انسانی لبادے میں چھپا فرشتہ

نظام قدرت ہے کہ اچھائی اور برائی ساتھ ساتھ چلتی ہے

لاہور:
درویش و فرشتہ صفت مسیحا عبدالستار ایدھی خود اپنے ہاتھوں سے کھودی گئی قبرکی آغوش میں سوگئے اور اپنے پیچھے ہزاروں لاوارثوں کو ایک بار پھر یتیم کرگئے۔ یہ سچ ہے اور اس سچ میں جھوٹ کی ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں کہ عبدالستار ایدھی کے انتقال سے پاکستان ایک عظیم انسان سے محروم ہوگیا، دنیائے انسانیت کا روشن چراغ بجھ گیا، ملکی تاریخ کا ایک سنہری باب بند ہوگیا، مسیحا موت سے بازی ہارگیا۔ زندگی اورموت کا کھیل بھی عجیب ہے، جو آیا ہے وہ جائے گا بھی ضرور، وقت بھی خالق کی مرضی سے طے ہوگا، ہمارے پاس سوائے سرجھکانے کے کوئی اور چارہ نہیں، البتہ لوگوں کا چپکے سے چلے جانا یہ واضح کرتا ہے کہ دنیا واقعی ایک سرائے ہے اور ہم ایسے مسافر ہیں جنہیں کوچ کی خبر نہیں۔

نظام قدرت ہے کہ اچھائی اور برائی ساتھ ساتھ چلتی ہے، جب ظلم حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے اور بدی پھیلانے والے بدمست ہو جاتے ہیں تو پھر فرشتے آسمان سے اترا کرتے ہیں، عبدالستار ایدھی انسانی لبادے میں ایسے ہی ایک فرشتے تھے جنہوں نے 1928ء میں بھارتی ریاست گجرات میں آنکھیں کھولیں، تقسیم ہند کے بعد 1947 میں اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آئے اورکراچی میں سکونت اختیار کی۔ عبدالستار ایدھی نے ایک ایسے دور میں انسانی خدمت کا فریضہ سرانجام دیا جس میں نہ دیانت ہے اور نہ ہی معیار دیانت ہے، ہر شخص کا اپنا ایک معیار ہے اپنے اصول ہیں، دوسرے کو تکلیف پہنچانے میں کوئی حرج نہیں، بس شرط یہ ہے کہ زیادہ تکلیف نہ پہنچائی جائے، اگر کوئی شخص بے وقوف ہے اور مزیدبے وقوف بننے کا خواہشمند ہے تو اس کی خواہش پوری کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔

عبدالستار ایدھی ایک سایہ دار شجر تھے، جن کے سائے تلے لاکھوں یتیم، لاوارث، مسکین، اپنوں کے ٹھکرائے ہوئے تھے، جہاں لوگ اپنا گناہ چھپانے کے لیے نومولود کو مرنے کے لیے پھینک جاتے تھے وہاں ایدھی نے ان نومولودوں کی پرورش کا بیڑہ اٹھایا اور انھیں پالنے کے واسطے جھولے قائم کردیے، جن اپنوں کو لوگ پاگل کہہ کر گھر سے نکال دیا کرتے تھے، انھیں بھی ایدھی نے گلے سے لگایا، جن لاشوں کے قریب کوئی پھٹکتا بھی نہ تھا، ان لاشوں کے ٹکڑے ایدھی نے اپنے ہاتھوں سے سمیٹے اور مٹی کی امانت مٹی کو سونپی۔ جو لوگ کسی لالچ میں کسی کی خدمت کرتے ہیں وہ ایک مقام پر تھک جاتے ہیں مگر محبت وعقیدت کا جذبہ ہو تو تھکن حاوی نہیں ہوتی۔

ایسے ہی بے لوث جذبے سے سرشار عبدالستار ایدھی نے 1951میں باقاعدہ دکھی انسانیت کی خدمت کا آغاز کیا، ایک ڈسپنسری قائم کی، جہاں ایک ڈاکٹر سے طبی امداد کی تربیت حاصل کی، اپنی ساری زندگی سادگی میں گزاری اور سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا۔ انسانیت کی بے لوث خدمات پر انھیں دو درجن سے زائد بین الاقوامی و قومی ایوارڈز سے نوازا گیا، 1957ء میں کراچی میں فلو کی وبا پھیلی جس پر انھوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگوائے اور ادویات فراہم کیں، جس کے بعد مخیر حضرات نے انھیں دل کھول کر چندہ کیا اور ان کی بھرپور مدد کی، کچھ عرصے بعد انھوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی، زچگی کے لیے ایک سینٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیے اسکول کھول لیا۔

یہیں سے ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز ہوا۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے ایمبولینسیں خریدیں جن کا سلسلہ پورے ملک کے طول و عرض میں پھیلایا، اس کے ساتھ انھوں نے ایئر ایمبولینس، کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈبینک، لاوارث میتوں کی تدفین کے لیے قبرستان، یتیم خانے، لاوارث بچوں کوگود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں، سرد خانے اور اسکول کھولے۔ عبدالستار ایدھی نے مذہب سے بالا تر ہوکر انسانیت کی خدمت کرکے اعلیٰ مثالیں قائم کیں، ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے کہ سننے والے انگشت بدنداں رہ جائیں۔


ڈیگال نے لکھا تھا کہ ''عظیم انسانوں کے بغیرکوئی عظیم کام نہیں ہوتا، وہ عظیم اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کے ارادوں میں پختگی ہوتی ہے'' عبدالستارایدھی جاتے جاتے بھی اپنی آنکھیں عطیہ کرگئے اور ہمارے حکمران ہیں کہ انھوں نے قومی خزانے کے 30کروڑ روپے وطن واپسی کے لیے جھونک دیے، کاش ملک وقوم کی تقدیرکے فیصلے کرنیوالے کسی صاحب اختیارواقتدار کو آنکھوں کی ضرورت پڑجائے اور عبدالستار ایدھی کی آنکھیں اسے عطیہ کی جائیں تاکہ وہ آنکھیں عبدالستار ایدھی کی طرح پوری قوم کو ایک ہی نظر سے دیکھے اور ملک و قوم کی بہتری، ترقی، مشکلات کے خاتمے کے لیے منصوبے بنانے پر مجبور ہوجائیں۔

دنیائے انسانیت کا روشن چراغ تو بجھ گیا، ہم نے سوگ بھی منالیا، توپوں کی سلامی میں انھیں سپرد خاک کیا، نشان امتیاز دیا، ان کے نام سے ڈاک ٹکٹ جاری کیا، انھیں اعزازات سے بھی نوازا مگر کیا ہمارے ارباب اختیار نے عبدالستار ایدھی سے کچھ سبق بھی سیکھا یا نہیں؟ وہ ایک شخص پوری ریاست کو یہ سبق دے گیا کہ جب تن تنہا ایک شخص اتنا سب کچھ کرسکتا ہے تو بحیثیت ریاست کیا کچھ نہیں کیا جاسکتا؟ وہ انسانیت کے روشن مینار تھے مگر اس روشنی میں نظر آنیوالی بھوک و پیاس سے تڑپتی انسانیت کو سکون پہنچانے اور ان کے عذابوں کو کم کرنے کے لیے حکومت کچھ نہیں کرسکی اور نہ ہی کچھ کرگزرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے معرض وجود میں آنیوالی فلاحی ریاست کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ ملک میں رہنے والوں کے مسائل حل کیے جائیں، مگر شومئی قسمت کے وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے اداروں نے وہ کام چھوڑ دیا، لوگ مشکلات میں گھرگئے، ایسے میں عبدالستار ایدھی خود اٹھے اور انھوں نے انسانی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا، دیکھتے ہی دیکھتے ملک سمیت دنیا بھر میں دکھی انسانیت کی خدمت کرکے نیا ریکارڈ قائم کیا۔ بلا شک وشبہ عبدالستار ایدھی کی زندگی قابل تقلید ہے، ان کی شہرت پاکستان تک محدود نہ تھا بلکہ ان کے نام کا ڈنکا پوری دنیا میں بجتا تھا۔افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا، یہاں تک کہ امریکا میں بھی امدادی ٹیمیں لے کر پہنچے، دنیا میں جہاں بھی گئے، جس سے بھی ملے اپنے کھدرکے جوڑے اور اسفنچ کی چپل کو کافی سمجھا۔

انسانیت کے خادم کی زندگی سے کئی سبق سیکھے جاسکتے ہیں، انھوں نے بتادیا کہ کچھ ناممکن نہیں، پسماندہ پس منظر رکھنے کے باوجود تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ چھوٹے پیمانے پر کام کا آغاز کرکے بھی ترقی کی جاسکتی ہے، درست سمت میں قدم اٹھائے جائیں تو آپ کو ایسے بہت سے مخلص کارکن مل جائیں گے جو اس مقصد کو پورا کرنے میں آپ کا ساتھ دیں گے۔کوئی ایک انسان بھی معاشرے میں تبدیلی لاسکتا ہے، مشکلات کے باوجود ہار نہیں ماننی چاہیے۔

آج عبدالستار ایدھی ہمارے درمیان موجود نہیں مگر ان کا پیغام ہمارے لیے کھلی کتاب کی طرح ہے، عبدالستار ایدھی یہ پیغام دے گئے ہیں کہ دوسروں سے نیکیاں کرتے رہو اور یہ ایمان رکھو کہ نیکیاں ضایع نہیں ہوتی، یہ پھل دیتی ہیں خواہ دیر سے دیں، خدا پہلے صبر آزماتا ہے نیکی اور راستی پر پہلے بندے کی پختگی دیکھتا ہے پھر انعام دیتا ہے لیکن آزمائشوں سے مستقل مزاجی کے ساتھ گزرنا پڑتا ہے۔ انسانیت کی خدمت کرنیوالی اس عظیم ہستی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کے نقش قدم پر چلیں، خدمت خلق کے راستے کو اپنائیں، ان کے چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھائیں، ان کا پیغام ''دوسروں کے لیے جیا جائے'' پر عمل کریں۔
Load Next Story