اب ڈرون اُگائے جائیں گے
یہ ڈیوائس یا مشین مالیکیولی سطح پر کیمیائی تعامل کو کنٹرول کرتے ہوئے اس کی وقوع پذیری کو مہمیز دے گی۔
SUKKUR:
ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال اب وسیع پیمانے پر ہورہاہے، عسکری مقاصد کے لیے وضع کی گئی ٹیکنالوجی سول کاموں کے لیے بھی کام یابی سے استعمال کی جارہی ہے۔ عسکری حدود سے نکل کر عوامی حدود میں داخل ہونے کے باوجود فوجی مقاصد کے حصول میں اس کی اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ افادیت اور ضرورت کے پیش نظر فزوں تر ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرون ٹیکنالوجی پر تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔
ابتدا میں ڈرون طیارے روایتی طریقے سے بنائے گئے یعنی مشینوں کے ذریعے ان کے مختلف حصے اور پرزے تیار کیے گئے پھر انھیں جوڑ کر پائلٹ کے بغیر اڑنے والے طیارے کی شکل دے دی گئی۔ عسکری ڈرون کے دو مقاصد ہوتے ہیں:دشمن کی جاسوسی اور آسمان سے زمین پر اور میزائلوں کی صورت میں موت برسانا۔ عوامی یا شہری استعمال کے ڈرونز کواڈ کو پٹر بھی کہلاتے ہیں۔ یہ جسامت میں عسکری ڈرونز سے کافی چھوٹے ہوتے ہیں اور چار پنکھوں کے سہارے اڑتے ہیں، اس لیے انھیں کواڈ کو پٹر کہا جاتا ہے۔ یہ بھی جاسوسی اور فضا سے عکس بندی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں نصب کیمروں سے ویڈیو بنائی جاسکتی اور تصاویر کھینچی جاسکتی ہیں۔
تھری ڈی پرنٹنگ عام ہونے کے بعد اب ڈرون طیارے بنانے میں بھی اس سے کام لیا جارہاہے، بالخصوص عسکری ڈرونز تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی سے بنائے جارہے ہیں۔ جنگی طیاروں کی پیداوار میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال کئی برس پہلے شروع ہوگیا تھا۔عسکری ماہرین کہتے ہیں کہ تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی سے ہوائی جہازوں کی تیاری میں روایتی طریقوں کی نسبت کئی گنا کم وقت صرف ہوتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اس لیے زیادہ مفید ہے کہ اس کی مدد سے میدان جنگ کے قریب ضرورت کے مطابق پرزے اور آلات فوری بنائے جاسکتے ہیں۔
سائنس دان ڈرون کی مزید تیزتر فراہمی ممکن بنانے کے لیے ایک اور سمت میں تحقیق کررہے ہیں۔ ان کا مقصد ڈرون تیار کرنا نہیں بلکہ ''اُگانا'' ہے۔ گلاسگو یونی ورسٹی کے پروفیسر لی کرونن کی سربراہی میں سائنس دانوں کی ٹیم اس منصوبے پر کام کررہی ہے۔ پروفیسر لی کرونن ایک ڈیوائس کی تیاری پر تحقیر کررہے ہیں جسے انھوں نےChemputer کا نام دیا ہے۔
یہ ڈیوائس یا مشین مالیکیولی سطح پر کیمیائی تعامل کو کنٹرول کرتے ہوئے اس کی وقوع پذیری کو مہمیز دے گی۔ نتیجتاً بہت کم وقت میں طیارے کی تخلیق کے تمام مراحل مکمل ہوجائیںگے۔ فی الوقت عسکری ڈرون کی تیاری میں کئی مہینے لگ جاتے ہیں۔ Chemputerکے حقیقت بن جانے کے بعد یہ دورانیہ کم ہوکر ہفتوں تک محدود ہوجائے گا۔ ڈرون کے حصوں کی تیاری کے لیے خام مال مائع صورت میں اس مشین میں ڈالا جائے گا اس میں موجود مخصوص کیمیکلز کے ذریعے خام مال میں مالیکیولی سطح پر تعامل وقوع پذیر ہوگا اور وہ بتدریج مطلوبہ حصوں اور پرزوں کی شکل اختیار کرجائے گا۔ پروفیسر لی کا کہناہے کہChemputer کو حقیقت بنانے کی جانب وہ پیش رفت کررہے ہیں مگر اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ مشین کب تک تیار ہوگی۔
ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال اب وسیع پیمانے پر ہورہاہے، عسکری مقاصد کے لیے وضع کی گئی ٹیکنالوجی سول کاموں کے لیے بھی کام یابی سے استعمال کی جارہی ہے۔ عسکری حدود سے نکل کر عوامی حدود میں داخل ہونے کے باوجود فوجی مقاصد کے حصول میں اس کی اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ افادیت اور ضرورت کے پیش نظر فزوں تر ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرون ٹیکنالوجی پر تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔
ابتدا میں ڈرون طیارے روایتی طریقے سے بنائے گئے یعنی مشینوں کے ذریعے ان کے مختلف حصے اور پرزے تیار کیے گئے پھر انھیں جوڑ کر پائلٹ کے بغیر اڑنے والے طیارے کی شکل دے دی گئی۔ عسکری ڈرون کے دو مقاصد ہوتے ہیں:دشمن کی جاسوسی اور آسمان سے زمین پر اور میزائلوں کی صورت میں موت برسانا۔ عوامی یا شہری استعمال کے ڈرونز کواڈ کو پٹر بھی کہلاتے ہیں۔ یہ جسامت میں عسکری ڈرونز سے کافی چھوٹے ہوتے ہیں اور چار پنکھوں کے سہارے اڑتے ہیں، اس لیے انھیں کواڈ کو پٹر کہا جاتا ہے۔ یہ بھی جاسوسی اور فضا سے عکس بندی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں نصب کیمروں سے ویڈیو بنائی جاسکتی اور تصاویر کھینچی جاسکتی ہیں۔
تھری ڈی پرنٹنگ عام ہونے کے بعد اب ڈرون طیارے بنانے میں بھی اس سے کام لیا جارہاہے، بالخصوص عسکری ڈرونز تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی سے بنائے جارہے ہیں۔ جنگی طیاروں کی پیداوار میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال کئی برس پہلے شروع ہوگیا تھا۔عسکری ماہرین کہتے ہیں کہ تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی سے ہوائی جہازوں کی تیاری میں روایتی طریقوں کی نسبت کئی گنا کم وقت صرف ہوتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اس لیے زیادہ مفید ہے کہ اس کی مدد سے میدان جنگ کے قریب ضرورت کے مطابق پرزے اور آلات فوری بنائے جاسکتے ہیں۔
سائنس دان ڈرون کی مزید تیزتر فراہمی ممکن بنانے کے لیے ایک اور سمت میں تحقیق کررہے ہیں۔ ان کا مقصد ڈرون تیار کرنا نہیں بلکہ ''اُگانا'' ہے۔ گلاسگو یونی ورسٹی کے پروفیسر لی کرونن کی سربراہی میں سائنس دانوں کی ٹیم اس منصوبے پر کام کررہی ہے۔ پروفیسر لی کرونن ایک ڈیوائس کی تیاری پر تحقیر کررہے ہیں جسے انھوں نےChemputer کا نام دیا ہے۔
یہ ڈیوائس یا مشین مالیکیولی سطح پر کیمیائی تعامل کو کنٹرول کرتے ہوئے اس کی وقوع پذیری کو مہمیز دے گی۔ نتیجتاً بہت کم وقت میں طیارے کی تخلیق کے تمام مراحل مکمل ہوجائیںگے۔ فی الوقت عسکری ڈرون کی تیاری میں کئی مہینے لگ جاتے ہیں۔ Chemputerکے حقیقت بن جانے کے بعد یہ دورانیہ کم ہوکر ہفتوں تک محدود ہوجائے گا۔ ڈرون کے حصوں کی تیاری کے لیے خام مال مائع صورت میں اس مشین میں ڈالا جائے گا اس میں موجود مخصوص کیمیکلز کے ذریعے خام مال میں مالیکیولی سطح پر تعامل وقوع پذیر ہوگا اور وہ بتدریج مطلوبہ حصوں اور پرزوں کی شکل اختیار کرجائے گا۔ پروفیسر لی کا کہناہے کہChemputer کو حقیقت بنانے کی جانب وہ پیش رفت کررہے ہیں مگر اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ مشین کب تک تیار ہوگی۔