دنیا کا ماضی حال اور مستقبل
کیا پانی اس سطح پر پہنچ جانے کے بعد زمین پر جانداروں کا زندہ رہنا ممکن ہو سکتا ہے
کرۂ ارض پر موجود آفاقی وژن رکھنے والوں اور کرۂ ارض کے ماضی حال اور مستقبل کا ادراک رکھنے والوں اور کرۂ ارض کو اس کے وسیع تناظر میں دیکھنے والوں کی زندگی کا مقصد اور ان کی اولین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ اس دوزخ نما کرۂ ارض کو جنت کس طرح بنائیں اور اس پر بسنے والے 7 ارب انسانوں کے درمیان محبت و بھائی چارہ کس طرح پیدا کریں۔
انسانوں کے درمیان اس تعصب اور نفرت کو ختم کر کے ان کی زندگیوں میں آسودگی، امن اور خوشحالی کو کس طرح فروغ دیں؟ اس مقصد پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کرۂ ارض کس طرح وجود میں آیا، کب آیا، کیسے آیا اور کب تک زندہ رہے گا؟ بدقسمتی سے جدید علوم، سائنس، ٹیکنالوجی، آئی ٹی کے انقلاب کی اہمیت پر غور کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس حوالے سے دوسری مشکل یہ ہے کہ انسان کے ہزاروں برسوں میں اپنی جڑیں رکھنے والے عقائد و نظریات جدید علوم، سائنسی حقیقت اور انکشافات کے درمیان ایسے تضادات ہیں جن کے حل کے لیے بڑی مہارت، جانفشانی، صلاحیتوں، دانش اور علم کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کرۂ ارض کس طرح وجود میں آیا اور اس کا خاتمہ کس طرح ہو گا۔ ہماری مذہبی روایات کے مطابق کرۂ ارض کا خاتمہ قیامت کی آمد سے ہو گا۔ ماہرین ارض کا خیال ہے کہ کرۂ ارض تقریباً 4 ارب سال پہلے وجود میں آیا اور ابھی تین ارب سال تک زندہ رہے گا۔ یعنی قیامت کے آنے میں ابھی تین ارب سال باقی ہیں۔ لیکن اگر کرۂ ارض پر جانداروں کے خاتمے کو ہم قیامت کا نام دیتے ہیں تو بلا توقف یہ کہا جا سکتا ہے کہ جانے 4 ارب سال کے درمیان کتنی قیامتیں آئیں اور گزر گئیں، کرۂ ارض سے جانداروں کے خاتمے کے کئی شواہد موجود ہیں، ایک بہت بڑی شہادت اور مثال یہ ہے کہ کوہ ہمالیہ لاکھوں سال تک پانی میں ڈوبا رہا۔ جو لوگ کوہ ہمالیہ کی بلندی سے واقف ہیں ان کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ کوہ ہمالیہ کے پانی میں ڈوب جانے کے بعد کرۂ ارض پر پانی کی سطح کیا ہو گی؟
کیا پانی اس سطح پر پہنچ جانے کے بعد زمین پر جانداروں کا زندہ رہنا ممکن ہو سکتا ہے؟ کرۂ ارض کے مختلف علاقوں میں ایسی بستیوں کے شواہد موجود ہیں جو زیر زمین چلی گئیں۔ کیا یہ بستیاں چند علاقوں تک محدود ہیں یا دنیا بھر میں ایسی زیر زمین بستیاں موجود ہیں جو اب تک دریافت نہیں ہو سکیں۔ اگر دنیا بھر میں زیر زمین بستیاں موجود ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا کہ دنیا بار بار قیامت سے گزرتی رہی ہے اور لاکھوں، کروڑوں سال کے عرصے میں دوبارہ جاندار وجود میں آتے رہے۔ اگر ان جانداروں میں انسان بھی شامل رہا ہے تو ماضی کے تین ارب سال کے دوران کرۂ ارض پر ہمیشہ انسان نما مخلوق ہی موجود رہی یا زندگی کے مختلف نمونے آتے اور جاتے رہے؟ یہ سوال اس تناظر میں ضروری ہے کہ کرۂ ارض کی 4 ارب سالہ زندگی میں مختلف تہذیبیں روشناس ہو سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اس طویل عرصے میں عقائدی صورت حال ایسی ہی رہی ہو گی جیسی آج ہے۔
کیا انسانوں کے درمیان ایسی ہی تقسیم رہی ہو گی جیسی ہم آج دیکھ رہے ہیں؟ کیا ان ممکنہ تہذیبوں میں انسان طبقاتی مذہبی حوالوں سے تقسیم کا شکار رہا ہو گا؟ جس کی ہماری دنیا شکار ہے؟ یہ اور اس قسم کے بے شمار سوالات اس لیے ہمارے ذہنوں میں آتے ہیں کہ ہم جس دنیا میں آج زندہ ہیں وہ عملاً جہنم بنی ہوئی ہے۔ مذہب کے حوالے سے انسان منقسم ہے۔ رنگ، نسل، زبان اور قومیتوں کے حوالے سے انسان تقسیم ہے، سب سے المناک تقسیم انسان کی طبقاتی تقسیم ہے۔ کیا ماضی بعید یا کرۂ ارض پر مختلف ادوار میں بھی اس قسم کی تقسیم رہی ہو گی؟ ملک و ملت کے حوالوں سے انسان کو جس طرح تقسیم کر کے اسے ایک دوسرے سے برسر پیکار کر دیا گیا ہے کیا کرۂ ارض کی 4 ارب سالہ زندگی میں بھی اس قسم کی تقسیم رہی ہو گی؟ کیا ماضی بعید کے اہل علم، اہل فکر انسان اس ظالمانہ تقسیم کے خلاف نبرد آزما رہے ہوں گے؟ یہ سوال اہل فکر کے ذہن میں کانٹوں کی طرح اس لیے چبھتے رہے ہیں کہ ہماری دنیا ہر حوالے سے جہنم بنی ہوئی ہے۔
مذہبی تقسیم ہزاروں سال پرانی ہے اور اس تقسیم کی وجہ سے انسان ایک دوسرے سے اجنبی ہی نہیں رہتا بلکہ برسر پیکار بھی رہتا ہے۔ اس حوالے سے دوسری تقسیم ملک و ملت کے حوالے سے ہے اور اسی تقسیم کا جبر یہ ہے کہ ہر ملک میں ملکی سالمیت کے تحفظ کا نظریہ پیدا ہوا اور ہر ملک خواہ وہ کسی بیرونی خطرے کا شکار رہتا ہے یا نہیں، لاکھوں انسانوں پر مشتمل فوج رکھنا ضروری سمجھتا ہے اور اس پر بجٹ کا بھاری حصہ خرچ کر دیتا ہے، جسے اگر عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے تو دنیا سے غربت کم ہو سکتی ہے۔ آج کا ہر سماج طبقات میں تقسیم ہے۔ دنیا کے80 فیصد عوام کا تعلق غریب طبقے سے ہے، جنھیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے، لیکن حکمران طبقہ جگہ جگہ جنگوں کے الاؤ روشن کیے ہوئے ہے اور مختلف حوالوں سے لڑی جانے والی ان جنگوں میں لاکھوں ''غریب'' ہی مارے جا رہے ہیں۔
کیا ان سب عذابوں سے چھٹکارا اس طرح ممکن نہیں کہ مذہب کو اس اصول کے تابع کر دیا جائے کہ ''اپنے مذہب کو چھوڑو نہیں، کسی دوسرے کے مذہب کو چھیڑو نہیں''۔ اس حقیقت کی بار بار نشان دہی کرنا پڑتی ہے کہ دنیا کے تمام انسانوں کا جد امجد آدمؑ ہے اور دنیا کے تمام انسان اسی کی اولاد ہیں۔ کیا اس تصور یا فلسفے کے فروغ سے دنیا جنگوں، نفرتوں، تعصبات اور طبقات سے نجات نہیں حاصل کر سکتی؟ کیا دنیا کے دانشور، مفکر اور فلسفی ان خطوط پر سوچ رہے ہیں؟