میرے ارمان
ماہ مبارک رمضان خیر سے گذرگیا بے شمار لوگوں نے اس بابرکت مہینے میں انگنت ثواب کمائے
ماہ مبارک رمضان خیر سے گذرگیا۔ بے شمار لوگوں نے اس بابرکت مہینے میں انگنت ثواب کمائے اور اسی طرح کچھ لوگوں نے اللہ کی طرف سے عطا کردہ اس عظیم موقع کو بھی ضایع کردیا ہوگا۔ بہرحال یہ بندوں اور اُن کے رب کے درمیان کا معاملہ ہے۔خوش نصیب لوگ ایسے موقعوں سے بھرپور فائدے اٹھا لیتے ہیں اور بدنصیب لوگ نعمتوں کے اس بیکراں سمندر سے بھی پیاسے لوٹ آتے ہیں۔
اس مہینے میں مخیر اور غیرمخیر غریب اور متوسط طبقے کے لو گوں نے بھی اپنی اپنی بساط کے مطابق لوگوں کو کھانے کھلوائے، روزے افطارکرائے اور ان کی طرح طرح سے مدد کی۔ بڑے بڑے دستر خوان لگائے گئے، پورے پورے محلوں میں سحریاں اور افطاریاں کرائی گئیں۔ ظاہر ہے زندگی بھر کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کا موقع کوئی بھی ضایع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جس کے بس میں جو تھا وہ اس نے بخشش اور مغفرت کی امید پر کرڈالا۔ کوئی کسر نہ چھوڑی اپنے پرائے کا لحاظ کیے بغیر خدا کی راہ میں دل کھول کر پیسہ لگایا۔
لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ شب بھر میں مسجد بنانے کے باوجود چونکہ من اپنا پرانا پاپی ہے اس لیے نمازی نہ بن سکے۔ ایک طرف صدقے خیرات کا یہ عالم اور دوسری طرح دکانوں چھاپڑیوں کھوکھوں اور سستے بازاروں تک میں لوٹ مار کا ایک ایسا بازار گرم رہا جس سے دیہاڑی لگانے والوں کا یہ یقین بھی ظاہر ہوتا رہا کہ جو کچھ کرنا ہے اس رمضان میں کرلو کیونکہ آیندہ پھر رمضان المبارک کا مہینہ دیکھنا نصیب ہو نا ہو۔
جو لوگ ایک طرف کچھ نہ کچھ غرباء اور مساکین کی امداد کرتے نظر آئے ان ہی لوگوں کی اکثریت نے پاکستان بھر کے ریستورانوں، ہالوں، کلبوں اور بڑے بڑے شامیانوں میں بیسوں قسم کے کھانوں اور لوازمات پر مشتمل کھچا کھچ بھری ہوئی افطاریوں کا ایسا پُرلطف اور روح پرور انتظام کیا کہ کھانے اور کمانے والے دونوں عش عش کر اُٹھے۔
کہتے ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق جس قدر رقم مسلمانوں نے افطاریوں اور سحریوں پر خرچ کی اس سے پاکستان میں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں خاطر خواہ اور نتیجہ خیز انتظامات ہوسکتے تھے۔ جتنی رقم محض رمضان المبارک کے نام پر اللوں تللوں پر خرچ کی گئی اتنی رقم سے پاکستان بھر کے کینسر اور گردے تبدیل کرانے والے مریضوں کا علاج ہوسکتا تھا۔
امراض چشم میں مبتلا لاتعداد لوگوں کو بنیائی میسر آسکتی تھی۔ جس قدر رقم لوگوں نے عمرہ ادائیگیوں پر خرچ کی اتنی رقم سے ملک بھر کے ڈیڑھ کروڑ اسکول سے باہر دردر پھرنے والے بچے اسکولوں کے اندر جا سکتے تھے۔ اللہ نے حج بھی ایک مرتبہ فرض کیا ہے عمرہ بھی ایک دو دفعہ خلوص نیت سے ادا ہوجائے تو خوشنودی خداوند تعالیٰ حاصل ہوجاتی ہے اردگرد بیماریوں اور زخموں سے چور مخلوق خدا کو دیکھتے اور جانتے ہوئے دسویں بار عمرے کی ادائیگی کو ترجیح دینے والے اکثر بھول جاتے ہیں کہ مخلوق خدا سے پیار کرنے والے خدا کو زیادہ محبوب ہوتے ہیں۔
میں سنگا پور میں اپنی تعیناتی کے دوران اکثر حیران ہوجاتا تھا کیونکہ یقین نہیں آتا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتاہے۔ ایک مرتبہ ہمارے گھر میں مٹھائی کا ڈبہ ایک خط سے کوئی دے گیا۔ خط کھول کر پڑھا تو معلوم ہوا کہ ایک تعمیراتی کمپنی کی انتظامیہ کی جانب سے محلے بھر کے لوگوں کو پیشگی اطلاع دی گئی تھی کہ فلاں مکان کو گرا کر تعمیر کرنے کا ٹھیکہ اُسے دیا گیا ہے۔
تعمیر کے کام میں مشینوں کے شور اور گرد وغبار سے محلے کے لوگوں کو تکلیف ہوگی۔ جس کے لیے پیشگی معذرت کی درخواست ہے یہ بھی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ حتیٰ الامکان کوشش کی جائے گی کہ شور شرابا اور گرد و غبار کو کم سے کم حد تک رکھا جائے پھر بھی جس کے باعث آپ کو تکلیف ہوگی لہذا اس معذرت کے ساتھ ہماری طرف سے مٹھائی کا تحفہ قبول فرمائیں۔خط کو پڑھنے کے بعد ایک سفارتکار کی حیثیت سے جو شرمندگی مجھے ہوئی اِس کا اندازہ صرف ایک حساس پاکستانی ہی لگا سکتا ہے۔
دل میں ارمان پیدا ہوا کہ کاش ہمارا ملک بھی تہذیب اور شائستگی کے اس معیار پر آسکے۔ جس گلی میں ہم رہتے تھے اس گلی میں اس وقت کے سنگاپور کے وزیر اعظم گوچک تانگ کی بہن کا گھر بھی تھا جس کے ہاں وزیراعظم کا بال بچوں سمیت آنا جانا رہتا تھا۔ ہم نے وزیراعظم کی آمد پر گلی کے اندر یا باہرکسی بھی قسم کی غیر معمولی نقل و حرکت نہیں دیکھی۔
وزیراعظم اپنی کار خود چلا کر آتے اور شام کے وقت ان کا خاندان اپنی بہن کے خاندان کے ساتھ خوشگوار انداز سے اپنے طور طریقوں کے مطابق کھا پی کر لطف اندوز ہوتے تھے۔ میں جب انھیں اس طرح سے خوش گپیوں میں مصروف دیکھتا تو میرے دل میں ارمان پیدا ہوتا کہ کاش ہم لوگ بھی اُونچ نیچ کے فضول اور بے ہودہ تصورات سے آزاد ہوکر باہمی احترام اور یگانگت کے طریقوں کے ساتھ خوش و خرم رہ سکیں۔
دنیا میں فی انچ ملینیرز کی تعداد سنگاپورمیں سب سے زیادہ ہے اکثر ہمارے گھروں میں اسکول کے بچے بچیاں جو ظاہر ہے امیر ترین لوگوں کے بچے اور بچیاں ہوتے تھے صرف ایک ڈالر روزانہ کی اجرت پر اسکول کی طرف سے بھیجے جاتے تھے جنھیں ہدایات تھیں کہ وہ گھروں میں وہ سب کام انجام دیں جو مکین اُن سے ایک ملازم کی حیثیت سے کروانا چاہے جس میں برتن اور کپڑے دھونے کے علاوہ گھر کی صفائی وغیرہ سبھی کچھ شامل تھا۔