وڈیرا راج
سب سے برا حال کراچی کا ہے جو سندھ کا نہیں بلکہ پورے ملک کا وہ کماؤ پوت ہے جو 66 فیصد ریونیوکما کردیتا ہے
انگریزی کے ممتاز اور منفرد شاعر الیگزینڈر پوپ نے کہا تھا کہ For forms of government let fools contest, whatever administered best is best کے بارے میں بحث و مباحثہ میں الجھنا احمقوں کا کام ہے۔ بہترین طرز حکمرانی وہی ہے جس کا انتظام بہترین ہو۔ میرٹ کی بنیاد بھرتی، موثر اور دیانت دارانہ انداز میں محصولات اور ٹیکسوں کی وصولیابی اور عوامی خدمات کی انتہائی فعال انداز میں فراہمی اداروں کی ترقی وفروغ اور اچھی حکمرانی کی سب سے کھری کسوٹی ہے۔ اگر اس کسوٹی پر پرکھا جائے تو وطن عزیز کا شاید ہی کوئی ادارہ پورا اترے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہر طرف جمہوریت کے حسن کے چرچے ہیں اور دن رات جمہوریت ،جمہوریت کا راگ الاپا جا رہا ہے جب کہ کسی بھی صوبے کے حالات بالکل بھی اطمینان اور تسلی بخش نہیں ہیں۔ سب سے زیادہ برا حال اپنے صوبہ سندھ کا ہے ۔
سب سے برا حال کراچی کا ہے جو سندھ کا نہیں بلکہ پورے ملک کا وہ کماؤ پوت ہے جو 66 فیصد ریونیوکما کردیتا ہے۔ اس شہر میں مدت دراز سے امن عامہ کی صورتحال انتہائی خراب اور کشیدہ ہے ۔لگتا ہے کہ قانون نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ انفرا اسٹرکچر کی تباہی وبربادی کا عالم یہ ہے کہ ہر طرف گٹر ابل رہے ہیں اور بلدیہ کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ سڑکوں پر جگہ جگہ ٹریفک جام ہے ۔ اندرون سندھ کے حالات بھی غیر تسلی بخش ہیں اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون رائج ہے۔ سب سے زیادہ حالات تھر میں خراب ہیں جہاں کے عوام کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔
صوبے میں درحقیقت جمہوریت کا نہیں بلکہ وڈیرا شاہی کا راج ہے جس کا سب سے بڑا نمونہ سندھ ریونیو بورڈ کی صورت نظر آتا ہے۔ یہ بورڈ جو مالیاتی لحاظ سے ایک انتہائی اہم اورکلیدی ادارہ ہے۔ مدت دراز سے ایک عارضی یا قائم مقام چیئرمین کے زیرنگرانی کام کررہا ہے۔ یہ سلسلہ سابق چیئرمین کے انتقال کے بعد سے اسی طرح جاری وساری ہے۔ سابق چیئرمین کے انتقال کے بعد ایف بی آر کے ایک لائق اور تجربہ کار ریٹائرڈ آفیسر مصری لدھانی کے نام کی سفارش کی گئی تھی، لیکن ابھی مشکل سے ایک ہی ہفتہ گزرا ہوگا کہ انھوں نے ذاتی وجوہ کی بنا پر یہ عہدہ چھوڑدیا۔ نتیجتاً چیئرمین سندھ ریونیو بورڈ کا اضافی چارج وزیراعلیٰ کے سیکریٹری کے حوالے کردیا گیا۔
اب صوبے کے دوسرے اہم ادارے سندھ پبلک سروس کمیشن کے حالات ملاحظہ ہوں۔ یہ کلیدی ادارہ بھی وڈیرا شاہی کا بری طرح سے شکار ہے۔ یہ آئینی ادارہ آرٹیکل 240 کے تحت قائم ہے۔ اس کا بنیادی کام میرٹ کی بنیاد پر صحیح لوگوں کا انتخاب کرنا ہے تاکہ صوبے کا انتظام لائق لوگوں کے ہاتھوں میں رہے۔ چنانچہ اس ادارے کا مکمل طور پر آزاد اور خودمختار اور ہر طرح کے اثر ورسوخ سے پاک اور شفاف ہونا ازحد ضروری ہے۔ قانون کے مطابق اس ادارے کے چیئرمین اور ممبران کے تقرر کے لیے اہلیت اور شفافیت بنیادی شرط لازم ہے، لیکن یہ سب محض کاغذی خانہ پری کی حد تک ہے۔ عملی طور پر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں بھی حکم ایگزیکٹو کا ہی چلتا ہے جس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ سابق چیئرمین آغا رفیق احمد خان نے جب سر تسلیم خم کرنے سے انکار کردیا تو اس کے نتیجے میں انھیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑ گئے۔
چیئرمین کی پانچ سالہ مدت ملازمت کو چونکہ قانون کا تحفظ حاصل تھا اس لیے حکومت نے ان کی مدت ملازمت کو کم کرکے دو سال کرنے کی ٹھانی۔ خوددار اور دانا چیئرمین نے حکومت کے ارادوں کو بھانپ لیا اور صرف چھ ماہ کا عرصہ ملازمت پورا کرنے کے بعد اپنا عہدہ اپنی مرضی سے چھوڑ دینے میں ہی عافیت جانی۔ قصہ کوتاہ سندھ پبلک سروس کمیشن کی نہ وہ خودمختاری باقی رہی اور نہ ہی اس کی ساکھ قائم رہ سکی۔ اس کے ممبر ضابطوں اور قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سائیں سرکار کی مرضی سے مقرر کیے جا رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک ایسے شخص کو کمیشن کا ممبر مقرر کیا گیا ہے جو محکمہ جیل میں جونیئر سطح پر خدمات انجام دے رہا تھا۔ جب صورتحال اس قدر خراب ہو چکی ہو تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ:
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
اب پبلک ایڈمنسٹریشن کے ساتھ حکومت سندھ کی روش ملاحظہ فرمائیے۔ کراچی کے پچھلے کمشنر آصف حیدر شاہ کو بیک جنبش قلم ٹرانسفر کردیا گیا۔ وہ ایک لائق اور نہایت ایماندار سرکاری اہل کار تھے اور تمام معاملات خالصتاً میرٹ اور سچائی کی بنیاد پر طے کرتے تھے اور کوئی ناجائز مداخلت یا اثرو رسوخ قبول نہیں کرتے تھے۔ کراچی میں یکے بعد دیگرے کئی کمشنر ٹرانسفر کیے جاچکے ہیں جس کی وجہ سے شہر کے انتظامی امور بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور عوام کی مشکلات میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ پرانے مسائل حل ہونے کے بجائے نت نئے نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
ادھر اندرون سندھ کے باسی صحت کے بڑے سخت مسائل کا شکار ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر گاؤں گوٹھ کے اسپتالوں میں اپنے فرائض ادا کرنے سے اپنی اپنی جانیں چھڑا رہے ہیں۔ یہی حال اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کا ہے جہاں طالب علم چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ سندھ کی جامعات کا حال بھی زیادہ تسلی بخش نہیں ہے کیونکہ وہاں بھی میرٹ پر سفارش کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ کاش سندھ کی وڈیرا شاہی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے اور اپنا قبلہ درست کرنے کی کوشش کرے۔