ریاست کی ذمے داری اور عبدالستار ایدھی

یہ غالباً 1990 کے آس پاس کی بات ہے‘ میں تعلیم سے فارغ ہو کر نوکری کے لیے مارا مارا پھر رہا تھا


Latif Chaudhry July 11, 2016
[email protected]

یہ غالباً 1990 کے آس پاس کی بات ہے' میں تعلیم سے فارغ ہو کر نوکری کے لیے مارا مارا پھر رہا تھا۔ انھی ایام میں ایدھی صاحب سے میری اتفاقی ملاقات ہوئی۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں اپنا سینٹر قائم کیا تھا جہاں ایمبولینس کی سہولت اور غریبوں کے لیے مفت کھانے کا اہتمام تھا۔ ایک روز میں اس سینٹر کے قریب سے گزر رہا تھا کہ ایدھی صاحب پر نظر پڑی' وہ پلاسٹک کی کرسی پر سینٹر کے باہر بیٹھے تھے۔ میں ایدھی صاحب کو سوشلسٹ سمجھتا تھا' سیدھا ان کے پاس پہنچا اور بیٹھنے کی اجازت چاہی جو انھوں نے کمال مہربانی سے دے دی' پھر خاصی دیر ان سے گفتگو رہی' میں انھیں اپنے تئیں انقلابی تحریک چلانے کا مشورہ دیتا رہا اور وہ مجھے خدمت خلق کے بارے میں بتاتے رہے' یوں یہ ملاقات اختتام کو پہنچ گئی۔ عبدالستار ایدھی کے انتقال کی خبر سن کر پچیس چھبیس برس پرانا یہ منظر زندہ ہو کر میرے سامنے آ گیا۔

عبدالستار ایدھی یہ دنیا رنگ و بو چھوڑ کر اس نگر کے مسافر بن گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا' جدائی یا فراق کے احساس کو پنجابی میں وچھوڑا کہا جاتا ہے' وچھوڑا نہایت نازک اور لطیف احساس ہے لیکن انتہائی کربناک ہوتا ہے' میاں محمد بخش نے اس احساس کو کمال خوبصورتی سے بیان کیا ہے

جا او یار حوالے رب دے
میلے چار دناں دے
اس دن عید مبارک ہو سی
جس دن فیر ملاں گے

ایدھی صاحب نے اس دنیا کے میلے میں بے مثال زندگی گزاری' ان کی زندگی جہد مسلسل کی جیتی جاگتی تصویر ہے' ایسی جدوجہد جو اپنے لیے نہیں بلکہ بے وسیلہ اور بے سہارا کے لیے کی گئی' انھوں نے ثابت کیا اگر جذبہ سچا ہو تو فقیری میں بھی انسانیت کی ایسی خدمت کی جا سکتی ہے جو ریاستوں کا فرض ہوا کرتی ہے۔

عبدالستار ایدھی نے فلاح عامہ کے لیے جو کچھ کیا' وہ درحقیقت ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے' جہاں ریاست اپنے آئینی فرائض انجام نہ دے سکے اور اس کے ادارے ناکام ہو جائیں تو ایسے معاشروں میں ایدھی جنم لیتے ہیں۔ جہاں ریاست ایدھی کا روپ دھار لے وہاں ایدھی پیدا نہیں ہوتے۔ بے وارث' اپاہج' بیمار اور نیم مردہ معاشرے یا ریاست کو عبدالستار ایدھی کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ وہ اس کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لے۔ ایدھی نے ایسا ہی کیا' انھوں نے ریاست کی ذمے داری اپنے سر لے لی۔ یہ ایک طرح کا خاموش احتجاج تھا۔ فقط اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

آپ دنیا بھر کا جائزہ لے لیں' انسانی خدمت کی شخصی مثالیں افریقہ' ایشیا کے غریب' بدحال' خانہ جنگی زدہ ممالک میں ملیں گی' انھی ممالک میں آپ کو کوئی ایدھی ملے گا' کہیں ڈاکٹر روتھ فاؤ سے ملاقات ہو گی اور کہیں مدر ٹریسا لاوارثوں کا سہارا بنی نظر آئیں گی۔

امریکا' جرمنی' جاپان' کینیڈا اور آسٹریلیا میں ایسی شخصیات پیدا نہیں ہوتیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے' کیا دنیا کے یہ مہذب معاشرے بے حس اور کٹھور ہیں۔ نہیں جناب! ایسا نہیں ہے' سچی بات یہ ہے کہ وہاں ایدھی' ڈاکٹر روتھ فاؤ اور مدر ٹریسا کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ یہ ریاستیں اور اس کے ادارے زندہ اور متحرک ہیں' وہاں کسی لاوارث کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ اگر وہ مر گیا تو اس کی تدفین کون کرے گا' بے وارث بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا' کوڑھ اور دیگر جان لیوا بیماریوں میں مبتلا بے وسیلہ مریضوں کا علاج کون کرے گا' اپاہجوں اور ذہنی مریضوں کو کون سنبھالے گا' بے وارث میّتوں کو قبرستان پہنچانے کے لیے ایمبولینس کہاں سے ملے گی اور بھوکوں کو کھانا کون کھلائے گا۔ ترقی یافتہ معاشروں میں ایک متحرک اور زندہ خود کار نظام کے تحت سب کچھ خوش اسلوبی سے ہوتا رہتا ہے۔

کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ ایسے معاشروں میں سٹیفن ہاکنز' نیل آرم اسٹرانگ' محمد علی کلے' جے کے رولنگ اور رونالڈو پیدا ہوتے ہیں۔ بھوکوں کو کھانا دینا' لاوارث بوڑھوں کو رہائش دینا' بیروز گاروں کو روز گار دینا' علاج اور تعلیم کی سہولت دینا یہ ریاست کی ذمے داری ہے' کسی فرد کی نہیں۔ جہاں افراد یہ کام انجام دیں سمجھ لیں کہ ریاست ناکام ہے۔

پاکستان میں رمضان المبارک میں مخیر حضرات جگہ جگہ افطار و سحر کا انتظار کرتے ہیں' عام دنوں میں لنگر بھی چلتے ہیں' جہاں غریب و مفلوک الحال افراد اپنے پیٹ کی آگ بجھا کر کسی فٹ پاتھ پر درخت کے سائے میں لیٹ کر زندگی کے دن کاٹتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے کہیں دکھائی نہیں دیتے' اگر کہیں موجود ہیں تو کارکردگی صفر ہے' کسی کو فنڈز کی کمی کا مسئلہ ہو گا اور کسی کے پاس جگہ کی تنگی ہو گی' ریاست اور اس کے ادارے خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ریاست زکوٰۃ بھی اکٹھی کر رہی ہے' بیت المال بھی موجود ہے' شہریوں سے ٹیکس بھی وصول کیے جاتے ہیں، ٹیلی ویژن سیٹ رکھنے پر بھی ٹیکس عائد ہے' لیکن اس کے بدلے میں کیا ہے' مجھے شاید بتانے کی ضرورت نہیں ہے' آپ کو خود ہی اندازہ ہو گا۔ آپ کسی سرکاری اسپتال میں چلے جائیں۔

آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے' اگر اسپتال میں کسی غریب کا انتقال ہو جائے تو ایمبولینس سے لے کر قبرستان تک لواحقین کا جو حشر ہوتا ہے' اسے بیان کریں تو آنسو تھمنے کا نام نہ لیں' پولیس تھانے اور کورٹ کچہری سرمائے اور اوپر تک پہنچ والوں کے لیے سہولت لیکن غریب غربا کے لیے چمڑی اور دمڑی ادھیڑنے کے کارخانے ہیں' ایسے معاشروں میں ہی ایدھی پیدا ہو جاتے ہیں یا طالبان۔ یہ قانون قدرت ہے' کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ ساری ریاست ایدھی کی تدفین میں شریک ہوئی' ریاست نے ان کی ملکیت لے لی' ریاست کا کیا چھوٹا کیا بڑا' سب محمود و ایاز بن کر ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے اور بیانات کے انبار لگا دیے۔ یہ اچھی بات ہے' زندہ قومیں اپنے ہیروز اور محسنوں کی قدر کرتی ہیں۔

عزت کرتی ہیں' لیکن میرے ذہن میں ایک اور خیال بھی آ رہا ہے' ہو سکتا ہے کہ بہت سوں کو اچھا نہ لگے لیکن میرے جیسے شوقیہ دانشور اکثر بال کی کھال اتارنے کی کوشش کرتے ہیں' میں سوچ رہا ہوں کہ وہ ریاست جو ایدھی کے وارے صدقے جا رہی ہے اور مگرمچھ کے آنسو بہا رہی ہے' کیا یہ اس کے اپنے دیوالیہ پن کا ثبوت نہیں ہے' ایدھی صاحب نے جو کام کیا' کیا یہ ریاست پاکستان کا آئینی فرض نہیں ہے۔

غریبوں کو روز گار فراہم کرنا' انھیں علاج و معالجے کی مکمل سہولیات دینا' انھیں تعلیم کی سہولت مہیاکرنا' لاوارث بچوں کی نگہداشت کرنا اور انھیں کار آمد شہری بنانا' مردہ کو ایمبولینس فراہم کرنا' یہ کس کی ذمے داری ہے' اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے' آئین کی کتاب بک اسٹالوں پر دستیاب ہے' اگر کسی نے خریدنی نہیں ہے تو وہیں پر کھڑے ہو کر چند آرٹیکلز کا مطالعہ کر سکتا ہے' کیا ریاست کو شرم نہیں آتی کہ جو کام ایدھی کر رہا تھا' وہ تو آئین نے اس کے ذمے لگا رکھے ہیں لیکن یہاں شرم کون کرتا ہے' ایدھی مر گیا' وہ واپس نہیں آئے گا لیکن جب تک ریاست پاکستان لولی لنگڑی بن کر خود بھیک پر گزارا کرے گی' یہاں کوئی نہ کوئی ایدھی جنم لیتا رہے گا اور اپنی بساط کے مطابق عوام سے بھیک مانگ کر' معاشرے کا قرض اتارتا رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں