مسئلہ کشمیر فیس بک اور برہان وانی

عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت سے اُس وقت تک سلسلہ ترک کردے جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ نہیں ہو

بھارت مسلسل طاقت کا استعمال کرکے کشمیریوں کو مجبورکررہا ہے کہ وہ بھی طاقت کا مقابلہ طاقت سے کریں۔ لیکن وہ نہیں جانتا کہ اگرایسا ہوگیا تو قابض فوجیوں کو منہ چھپانےکی جگہ تک نہیں ملے گی۔

RAWALPINDI:
نوجوان برہان وانی کے ماورائے عدالت قتل کے بعد کشمیریوں میں تحریک آزادی کی ایک نئی لہر ابھر رہی ہے۔ لاکھوں کشمیری اسکی نمازہ جنازہ پڑھنے کے لیے نکل آئے۔ لیکن بھارت نے ہمیشہ کی طرح احتجاج کو دبانے کے لیے کرفیو نافذ کردیا ہے اور انٹرنیٹ بھی بند کروا دیا۔ لیکن کشمیری ان ہتھکنڈوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اب بھی احتجاج کررہے ہیں جبکہ عوامی جوش سے گھبراتے ہوئے بھارتی فورسز نے ایک بار پھر وحشیانہ تشدد کا آغاز کردیا ہے جس کے نتیجے میں اب تک کم از کم 20 سے زائد کشمیری شہید اور 150 سے زائد ہوچکے ہیں۔

اِس پورے معاملے میں دنیا خاموش ہے اور اس مسئلے کو مودی کی عینک سے دیکھ رہی ہے۔ حالانکہ مودی کے اقتدار میں آتے ہی بھارت میں مذہبی منافرت میں اضافہ ہوچکا ہے اور ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ کچھ ماہ پہلے معروف امریکی اسکالر نوم چومسکی نے کہا تھا کہ مودی حکومت میں انسانی صورتحال بُری طرح گرچکی ہے۔

درج بالا حقائق بیان کرنے کا مقصد دراصل فیس بک کی جانب سے آزادی کشمیر کے حمایتی افراد اور اداروں کے فیس بک پیجز اور اکاونٹس بند کرنے کا تجزیہ کرنا ہے۔ ان میں تحریک کشمیر برطانیہ کا فیس بک پیج بھی شامل ہے جو ایک پُرامن تنظیم ہے اور آزادی کشمیر کے لیے کوشاں ہے۔ اِس بندش کے خلاف تنظیم کے صدر راجہ فہیم کیانی نے اس کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اسی طرح یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کی ریسرچ ایسوسی ایٹ ہماڈار کا فیس بک اکاونٹ بھی بند کردیا گیا۔ اسی طرح پاکستان میں بھی بہت سے اکاونٹ بند کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

اس سے پہلے اس طرح کے معاملات صرف مقبوضہ کشمیر میں ہوتے تھے، جبکہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کا کئی کئی روز کے لیے بند کردینا اور کشمیر کی آزادی کے حق میں پوسٹس کرنے والوں کو ڈرانا ڈھمکانا ایک معمول کا حصہ ہے، لیکن کشمیر سے باہر نکل کر بھی اِس طرح کی پابندی عائد کرنے کا تجربہ پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے۔

فیس بک نے دنیا کو ایک نئی زبان دی اور تحریکیں چلانے کا انداز بدل دیا ہے، اس کا ایک مظاہرہ تو ہم عرب بہار میں دیکھ چکے ہیں۔ فیس بک کے بانی مارک زکر برگ کا یہ عزم بھی قابل تعریف ہے کہ وہ دنیا کے ہر شخص تک انٹرنیٹ کی رسائی کے لیے کام کررہے ہیں اور وسیع تر مکلامے کے ذریعے بڑے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ لیکن آزادی کشمیرکے حمایتیوں کے اکاونٹس اور پیجز بند کرنا فیس بک کے اپنے اصولوں کے ساتھ مذاق ہے۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ کشمیریوں کے لیے پُرامن جدوجہد ہی ذیادہ فائدہ مند ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ برہان وانی کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف احتجاج کرنا اور کشمیریوں کی آزادی کی حمایت کرنا جرم ہے؟ یقیناً نہیں، لیکن بھارت مسلسل طاقت کا استعمال کرکے کشمیریوں کو مجبور کررہا ہے کہ وہ بھی طاقت کا مقابلہ طاقت سے کریں۔ لیکن وہ نہیں جانتا کہ اگر کشمیریوں نے بھی طاقت کا استعمال شروع کردیا تو یہ لاکھوں کی تعداد میں قابض فوجی بھی منہ چھپاتے پھریں گے۔


عرب بہار کے دوران لیبیا میں بھی اس سے ملتی جلتی صورتحال پیدا ہوگئی تھی جب لوگ سڑکوں پر نکلے اور اپنے جمہوری حقوق کا مطالبہ کیا تو کرنل قذافی نے انکو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ ایسا کرنے کی صورت میں لوگوں نے مجبوراً قذافی کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کردی۔ جب لوگوں نے حکومت کے خلاف آواز بلند کی تو پھر وہاں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف باغیوں کی حمایت کی بلکہ خود بھی لیبیا پر حملہ کردیا اور قذافی حکومت کا خاتمہ کردیا۔


کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے پرانا مسئلہ ہے، ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ''پاک سر زمین'' مقبوضہ کشمیر کی مقبول ترین، رنگ ٹونز میں سے ہے جو موبائل ٹو موبائل پھیل رہی ہے۔ ایسے میں فیس بک کو بھارتی پروپیگنڈے سے متاثر ہونے کے بجائے، کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر کرنے اور وسیع تر مکلالمے کے فروغ کی کوشش کرنی چاہیئے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ فیس بک خود بھی فریق بن گیا ہے جو انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔

کشمیر کے حل کے لیے ضروری ہے کہ یہاں بھی اسکاٹ لینڈ کے طرز پر ریفرنڈم کروایا جائے۔ وہاں دیکھیے کہ طویل عرصے سے جاری مسئلہ کچھ دنوں کی مہم کی صورت میں ہونے والے ایک دن کے ریفرنڈم میں حل ہوگیا۔ بالکل اِسی طرح کشمیر میں بھی لوگوں کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کریں، پھر لوگوں کی اکثریت جو بھی فیصلہ کریں اُسے مان لینا چاہیے۔ یوں روزانہ کی بنیاد پر تصادم ہوگا، نہ لوگوں کی عزتیں پامال ہونگی۔

اِسی طرح عالمی طاقتوں کو بھی چاہیے کہ سب سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے بھارت پر دباو بڑھائیں اور اُس کے ساتھ اُس وقت تک ہر قسم کے معاہدوں اور روابط کا سلسلہ ترک کردیا جائے جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہوجائے، اور وہ جب تک کشمیریوں کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ اپنا فیصلہ خود کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر دونوں سے الگ رہ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان، بھارت اور کشمیریوں کے سہ فریقی مزاکرات کے ذریعے فوری طور پر اعتماد سازی کے لیے اقدامات کیے جائیں اور مسئلے کے مستقل حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ریفرنڈم کے طریقہ کار کا تعین کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

Load Next Story