ماضی کی بارونق سیاست
میرے جیسے زندگی بھر ہر روز لکھنے کا کام کرنے والے کو جب ایک آدھ دن کا وقفہ بھی مل جائے
لاہور:
میرے جیسے زندگی بھر ہر روز لکھنے کا کام کرنے والے کو جب ایک آدھ دن کا وقفہ بھی مل جائے تو وہ اسے لمبی چھٹی سمجھتا ہے کہ کسی دن صبح اخبارات دیکھ کر اس پلندے کو پرے پھینک کر بڑی بے نیازی سے ذہنی آسودگی اور اس آرام کی طرف بلا تکلف لوٹ جاتا ہے جس میں غائب ہونے کا موقع ذرا کم ہی ملتا ہے، ایک عیاشی اور طویل چھٹی کے مترادف ہے۔
کچھ خوش نصیب لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی بڑے مقصد کے تحت ہر روز مزدوری کرتے ہیں، لوگ ہمیں ملتے ہیں تو ہماری روز مرہ کی قلمکاری کو قومی خدمت قرار دیتے ہیں لیکن انھیں کون بتائے کہ اس قلمکاری میں ناغہ ہو جائے تو اس دہاڑی میں ناغہ ہو جاتا ہے جس کے بعد دن نہیں گزرتا یعنی کسی بے رحم دن کے اخراجات پورے نہیں ہوتے اور روز مرہ کی ضروریات نقد ادائیگی پر دینے والا تاجر یعنی دکاندار اپنے سامان کی قیمت وصول کرتے وقت مفت میں گپ شپ لگاتا ہے اور ہمارے اخباری علم سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ مجھے شک ہے کہ اس نے اپنی معلومات کے عوض کچھ شریف گاہکوں کو پھنسا رکھا ہے جو سیاسی شوقین کہلاتے ہیں۔ محنت مزدوری کر کے رزق حلال کھاتے ہیں اور سیاستدانوں کا مفت میں پروپیگنڈا کرتے ہیں ہمارے ہاں سیاست اس مفت تعاون اور حمایت پر چلتی ہے۔
اس سلسلے میں آپ کسی جلسہ عام کو یاد کیجیے اور سیاستدانوں کی چالاکی اور اپنی سادگی پر حیرت ظاہر کیجیے۔ کوئی سیاستدان یا سیاسی جماعت جلسے کا اعلان کرتی ہے اور آپ اپنا وقت ساتھ لے کر اور کچھ کھانے پینے کا سامان بھی لے کر جلسہ گاہ میں پہنچ جاتے ہیں اور گھاس پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ کے آس پاس بھی آپ کی طرح کے سیاسی گپ باز بیٹھے ہوتے ہیں جو اپنے خرچ پر گپ شپ کا سامان لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کا رعب جمانے کے لیے جلسہ میں اپنے ہم نشینوں کو مرعوب کرتے ہیں۔
جذبات میں آ کر کبھی کوئی نعرہ بھی بلند کر دیتے ہیں اور اس طرح اپنے خرچ پر اپنا وقت لگا کر کسی جلسے کی رونق بڑھاتے ہیں اور اسے اپنی طرف سے قومی خدمت سمجھتے ہیں۔ یہ میں آج کی نہیں پرانے زمانے کے جلسوں اور حاضرین کی بات کر رہا ہوں آج تو ایسے جلسے کسی ہال میں ہوتے ہیں جہاں کرسیاں رکھی ہوتی ہیں اور جلسہ کے مقرر آپ کے سامنے منہ سے جھاگ نکال رہے ہوتے ہیں جیسے وہ شدت جذبات میں کوئی قومی خدمت بجا لا رہے ہیں اور حاضرین جلسہ دل ہی دل میں ان کے ساتھ عقیدت کا رشتہ باندھ رہے ہیں۔
جس کے بعد جب جلسہ ختم ہوتا ہے تو وہ کسی کامیاب مقرر کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور اس کے ساتھ آج کی زبان میں سیلفیاں بنواتے ہیں یعنی موقع ملے تو کسی کاغذ پر لیڈر کے دستخط بھی لے لیتے ہیں جسے وہ گھر کی کسی دیوار کے ساتھ چپکا دیتے ہیں اور اپنے ملنے والوں کو اس کی جھلک دکھا کر اپنی سیاسی اہمیت کا اعلان کرتے ہیں۔
میں جو یہ باتیں کر رہا ہوں یہ بہت پرانی ہیں اور ان کی یاد تازہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اپنی سیاسی قومی زندگی کی ایک آدھ جھلک دیکھ لیں کہ ہم کہاں سے گزر کر اور کن جلسوں میں وقت تباہ کر کے یہاں تک پہنچے ہیں اور وہ بھی ان سیاستدانوں کے لیے جو کسی تقریب میں تقریر کے بعد کسی ریستوران میں آ کر بیٹھ جاتے ہیں اور یہاں وہ اپنی تقریر کی داد وصول کرتے ہیں۔ ورنہ جلسے کے حاضرین تو جلسہ ختم ہوتے ہی اپنے اپنے کام پر نکل گئے ہیں اور ان کو داد دینے والا جیسے اس دنیا میں موجود ہی نہیں ہے سوائے ان چند مفت خوروں کے جو کسی ریستوران میں لیڈر کی چائے پیتے ہیں اور پیسٹریاں کھاتے ہیں۔
اور لیڈروں کی پیسٹریوں سے یاد آیا کہ صوبہ سرحد کے لیڈر خان غلام محمد لونڈ خوڑ اپنی سیاست لاہور میں کیا کرتے تھے کہ ان کی سیاست کو میڈیا کے ذریعے جو مشہوری لاہور میں ملتی تھی وہ اور کہیں نہیں ملتی تھی۔ بے تکلف مزاج کے خان صاحب اپنی سیاست کے کسی اہم مرحلے پر کبھی کبھار پریس کانفرنس بھی کر لیتے تھے۔ لاہور میں مال روڈ کے دو ایک مشہور چائے خانوں کے ساتھ ان کا معاملہ چلتا تھا۔
یہاں وہ پریس کانفرنس کرتے اور جب خان صاحب کا سیاسی بیان ختم ہوتا اور پریس کانفرنس میں چائے شروع ہوتی تو خان صاحب میز پر رکھی پیسٹریاں باقاعدہ گن لیتے اور نہ صرف بل میں درج پیسٹریوں کا حساب کرتے بلکہ یہ بھی دیکھ لیتے کہ ہم میں سے کس صحافی نے کتنی کھائی ہیں جس کا وہ اظہار بھی کر دیا کرتے تھے خصوصاً ان کی پریس کانفرنس کی اخبار میں رپورٹنگ کے حوالے سے۔
خان صاحب ایک رئیس زمیندار تھے لیکن عشق و عاشقی اور وہ بھی لاہور کے بازار حسن کی، خان صاحب کی جائیداد کھا گئی۔ ایک خاتون سے عقد کر کے گھر میں بھی رکھتے تھے اور یوں ہم صحافیوں کو کھانے بھی کھلاتے تھے اور خاص خاص صحافیوں کی خصوصی مہمان نوازی بھی کرتے تھے جن کو عام صحافی خان صاحب کے اسکاچی صحافی کہتے تھے۔ خان صاحب کا ذکر ضروری ہے جو کسی وقت کیا جائے گا، وہ سیاست صحافت اور خصوصی لوگوں کے ماحول میں زندہ رہ کر اپنی باقی ماندہ زندگی بسر کرتے تھے جو ان کی شاندار زندگی کا ایک عکس تھی ۔