، سفارت اور صحافت کے میدانوں میں کوئی معاملہ بلیک اینڈ وائٹ کی شکل میں نہیں ہوتا، یہاں کم و بیش ہر معاملہ نہ مکمل بلیک ہوتا ہے اور نہ وائٹ۔ یہاں اکثر معاملات کی کئی جہتیں ہوتی ہیں اور اسی لیے انھیں Grey Areas کے میدان قرار دیا جاتا ہے۔
ملکی فیصلہ سازی میں اہم امور اور اداروں کی شمولیت سے فیصلہ کرنے میں نہ صرف آسانی ہوتی ہے بلکہ وہ صائب بھی ثابت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا سمیت دنیا بھر کی حکومتیں اپنی خارجہ پالیسی کو اسٹیبلشمنٹ کی مشاورت ہی سے حتمی شکل دیتی ہیں اور پاکستان بھی یہی کر رہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی ہماری خارجہ پالیسی میں بھارت کی پاکستان دشمنی بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور ہر دور حکومت میں دفتر خارجہ کی طرف سے یہی کہا جاتا رہا ہے کہ کشمیر کے معاملے میں بھارت سے کوئی ڈکٹیشن نہیں لی جائے گی۔ اور اس کی واحد وجہ بھی یہ ہے کہ امن و امان کے حوالے سے بھی بھارت وعدے کرکے ان سے مکر جانے کا طویل اور وسیع ریکارڈ رکھتا ہے۔
اس بات میں بھی قطعی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پاکستان کے خلاف بھارت کا معاندانہ رویہ اور جارحانہ سفارت کاری، بھارت کی طرف امریکا کا بڑھتا ہوا جھکاؤ، پاکستان امریکا تعلقات میں مرئی اور غیر مرئی دراڑیں، پاکستان افغان سرحدی کشیدگی میں اضافہ اور ایران اور خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنے کے بارے میں اندیشہ ہائے دور دراز ایسے موضوعات ہیں جن پر بعض سیاسی حلقے اور میڈیا مبصرین تواتر سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں، جس سے یہ تاثر عام تھا کہ ملک کی خارجہ پالیسی گومگو کی کیفیت اور سست روی کا شکار ہے۔
لیکن مشیر خارجہ کی پریس بریفنگ تازہ سے ہماری خارجہ پالیسی کی تشکیل، اس کے اہداف اور خارجہ تعلقات کے ضمن میں حاصل ہونے والی حالیہ کامیابیوں کے تفصیلی جائزے سے یہ تاثر دور کرنے میں یقیناً مدد ملی ہے۔ کیونکہ پاکستان کی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی کھری کھری باتوں سے اس بریفنگ کی ضرورت دوچند ہوجاتی تھی۔ ان کا کہنا بھی غلط نہیں تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس وقت فعالیت کے بجائے محض ردعمل کی بنیاد پر چل رہی ہے اور یہ کہ بھارتی دہشت گردی کا مقابلہ دہشت گردی سے نہیں بلکہ موثر خارجہ پالیسی سے ہی ممکن ہے، کیونکہ ہمارا دفتر خارجہ سے صرف سیاسی بیانات جاری ہوتے ہیں اور پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کی کوئی سمت متعین نہیں کر رہا، صرف دنیا اور خطے میں ہونے والے واقعات کا ردعمل دے رہا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ بطور ادارہ بہت مضبوط اور باصلاحیت ہے صرف درست ترجیحات اور قیادت کی ضرورت ہے۔ اس سے بڑھ کر توہین آمیز سلوک کیا ہوسکتا ہے کہ خود ہمارے مشیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اپنے سب سے بڑا اتحادی امریکا ہمیں اپنا مستقل اتحادی یا دوست نہیں سمجھتا، مطلبی دوست کہتا ہے یا ہم اسے مطلبی دوست سمجھتے ہیں، جب مطلب نکل جاتا ہے تو وہ ہمیں چھوڑ جاتا ہے۔ ہماری دانست میں مشیر خارجہ کو اس نوع کی شکایت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ''بین الاقوامی تعلقات'' میں دوستیاں یا دشمنیاں روایتی محبوب اور محبوبہ جیسی ہوتی ہیں، نہ روایتی رقیبوں جیسی، یہ تو بس قوموں کے باہمی مفادات کے مطابق چلتی ہیں۔
جذبہ خود احتسابی صرف سیاست میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اپنی قومی داخلہ و خارجہ پالیسیوں کا جائزہ لینے کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہماری سوچ کہیں کنوئیں کے مینڈک جیسی تو نہیں ہے۔ انٹرنیشنل ریلیشن یا سفارت کاری کا عمل ہماری روایتی گلی محلے کے کلچر جیسا ہرگز نہیں ہوتا، یہاں نہ ہلکی دشمنیاں ہوتی ہیں نہ ابدی دوستیاں۔ امریکا، بھارت، افغانستان اور ایران کے خلاف غصہ نکالنے یا دکھانے سے ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہماری خارجہ پالیسی جو آج بند گلی کے سرے پر پہنچ گئی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟
ہمارے امریکا کے ساتھ، پڑوسی ممالک سے تعلقات کشیدہ کیوں ہوئے، ہماری خارجہ پالیسی کسمپرسی سے دوچار کیوں ہوئی؟ کیونکہ ڈپلومیسی کی دنیا میں پروفیشنل مہارت اور سیاسی ہنرمندی کی بے پناہ اہمیت ہوتی ہے اور ڈپلومیسی کی دنیا میں اپنا فائدہ پہلے اور دوسرے کا مفاد بعد میں کا اصول دیرینہ رائج ہے۔ ہم ازل سے امریکا سے حد درجہ تعلقات وابستہ رکھے چلے آرہے ہیں۔ نہ جانے کیوں ہمارے ڈپلومیٹ امریکا کی دوستی کو دو ملکوں کی ڈپلومیٹک فرینڈشپ سمجھنے کے بجائے ایک رومانٹک ریلیشن شپ کیوں سمجھتے رہے؟
بہرحال ایک لحاظ سے یہ بہت اچھا ہوگیا ہے کہ امریکا صاحب بہادر کو معلوم ہوگیا ہے کہ پاکستان ایک مخلص اور سادہ دل دوست ضرور ہے مگر دوستی افراد کی ہو یا اقوام کی، اس کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ ان حدود سے ماورا کرکے دوستی کو برباد نہیں کرنا چاہیے۔ کون نہیں جانتا، کسے نہیں معلوم کہ ہماری خارجہ پالیسی کا ایک بڑا نقص یہ ہے کہ ہم اپنے شہریوں کو بطور ''پراکسی'' استعمال کرتے ہیں اور بسا اوقات اس کی خاطر اپنے قانونی اور عدالتی نظام کی دھجیاں بھی اڑا دیتے ہیں، ہم نے کشمیر اور افغانستان کے اپنی پراکسیز کے لیے اپنے ہی ملک کو شہر ناپرساں بنادیا، جگہ جگہ اسلحے کے انبار اور بارود کے ڈھیر بنادیے۔
پاکستانی شہریوں کے لیے کلاشنکوف کے لائسنس کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف تھا لیکن اب ہر ایرا غیرا اسے ہاتھ میں لیے دندناتا پھرتا ہے، یہی رعایت بعد میں ہم نے طالبان کو دی۔ ہماری خارجہ پالیسی کا شاید سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے معاملے میں پاکستان کے اندر سول اور ملٹری قیادت کبھی صحیح معنوں میں ایک جگہ متفق اور متحد نہ ہوسکی، پوری دنیا میں کبھی یہ اختلاف کہیں دیکھنے سننے اور پڑھنے کو نہیں ملتا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہمارے ملک میں داخلی اختلاف بھی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اور ان دنوں تو بدقسمتی سے یہ اختلاف اپنی حدوں کو چھونے لگا ہے۔
یہ درست اور بجا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سب سے پہلا اور بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں اس پر تنقید کرنے والے تو بہت ہیں لیکن متبادل پالیسی دینے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ خارجہ پالیسی کے نقائص دور کرنے کے لیے پہلی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر جماعت، ہر فورم اور ہر دانشور صرف تنقید پر اکتفا کرنے کے بجائے متبادل پالیسی اور قابل عمل راستہ بھی سامنے رکھے۔ خارجہ پالیسی اور بالخصوص امریکا، بھارت اور افغانستان سے متعلق ہماری خارجہ پالیسی کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ اس پر بحث کرتے ہوئے ہمارے ارباب اختیار ماضی میں الجھ جاتے ہیں جس کا اب کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔
ہماری خارجہ پالیسی میں بہتری لانے کے لیے پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ اور اعلیٰ ترین سطح پر سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے، حکومت کو اس مقصد کے لیے مستقل وزیر خارجہ کی تقرری پر بھی فوری توجہ دینی چاہیے۔ وقت کی اولین ضرورت یہی ہے کہ ہم پوری سنجیدگی سے اپنی پالیسیوں کا بھرپور جائزہ لیں اور خارجہ پالیسی کے ماہرین، دانشوروں اور پرانے سفارت کاروں کی مشاورت سے ایسی فعال، متحرک اور تخلیقی سفارت کاری اپنائیں جس کے ذریعے تنہائی دور کرنے اور بندگلیوں اور دروازوں کو کھولنے میں مدد ملے۔