اولڈ ایج ہومز کے مہمان اوربدبخت اولاد
پروگرام میں اگر کچھ نہ تھا وہ سر درد کرنے والے اشتہار تھے ممکن ہے
FAISALABAD:
ٹی وی چینلز کے شور و غل میں عید الفطر بھی گذر گئی ،عجیب و غریب رپورٹیں اور جو ہے جو ہے کی رٹ نے دماغ ماؤف کر کے رکھ دیا، ایسے میں کسی اچھے پروگرام کی سرچ میں سرکاری چینل دیکھنے کا موقع ملا ، اس پر عید کا خصوصی پروگرام اس لحاظ سے منفرد تھا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے راہ نما ایک دوسرے کی تعریفیںکرتے اور ملک و قوم کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کا عزم کرتے دکھائی دیے۔گورنر خیبر پختون خوا اقبال ظفر جھگڑا اور سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ دلچسپ واقعات سنا رہے تھے، موسیقی بھی تھی اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں کے لواحقین سے گفتگو نے وطن عزیز کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے کے جذبے کو مزید تقویت دی۔
پروگرام میں اگر کچھ نہ تھا وہ سر درد کرنے والے اشتہار تھے ممکن ہے کہ دوبارہ ٹیلی کاسٹ کرنے کی وجہ سے اشتہارات نہ ہوں اور پھر ماہانہ بجلی کے بل میں ہر پاکستانی پینتیس روپے ادا کر ہی دیتا ہے دل چاہے نہ چاہے رقم سرکار کے کھاتے میں چلی جاتی ہے۔جب انٹینا تھا تب مجبوری تھی کہ ہر کوئی ایک ہی چینل دیکھتا تھا ، جب کیبل کا زمانہ آیا تو نیوز چینلز اپنی " بریکنگ نیوز" کی وجہ سے مجبوری بن گئے، تاہم پروگرام ختم ہوا تو اچانک خاتون کمپئر نمودار ہوئیں، یہ سدرہ عاصم تھیں جو ایک ایسی جگہ کھڑی تھیں کہ سرچنگ کرتی انگلیاں چینل بدل نہ سکیں۔ اولڈ ایج ہومز لاہور کے مناظرتو بھلے البتہ وہاں مقیم بزرگ شہریوں کی گفت گو دل دہلا دینے والی تھی۔ کئی بزرگ والدین جنھیں ان کے اپنے خود سے دور کسی اور کے حوالے کر گئے تھے، ماضی کی یادوں کے سہارے مستقبل کے چند دن گذارنے کی جستجو میں محو دکھائی دیے۔
ستر سالہ بزرگ فرما رہے تھے کہ انھوں نے بڑی چاہ سے اپنی اولاد کی تربیت کی، بیٹیوں کی شادیاں کیں اور پھر ہر عید سے پہلے ٹرین کی چھت پر سفر کرتے ہوئے بیٹی کے سسرال آتے اور انھیں عیدی دیا کرتے کہ بیٹی کو سسرال والے کوئی طعنہ نہ دیں۔بیٹوں کی خوشیوں کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ، پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں اور 29 نواسے نواسیاں ہیں ،خواہش تھی کہ بیٹے پڑھ لکھ کر کچھ بنیں ،وہ سب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو گئے گھر بار کے مالک بن گئے ،مگر اپنے باپ کو اولڈ ایج ہومز چھوڑ گئے ہیں ،وہ اپنی اولاد کو برا بھلا تو کہہ سکتے ہیں لیکن بد دعا نہیں دیں گے کہ کہیں انھیں بد دعا لگ نہ جائے،اللہ اکبر!
کاش ان بزرگ کی آنکھوں سے امڈتے آنسو بد بخت اولادکی خوشیاں چھین لیتے!
دوسرے صاحب بولے کہ انھوں نے تیس سال بیرون ملک گذارے اپنی اولاد کی خوشیوں کے لیے اپنی خوشیاں قربان کر دیں،انھیں بہترین انگریزی اسکولوں میں تعلیم دلوائی ،اچھا کھلایا ، اچھا پہنایا پھرجب عمر ڈھلی تو اولاد انھیں اپنی خوشیوں کا کانٹا سمجھنے لگی کوئی انھیں اپنے پاس رکھنے کو تیار نہ ہوا اور منزل اولڈ ایج ہومز ٹھری!
ایک بزرگ خاتون کہنے لگیں کہ شوہر کا انتقال ہو گیا ۔بچوں نے جائیداد ان کے نام کرنے کا مطالبہ کیا انکار کرنے پر گھر سے نکال دیا!خاتون نے چند اشعار بھی پڑھے اور دیکھنے والوں پر عجیب کیفیت طاری کر دی۔ایک اور والد سے گفت گو کے دوران اینکر توقع کر رہی تھیں کہ شاید وہ بدبخت اولاد کو بد دعا دیدے لیکن اس نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ توبہ کے دروازے اب بھی کھلے ہیں کاش وہ سمجھ جائیں۔عید کے موقع پر اولڈ ایج ہومز میں مقیم سبھی اپنے پیاروں کے منتظر تھے یہ تو پتہ نہیں چل پایا کہ کوئی آیا یا نہیں مگر اس پروگرام سے مدر ڈے اور فادر ڈے منانے والوں کی حقیقت ضرور آشکارا کر دی۔ایک طرف یہ دن منا کر یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے کہ اس دن والدین کو یاد رکھا جائے لیکن یہ دن منانے والے بھول گئے ہیں کہ ہمیں اپنے والدین کے لیے سال میں ایک دن نہیں بلکہ سال کے 365 دن منانے ہیں۔
ہم اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے والدین کے بناء پروان ہی نہیں چڑھ سکتا اور ہر نسل کی کامیابیاں اس کی پہلی نسل سے مشروط ہوتی ہیں اور جب تک اپنی روایات و اقدار کو زندہ رکھنے والے موجود ہیں یہ سلسلہ جاری رہے گا۔اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑی واضح ہدایات دی ہیں۔رب کائنات نے والدین کے حقوق کی ادائیگی کے لیے احسان کا لفظ استعمال کیا ہے فرمایا" اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو"جب اللہ نے حکم فرما دیا تو پیغمبردوجہاں نے بھی والدین کے لیے ادب و احترام اور ان کے ساتھ اچھے برتاؤ اور ان کی خدمت کی تاکید فرما دی اور سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق ماں کو قرار دیا۔
والدین کے لیے جو زندہ ہیں سات حقوق کثرت سے بیان کیے گئے ہیںدل و جان سے ان کی عزت و احترام کرنا ،حسن سلوک اور محبت و الفت کا معاملہ کرنا،شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کی اطاعت کرنا،ان کے احسانات اور کاوشوں کی قدر کرنا،ان کی ضروریات کو پورا کر کے انھیں راحت پہنچانا،ان کی شادابی اور لمبی عمر کے لیے دعا کرنا اور کثرت سے ان کی زیارت کرنا۔کسی نے درست ہی کہا کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں شریعت کی بات کرنے والے یہ بھول گئے ہیں کہ والدین کے جو حقوق شریعت نے متعین کیے ہیں سرمائے کی بنیاد پر قائم خود غرض معاشرے کے افراد اس کا عشر عشیر بھی فراہم نہ کر سکے ۔
مجھے وہ ایک مختصر سی نظم یاد آ گئی جس کا عنوان تھا مجھے ڈر لگتا ہے...کل رات بستر پہ مجھے...اک آہٹ نے چونکا دیا...اک نرم ہوا کا جھونکا،میری پیشانی کو چھو گیا...آنکھ کھلی تو ماں کو دیکھا...کچھ ہلتے لب، کچھ پڑھتے لب...میں دھیرے سے
مسکرا دیا...ماں آج بھی راتوں کو اٹھ کر... میری پیشانی کو چومتی ہے...اور اپنے حصے کی سب دعائیں مجھ پر پھونکتی ہے... بس اتنا یاد ہے مجھے... اک عرصے پہلے بچپن میں،بس اک بار کہا تھا... ماں مجھے ڈر لگتا ہے!!!!
شکریہ سدرہ عاصم اور مریم شاہ کہ آپ نے انسانیت کو جھنجوڑنے کی قابل قدر کاوش کی۔
ٹی وی چینلز کے شور و غل میں عید الفطر بھی گذر گئی ،عجیب و غریب رپورٹیں اور جو ہے جو ہے کی رٹ نے دماغ ماؤف کر کے رکھ دیا، ایسے میں کسی اچھے پروگرام کی سرچ میں سرکاری چینل دیکھنے کا موقع ملا ، اس پر عید کا خصوصی پروگرام اس لحاظ سے منفرد تھا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے راہ نما ایک دوسرے کی تعریفیںکرتے اور ملک و قوم کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کا عزم کرتے دکھائی دیے۔گورنر خیبر پختون خوا اقبال ظفر جھگڑا اور سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ دلچسپ واقعات سنا رہے تھے، موسیقی بھی تھی اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والوں کے لواحقین سے گفتگو نے وطن عزیز کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے کے جذبے کو مزید تقویت دی۔
پروگرام میں اگر کچھ نہ تھا وہ سر درد کرنے والے اشتہار تھے ممکن ہے کہ دوبارہ ٹیلی کاسٹ کرنے کی وجہ سے اشتہارات نہ ہوں اور پھر ماہانہ بجلی کے بل میں ہر پاکستانی پینتیس روپے ادا کر ہی دیتا ہے دل چاہے نہ چاہے رقم سرکار کے کھاتے میں چلی جاتی ہے۔جب انٹینا تھا تب مجبوری تھی کہ ہر کوئی ایک ہی چینل دیکھتا تھا ، جب کیبل کا زمانہ آیا تو نیوز چینلز اپنی " بریکنگ نیوز" کی وجہ سے مجبوری بن گئے، تاہم پروگرام ختم ہوا تو اچانک خاتون کمپئر نمودار ہوئیں، یہ سدرہ عاصم تھیں جو ایک ایسی جگہ کھڑی تھیں کہ سرچنگ کرتی انگلیاں چینل بدل نہ سکیں۔ اولڈ ایج ہومز لاہور کے مناظرتو بھلے البتہ وہاں مقیم بزرگ شہریوں کی گفت گو دل دہلا دینے والی تھی۔ کئی بزرگ والدین جنھیں ان کے اپنے خود سے دور کسی اور کے حوالے کر گئے تھے، ماضی کی یادوں کے سہارے مستقبل کے چند دن گذارنے کی جستجو میں محو دکھائی دیے۔
ستر سالہ بزرگ فرما رہے تھے کہ انھوں نے بڑی چاہ سے اپنی اولاد کی تربیت کی، بیٹیوں کی شادیاں کیں اور پھر ہر عید سے پہلے ٹرین کی چھت پر سفر کرتے ہوئے بیٹی کے سسرال آتے اور انھیں عیدی دیا کرتے کہ بیٹی کو سسرال والے کوئی طعنہ نہ دیں۔بیٹوں کی خوشیوں کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ، پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں اور 29 نواسے نواسیاں ہیں ،خواہش تھی کہ بیٹے پڑھ لکھ کر کچھ بنیں ،وہ سب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو گئے گھر بار کے مالک بن گئے ،مگر اپنے باپ کو اولڈ ایج ہومز چھوڑ گئے ہیں ،وہ اپنی اولاد کو برا بھلا تو کہہ سکتے ہیں لیکن بد دعا نہیں دیں گے کہ کہیں انھیں بد دعا لگ نہ جائے،اللہ اکبر!
کاش ان بزرگ کی آنکھوں سے امڈتے آنسو بد بخت اولادکی خوشیاں چھین لیتے!
دوسرے صاحب بولے کہ انھوں نے تیس سال بیرون ملک گذارے اپنی اولاد کی خوشیوں کے لیے اپنی خوشیاں قربان کر دیں،انھیں بہترین انگریزی اسکولوں میں تعلیم دلوائی ،اچھا کھلایا ، اچھا پہنایا پھرجب عمر ڈھلی تو اولاد انھیں اپنی خوشیوں کا کانٹا سمجھنے لگی کوئی انھیں اپنے پاس رکھنے کو تیار نہ ہوا اور منزل اولڈ ایج ہومز ٹھری!
ایک بزرگ خاتون کہنے لگیں کہ شوہر کا انتقال ہو گیا ۔بچوں نے جائیداد ان کے نام کرنے کا مطالبہ کیا انکار کرنے پر گھر سے نکال دیا!خاتون نے چند اشعار بھی پڑھے اور دیکھنے والوں پر عجیب کیفیت طاری کر دی۔ایک اور والد سے گفت گو کے دوران اینکر توقع کر رہی تھیں کہ شاید وہ بدبخت اولاد کو بد دعا دیدے لیکن اس نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ توبہ کے دروازے اب بھی کھلے ہیں کاش وہ سمجھ جائیں۔عید کے موقع پر اولڈ ایج ہومز میں مقیم سبھی اپنے پیاروں کے منتظر تھے یہ تو پتہ نہیں چل پایا کہ کوئی آیا یا نہیں مگر اس پروگرام سے مدر ڈے اور فادر ڈے منانے والوں کی حقیقت ضرور آشکارا کر دی۔ایک طرف یہ دن منا کر یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے کہ اس دن والدین کو یاد رکھا جائے لیکن یہ دن منانے والے بھول گئے ہیں کہ ہمیں اپنے والدین کے لیے سال میں ایک دن نہیں بلکہ سال کے 365 دن منانے ہیں۔
ہم اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے والدین کے بناء پروان ہی نہیں چڑھ سکتا اور ہر نسل کی کامیابیاں اس کی پہلی نسل سے مشروط ہوتی ہیں اور جب تک اپنی روایات و اقدار کو زندہ رکھنے والے موجود ہیں یہ سلسلہ جاری رہے گا۔اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑی واضح ہدایات دی ہیں۔رب کائنات نے والدین کے حقوق کی ادائیگی کے لیے احسان کا لفظ استعمال کیا ہے فرمایا" اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو"جب اللہ نے حکم فرما دیا تو پیغمبردوجہاں نے بھی والدین کے لیے ادب و احترام اور ان کے ساتھ اچھے برتاؤ اور ان کی خدمت کی تاکید فرما دی اور سب سے زیادہ حسن سلوک کا مستحق ماں کو قرار دیا۔
والدین کے لیے جو زندہ ہیں سات حقوق کثرت سے بیان کیے گئے ہیںدل و جان سے ان کی عزت و احترام کرنا ،حسن سلوک اور محبت و الفت کا معاملہ کرنا،شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان کی اطاعت کرنا،ان کے احسانات اور کاوشوں کی قدر کرنا،ان کی ضروریات کو پورا کر کے انھیں راحت پہنچانا،ان کی شادابی اور لمبی عمر کے لیے دعا کرنا اور کثرت سے ان کی زیارت کرنا۔کسی نے درست ہی کہا کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں شریعت کی بات کرنے والے یہ بھول گئے ہیں کہ والدین کے جو حقوق شریعت نے متعین کیے ہیں سرمائے کی بنیاد پر قائم خود غرض معاشرے کے افراد اس کا عشر عشیر بھی فراہم نہ کر سکے ۔
مجھے وہ ایک مختصر سی نظم یاد آ گئی جس کا عنوان تھا مجھے ڈر لگتا ہے...کل رات بستر پہ مجھے...اک آہٹ نے چونکا دیا...اک نرم ہوا کا جھونکا،میری پیشانی کو چھو گیا...آنکھ کھلی تو ماں کو دیکھا...کچھ ہلتے لب، کچھ پڑھتے لب...میں دھیرے سے
مسکرا دیا...ماں آج بھی راتوں کو اٹھ کر... میری پیشانی کو چومتی ہے...اور اپنے حصے کی سب دعائیں مجھ پر پھونکتی ہے... بس اتنا یاد ہے مجھے... اک عرصے پہلے بچپن میں،بس اک بار کہا تھا... ماں مجھے ڈر لگتا ہے!!!!
شکریہ سدرہ عاصم اور مریم شاہ کہ آپ نے انسانیت کو جھنجوڑنے کی قابل قدر کاوش کی۔