قتل آخر کب تک
یہ ایک ایسی شخصیت کے تجربے کا نچوڑ تھا جس نے عملی طور پر یہ سیکھا تھا
دنیا کا مشہور فاتح تیمور لنگ جس نے اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ جنگ و جدل میں گزارا، اکثر کہا کرتا تھا ''دشمن کے طاقت پکڑنے سے پہلے ہی اس پر حملہ کرکے اس کی گردن توڑ دینی چاہیے، جتنی فوج کا انتظام ہوسکتا ہے اس سے زائد ایک بھی آدمی نہ لے جانا چاہیے۔''
یہ ایک ایسی شخصیت کے تجربے کا نچوڑ تھا جس نے عملی طور پر یہ سیکھا تھا، وہ زمانہ آج کل کے زمانے کے مقابلے میں دشوار تھا، آج کا زمانہ سہل ضرور نظر آتا ہے لیکن یہ اتنا ہی خطرناک بھی ہے، ایسے ایسے ہتھیار سامنے آگئے ہیں جو دور سے نشانہ تاک کر لگانے میں بھی انسان کا کام تمام کردیتے ہیں۔ عقل و شعور کے معاملے میں دوسرے ممالک کے بارے میں تو کہا نہیں جاسکتا البتہ ہمارے ملک میں ترقی ہوئی ہے یا نہیں اس بات میں ذرا بھی پختگی نہیں یا پھر مفادات کی چادر میں بہت کچھ چھپا دیا جاتا ہے۔
اس بارے میں بھی قیاس آرائی کرنا فضول ہے۔ لیکن تیمور لنگ کے فوج کے تجربے کو اگر ہم اپنی پولیس فورس سے مقابلہ کرکے دیکھتے ہیں تو یہاں اس معاملے میں خیر ہی خیر ہے۔ ہمارے ہاں ایسے ایسے مانیٹر نما پولیس والے آج بھی نظر آتے ہیں کہ جن کے پاس سونٹی بھی نظر نہیں آتی، بغیر ہتھیار صرف وردی کے ساتھ ڈیوٹیاں نبھانے والے لوگ اس میں ہی مست ہیں جو ضرورت پڑنے پر اور کچھ نہیں تو اپنی جان تو نذر کرسکتے ہیں۔
امجد صابری کے قتل کے سلسلے میں ایک بات وضاحت کے ساتھ ثابت ہوگئی کہ جرم کرنے والے آسانی سے جسے شکار کرنا چاہتے ہیں کرتے ہیں، ان کے لیے اگر مگر نہیں ہے، ان کے لیے امجد صابری کی موت یقینی تھی تو انھوں نے اسے یقینی بنانے کے لیے اپنا آخری حربہ تک استعمال کرلیا۔ شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ امجد صابری کا قتل ملک بھر میں اور ملک سے باہر بھی اس قدر سنجیدگی اور غم و غصے کی لہر بن کر ابھرے گا لیکن اس قتل نے عوامی اور سیاسی دونوں طاقتوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ امجد صابری کی موت اوپر والے کی جانب سے رمضان المبارک میں لکھ دی گئی تھی، لیکن اس اندوہناک واقعے نے ایک سوالیہ نشان ہم سب کے لیے چھوڑ دیا۔ عوام کی جان کی کیا قیمت ہے؟ عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنے والی فورسز کی اپنی سیکیورٹی اور کارکردگی تسلی بخش ہے؟
بہترین پلاننگ اور اس پر جامع عمل کامیاب آپریشن کی دلیل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ابتدا سے ہی قانون نافذ کرنے والوں کی کارکردگی پر شک و شبہات اٹھتے رہے ہیں۔ اس شعبے کو جس قدر صاف شفاف اور پائیدار ہونا چاہیے تھا اس کے برخلاف عوام میں اس کے حوالے سے خوف و ڈر کی کیفیت ہے۔ عوام مجرموں سے بھی ڈرتے ہیں اور پولیس سے بھی۔ اب ایک قدم اور آگے رینجرز والے بھی اسی لائن میں آگئے ہیں۔ آج کا نوجوان ایک فوجی کے مقابلے میں پولیس اور رینجرز کے لیے کس قسم کے جذبات رکھتا ہے اس کا تجزیہ کرنا ضروری نہیں، لیکن اس کیفیت کے بارے میں سوچ کر ایک ٹینشن سوار ہوجاتی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے اور کب تک ہوتا رہے گا۔
رمضان میں ایک دن دوپہر کے وقت ایک اسکوٹر سوار ایک ہیلمٹ پہنے اسکوٹر سوار کے ساتھ ساتھ چلتا چلا آرہا ہے، ہیلمٹ والا لباس سے کسی دفتر میں کام کرنے والا لگ رہا ہے جب کہ دوسرا جوان جینز پہنے سر پر ٹوپی لگائے بظاہر شریف بچہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہیلمٹ والے نے اسکوٹر اپنے گھر کے سامنے روکی اور بغیر ہیلمٹ کے اسکوٹر سوار نے ذرا سی اپنی قمیص اونچی کرکے کچھ دکھایا اور ہیلمٹ سوار سے اس کا موبائل مانگا، ایک تکرار شروع ہوگئی، آوازیں بلند ہوئیں، پڑوسی متوجہ ہوئے، اچکے نے فرار ہونے میں عافیت چاہی اور یہ جا وہ جا۔ وہ اچکا اس قدر دلیر، اتنا تجربہ کار تھا کہ اس نے اپنا چہرہ بھی چھپانے کی کوشش نہ کی۔
اس کے چہرے سے بہت سے لوگوں کو شناسائی ہوگئی، لیکن ان میں سے کون اتنا جی دار ہے جو اس اچکے کو دوبارہ کہیں دیکھ کر پولیس کو اطلاع کرے یا کسی طرح اسے پکڑوانے کی کوشش کرے۔ اس طرح کے کتنے واقعات دن دہاڑے ہمارے اردگرد ہوتے رہتے ہیں لیکن عوام اور قانون کی حفاظت کرنے والوں کے درمیان فاصلے خاردار جھاڑیوں سے اٹے ہوئے ہیں۔ عوام کی آسانی کے لیے 15 کی سہولت بھی میسر ہے، لیکن اس سہولت سے کتنے لوگ باخبر ہیں اور جو باخبر بھی ہیں کیا ان کے لیے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں جو وہ فوراً سائل کے پاس جا پہنچیں۔
ہماری ایک عزیزہ کے مطابق ان کے محلے میں نئی دلہن کے ہاتھ سے سونے کی چوڑیاں اسی طرح اسکوٹر سوار اچکوں نے اتروا لیں۔ موصوفہ نے جذباتی ہوکر 15 پر فون کیا اور یہ کارروائی سنائی، جن کے ساتھ یہ حادثہ رونما ہوا وہ بے چارے تو ڈر کر صبر کرکے بیٹھ گئے تھے لیکن 15 پر متعین صاحب نے فون کرنے والی خاتون کو قریبی تھانے جانے کا مشورہ دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ تھوڑی دیر بعد پولیس کی موبائل آئی ضرور اور پُرسہ دے کر چلی گئی۔ ہوسکتا ہے کہ چوڑیاں اتروانے والے کچے چور ہوں اور انھیں بروقت پکڑنے سے ان کے ارادے ڈھیر ہوجاتے، لیکن یہاں یہ سسٹم بے چارے عوام کے ساتھ ہے۔
پاکستان کی فوج کا شمار دنیا کی اعلیٰ افواج میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ عوام کا فوج پر اعتماد ہے۔ ہم دوسروں سے سبق سیکھنے کے بجائے اپنے ہی ملک کے دوسرے اداروں سے سبق کیوں نہیں لیتے، کیا ہماری پولیس فورس بھی دنیا کی اعلیٰ پولیس فورسز میں شمار نہیں کی جاسکتی؟ یہ بھی درست ہے کہ ہمارے ہاں آبادی کے لحاظ سے پولیس فورس کی شرح خاصی کم ہے لیکن کیا ہر دوسرا بندہ پولیس مین ہو، کیا یہ امن و امان قائم کرنے کے لیے درست ہے؟
اس کے لیے اداروں کی جانچ پڑتال اور ٹریننگ کے علاوہ تھانوں میں بھی چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے تاکہ عوام اور عوام کی حفاظت کرنے والوں کے درمیان خاردار جھاڑیاں نہ آئیں۔ عوام ان سے خوف زدہ ہونے کے بجائے ان سے تعاون کرنے میں خوشی محسوس کریں اور 15 پر متعین جوان مجبور ہوکر عوام کو متعلقہ تھانوں پر جانے کے مشورے دینے کے بجائے جائے حادثہ پر فورس بھیجیں۔ عوام کی حفاظت کے لیے جو ذمے داریاں ذمے داروں پر عائد ہوتی ہیں اگر ان سے پہلو بچانے کی کوشش کی جائے تو معمولی سی لرزش بھی گلے میں طوق بن کر اس دنیا میں اور رب العزت کی بارگاہ میں بھی مجرم بناسکتی ہے۔
یہ ایک ایسی شخصیت کے تجربے کا نچوڑ تھا جس نے عملی طور پر یہ سیکھا تھا، وہ زمانہ آج کل کے زمانے کے مقابلے میں دشوار تھا، آج کا زمانہ سہل ضرور نظر آتا ہے لیکن یہ اتنا ہی خطرناک بھی ہے، ایسے ایسے ہتھیار سامنے آگئے ہیں جو دور سے نشانہ تاک کر لگانے میں بھی انسان کا کام تمام کردیتے ہیں۔ عقل و شعور کے معاملے میں دوسرے ممالک کے بارے میں تو کہا نہیں جاسکتا البتہ ہمارے ملک میں ترقی ہوئی ہے یا نہیں اس بات میں ذرا بھی پختگی نہیں یا پھر مفادات کی چادر میں بہت کچھ چھپا دیا جاتا ہے۔
اس بارے میں بھی قیاس آرائی کرنا فضول ہے۔ لیکن تیمور لنگ کے فوج کے تجربے کو اگر ہم اپنی پولیس فورس سے مقابلہ کرکے دیکھتے ہیں تو یہاں اس معاملے میں خیر ہی خیر ہے۔ ہمارے ہاں ایسے ایسے مانیٹر نما پولیس والے آج بھی نظر آتے ہیں کہ جن کے پاس سونٹی بھی نظر نہیں آتی، بغیر ہتھیار صرف وردی کے ساتھ ڈیوٹیاں نبھانے والے لوگ اس میں ہی مست ہیں جو ضرورت پڑنے پر اور کچھ نہیں تو اپنی جان تو نذر کرسکتے ہیں۔
امجد صابری کے قتل کے سلسلے میں ایک بات وضاحت کے ساتھ ثابت ہوگئی کہ جرم کرنے والے آسانی سے جسے شکار کرنا چاہتے ہیں کرتے ہیں، ان کے لیے اگر مگر نہیں ہے، ان کے لیے امجد صابری کی موت یقینی تھی تو انھوں نے اسے یقینی بنانے کے لیے اپنا آخری حربہ تک استعمال کرلیا۔ شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ امجد صابری کا قتل ملک بھر میں اور ملک سے باہر بھی اس قدر سنجیدگی اور غم و غصے کی لہر بن کر ابھرے گا لیکن اس قتل نے عوامی اور سیاسی دونوں طاقتوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ امجد صابری کی موت اوپر والے کی جانب سے رمضان المبارک میں لکھ دی گئی تھی، لیکن اس اندوہناک واقعے نے ایک سوالیہ نشان ہم سب کے لیے چھوڑ دیا۔ عوام کی جان کی کیا قیمت ہے؟ عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنے والی فورسز کی اپنی سیکیورٹی اور کارکردگی تسلی بخش ہے؟
بہترین پلاننگ اور اس پر جامع عمل کامیاب آپریشن کی دلیل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ابتدا سے ہی قانون نافذ کرنے والوں کی کارکردگی پر شک و شبہات اٹھتے رہے ہیں۔ اس شعبے کو جس قدر صاف شفاف اور پائیدار ہونا چاہیے تھا اس کے برخلاف عوام میں اس کے حوالے سے خوف و ڈر کی کیفیت ہے۔ عوام مجرموں سے بھی ڈرتے ہیں اور پولیس سے بھی۔ اب ایک قدم اور آگے رینجرز والے بھی اسی لائن میں آگئے ہیں۔ آج کا نوجوان ایک فوجی کے مقابلے میں پولیس اور رینجرز کے لیے کس قسم کے جذبات رکھتا ہے اس کا تجزیہ کرنا ضروری نہیں، لیکن اس کیفیت کے بارے میں سوچ کر ایک ٹینشن سوار ہوجاتی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے اور کب تک ہوتا رہے گا۔
رمضان میں ایک دن دوپہر کے وقت ایک اسکوٹر سوار ایک ہیلمٹ پہنے اسکوٹر سوار کے ساتھ ساتھ چلتا چلا آرہا ہے، ہیلمٹ والا لباس سے کسی دفتر میں کام کرنے والا لگ رہا ہے جب کہ دوسرا جوان جینز پہنے سر پر ٹوپی لگائے بظاہر شریف بچہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہیلمٹ والے نے اسکوٹر اپنے گھر کے سامنے روکی اور بغیر ہیلمٹ کے اسکوٹر سوار نے ذرا سی اپنی قمیص اونچی کرکے کچھ دکھایا اور ہیلمٹ سوار سے اس کا موبائل مانگا، ایک تکرار شروع ہوگئی، آوازیں بلند ہوئیں، پڑوسی متوجہ ہوئے، اچکے نے فرار ہونے میں عافیت چاہی اور یہ جا وہ جا۔ وہ اچکا اس قدر دلیر، اتنا تجربہ کار تھا کہ اس نے اپنا چہرہ بھی چھپانے کی کوشش نہ کی۔
اس کے چہرے سے بہت سے لوگوں کو شناسائی ہوگئی، لیکن ان میں سے کون اتنا جی دار ہے جو اس اچکے کو دوبارہ کہیں دیکھ کر پولیس کو اطلاع کرے یا کسی طرح اسے پکڑوانے کی کوشش کرے۔ اس طرح کے کتنے واقعات دن دہاڑے ہمارے اردگرد ہوتے رہتے ہیں لیکن عوام اور قانون کی حفاظت کرنے والوں کے درمیان فاصلے خاردار جھاڑیوں سے اٹے ہوئے ہیں۔ عوام کی آسانی کے لیے 15 کی سہولت بھی میسر ہے، لیکن اس سہولت سے کتنے لوگ باخبر ہیں اور جو باخبر بھی ہیں کیا ان کے لیے ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس اتنے وسائل ہوتے ہیں جو وہ فوراً سائل کے پاس جا پہنچیں۔
ہماری ایک عزیزہ کے مطابق ان کے محلے میں نئی دلہن کے ہاتھ سے سونے کی چوڑیاں اسی طرح اسکوٹر سوار اچکوں نے اتروا لیں۔ موصوفہ نے جذباتی ہوکر 15 پر فون کیا اور یہ کارروائی سنائی، جن کے ساتھ یہ حادثہ رونما ہوا وہ بے چارے تو ڈر کر صبر کرکے بیٹھ گئے تھے لیکن 15 پر متعین صاحب نے فون کرنے والی خاتون کو قریبی تھانے جانے کا مشورہ دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ تھوڑی دیر بعد پولیس کی موبائل آئی ضرور اور پُرسہ دے کر چلی گئی۔ ہوسکتا ہے کہ چوڑیاں اتروانے والے کچے چور ہوں اور انھیں بروقت پکڑنے سے ان کے ارادے ڈھیر ہوجاتے، لیکن یہاں یہ سسٹم بے چارے عوام کے ساتھ ہے۔
پاکستان کی فوج کا شمار دنیا کی اعلیٰ افواج میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ عوام کا فوج پر اعتماد ہے۔ ہم دوسروں سے سبق سیکھنے کے بجائے اپنے ہی ملک کے دوسرے اداروں سے سبق کیوں نہیں لیتے، کیا ہماری پولیس فورس بھی دنیا کی اعلیٰ پولیس فورسز میں شمار نہیں کی جاسکتی؟ یہ بھی درست ہے کہ ہمارے ہاں آبادی کے لحاظ سے پولیس فورس کی شرح خاصی کم ہے لیکن کیا ہر دوسرا بندہ پولیس مین ہو، کیا یہ امن و امان قائم کرنے کے لیے درست ہے؟
اس کے لیے اداروں کی جانچ پڑتال اور ٹریننگ کے علاوہ تھانوں میں بھی چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے تاکہ عوام اور عوام کی حفاظت کرنے والوں کے درمیان خاردار جھاڑیاں نہ آئیں۔ عوام ان سے خوف زدہ ہونے کے بجائے ان سے تعاون کرنے میں خوشی محسوس کریں اور 15 پر متعین جوان مجبور ہوکر عوام کو متعلقہ تھانوں پر جانے کے مشورے دینے کے بجائے جائے حادثہ پر فورس بھیجیں۔ عوام کی حفاظت کے لیے جو ذمے داریاں ذمے داروں پر عائد ہوتی ہیں اگر ان سے پہلو بچانے کی کوشش کی جائے تو معمولی سی لرزش بھی گلے میں طوق بن کر اس دنیا میں اور رب العزت کی بارگاہ میں بھی مجرم بناسکتی ہے۔