ایک تھا وارث میر
یہ جو واقعی بڑے لوگ ہوتے ہیں ان کے قصے کہانیاں کبھی ختم نہیں ہوتے
یہ جو واقعی بڑے لوگ ہوتے ہیں ان کے قصے کہانیاں کبھی ختم نہیں ہوتے۔ نسل در نسل حقیقی بڑے لوگوں کا ذکر جاری و ساری رہتا ہے، زمانے بیت جائیں، صدیاں گزر جائیں وہ زندہ، ان کی حکایات زندہ رہتی ہیں۔ ''بھلے شاہ، او سدا سی ای جیوندے، جناں کیتیا نیک کمائیاں نیں'' بھلے شاہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ سدا زندہ رہتے ہیں جنھوں نے زندگی میں نیکیاں کمائی ہوں۔
آج میں بھی ایک ایسے ہی انسان کا ذکر چھیڑ رہا ہوں جس نے بے شمار حوصلے کے ساتھ جابر حاکم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ بولا، سچ لکھا اور سچ ہی کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ یہ حق و صداقت کا پیکر وارث میر تھا۔ وارث میر کو بڑا ہی کٹھن وقت دیکھنے کو ملا۔ یہ ایک آمر کا دور حکومت تھا، جنرل ضیا الحق، جس نے فوجی طاقت کا سہارا لے کر پاکستان میں مارشل لاء نافذ کردیا۔ نوے دن میں انتخابات کروا کے اقتدار اکثریتی سیاسی جماعت کے حوالے کرنے کا قوم سے وعدہ کیا اور پھر جھوٹ، مکر، فریب کے ذریعے گیارہ سال سے زیادہ حکومت کرکے اس وقت اقتدار چھوڑا کہ جب وہ غاصب اعلیٰ ہوائی جہاز کے حادثے میں بہت بری طرح مارا گیا۔ جنرل ضیا الحق کے جلے کٹے اعضا زمین پر بکھرے پڑے تھے، یہ انجام تھا۔
وارث میر صحافی تھے اور پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے سربراہ کی ذمے داریاں نبھا رہے تھے۔ وہ طلبا کو صحافت پڑھاتے ہوئے تاریخ انسانی کے حوالوں سے اپنے لیکچر کو اس طرح سمیٹتے کہ کلاس روم میں بیٹھے طلبا و طالبات میر صاحب کے ساتھ تاریخ کے سفر پر رواں دواں محو نظر آتے۔ وارث میر اپنے شاگردوں میں بہت مقبول و ہر دل عزیز تھے۔ علم سے انھیں عشق تھا اور وہ ''علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب'' کی مجسم تصویر تھے۔
میں نے بہت سے نامور اور اعلیٰ مقام علما حضرات کو دیکھا ہے کہ وہ ہر دور کے حکمرانوں کے سامنے اپنے ہونٹ سیے رہے، اپنی زبان کو بند رکھا اور اگر یہ دونوں اعضا استعمال میں لائے گئے تو کاسہ لیسی اور چاپلوسی ان کا مقصد رہا۔ میں ان علما کے نام نہیں لکھوںگا، تاریخ میں سب کچھ لکھا ہوا ہے۔
وارث میر کھلے ذہن و دل کے مالک تھے، ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ قرآن و سنت کے مطابق وہ حضور نبی آخرالزماںؐ کا لایا ہوا انقلاب چاہتے تھے۔ اقبالؒ، کارل مارکس اور لینن کو بھی پڑھ رکھا تھا، وہ اپنے ملک کے لوگوں کو مسائل سے نکالنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ ہر فکر اور علم سے فائدہ اٹھانے کے قائل تھے۔ سابقہ ظالم و جابر حکمرانوں کی طرح جنرل ضیا الحق نے بھی وہی ظلم و جبر کے حربے استعمال کیے اور سابقہ روایات کے عین مطابق سارے علما اور مجاور حضرات جنرل ضیا کے ساتھ تھے۔ جو علمائے حق جنرل کے ساتھ نہیں تھے وہ یہی چند تھے۔ علامہ شاہ احمد نورانی، علامہ احسان الٰہی ظہیر، علامہ عارف الحسینی، مولانا حنیف ندوی اور مولانا فضل الرحمن بھی جنرل کے خلاف تھے۔
ایک ایسا لمحہ بھی آیا جب وارث میر نے یہ سمجھ لیا کہ اب جنرل ضیا کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کا وقت آچکا ہے، جنرل ضیا نے پاکستان کو امریکی سازشوں کا گڑھ بنادیا تھا اور جنرل ضیا اسلام کا نام لے کر سارے مکروہ کام کررہا تھا۔ جنرل ضیا 9 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے شریعت بل منظور کرانا چاہتا تھا، جنرل کے شریعت بل اور حقیقی شریعت میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ شریعت بل کے ذریعے جہاں اور بہت کچھ غصب ہوجاتا وہاں عدلیہ کے اختیارات غصب کرنے کا منصوبہ بھی بن چکا تھا۔
وارث میر نے جنرل ضیا کے شریعت بل کی قرآن و سنت و حدیث کے ذریعے مخالفت شروع کی تو جنرل ضیا نے پروفیسر وارث میر کو گورنر ہاؤس لاہور میں بلایا اور انھیں ترقی دینے کا لالچ دیتے ہوئے کہاکہ آپ میری مخالفت چھوڑ دیں، حکومت آپ کو بہت کچھ دینے کے لیے تیار ہے۔ مگر جواب میں پروفیسر وارث میر نے انکار کردیا۔ تب جنرل ضیا نے کہا ''میں یہ ہرگز برداشت نہیں کرسکتا کہ سرکار کا تنخواہ دار سرکار کی مخالفت کرے'' اور پھر وارث میر نے سرکار کی نوکری کو لات مار کر اپنے قلم کی کاٹ میں کہیں زیادہ اضافہ کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا۔ پروفیسر وارث میر کے حکومت مخالف مضامین تواتر سے آتے رہے اور دائیں بائیں بازو کے اہل فکر و نظر نے بھی ان کی تائید شروع کردی۔
یہی چند نام رفیع اﷲ شہاب، محمود مرزا، حسین نقی، احمد بشیر، ڈاکٹر یوسف گورایہ، اعتزاز احسن، عاصمہ جہانگیر، عابد حسن منٹو، سید افضل حیدر، ملک قاسم اور نثار عثمانی ودیگر چند اور۔ باقی تمام اہل فکر و نظر حسب توفیق و روایت جنرل ضیا کے ساتھ تھے۔ اس وقت مجھے ایک نہایت فکر انگیز واقعہ یاد آگیا ہے۔ جون ایلیا سے ان کے ایک دوست نے پوچھا ''بھائی جون! اگر واقعہ کربلا آج ہورہا ہوتا تو ہمارے علما، مولوی، ذاکرین کس کے ساتھ ہوتے؟'' تو جون ایلیا نے جواب دیا ''یہ سب یزید کے لشکر میں ہوتے''۔
تو جناب بالکل اسی طرح سے جنرل ضیا الحق کی مجلس شوریٰ میں تمام علما، مشائخ، مولوی، ذاکرین شامل تھے اور جنرل ضیا اسلام کو بدنام کر رہا تھا۔ حتیٰ کہ ایک ریفرنڈم بھی کروادیا جس کا عنوان تھا ''اگر آپ اسلامی نظام چاہتے ہیں تو میں آیندہ پانچ سال کے لیے صدر پاکستان منتخب سمجھا جاؤں گا'' پوری دنیا میں ہماری بدنامی ہوئی اور پاکستان کے نام پر تاریخ میں ایک اور بدنما دھبا ثبت ہوکر رہ گیا۔ پاکستان کے عوام نے اس ریفرنڈم کو یکسر مسترد کردیا تھا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ایک اور سیاسی و مذہبی جماعت نے قدم بہ قدم جنرل ضیا الحق کا ساتھ دیا، اس کی حکومت میں شامل رہے۔
یہ بہت بڑا واقعہ تھا کہ دائیں بازو کے خیالات رکھنے والے پروفیسر وارث میر نے جنرل ضیا کے غیر آئینی، غیر جمہوری و غیر اسلامی اقدامات کو اپنی مدلل تحریروں کے ذریعے کلمہ حق کو بلند کیا اور سچ کی راہوں پر چلتے ہوئے اپنے جیسے آنے والوں کے لیے فاصلے مختصر کردیے۔
اردو، فارسی، پنجابی کے شاعر میر عبدالعزیز کے بیٹے وارث میر 22 نومبر 1938 کے دن سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور پاکستان بچانے کی جنگ لڑتے لڑتے 9 جولائی 1987 کے دن لاہور میں ایک طویل سفر پر روانہ ہوگئے۔ دنیا چھوڑتے وقت وارث میر محض 48 سال کے تھے۔ حبیب جالب عقیدت کے پھول لیے حاضر:
حق پرست و صاحبِ کردار وارث میر تھا
آمروں سے برسرِ پیکار وارث میر تھا
اس کی تحریروں کے رہتے تھے سبھی منتظر
سچ تو یہ ہے حاصل اخبار وارث میر تھا
وقت تھا اس کا قلم، انسانیت کے واسطے
اہل غم کا مونس و غم خوار، وارث میر تھا
فکر اس کی اصل میں ملائیت کی تھی شکست
ذی نگاہ و واقفِ اسرار، وارث میر تھا
لفظ اس کا تیر تھا، باطل کے سینے کے لیے
اہل حق کا قافلہ سالار، وارث میر تھا
ظلم سہتا تھا، نہیں کہتا تھا ظلمت کو ضیا
آنسوؤں کو پی کے نغمہ بار، وارث میر تھا
دوست تھا وہ بے مثال اور آدمی تھا بے نظیر
سر بسر جالبؔ، محبت پیار، وارث میر تھا
(یہ نظم وارث میر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام لاہور میں 9 جولائی 1988 کو وارث میر کی پہلی برسی پر منعقدہ تقریب میں حبیب جالب نے پڑھی)
آج میں بھی ایک ایسے ہی انسان کا ذکر چھیڑ رہا ہوں جس نے بے شمار حوصلے کے ساتھ جابر حاکم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ بولا، سچ لکھا اور سچ ہی کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ یہ حق و صداقت کا پیکر وارث میر تھا۔ وارث میر کو بڑا ہی کٹھن وقت دیکھنے کو ملا۔ یہ ایک آمر کا دور حکومت تھا، جنرل ضیا الحق، جس نے فوجی طاقت کا سہارا لے کر پاکستان میں مارشل لاء نافذ کردیا۔ نوے دن میں انتخابات کروا کے اقتدار اکثریتی سیاسی جماعت کے حوالے کرنے کا قوم سے وعدہ کیا اور پھر جھوٹ، مکر، فریب کے ذریعے گیارہ سال سے زیادہ حکومت کرکے اس وقت اقتدار چھوڑا کہ جب وہ غاصب اعلیٰ ہوائی جہاز کے حادثے میں بہت بری طرح مارا گیا۔ جنرل ضیا الحق کے جلے کٹے اعضا زمین پر بکھرے پڑے تھے، یہ انجام تھا۔
وارث میر صحافی تھے اور پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے سربراہ کی ذمے داریاں نبھا رہے تھے۔ وہ طلبا کو صحافت پڑھاتے ہوئے تاریخ انسانی کے حوالوں سے اپنے لیکچر کو اس طرح سمیٹتے کہ کلاس روم میں بیٹھے طلبا و طالبات میر صاحب کے ساتھ تاریخ کے سفر پر رواں دواں محو نظر آتے۔ وارث میر اپنے شاگردوں میں بہت مقبول و ہر دل عزیز تھے۔ علم سے انھیں عشق تھا اور وہ ''علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب'' کی مجسم تصویر تھے۔
میں نے بہت سے نامور اور اعلیٰ مقام علما حضرات کو دیکھا ہے کہ وہ ہر دور کے حکمرانوں کے سامنے اپنے ہونٹ سیے رہے، اپنی زبان کو بند رکھا اور اگر یہ دونوں اعضا استعمال میں لائے گئے تو کاسہ لیسی اور چاپلوسی ان کا مقصد رہا۔ میں ان علما کے نام نہیں لکھوںگا، تاریخ میں سب کچھ لکھا ہوا ہے۔
وارث میر کھلے ذہن و دل کے مالک تھے، ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ قرآن و سنت کے مطابق وہ حضور نبی آخرالزماںؐ کا لایا ہوا انقلاب چاہتے تھے۔ اقبالؒ، کارل مارکس اور لینن کو بھی پڑھ رکھا تھا، وہ اپنے ملک کے لوگوں کو مسائل سے نکالنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ ہر فکر اور علم سے فائدہ اٹھانے کے قائل تھے۔ سابقہ ظالم و جابر حکمرانوں کی طرح جنرل ضیا الحق نے بھی وہی ظلم و جبر کے حربے استعمال کیے اور سابقہ روایات کے عین مطابق سارے علما اور مجاور حضرات جنرل ضیا کے ساتھ تھے۔ جو علمائے حق جنرل کے ساتھ نہیں تھے وہ یہی چند تھے۔ علامہ شاہ احمد نورانی، علامہ احسان الٰہی ظہیر، علامہ عارف الحسینی، مولانا حنیف ندوی اور مولانا فضل الرحمن بھی جنرل کے خلاف تھے۔
ایک ایسا لمحہ بھی آیا جب وارث میر نے یہ سمجھ لیا کہ اب جنرل ضیا کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کا وقت آچکا ہے، جنرل ضیا نے پاکستان کو امریکی سازشوں کا گڑھ بنادیا تھا اور جنرل ضیا اسلام کا نام لے کر سارے مکروہ کام کررہا تھا۔ جنرل ضیا 9 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے شریعت بل منظور کرانا چاہتا تھا، جنرل کے شریعت بل اور حقیقی شریعت میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ شریعت بل کے ذریعے جہاں اور بہت کچھ غصب ہوجاتا وہاں عدلیہ کے اختیارات غصب کرنے کا منصوبہ بھی بن چکا تھا۔
وارث میر نے جنرل ضیا کے شریعت بل کی قرآن و سنت و حدیث کے ذریعے مخالفت شروع کی تو جنرل ضیا نے پروفیسر وارث میر کو گورنر ہاؤس لاہور میں بلایا اور انھیں ترقی دینے کا لالچ دیتے ہوئے کہاکہ آپ میری مخالفت چھوڑ دیں، حکومت آپ کو بہت کچھ دینے کے لیے تیار ہے۔ مگر جواب میں پروفیسر وارث میر نے انکار کردیا۔ تب جنرل ضیا نے کہا ''میں یہ ہرگز برداشت نہیں کرسکتا کہ سرکار کا تنخواہ دار سرکار کی مخالفت کرے'' اور پھر وارث میر نے سرکار کی نوکری کو لات مار کر اپنے قلم کی کاٹ میں کہیں زیادہ اضافہ کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا۔ پروفیسر وارث میر کے حکومت مخالف مضامین تواتر سے آتے رہے اور دائیں بائیں بازو کے اہل فکر و نظر نے بھی ان کی تائید شروع کردی۔
یہی چند نام رفیع اﷲ شہاب، محمود مرزا، حسین نقی، احمد بشیر، ڈاکٹر یوسف گورایہ، اعتزاز احسن، عاصمہ جہانگیر، عابد حسن منٹو، سید افضل حیدر، ملک قاسم اور نثار عثمانی ودیگر چند اور۔ باقی تمام اہل فکر و نظر حسب توفیق و روایت جنرل ضیا کے ساتھ تھے۔ اس وقت مجھے ایک نہایت فکر انگیز واقعہ یاد آگیا ہے۔ جون ایلیا سے ان کے ایک دوست نے پوچھا ''بھائی جون! اگر واقعہ کربلا آج ہورہا ہوتا تو ہمارے علما، مولوی، ذاکرین کس کے ساتھ ہوتے؟'' تو جون ایلیا نے جواب دیا ''یہ سب یزید کے لشکر میں ہوتے''۔
تو جناب بالکل اسی طرح سے جنرل ضیا الحق کی مجلس شوریٰ میں تمام علما، مشائخ، مولوی، ذاکرین شامل تھے اور جنرل ضیا اسلام کو بدنام کر رہا تھا۔ حتیٰ کہ ایک ریفرنڈم بھی کروادیا جس کا عنوان تھا ''اگر آپ اسلامی نظام چاہتے ہیں تو میں آیندہ پانچ سال کے لیے صدر پاکستان منتخب سمجھا جاؤں گا'' پوری دنیا میں ہماری بدنامی ہوئی اور پاکستان کے نام پر تاریخ میں ایک اور بدنما دھبا ثبت ہوکر رہ گیا۔ پاکستان کے عوام نے اس ریفرنڈم کو یکسر مسترد کردیا تھا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ایک اور سیاسی و مذہبی جماعت نے قدم بہ قدم جنرل ضیا الحق کا ساتھ دیا، اس کی حکومت میں شامل رہے۔
یہ بہت بڑا واقعہ تھا کہ دائیں بازو کے خیالات رکھنے والے پروفیسر وارث میر نے جنرل ضیا کے غیر آئینی، غیر جمہوری و غیر اسلامی اقدامات کو اپنی مدلل تحریروں کے ذریعے کلمہ حق کو بلند کیا اور سچ کی راہوں پر چلتے ہوئے اپنے جیسے آنے والوں کے لیے فاصلے مختصر کردیے۔
اردو، فارسی، پنجابی کے شاعر میر عبدالعزیز کے بیٹے وارث میر 22 نومبر 1938 کے دن سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور پاکستان بچانے کی جنگ لڑتے لڑتے 9 جولائی 1987 کے دن لاہور میں ایک طویل سفر پر روانہ ہوگئے۔ دنیا چھوڑتے وقت وارث میر محض 48 سال کے تھے۔ حبیب جالب عقیدت کے پھول لیے حاضر:
حق پرست و صاحبِ کردار وارث میر تھا
آمروں سے برسرِ پیکار وارث میر تھا
اس کی تحریروں کے رہتے تھے سبھی منتظر
سچ تو یہ ہے حاصل اخبار وارث میر تھا
وقت تھا اس کا قلم، انسانیت کے واسطے
اہل غم کا مونس و غم خوار، وارث میر تھا
فکر اس کی اصل میں ملائیت کی تھی شکست
ذی نگاہ و واقفِ اسرار، وارث میر تھا
لفظ اس کا تیر تھا، باطل کے سینے کے لیے
اہل حق کا قافلہ سالار، وارث میر تھا
ظلم سہتا تھا، نہیں کہتا تھا ظلمت کو ضیا
آنسوؤں کو پی کے نغمہ بار، وارث میر تھا
دوست تھا وہ بے مثال اور آدمی تھا بے نظیر
سر بسر جالبؔ، محبت پیار، وارث میر تھا
(یہ نظم وارث میر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام لاہور میں 9 جولائی 1988 کو وارث میر کی پہلی برسی پر منعقدہ تقریب میں حبیب جالب نے پڑھی)