بیگماتی استحصال
خواتین کے حقوق کی تنظیمیں ظاہر کرتی ہیں کہ صنف نازک پر پاکستان میں بڑے مظالم ہوتے ہیں۔
لاہور:
خواتین کے حقوق کی تنظیمیں ظاہر کرتی ہیں کہ صنف نازک پر پاکستان میں بڑے مظالم ہوتے ہیں۔ اس بات میں کچھ حقیقت بھی ہے لیکن ... جی ہاں! ہر کمزور پر ظلم ہوتا ہے، بچے، بوڑھے، ملازم، اقلیت اور حتیٰ کہ شوہر پر بھی۔ بیویاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طاقتور ہوتی جاتی ہیں۔ بچے ہوں اور وہ جوں جوں بڑے ہوتے جارہے ہوں ویسے ویسے یہ جو میاں ہوتے ہیں نا وہ میاؤں بن جاتے ہیں۔
مساوات مرد و زن کا نعرہ لگانے والی آنٹیوں کو اس پر خوش ہونا چاہیے۔ ہم نے میاں بیوی کے حوالے سے معاشرے میں پھیلنے والے کچھ لطائف کو آج کے کالم کا عنوان بنایا ہے۔ یہ مزاحیہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ عورت اگر بیگم بن جائے تو کہیں کہیں وہ مظلوم سے ظالم دکھائی دیتی ہے۔ شوہر بھی عقل مند ہوتے ہیں، وہ گھر کا ماحول خراب نہ کرنے کی خاطر ایسے ذو معنی جملے بول دیتے ہیں کہ بیگم بھی خوش اور گھر کا سکون بھی برقرار۔ ذرا پہلا لطیفہ پڑھیں اور پھر پڑھتے جائیں اور ہنستے جائیں۔ صرف ایک درخواست ہے کہ پورے کالم کا مطالعہ کے بغیر کوئی رائے قائم نہ کریں۔ عید کی چھٹیاں تو ختم ہوگئی ہیں لیکن ابھی تک ماحول تعطیلات والا بنا ہوا ہے۔ پیر کا دن پہلا ورکنگ ڈے ہے۔ کام کے موقع پر تناؤ کے بجائے مسکراہٹ آج کے کالم کا مقصد ہے، صرف مسکراہٹ ہی نہیں بلکہ مسکراہٹ کے ساتھ بڑا مقصد:
٭ بیوی: آپ کو میری خوبصورتی اچھی لگتی ہے یا عقل مندی؟
شوہر : تمہاری مذاق کرنے کی عادت اچھی لگتی ہے۔
٭ بیوی: ذرا کچن سے نمک لے آنا۔
شوہر: (کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد) یہاں تو کوئی نمک نہیں۔
بیوی: مجھے پتہ تھا تم تو ہو ہی اندھے۔ کبھی آج تک کوئی چیز ملی ہے جو نمک ملے گا۔ میرے باپ کو بھی تم ہی ملے تھے۔ ایک کام ڈھنگ سے نہیں کرسکتے۔ بس بہانہ بنانا جانتے ہو۔ زندگی میں کچھ تو کام کرلو۔ مجھے پتہ تھا تمہیں نہیں ملے گا نمک، اسی لیے میں پہلے ہی ادھر لے آئی تھی۔
٭ شوہر بیوی سے:
کرکٹ والا چینل لگاؤ۔
بیوی: نہیں لگاؤںگی۔
شوہر: دیکھ لوںگا۔
بیوی غصے سے : کیا دیکھ لوگے؟
شوہر : یہی چینل جو تم دیکھ رہی ہو۔
٭ شوہر: جلدی کھانا دو، آج چار بجے کتوں کی ریس میں جانا ہے۔
بیوی: بس رہنے دو۔ ٹھیک سے چلا جاتا نہیں اور ریس لگاؤ گے۔
٭ حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے صاحب۔ گم صم بیٹھا شخص پاگل نہیں ہوتا، شادی شدہ بھی ہوسکتا ہے۔
٭ ایک منٹ کی خاموشی، ان کے لیے، جن کا شادی سے پہلے خیال تھا کہ بیگم لوڈشیڈنگ کے دوران شوہر نامدار پر ہاتھ والے پنکھے سے ہوا دیا کرے گی۔
٭ بیوی: وہ سامنے شرابی دیکھ رہے ہو، میں نے دس سال پہلے اس سے شادی سے انکار کردیا تھا، آج تک پی رہا ہے۔
شوہر: واہ، اتنا لمبا جشن۔
٭ بیوی: آپ کی سالگرہ کے لیے اتنا قیمتی سوٹ خریدا ہے کہ بس...
شوہر: بہت بہت شکریہ، اچھا ذرا دکھاؤ تو، سوٹ کیا ہے؟
بیوی: میں ابھی پہن کر آتی ہوں۔
٭ جو سن نہ سکے وہ بہرا کہلاتا ہے اور جو بول نہ سکے وہ گونگا کہلاتا ہے، جو دیکھ نہ سکے اسے اندھا کہتے ہیں، جو بیک وقت سن اور بول نہ سکے وہ شوہر کہلاتا ہے۔
٭ امی امی میں کب اتنا بڑا ہوجاؤںگا کہ آپ سے بغیر پوچھے باہر کہیں بھی آ جا سکوں؟
ماں نے اپنے بیٹے کا منہ چوم کر ہنس کر کہا: بیٹا اتنے بڑے تو ابھی تمہارے ابو بھی نہیں ہوئے۔
٭ بیوی: میں تمہاری یاد میں پندرہ دن میں آدھی رہ گئی ہوں۔ مجھے لینے کب آرہے ہو؟
شوہر: پندرہ دن بعد۔
٭ بعض اوقات بیویاں اس لیے بھی ناراض ہوجاتی ہیں کہ شوہر حضرات فوراً ان کو ''سوری'' بول کر ان کے لڑائی والے سارے موڈ کا ستیاناس کردیتے ہیں۔
٭ کتنا شریف شخص ہے بیوی پہ فدا ہے، اس پہ کمال یہ ہے کہ اپنی پہ فدا ہے۔
٭ ملزم پر الزام تھا کہ اس نے بیگم کو ڈرا کر رکھا ہوا تھا۔
ملزم: نہیں جج صاحب! ایسی کوئی بات نہیں۔
جج : بہانا نہ بناؤ، ترکیب بتاؤ ترکیب۔
عید کے مواقع پر کارٹونسٹ حضرات ایسے کارٹون بناتے ہیں کہ بیگم شاہانہ انداز میں بازار کی طرف جارہی ہیں اور شوہر نامدار بیوی کا تھیلا تھامے چل رہا ہے۔ واپسی پر بیگم کا وہی شاہانہ انداز ہوتا ہے جب کہ شوہر عید کی خریداری کے سامان سے لدا ہوا ہوتا ہے۔ اسے بڑی حد تک بڑھا چڑھا کر بیان کرنا کہا جاسکتا ہے۔ اس حقیقت کو کیا کہیں کہ عید کے موقع پر بیگمات دکانوں پر شاپنگ کررہی ہیں اور شوہر حضرات باہر بچوں کو سنبھال رہے ہوتے ہیں۔
ایسے مناظر بیوٹی پارلر کے باہر کے بھی ٹی وی چینل نے دکھائے اور وہ بھی پشاور کے۔ یقین جانیں! پاکستانی مرد حضرات اپنی فیملی بشمول بیوی بچوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ایک دو فیصد بدمعاش مرد ہوتے ہیں جس کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ آخر میں یہی کہیں گے کہ گھر کی خاطر شوہر کی محبت ہوتی ہے اور وہ بیوی کی سخت باتیں برداشت کرجاتا ہے اور اُف یہ جو بیگمات کی گھرداری خاص طور پر شدید گرم موسم میں کچن میں پورے گھر کے لیے افطاری بنانا۔ میاں بیوی ایک دوسرے کا آئینہ ہوتے ہیں اور لباس ہوتے ہیں اور کچھ خاص نہیں ہوتا بیگماتی استحصال۔
خواتین کے حقوق کی تنظیمیں ظاہر کرتی ہیں کہ صنف نازک پر پاکستان میں بڑے مظالم ہوتے ہیں۔ اس بات میں کچھ حقیقت بھی ہے لیکن ... جی ہاں! ہر کمزور پر ظلم ہوتا ہے، بچے، بوڑھے، ملازم، اقلیت اور حتیٰ کہ شوہر پر بھی۔ بیویاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ طاقتور ہوتی جاتی ہیں۔ بچے ہوں اور وہ جوں جوں بڑے ہوتے جارہے ہوں ویسے ویسے یہ جو میاں ہوتے ہیں نا وہ میاؤں بن جاتے ہیں۔
مساوات مرد و زن کا نعرہ لگانے والی آنٹیوں کو اس پر خوش ہونا چاہیے۔ ہم نے میاں بیوی کے حوالے سے معاشرے میں پھیلنے والے کچھ لطائف کو آج کے کالم کا عنوان بنایا ہے۔ یہ مزاحیہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ عورت اگر بیگم بن جائے تو کہیں کہیں وہ مظلوم سے ظالم دکھائی دیتی ہے۔ شوہر بھی عقل مند ہوتے ہیں، وہ گھر کا ماحول خراب نہ کرنے کی خاطر ایسے ذو معنی جملے بول دیتے ہیں کہ بیگم بھی خوش اور گھر کا سکون بھی برقرار۔ ذرا پہلا لطیفہ پڑھیں اور پھر پڑھتے جائیں اور ہنستے جائیں۔ صرف ایک درخواست ہے کہ پورے کالم کا مطالعہ کے بغیر کوئی رائے قائم نہ کریں۔ عید کی چھٹیاں تو ختم ہوگئی ہیں لیکن ابھی تک ماحول تعطیلات والا بنا ہوا ہے۔ پیر کا دن پہلا ورکنگ ڈے ہے۔ کام کے موقع پر تناؤ کے بجائے مسکراہٹ آج کے کالم کا مقصد ہے، صرف مسکراہٹ ہی نہیں بلکہ مسکراہٹ کے ساتھ بڑا مقصد:
٭ بیوی: آپ کو میری خوبصورتی اچھی لگتی ہے یا عقل مندی؟
شوہر : تمہاری مذاق کرنے کی عادت اچھی لگتی ہے۔
٭ بیوی: ذرا کچن سے نمک لے آنا۔
شوہر: (کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد) یہاں تو کوئی نمک نہیں۔
بیوی: مجھے پتہ تھا تم تو ہو ہی اندھے۔ کبھی آج تک کوئی چیز ملی ہے جو نمک ملے گا۔ میرے باپ کو بھی تم ہی ملے تھے۔ ایک کام ڈھنگ سے نہیں کرسکتے۔ بس بہانہ بنانا جانتے ہو۔ زندگی میں کچھ تو کام کرلو۔ مجھے پتہ تھا تمہیں نہیں ملے گا نمک، اسی لیے میں پہلے ہی ادھر لے آئی تھی۔
٭ شوہر بیوی سے:
کرکٹ والا چینل لگاؤ۔
بیوی: نہیں لگاؤںگی۔
شوہر: دیکھ لوںگا۔
بیوی غصے سے : کیا دیکھ لوگے؟
شوہر : یہی چینل جو تم دیکھ رہی ہو۔
٭ شوہر: جلدی کھانا دو، آج چار بجے کتوں کی ریس میں جانا ہے۔
بیوی: بس رہنے دو۔ ٹھیک سے چلا جاتا نہیں اور ریس لگاؤ گے۔
٭ حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے صاحب۔ گم صم بیٹھا شخص پاگل نہیں ہوتا، شادی شدہ بھی ہوسکتا ہے۔
٭ ایک منٹ کی خاموشی، ان کے لیے، جن کا شادی سے پہلے خیال تھا کہ بیگم لوڈشیڈنگ کے دوران شوہر نامدار پر ہاتھ والے پنکھے سے ہوا دیا کرے گی۔
٭ بیوی: وہ سامنے شرابی دیکھ رہے ہو، میں نے دس سال پہلے اس سے شادی سے انکار کردیا تھا، آج تک پی رہا ہے۔
شوہر: واہ، اتنا لمبا جشن۔
٭ بیوی: آپ کی سالگرہ کے لیے اتنا قیمتی سوٹ خریدا ہے کہ بس...
شوہر: بہت بہت شکریہ، اچھا ذرا دکھاؤ تو، سوٹ کیا ہے؟
بیوی: میں ابھی پہن کر آتی ہوں۔
٭ جو سن نہ سکے وہ بہرا کہلاتا ہے اور جو بول نہ سکے وہ گونگا کہلاتا ہے، جو دیکھ نہ سکے اسے اندھا کہتے ہیں، جو بیک وقت سن اور بول نہ سکے وہ شوہر کہلاتا ہے۔
٭ امی امی میں کب اتنا بڑا ہوجاؤںگا کہ آپ سے بغیر پوچھے باہر کہیں بھی آ جا سکوں؟
ماں نے اپنے بیٹے کا منہ چوم کر ہنس کر کہا: بیٹا اتنے بڑے تو ابھی تمہارے ابو بھی نہیں ہوئے۔
٭ بیوی: میں تمہاری یاد میں پندرہ دن میں آدھی رہ گئی ہوں۔ مجھے لینے کب آرہے ہو؟
شوہر: پندرہ دن بعد۔
٭ بعض اوقات بیویاں اس لیے بھی ناراض ہوجاتی ہیں کہ شوہر حضرات فوراً ان کو ''سوری'' بول کر ان کے لڑائی والے سارے موڈ کا ستیاناس کردیتے ہیں۔
٭ کتنا شریف شخص ہے بیوی پہ فدا ہے، اس پہ کمال یہ ہے کہ اپنی پہ فدا ہے۔
٭ ملزم پر الزام تھا کہ اس نے بیگم کو ڈرا کر رکھا ہوا تھا۔
ملزم: نہیں جج صاحب! ایسی کوئی بات نہیں۔
جج : بہانا نہ بناؤ، ترکیب بتاؤ ترکیب۔
عید کے مواقع پر کارٹونسٹ حضرات ایسے کارٹون بناتے ہیں کہ بیگم شاہانہ انداز میں بازار کی طرف جارہی ہیں اور شوہر نامدار بیوی کا تھیلا تھامے چل رہا ہے۔ واپسی پر بیگم کا وہی شاہانہ انداز ہوتا ہے جب کہ شوہر عید کی خریداری کے سامان سے لدا ہوا ہوتا ہے۔ اسے بڑی حد تک بڑھا چڑھا کر بیان کرنا کہا جاسکتا ہے۔ اس حقیقت کو کیا کہیں کہ عید کے موقع پر بیگمات دکانوں پر شاپنگ کررہی ہیں اور شوہر حضرات باہر بچوں کو سنبھال رہے ہوتے ہیں۔
ایسے مناظر بیوٹی پارلر کے باہر کے بھی ٹی وی چینل نے دکھائے اور وہ بھی پشاور کے۔ یقین جانیں! پاکستانی مرد حضرات اپنی فیملی بشمول بیوی بچوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ایک دو فیصد بدمعاش مرد ہوتے ہیں جس کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ آخر میں یہی کہیں گے کہ گھر کی خاطر شوہر کی محبت ہوتی ہے اور وہ بیوی کی سخت باتیں برداشت کرجاتا ہے اور اُف یہ جو بیگمات کی گھرداری خاص طور پر شدید گرم موسم میں کچن میں پورے گھر کے لیے افطاری بنانا۔ میاں بیوی ایک دوسرے کا آئینہ ہوتے ہیں اور لباس ہوتے ہیں اور کچھ خاص نہیں ہوتا بیگماتی استحصال۔