سفرنامہ مہاتیر کی بستی میں آٹھویں قسط

لنکاوی چونکہ ڈیوٹی فری ہے دوسرا وہاں سالانہ سیل بھی لگی ہوئی تھی اس لئے ہینڈ کیری بہت ہی مناسب قیمت میں مل گیا۔

سنگاپور اگرچہ کسی وقت ملائیشیا کا ہی حصہ تھا لیکن بہرحال اب ایک خود مختار ملک بن چکا ہے اور انٹرنیشنل فلائیٹ کے تمام اصول لاگو ہوتے تھے۔

جینٹنگ جزیرہ

ہمیں صبح سنگاپور کے لئے نکلنا تھا اسی وجہ سے ہم شام کو جلد ہی اپنے ہوٹل واپس آگئے۔ چونکہ سفر میں شاپنگ کا اپنا الگ ہی مزہ ہے تو ہم نے بھی پہلے کچھ خریداری کوالالمپور سے کی اور پھر کچھ چیزیں لنکاوی سے خریدی۔ ارادہ تو تھا کہ مزید خریداری بھی کی جائے لیکن لیکن وزن کچھ بڑھ گیا تھا۔ ویسے تو ہم بے بی عنایا سمیت پانچ اٹیچی لے جا سکتے تھے جبکہ پاکستان سے ہم تین اٹیچی اور تین ہینڈ لگیج لائے تھے، یہی وجہ تھی کہ اضافی سامان کے لیے ہم نے سوچا اپنے ہوٹل کے مال سے ایک ہینڈ کیری اور خرید لیا جائے اور پھر ہمارے ہوٹل کے ساتھ ہی موجود مال کے فوڈ کورٹ سے کھانا بھی کھا لیا جائے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا وہاں یہ اچھی بات تھی کہ مارکیٹ رات دس بجے بند ہوجاتی ہیں اس لئے بھی ہم نے جانے میں جلدی کی۔ لنکاوی چونکہ ڈیوٹی فری ہے دوسرا وہاں سالانہ سیل بھی لگی ہوئی تھی اس لئے ہینڈ کیری بہت ہی مناسب قیمت میں مل گیا۔ ہینڈ کیری کی خریداری کے بعد ہم پورے مال میں ونڈو شاپنگ کرتے رہے۔ لیکن اچانک ہی ہماری بہو نے یاد دلایا کہ سوا نو ہوگئے ہیں، اب کھانا کھا لیا جائے تو بہتر ہے۔

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (ساتویں قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (چھٹی قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پانچویں قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (چوتھی قسط)


سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (تیسری قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (دوسری قسط)

سفرنامہ، مہاتیر کی بستی میں (پہلی قسط)

بس وقت سنتے ہی ہم فوراً فوڈ کورٹ چلے گئے۔ کھانے کا آرڈر کیا جس کے بارے میں اُمید تھی کہ وہ پندرہ سے بیس منٹ تک آجائے گا۔ اِس دوران ہم بچوں سے محو گفتگو ہوگئے کہ ملائیشیا میں اتنی جگہیں ہیں دیکھنے کی کہ انہیں دیکھنے کے لئے ایک عمر چاہیئے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ وقت کی کمی کی وجہ سے ہم جنٹنگ جانے کا پلان نہ بنا سکے۔ حالانکہ کوئی وقت ہم نے ضائع نہیں کیا بلکہ صبح ہوٹل سے جو نکلتے تو رات کو ہی واپسی ہوتی۔ سنا ہے کہ جنٹنگ کا علاقہ بھی لنکاوی کی طرح بہت خوبصورت ہے۔ عدیل بیٹا کہنے لگا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، میں نے ریسرچ کی تھی جنٹنگ کے بارے میں۔ یہ اونچائی پر ہل سٹیشن ہے جہاں کافی سردی ہوجاتی ہے۔ کچھ تو عنایا کی وجہ سے اور کچھ وقت کی کمی کی وجہ سے اسے پروگرام میں شامل نہیں کیا حالانکہ دل بہت چاہ رہا تھا۔ لیکن اگر وہاں جاتے تو پھر سنگاپور چھوڑنا پڑتا۔ ہم نے کہا کہ ہمیں بھی کچھ اس شخص نے بتایا تھا جس کا نام بھی ہم نہ جان سکے تھے۔ عدیل کہنے لگا وہ شخص چین جاپان جو اس دن آپ کے ساتھ ہوٹل میں بیٹھا تھا، ہاں وہی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ جس پہاڑ پر جنٹنگ واقع ہے اسے ٹی ٹی ونگسا کہتے ہیں اور جنٹنگ 5710 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس جگہ جانے کے لئے گاڑی میں ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ گاڑی کے علاوہ اس جگہ تک کیبل کار کے ذریعے بھی پہنچا جا سکتا ہے جسے جنٹنگ سکائی وے کہتے ہیں۔ یہ سکائی وے 3.38 کلومیٹر طویل ہے۔ جسے اس کے ابتداء میں دنیا کی تیز رفتار اور جنوبی مشرقی ایشیا کی طویل ترین گنڈولا لفٹ کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کی تیر ترین مونو کیبل کار سسٹم کا اعزاز بھی رکھتی ہے۔ یہاں یہ کیبل کار 21.6 کلو میٹر کی رفتار سے چلتی ہے اور کار کے مقابلے میں ایک تہائی وقت میں یہ فاصلہ طے کرلیتی ہے۔ اس مقام کی ایک خصوصیت بات یہ بھی ہے کہ یہ مقام بادلوں سے اوپر واقع ہے اس لئے ہر وقت بادلوں میں گھرا رہتا ہے۔ وہاں تھوڑی بہت قابلِ دید اشیا تو چل رہی ہیں لیکن سب سے بڑی توجہ کا مرکز جنٹنگ تھیم پارک ہے جو دو ماہ سے بند کردیا گیا ہے تاکہ دنیا کا پہلا 29th سنچری فوکس تھیم پارک بنایا جاسکے۔ اوہ، عدیل نے کہا کچھ ایسا میں نے بھی پڑھا تھا کہ ایسا ہونے والا ہے لیکن کب یہ معلوم نہ تھا۔ بڑی معلومات رکھتا تھا وہ بزرگ آدمی جانے کیسے۔ بس بیٹا وہ مقامی آدمی تھا، یہاں سیاحوں کی بہت بڑی تعداد آتی ہے جس وجہ سے مقامی افراد اتنی معلومات تو رکھتے ہی ہیں۔ چلو اچھا ہوا عدیل کہنے لگا۔ وہاں کی اصل چیز تو تھیم پارک ہی تھا اگر ہم جاتے اور وہ بند ملتا تو بڑی مایوسی ہوتی۔ جہاں تک کیبل کار کا تعلق ہے تو اس میں تو ہم یہاں بیٹھ ہی چکے ہیں، اب کم از کم افسوس نہیں ہوگا اور ہمارا لنکاوی آنے کا فیصلہ درست تھا۔ ہاں ہم نے کہا جو کچھ ہوتا ہے اچھے کے لئے ہی ہوتا ہے، ویسے معلومات کے حوالے سے وہ بندہ تھا با کمال، افسوس کہ میں اس کے بارے میں زیادہ کچھ بھی نہ پوچھ سکا۔ اتنے میں کھانا آگیا اور کھانا کھا کر ہم اپنے کمرے میں واپس آگئے۔

چونکہ صبح ہوٹل میں ناشتے کے اوقات 7 بجے سے 10 بجے کے درمیان تھے، اِس لیے ہم نے کھانا چھوڑ دیا اور ساڑھے چھ بجے ہوٹل سے نکل گئے کیونکہ ایک تو رینٹ پر لی ہوئی گاڑی واپس کرنی تھی اور دوسرا انٹرنیشنل فلائٹ میں 3 گھنٹے پہلے پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔ سنگاپور اگرچہ کسی وقت ملائیشیا کا ہی حصہ تھا لیکن بہرحال اب ایک خود مختار ملک بن چکا ہے اور انٹرنیشنل فلائیٹ کے تمام اصول لاگو ہوتے تھے۔ سنگاپور ایئر لائن کی پرواز بروقت تھی۔ لیکن وہاں ایک مسئلہ بن گیا اور وہ یہ کہ ہماری بکنگ تو موجود تھی لیکن سنگاپور ائیرلائن نے انٹرنٹ پر کی گئی ادائیگی کو قبول نہیں کیا تھا یا عدیل کے بینک نے تحفظ کی بناء پر اس ادائیگی کو قبول نہیں کیا تھا۔ بورڈنگ کارڈ ایشو کرنے والے کاونٹر پر پوچھا گیا کہ جناب اب کیا کیا جائے؟ تو جواب یہ ملا کہ کیش پیمنٹ کردی جائے۔ عدیل بیٹے نے پوچھا ڈبل ادائیگی تو نہیں ہوجائے گی؟ انہوں نے کہا نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ عدیل بیٹے نے وہاں سے اپنے بینک فون کیا تو بتایا گیا کہ آپ کے اکاونٹ کے تحفظ کی خاطر ادائیگی روک دی گئی تھی۔ بس جب تسلی ہوگئی تو عدیل نے کیش پیمنٹ کی اور ہم سنگاپور جانے کے لئے لاونج میں آکر بیٹھ گئے۔ ہمیں خوشی ہوئی کہ ہم وقت سے بہت پہلے ائیرپورٹ آگئے تھے جس کی وجہ سے پیمنٹ کا مسئلہ بخوبی طے پاگیا۔ پاکستان میں اگر ایسا ہوا ہوتا تو شاید ہم اس پرواز میں سفر ہی نہ کرپاتے۔ تھوڑی دیر بعد مسافروں کو جہاز میں جانے کا اعلان ہوا لیکن ساتھ ہی یہ اعلان بھی کہ بیبی اسٹرولر والے اور فیملیز والے پہلے سوار ہوں گے، اور جو لوگ تنہا سفر کررہے ہیں اُن کا نمبر بعد میں آئے گا۔ پُرسکون انداز میں جہاز میں بیٹھنے کے بعد پرواز سنگاپور کے لئے پرواز روانہ ہوگئی۔ ہماری یہ پرواز بھی ساری کی ساری سمندر پر تھی لیکن افسوس اس جہاز میں ٹچ سسٹم والی سکرنیں نہ تھیں اور نہ ہی کوئی گیم میسر تھا اس لئے ہم نے آنکھیں موند لیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story