ڈی کنسٹرکشن اور’انسان دوستی‘
بڑا بیانیہ یا ’’مہابیانیہ‘‘ ایک ایسا تصور ہے جس کے حوالے سے ہمارا معاشرہ بہت زیادہ ذہنی وفکری الجھاؤکا شکار ہے
بڑا بیانیہ یا ''مہابیانیہ'' ایک ایسا تصور ہے جس کے حوالے سے ہمارا معاشرہ بہت زیادہ ذہنی وفکری الجھاؤکا شکار ہے۔ لبرل ازم کے حامی بغیراس پیچیدہ تصورکی تعریف پیش کیے اس بات کی وکالت کرتے ہیں کہ'' مہا بیانیے کی موت'' کی ساری بحث یا تومذہب کے گرد گردش کرتی ہے یا اس کا مرکزی حوالہ مارکسزم ہے۔المیہ یہاں پر یہ ہے کہ وہ لبرل ازم کے اندر مہابیانیے کو نہیں دیکھتے۔ لبرل ازم کی ساری کی ساری روایت مہابیانیے کی قبولیت پر مبنی ہے۔
وہ 'انسان دوستی' کا پرچارکرتے ہوئے اس فلسفیانہ روایت سے بھی نابلد رہتے ہیں کہ ڈی کنسٹرکشن 'ہیومن ازم' کے ہر تصورکو مہابیانیے کے طور پر لے کر اس کے اندرکے تضادات کو دکھانا ضروری خیال کرتی ہے۔ ان کے ہاں یہ دعویٰ تو دکھائی دیتا ہے کہ''مہابیانیے'' ختم ہوچکے ہیں، لیکن انسان کی مرکزیت کے تصورمیں مہابیانیے کو دیکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔اس کے بعد وہ جن''سیکولر بیانیوں'' کا ذکر کرتے ہیں ان کے اندر 'ہیومن ازم' کو بطورِمہا بیانیہ نہیں دیکھتے، نہ ہی ان کی کوئی ٹھوس علمیاتی بنیاد کی نشاندہی یا تشکیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔جب نظریات کے حوالے سے غلط فہمیاں تشکیل پاجائیں تو ان کی تصحیح لازمی ٹھہرتی ہے۔
ڈی کنسٹرکشن کے مطابق ہر وہ فلسفہ، نظریہ، تصور جو ایک مرکزی تعقلی، تجربی یا ماورائے تجربی حوالہ رکھتا ہے ، جو بحیثیت مآخذ، مرکز، موجودگی کی بنیاد پر ہر'دوسرے' کو اپنے ہی حوالے سے جانتا، سمجھتا یا اس کی وضاحت کرتا ہے، وہ ''مہابیانیے'' کے زمرے میں آتا ہے۔ الٰہیاتی مباحث میں چونکہ مرکزی حوالہ خدا کا ہے، اس لیے خدا کا تصور ہی مہابیانیہ تھا۔ لاتشکیلی تنقید اور فلسفے کی روشن خیال روایت کا فہم رکھنے والے لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ جدید فلسفے میں مرکزی حوالہ الٰہیات نہیں، بلکہ خود انسان ہے۔ لہذا ہمارے عہدکا سب سے بڑا بیانیہ خود انسان ہے۔جب بعض آزاد خیال یہ کہتے ہیں کہ مغربی ممالک نے مسیحیت کو مرکز سے ہٹا کر 'ترقی' کی تو دراصل وہ اس وقت انسان کی مرکزیت کے تصورکو تسلیم کررہے ہوتے ہیں۔
المیہ بہرحال یہ ہے کہ وہ اس مرکز میں آئے ہوئے انسان کے اندر اس دہشت ناک قتال وبربریت کے پہلوکو نہیں دیکھتے، جو اس کے مرکز میں آنے کا نتیجہ ہے۔مرکز میں آیا ہوا انسان بااختیار ہے، وہ خود ہی اپنی ترجیحات کو طے کرتا ہے اور انھیں عملی جامہ پہنانے کے لیے تعقلی طریقہ کار اختیار کرتا ہے۔اسی طرح خود انسان ہی نظریے ، فلسفے، اقدار،آدرش وغیرہ کی تشکیل کرتا ہے۔ سماجی سطح پر جو حیثیت انسان کی ہے۔ متن کے حوالے سے وہی حیثیت 'مصنف' کی ہے۔ ''مصنف کی لامرکزیت'' کا تصور انسان کی لامرکزیت کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔ ایک کو محفوظ کرکے دوسرے کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں منطقی تجزیات اہم ہیں۔ منطقی تجزیے کو خواہش، حسد، بغض، نفرت کی بھینٹ چڑھاکرگمراہ کن خیالات کا انبار نہیں لگایا جاسکتا۔
یہاں یہ بات واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ ڈی کنسٹرکشن جس طریقے سے مغرب میں تشکیل پائی ہے اس کا اصل ہدف مذہب نہیں، بلکہ انسان ہے، وہ انسان جو مذہب کو اپنے مفاد کے لیے استعمال میں لاتا ہے، جو مرکز اور اقتدار میں ہے، جو ان انسانوں کے لیے قوانین و اصول بناتا ہے جو ابھی 'مرکز' میں نہیں آئے، وہ انسان جو حقیقی انسانی مسائل سے توجہ ہٹا کر غریبوں، مفلسوں، استحصال زدہ لوگوں کو یہ یقین دلاتا ہے کہ مذہب کی اندھی تقلید میں اس کی بقا کا راز مضمر ہے، جو لامرکزیت کا شکار انسانوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ مذہب کو ایک بڑے بیانیے کے طور پر تسلیم کریں۔ ایسا انسان اپنے ذہن میں حقیقت کو تشکیل دیتا ہے، بعد ازاں اسی حقیقت کے تصور کو اصل حقیقت پر مسلط کرتا ہے۔ وہ 'حقیقت' کے اپنے تضادات کودیکھنے سے قاصر رہتا ہے۔مغرب میں مسیحیت تو پہلے ہی مرکز سے ہٹ کر فلسفیانہ تعقلات میں سرایت کرگئی ہے اورانسان جو کہ لبرل اقدارکا قائل ہے، مرکزی حوالہ بن گیا ہے۔
مغرب میں مسیحیت ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ لبرل اقدارکی شکل اختیارکرکے ایک اگلے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔جرمن فلسفی فریڈرک ہیگل نے مسیحیت کو ''مطلق آزادی'' کا مذہب قرار دیا تھا۔جدید لبرل فلسفیانہ روایت میں مسیحیت انسان کے حوالے سے ہی معنی حاصل کرتی ہے۔کانٹ کے الفاظ میں مسیحیت تعقل کے لیے نہیں تعقل مسیحیت کے لیے جگہ چھوڑ دیتی ہے۔ ان معنوں میں ڈی کنسٹرکشن اس انسان کی مرکزیت کو چیلنج کرتی ہے، جس نے تعقل پسندی سے انسانی مسائل پر غلبہ پانے کا دعویٰ کیا تھا۔
انتہائی بنیادی سوال یہاں پر یہ اٹھتا ہے کہ جب ہم انسان کا ذکرکرتے ہیں توہمیں انسان کے اندر اس انسان کو بھی دیکھنا ہے جو ابھی انسان نہیں بن سکا۔ہمیں سچائی اور ایمانداری سے اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ جس انسان کی ڈی کنسٹرکشن مقصود ہے وہ دراصل ہے کیا اور اس کی ڈی کنسٹرکشن کس انسان کو باہر لانے کے لیے ضروری ہے۔اہم نکتہ یہاں پر یہ ہے کہ انسان ایک نہیں بلکہ دو ہیں: ایک وہ انسان جو حاکم، مقتدر،بااختیار، ذرایع پیداوار پر قابض ہے۔ ان اوصاف سے عاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ' دوسرا' انسان حقیقت میں اس انسان کے تصورسے کوسوں دور ہے جو جدید لبرل فلسفوں نے تشکیل دیا تھا۔جو انسان مرکز میں ہی نہیں ہے، جو محکوم، پسا ہوا، استحصال زدہ، مظلوم ہے، جس کی 'شناخت' اس کی اپنی نہیں بلکہ جدید لبرل بورژوا انسان نے عطا کررکھی ہے، اس کو مرکز میںآنے سے روکنایا ان فلسفوں، نظریات کو مہابیانیے کہہ کر رد کرنا جو اس انسان کو 'مرکز' میں لانے کی سعی کرتے ہیں، یہ فسطائیت ہی کی ایک شکل ہے۔
ڈی کنسٹرکشن کی ساری روایت اس فوق تجربی، بورژوا انسان کو محض نظری سطح پر مرکز سے ہٹانے کی کوشش ہے، جو جدید لبرل فلسفوں کا پیدا کردہ ہے، وہ انسان جو انسانوں کے اعلیٰ اور ادنیٰ تصورات واقدار کی تشکیل کرتا ہے، آزادی، مساوات، انفرادیت، انصاف کے کھوکھلے دعوے کرتا ہے، جو جنگیں برپا کرتا ہے، دہشت گرد تنظیموں کی تشکیل کرتا ہے، جس کے پاس اسلحے کے ذخائر ہیں،کمزور اقوام کے وسائل پر قبضے کے لیے ان کا وسیع سطح پر قتال کرتا ہے، اپنے مخالفین کو اپنی خود ساختہ جیلوں میں تاحیات قید کرنے کا بیڑہ اٹھاتا ہے ، دنیا کو اپنے معاشی، نظریاتی مفادات کی جہت پر تشکیل دیتا ہے، جو 'دوسرے' کو خود معنی پہناتا ہے، اپنے سوا سب کو 'مرکز' سے ہٹا دینا چاہتا ہے۔
وہ ہے جدید لبرل بورژوا انسان جو گزشتہ تین صدیوں سے ہر مغربی فلسفے کا مرکزی حوالہ رہا ہے، ایک بھی لبرل فلسفہ ایسا نہیں ہے جس میں اس بورژوا انسان کو برقرار رکھنے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ نوعِ انسانی کی نجات و بقا کے لیے اس بورژوا انسان کی ڈی کنسٹرکشن کی ضرورت کو خود مغربی سماج میں محسوس کیا گیا ہے۔اور یہی وہ نکتہ ہے جس کی تفہیم کا ہماری ساری مابعد جدید فکری روایت میں فقدان ہے۔ وہ نقاد جو لبرل روایت کی پاسبانی کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں وہ اس مرکزی خیال کو بھی نہیں سمجھ رہے کہ ڈی کنسٹرکشن مغربی ہیومن ازم کی ساری روایت کو 'منہدم' کرنے کی داعی ہے۔عہدِ سرمایہ داری میں انسان کے ان دو بنیادی تصورات سے ہٹ کر انسان کا کوئی اور تصور موجود نہیں ہے۔ ڈی کنسٹرکشن کے بعد اس سے پہلے کی کسی جگہ پر جاکر اس بورژوا انسان کے کسی تصور کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔
ڈی کنسٹرکشن کی حدود یہ ہیں کہ اس کی ساری بحث نظری سطح سے شروع ہوکر وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ ڈی کنسٹرکشن کو عملی جامہ کیسے پہنانا ہے، اس کے بارے میں کوئی ایک بھی نکتہ پیش نہیں کیا گیا۔ اس کا قابلِ تحسین پہلو فقط یہ ہے کہ اس نے انسان کی مرکزیت پر قائم تمام لبرل فلسفوں کے حوالے سے تشکیک کو جنم دیا ہے۔ ان کے اندر رہتے ہیں ان کی کو غیر مستحکم کیا ہے۔
نظریے، تصورات، فلسفوں کا استحکام انھیں مطلق العنانیت کی جانب لے جاتا ہے، اور یہ انسان ہی ہے جو اپنی مطلق العنانیت کے لیے مخصوص نظریات کو مستحکم کرتا ہے اور انھیں خود سے مختلف نظریات سے نفرت پر اکساتا ہے۔ اس لیے فلسفوں سے تشکیل پائے ہوئے مستحکم (بورژوا) انسان کا تصور ہمہ وقت اس کی زد پر رہتے ہیں۔یہ نظری سطح پر جدید لبرل انسان، مصنف، جو خدا کو مرکز سے ہٹا کرخود مرکز میں آگیا تھا، اسے مرکز سے ہٹانے کی سعی کرتی ہے۔ اس کا اطلاق ان طبقات پر کیا ہی نہیں جاسکتا جو کبھی مرکز یا اقتدار میں نہیں آئے اور ان طبقات کی مرکز میں آنے کی خواہش کو بھی یہ قبول نہیں کرتی،کیونکہ یہ بنیادی طور پر مرکزیت کے تصور کے ہی خلاف ہے۔
وہ 'انسان دوستی' کا پرچارکرتے ہوئے اس فلسفیانہ روایت سے بھی نابلد رہتے ہیں کہ ڈی کنسٹرکشن 'ہیومن ازم' کے ہر تصورکو مہابیانیے کے طور پر لے کر اس کے اندرکے تضادات کو دکھانا ضروری خیال کرتی ہے۔ ان کے ہاں یہ دعویٰ تو دکھائی دیتا ہے کہ''مہابیانیے'' ختم ہوچکے ہیں، لیکن انسان کی مرکزیت کے تصورمیں مہابیانیے کو دیکھنے میں ناکام رہتے ہیں۔اس کے بعد وہ جن''سیکولر بیانیوں'' کا ذکر کرتے ہیں ان کے اندر 'ہیومن ازم' کو بطورِمہا بیانیہ نہیں دیکھتے، نہ ہی ان کی کوئی ٹھوس علمیاتی بنیاد کی نشاندہی یا تشکیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔جب نظریات کے حوالے سے غلط فہمیاں تشکیل پاجائیں تو ان کی تصحیح لازمی ٹھہرتی ہے۔
ڈی کنسٹرکشن کے مطابق ہر وہ فلسفہ، نظریہ، تصور جو ایک مرکزی تعقلی، تجربی یا ماورائے تجربی حوالہ رکھتا ہے ، جو بحیثیت مآخذ، مرکز، موجودگی کی بنیاد پر ہر'دوسرے' کو اپنے ہی حوالے سے جانتا، سمجھتا یا اس کی وضاحت کرتا ہے، وہ ''مہابیانیے'' کے زمرے میں آتا ہے۔ الٰہیاتی مباحث میں چونکہ مرکزی حوالہ خدا کا ہے، اس لیے خدا کا تصور ہی مہابیانیہ تھا۔ لاتشکیلی تنقید اور فلسفے کی روشن خیال روایت کا فہم رکھنے والے لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ جدید فلسفے میں مرکزی حوالہ الٰہیات نہیں، بلکہ خود انسان ہے۔ لہذا ہمارے عہدکا سب سے بڑا بیانیہ خود انسان ہے۔جب بعض آزاد خیال یہ کہتے ہیں کہ مغربی ممالک نے مسیحیت کو مرکز سے ہٹا کر 'ترقی' کی تو دراصل وہ اس وقت انسان کی مرکزیت کے تصورکو تسلیم کررہے ہوتے ہیں۔
المیہ بہرحال یہ ہے کہ وہ اس مرکز میں آئے ہوئے انسان کے اندر اس دہشت ناک قتال وبربریت کے پہلوکو نہیں دیکھتے، جو اس کے مرکز میں آنے کا نتیجہ ہے۔مرکز میں آیا ہوا انسان بااختیار ہے، وہ خود ہی اپنی ترجیحات کو طے کرتا ہے اور انھیں عملی جامہ پہنانے کے لیے تعقلی طریقہ کار اختیار کرتا ہے۔اسی طرح خود انسان ہی نظریے ، فلسفے، اقدار،آدرش وغیرہ کی تشکیل کرتا ہے۔ سماجی سطح پر جو حیثیت انسان کی ہے۔ متن کے حوالے سے وہی حیثیت 'مصنف' کی ہے۔ ''مصنف کی لامرکزیت'' کا تصور انسان کی لامرکزیت کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔ ایک کو محفوظ کرکے دوسرے کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں منطقی تجزیات اہم ہیں۔ منطقی تجزیے کو خواہش، حسد، بغض، نفرت کی بھینٹ چڑھاکرگمراہ کن خیالات کا انبار نہیں لگایا جاسکتا۔
یہاں یہ بات واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ ڈی کنسٹرکشن جس طریقے سے مغرب میں تشکیل پائی ہے اس کا اصل ہدف مذہب نہیں، بلکہ انسان ہے، وہ انسان جو مذہب کو اپنے مفاد کے لیے استعمال میں لاتا ہے، جو مرکز اور اقتدار میں ہے، جو ان انسانوں کے لیے قوانین و اصول بناتا ہے جو ابھی 'مرکز' میں نہیں آئے، وہ انسان جو حقیقی انسانی مسائل سے توجہ ہٹا کر غریبوں، مفلسوں، استحصال زدہ لوگوں کو یہ یقین دلاتا ہے کہ مذہب کی اندھی تقلید میں اس کی بقا کا راز مضمر ہے، جو لامرکزیت کا شکار انسانوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ مذہب کو ایک بڑے بیانیے کے طور پر تسلیم کریں۔ ایسا انسان اپنے ذہن میں حقیقت کو تشکیل دیتا ہے، بعد ازاں اسی حقیقت کے تصور کو اصل حقیقت پر مسلط کرتا ہے۔ وہ 'حقیقت' کے اپنے تضادات کودیکھنے سے قاصر رہتا ہے۔مغرب میں مسیحیت تو پہلے ہی مرکز سے ہٹ کر فلسفیانہ تعقلات میں سرایت کرگئی ہے اورانسان جو کہ لبرل اقدارکا قائل ہے، مرکزی حوالہ بن گیا ہے۔
مغرب میں مسیحیت ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ لبرل اقدارکی شکل اختیارکرکے ایک اگلے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔جرمن فلسفی فریڈرک ہیگل نے مسیحیت کو ''مطلق آزادی'' کا مذہب قرار دیا تھا۔جدید لبرل فلسفیانہ روایت میں مسیحیت انسان کے حوالے سے ہی معنی حاصل کرتی ہے۔کانٹ کے الفاظ میں مسیحیت تعقل کے لیے نہیں تعقل مسیحیت کے لیے جگہ چھوڑ دیتی ہے۔ ان معنوں میں ڈی کنسٹرکشن اس انسان کی مرکزیت کو چیلنج کرتی ہے، جس نے تعقل پسندی سے انسانی مسائل پر غلبہ پانے کا دعویٰ کیا تھا۔
انتہائی بنیادی سوال یہاں پر یہ اٹھتا ہے کہ جب ہم انسان کا ذکرکرتے ہیں توہمیں انسان کے اندر اس انسان کو بھی دیکھنا ہے جو ابھی انسان نہیں بن سکا۔ہمیں سچائی اور ایمانداری سے اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ جس انسان کی ڈی کنسٹرکشن مقصود ہے وہ دراصل ہے کیا اور اس کی ڈی کنسٹرکشن کس انسان کو باہر لانے کے لیے ضروری ہے۔اہم نکتہ یہاں پر یہ ہے کہ انسان ایک نہیں بلکہ دو ہیں: ایک وہ انسان جو حاکم، مقتدر،بااختیار، ذرایع پیداوار پر قابض ہے۔ ان اوصاف سے عاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ' دوسرا' انسان حقیقت میں اس انسان کے تصورسے کوسوں دور ہے جو جدید لبرل فلسفوں نے تشکیل دیا تھا۔جو انسان مرکز میں ہی نہیں ہے، جو محکوم، پسا ہوا، استحصال زدہ، مظلوم ہے، جس کی 'شناخت' اس کی اپنی نہیں بلکہ جدید لبرل بورژوا انسان نے عطا کررکھی ہے، اس کو مرکز میںآنے سے روکنایا ان فلسفوں، نظریات کو مہابیانیے کہہ کر رد کرنا جو اس انسان کو 'مرکز' میں لانے کی سعی کرتے ہیں، یہ فسطائیت ہی کی ایک شکل ہے۔
ڈی کنسٹرکشن کی ساری روایت اس فوق تجربی، بورژوا انسان کو محض نظری سطح پر مرکز سے ہٹانے کی کوشش ہے، جو جدید لبرل فلسفوں کا پیدا کردہ ہے، وہ انسان جو انسانوں کے اعلیٰ اور ادنیٰ تصورات واقدار کی تشکیل کرتا ہے، آزادی، مساوات، انفرادیت، انصاف کے کھوکھلے دعوے کرتا ہے، جو جنگیں برپا کرتا ہے، دہشت گرد تنظیموں کی تشکیل کرتا ہے، جس کے پاس اسلحے کے ذخائر ہیں،کمزور اقوام کے وسائل پر قبضے کے لیے ان کا وسیع سطح پر قتال کرتا ہے، اپنے مخالفین کو اپنی خود ساختہ جیلوں میں تاحیات قید کرنے کا بیڑہ اٹھاتا ہے ، دنیا کو اپنے معاشی، نظریاتی مفادات کی جہت پر تشکیل دیتا ہے، جو 'دوسرے' کو خود معنی پہناتا ہے، اپنے سوا سب کو 'مرکز' سے ہٹا دینا چاہتا ہے۔
وہ ہے جدید لبرل بورژوا انسان جو گزشتہ تین صدیوں سے ہر مغربی فلسفے کا مرکزی حوالہ رہا ہے، ایک بھی لبرل فلسفہ ایسا نہیں ہے جس میں اس بورژوا انسان کو برقرار رکھنے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ نوعِ انسانی کی نجات و بقا کے لیے اس بورژوا انسان کی ڈی کنسٹرکشن کی ضرورت کو خود مغربی سماج میں محسوس کیا گیا ہے۔اور یہی وہ نکتہ ہے جس کی تفہیم کا ہماری ساری مابعد جدید فکری روایت میں فقدان ہے۔ وہ نقاد جو لبرل روایت کی پاسبانی کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں وہ اس مرکزی خیال کو بھی نہیں سمجھ رہے کہ ڈی کنسٹرکشن مغربی ہیومن ازم کی ساری روایت کو 'منہدم' کرنے کی داعی ہے۔عہدِ سرمایہ داری میں انسان کے ان دو بنیادی تصورات سے ہٹ کر انسان کا کوئی اور تصور موجود نہیں ہے۔ ڈی کنسٹرکشن کے بعد اس سے پہلے کی کسی جگہ پر جاکر اس بورژوا انسان کے کسی تصور کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔
ڈی کنسٹرکشن کی حدود یہ ہیں کہ اس کی ساری بحث نظری سطح سے شروع ہوکر وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ ڈی کنسٹرکشن کو عملی جامہ کیسے پہنانا ہے، اس کے بارے میں کوئی ایک بھی نکتہ پیش نہیں کیا گیا۔ اس کا قابلِ تحسین پہلو فقط یہ ہے کہ اس نے انسان کی مرکزیت پر قائم تمام لبرل فلسفوں کے حوالے سے تشکیک کو جنم دیا ہے۔ ان کے اندر رہتے ہیں ان کی کو غیر مستحکم کیا ہے۔
نظریے، تصورات، فلسفوں کا استحکام انھیں مطلق العنانیت کی جانب لے جاتا ہے، اور یہ انسان ہی ہے جو اپنی مطلق العنانیت کے لیے مخصوص نظریات کو مستحکم کرتا ہے اور انھیں خود سے مختلف نظریات سے نفرت پر اکساتا ہے۔ اس لیے فلسفوں سے تشکیل پائے ہوئے مستحکم (بورژوا) انسان کا تصور ہمہ وقت اس کی زد پر رہتے ہیں۔یہ نظری سطح پر جدید لبرل انسان، مصنف، جو خدا کو مرکز سے ہٹا کرخود مرکز میں آگیا تھا، اسے مرکز سے ہٹانے کی سعی کرتی ہے۔ اس کا اطلاق ان طبقات پر کیا ہی نہیں جاسکتا جو کبھی مرکز یا اقتدار میں نہیں آئے اور ان طبقات کی مرکز میں آنے کی خواہش کو بھی یہ قبول نہیں کرتی،کیونکہ یہ بنیادی طور پر مرکزیت کے تصور کے ہی خلاف ہے۔