ایران کے رہبر علی خامنہ ای صاحب کی خدمت میں
ایرانی انقلاب کی موجود ہ ھیئت اور سمت پر کئی صاحبانِ دانش سے تبادلۂ خیال ہوتا رہا
ایرانی انقلاب کی موجود ہ ھیئت اور سمت پر کئی صاحبانِ دانش سے تبادلۂ خیال ہوتا رہا، بہت سے باخبر حضرات کے تجزئیے کے مطابق اگر صدّام، ایران کے خلاف جنگ نہ چھیڑتا تو ایران کے لِبرل طبقے کی مزاحمت اور مخالفت کے سبب حکمران حکومت کمزور ہو جاتی۔ اگر حملہ آور یا متحارب ملک غیر مسلم ہوتا تو ایران کی مزاحمت صرف اسلام کے نام پر ہوتی، صرف اسلامی نعروں اور نغموں سے فوج اور قوم کا لہو گرمایا جاتا اور اسلامی انقلاب کا رنگ غالب رہتا۔ مگر متحارب عراق چونکہ مسلمان ملک تھا اور صدّام سُنّی مسلک سے تعلق رکھتا تھا اس لیے سُنّی جارح کے خلاف نیشلزم، مسلکی جذبات اور شیعہ عصبیت کو ہوا دی گئی، شیعہ مسلک اور ایرانی نیشنلزم یکجا ہو گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انقلاب کو اسلامی رکھنے کے وسیع النظر حامی کمزور ہو گئے اور تنگ نظر فرقہ پرست زور پکڑتے گئے جس سے انقلاب کا اسلامی رنگ دھندلا گیا اور مسلکی رنگ غالب آ گیا۔
ایران کے موجودہ سپریم لیڈر آیت اﷲعلی خامنہ ای پاکستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں اور پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود ایران کا دامن، بھارت (جہاں آئے دن بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ہے) کے لیے محبتوں اور پاکستان کے لیے شکایتوں سے لبریز ہو تو یہ باعثِ تشویش ہے۔ پاکستان میں بسنے والے ایرانی انقلاب کے ہمدرد یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا اﷲ اور رسول ؐ کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والے پاکستان کا اپنے برادر اسلامی ملک پر کوئی حق نہیں ہے؟ کیا انقلابِ ایران کا دل و جان سے خیر مقدم کرنے والے پاکستان کے لیے ایران کے دامن میں سرد مہری اور مخاصمت کے سوا کچھ نہیں ہے؟
ہمیں توقع تھی کہ اسلامی ایران کے سب سے گہرے مراسم ہمسایہ اسلامی پاکستان کے ساتھ ہوں گے اور ایران مسلمانوں پر ظلم روا رکھنے والی اور اﷲ اکبر کا نعرہ لگانے والے کشمیری نوجوانوں کو گولیوں سے چھلنی کرنے والی متعصّب بھارتی حکومت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کے بجائے ECO جیسے ادارے کو ایک مضبوط اور توانا تنظیم میں بدل دے گا ، مگر برادر ایران کا رویّہ ہمارے لیے صدمے اور تشویش کا باعث بنا ہے۔ اگر راقم کی جناب علی خامنہ ای صاحب سے ملاقات ہوتی تو میں بصد احترام ان سے گزارش کرتا کہ ماضی میں امریکا کے تمام تر دباؤ کے باوجود پاکستان نے ایران کے خلاف کارروائی کی مخالفت کی اور اس کا حِصّہ بننے سے انکار کر دیا۔ ایران کا سینہ اپنے ہمسائے پاکستان کے لیے برادرانہ جذبات سے لبریز ہونا چائیے تھا۔
مگر ایسا کیوں نہیں ہے؟ پاکستان میں ایران کے سات کلچرل سینٹر قائم ہیں۔ مگر تہران میں پاکستان کا ایک بھی کلچرل سینٹر قائم کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ وہاں بھارت کا کلچرل سینٹر بھی قائم ہو چکا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ جنابِ علی خامنہ ای صاحب! آپ تو خود بہت بڑے عالمِ دین بھی ہیں جس نام کی عظمت کے نعروں سے آپ کو قوّت ملی اور آپ نے شہنشاہیّت کو الٹ دیا۔ اُسی اﷲ سُبحانَ تعالیٰ کا فرمان ہے یَاایُّھَا الّٰذِینَ اٰمَنَوا لَا تَتَّخِذُ والکٰفِرِینَ اَولِیاء َ مِن دُونِ المُومِنِین (اے لوگو جو ایمان لائے ہو! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ)۔ (اَلقُرآن ) اس واضح حُکمِ خُداوندی کے باوجود ایرانی حکومت کا پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی طرف جھکاؤ ناقابلِ فہم ہے۔
جنابِ علی خامنہ ای عالمِ دین ہونے کے علاوہ صاحبِ فکر و دانش بھی ہیں۔ ان سے بڑھکر اس حقیقت سے کون آشنا ہو گا کہ اﷲ کا دین تو حضرت محمدـﷺ پر مکمّل ہو گیا ، آپﷺ کے بعدجو بھی ہے وہ تاریخ ہے یا سیاست، ا ٓپﷺ کے بعد آپکے پیروکاروں میں اگر کوئی قضیہ یا اختلاف ہے تو وہ تاریخی ہے یا سیاسی۔ دینی ھرگز نہیں ہے۔ لہذا کسی تاریخی یا سیاسی اختلاف کو پورے دین پر حاوی کر لینا یا نظریّہء حیات کی بنیاد بنا لینا کیا اسلامی انقلاب کے علمبرداروں کے لیے درست روّیہ ہے؟
راقم کو اگر سپریم لیڈر سے ملنے کا موقع ملتا تو ضرور گزارش کرتا کہ چند عرب ممالک کو چھوڑ کر دنیائے اسلام نے ایران کے اسلامی انقلاب کا گرمجوشی سے خیر مقدم کیا تھا۔ اگر ایران کے مذہبی پیشو ا، امام خمینی کی پالیسی پر چلتے ہوئے توحیدِ الٰہی کی عطا کردہ وسعتِ نظری برقرار رکھتے اور قافلۂ انقلاب کو اسلام کی وسیع اور کشادہ شاہراہ سے اتار کر فرقے اور مسلک کی تنگ گلیوں میں نہ ڈال دیتے تو ایران ایک ارفع مقام پر فائز ہوتا پھر ایران، تنہائی کا شکار ہونے کے بجائے دنیائے اسلام کا لیڈر ہوتا اور شاعرِ مشرق کے خواب اور خواہش کے عین مطابق تہران عالمِ مشرق (Eastern World) کا ہیڈ کوارٹر ہوتا اور کرّۂ ارض کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہوتا۔
جناب علی خامنہ ای صاحب علّامہ اقبالؒ کے بہت بڑے مدّاح ہیں اور ان کی فکرا ور فلسفے سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔شاعرِ مشرق کے بارے میں آپ نے لکھاّ ہے کہ"
ڈاکٹر اقبال ؒ اپنی زندگی میں ایران نہ آسکے کیونکہ یہاں استعماری حکومت قائم تھی۔ اب اسلامی حکومت دیکھ کر اقبال ؒکس قدر خوش ہوتے۔"
جناب ِ والا! آپ کا ممدوح اور مشرق کا بے مثل شاعر تو مسلمانوں کے اتحاّد کا سب سے بڑا نقیب تھا اورفرقوں کی بنیاد پر مسلمانوں کے درمیان انتشار اور اختلاف پر دل گرفتہ ہوتا تھا۔ اقبالؒ اگر آج زندہ ہوتے اور ایران جا کر دیکھتے کہ مذہبی پیشواؤں کی حکومت میں اسلام کی عطا کردہ فراخ دلی کی جگہ فرقہ پرستی کی تنگ نظری نے لے لی ہے تو انھیں کتنا دکھ ہوتا اور جب وہ دیکھتے کہ اسلام کے علمبرداروں کے نزدیک نسل، دین پر مقدم ہو چکی ہے تو انھیں کِس قدر صدمہ پہنچتا۔
بلند ستارۂ مشرق کے مصنّف کو اقبالؒ کے فارسی اشعار تو ازبر ہونگے۔ شاعرِ اسلام کے چند اردو اشعار بھی آپکی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ اقبالؒ مسلمانوں کو متنبّہ کر تے رہے کہ۔
؎نسل گر مسلم کی مذہب پر مقدّم ہو گئی
ِمٹ گیا دنیا سے وہ مانندِ خاکِ رہگزر
اقبال ؒ دنیا بھر کے مسلمانوں کو رنگ و نسب کے غبار سے دامن جھاڑ کر متحّد اور یک جان ہونے کی تلقین کرتے رہے۔
؎یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندہ ٔساحل اچھل کر بے کراں ہو جا
غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حِرم ! اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا
اور اقبالؒ کے یہ اشعار تو آپ ہزاروں بار پڑھ چکے ہونگے
؎نہ افغانیم ونے ترک و تتاریم
چمن زادیم و ازیک شاخساریم
تمیزِ رنگ و بو برما حرام است
کہ ما پروردہ یک نو بہاریم
پاکستان کے کسی قصبے یا گاؤں میں اگر کسی اہلِ تشیعہ کا اکلوتا گھر ہے تو اس نے وہاں بھی اپنی مسجد بنا لی ہے اور اسے کبھی کسی نے نہ روکا ہے نہ منع کیا ہے مگر آپ کی حکومت تمام مسلم ممالک کو پورے تہران میں ایک مسجد بنانے کی اجازت نہیں دے رہی، آپکی حکومت تہران میںپاکستان کا ایک کلچرل سینٹر قائم کرنے کی اجازت نہیں دے رہی جو انتہائی تشویشناک ہے۔ آپ اس مسٔلے پرذاتی طور پر مداخلت کریں اور ایران کے مذہبی پیشواؤں کو فراخدلی کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ کریں اس سے پوری اسلامی دنیا میں ایران کے بارے میں بہت مثبت تاثّر قائم ہو گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مشکل گھڑی میں سعودی عرب نے ہمارا ہاتھ تھاما ہے اور ہمیں معاشی طور پر سہارا دیا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے عوام کے دلوں میں حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب کے لیے عقیدت اور محبت کی جڑیں بہت گہری ہیں اس لیے اس کے ساتھ ہمارے خصوصی مراسم ہیں اور قائم رہیں گے مگر ایران جیسے اہم ہمسایہ اسلامی ملک کو نظر انداز کرنا ہم افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔ ایران اور سعودی عرب کو قریب لانا بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان اور ترکی ملکر مصالحانہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جنابِ طیّب اردوان اور میاں نواز شریف یہ اہم کردار ادا کر جائیں تو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
ایدھی صاحب
عبدالستار ایدھی مرحوم نے خدا کے بندوں سے پیار کیا تو خدا نے اپنے بندوں کے دل اس درویش کی محبت اور عزت سے بھردیے ۔ اس نے کروڑوں پاکستانیوں کو Inspire کیاہے اسلیٔے امّید ہے کہ یہاں بہت سے ایدھی پیدا ہوں گے۔ اگر نوبل انعام میرٹ پر ملتا تو ایدھی صاحب سے زیادہ اس کا کوئی حقدار نہیں تھا ۔ پاکستان کی بہادر بچّی ملالہ نے تو ابھی عملی زندگی میں قدم ہی نہیں رکھا تھا اسے تو ـ" انھوں" نے اپنے طور پر ہی شائد ان 'خدمات'کے لیے نوبل انعام دیا ہے جو ابھی اس نے انجام دینی ہیں۔ مگر ایدھی صاحب کی خدمات کا تو ایک زمانہ دل وجان سے معترف ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ میڈیا پر صرف سیا ست بازی اور شوبز کا قبضہ ہے اس لیے ایدھی صاحب جیسی غیر معمولی شخصیات کو بھی مناسب میڈیا کوریج کے لیے موت کا انتظار کرنا پڑا ہے۔
اناللہ واناالیہ راجعون
عید کی پوری چھٹیوں میں ٹیلی ویژن بند رکھا۔ چھُٹیوں کے بعد ٹی وی آن کیا تو آنکھوں نے عجیب منظر دیکھا ۔ ہزاروں کشمیری نوجوان پاکستانی پرچم ہاتھوںمیں لیے سرینگر کی سڑکوں پر نکل آئے ہیں، بھارتی فوج درندگی کی تمام حدّیں پھلانگ کر بے گناہ نوجوانوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کر رہی ہے اور وہ اَن دیکھے پاکستان کی محبت اور عشق میں بھارتی فوجیوں کی درندگی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہر روز خوبرو جوان کٹ کٹ کر گررہے ہیں اور کشمیر کی گلیا ں اُن کے خون سے لالہ زار ہیں ۔ شہید برہان وانی کشمیریوں کے لیے آزادی اور حرّیت کی علامت بن چکا ہے جسکے جنازے میں چھ لاکھ افراد شریک ہوئے۔
پاکستان میں اتنا بڑا جنازہ انسانی آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا۔ کیا پاکستان کے عوام اور پاکستان کی حکومت اور فوج اپنی شاہ رگ کشمیر کے جوانوں کے جذبوں اور قربانیوں کا کوئی پاس نہیں کریگی؟ گزارش ہے کہ وزیرِاعظم صاحب فوری طور پر ملٹری کمانڈر ز اور اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مشاورت کریں اور ایک مؤثر لائحہ عمل ترتیب دیں۔ حکومت ، مودی سرکارکے وحشیانہ مظالم کو عالمی میڈیا کے ذریعے اجاگر کرے اور وفود بھیج کر بھارتی بربریّت کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔ بخُدا ! ان نوجوانوں کا خون رائیگاں نہیں جائیگا جنکی زبان پر اﷲ اکبر کے نعرے ہیں اور ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم!! مگر تاریخ کے اس اہم موڑ پر پاکستانی قیادت کو ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہو گا۔
ایران کے موجودہ سپریم لیڈر آیت اﷲعلی خامنہ ای پاکستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں اور پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود ایران کا دامن، بھارت (جہاں آئے دن بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ہے) کے لیے محبتوں اور پاکستان کے لیے شکایتوں سے لبریز ہو تو یہ باعثِ تشویش ہے۔ پاکستان میں بسنے والے ایرانی انقلاب کے ہمدرد یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا اﷲ اور رسول ؐ کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والے پاکستان کا اپنے برادر اسلامی ملک پر کوئی حق نہیں ہے؟ کیا انقلابِ ایران کا دل و جان سے خیر مقدم کرنے والے پاکستان کے لیے ایران کے دامن میں سرد مہری اور مخاصمت کے سوا کچھ نہیں ہے؟
ہمیں توقع تھی کہ اسلامی ایران کے سب سے گہرے مراسم ہمسایہ اسلامی پاکستان کے ساتھ ہوں گے اور ایران مسلمانوں پر ظلم روا رکھنے والی اور اﷲ اکبر کا نعرہ لگانے والے کشمیری نوجوانوں کو گولیوں سے چھلنی کرنے والی متعصّب بھارتی حکومت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کے بجائے ECO جیسے ادارے کو ایک مضبوط اور توانا تنظیم میں بدل دے گا ، مگر برادر ایران کا رویّہ ہمارے لیے صدمے اور تشویش کا باعث بنا ہے۔ اگر راقم کی جناب علی خامنہ ای صاحب سے ملاقات ہوتی تو میں بصد احترام ان سے گزارش کرتا کہ ماضی میں امریکا کے تمام تر دباؤ کے باوجود پاکستان نے ایران کے خلاف کارروائی کی مخالفت کی اور اس کا حِصّہ بننے سے انکار کر دیا۔ ایران کا سینہ اپنے ہمسائے پاکستان کے لیے برادرانہ جذبات سے لبریز ہونا چائیے تھا۔
مگر ایسا کیوں نہیں ہے؟ پاکستان میں ایران کے سات کلچرل سینٹر قائم ہیں۔ مگر تہران میں پاکستان کا ایک بھی کلچرل سینٹر قائم کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ وہاں بھارت کا کلچرل سینٹر بھی قائم ہو چکا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ جنابِ علی خامنہ ای صاحب! آپ تو خود بہت بڑے عالمِ دین بھی ہیں جس نام کی عظمت کے نعروں سے آپ کو قوّت ملی اور آپ نے شہنشاہیّت کو الٹ دیا۔ اُسی اﷲ سُبحانَ تعالیٰ کا فرمان ہے یَاایُّھَا الّٰذِینَ اٰمَنَوا لَا تَتَّخِذُ والکٰفِرِینَ اَولِیاء َ مِن دُونِ المُومِنِین (اے لوگو جو ایمان لائے ہو! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ)۔ (اَلقُرآن ) اس واضح حُکمِ خُداوندی کے باوجود ایرانی حکومت کا پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی طرف جھکاؤ ناقابلِ فہم ہے۔
جنابِ علی خامنہ ای عالمِ دین ہونے کے علاوہ صاحبِ فکر و دانش بھی ہیں۔ ان سے بڑھکر اس حقیقت سے کون آشنا ہو گا کہ اﷲ کا دین تو حضرت محمدـﷺ پر مکمّل ہو گیا ، آپﷺ کے بعدجو بھی ہے وہ تاریخ ہے یا سیاست، ا ٓپﷺ کے بعد آپکے پیروکاروں میں اگر کوئی قضیہ یا اختلاف ہے تو وہ تاریخی ہے یا سیاسی۔ دینی ھرگز نہیں ہے۔ لہذا کسی تاریخی یا سیاسی اختلاف کو پورے دین پر حاوی کر لینا یا نظریّہء حیات کی بنیاد بنا لینا کیا اسلامی انقلاب کے علمبرداروں کے لیے درست روّیہ ہے؟
راقم کو اگر سپریم لیڈر سے ملنے کا موقع ملتا تو ضرور گزارش کرتا کہ چند عرب ممالک کو چھوڑ کر دنیائے اسلام نے ایران کے اسلامی انقلاب کا گرمجوشی سے خیر مقدم کیا تھا۔ اگر ایران کے مذہبی پیشو ا، امام خمینی کی پالیسی پر چلتے ہوئے توحیدِ الٰہی کی عطا کردہ وسعتِ نظری برقرار رکھتے اور قافلۂ انقلاب کو اسلام کی وسیع اور کشادہ شاہراہ سے اتار کر فرقے اور مسلک کی تنگ گلیوں میں نہ ڈال دیتے تو ایران ایک ارفع مقام پر فائز ہوتا پھر ایران، تنہائی کا شکار ہونے کے بجائے دنیائے اسلام کا لیڈر ہوتا اور شاعرِ مشرق کے خواب اور خواہش کے عین مطابق تہران عالمِ مشرق (Eastern World) کا ہیڈ کوارٹر ہوتا اور کرّۂ ارض کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہوتا۔
جناب علی خامنہ ای صاحب علّامہ اقبالؒ کے بہت بڑے مدّاح ہیں اور ان کی فکرا ور فلسفے سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔شاعرِ مشرق کے بارے میں آپ نے لکھاّ ہے کہ"
ڈاکٹر اقبال ؒ اپنی زندگی میں ایران نہ آسکے کیونکہ یہاں استعماری حکومت قائم تھی۔ اب اسلامی حکومت دیکھ کر اقبال ؒکس قدر خوش ہوتے۔"
جناب ِ والا! آپ کا ممدوح اور مشرق کا بے مثل شاعر تو مسلمانوں کے اتحاّد کا سب سے بڑا نقیب تھا اورفرقوں کی بنیاد پر مسلمانوں کے درمیان انتشار اور اختلاف پر دل گرفتہ ہوتا تھا۔ اقبالؒ اگر آج زندہ ہوتے اور ایران جا کر دیکھتے کہ مذہبی پیشواؤں کی حکومت میں اسلام کی عطا کردہ فراخ دلی کی جگہ فرقہ پرستی کی تنگ نظری نے لے لی ہے تو انھیں کتنا دکھ ہوتا اور جب وہ دیکھتے کہ اسلام کے علمبرداروں کے نزدیک نسل، دین پر مقدم ہو چکی ہے تو انھیں کِس قدر صدمہ پہنچتا۔
بلند ستارۂ مشرق کے مصنّف کو اقبالؒ کے فارسی اشعار تو ازبر ہونگے۔ شاعرِ اسلام کے چند اردو اشعار بھی آپکی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ اقبالؒ مسلمانوں کو متنبّہ کر تے رہے کہ۔
؎نسل گر مسلم کی مذہب پر مقدّم ہو گئی
ِمٹ گیا دنیا سے وہ مانندِ خاکِ رہگزر
اقبال ؒ دنیا بھر کے مسلمانوں کو رنگ و نسب کے غبار سے دامن جھاڑ کر متحّد اور یک جان ہونے کی تلقین کرتے رہے۔
؎یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندہ ٔساحل اچھل کر بے کراں ہو جا
غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حِرم ! اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا
اور اقبالؒ کے یہ اشعار تو آپ ہزاروں بار پڑھ چکے ہونگے
؎نہ افغانیم ونے ترک و تتاریم
چمن زادیم و ازیک شاخساریم
تمیزِ رنگ و بو برما حرام است
کہ ما پروردہ یک نو بہاریم
پاکستان کے کسی قصبے یا گاؤں میں اگر کسی اہلِ تشیعہ کا اکلوتا گھر ہے تو اس نے وہاں بھی اپنی مسجد بنا لی ہے اور اسے کبھی کسی نے نہ روکا ہے نہ منع کیا ہے مگر آپ کی حکومت تمام مسلم ممالک کو پورے تہران میں ایک مسجد بنانے کی اجازت نہیں دے رہی، آپکی حکومت تہران میںپاکستان کا ایک کلچرل سینٹر قائم کرنے کی اجازت نہیں دے رہی جو انتہائی تشویشناک ہے۔ آپ اس مسٔلے پرذاتی طور پر مداخلت کریں اور ایران کے مذہبی پیشواؤں کو فراخدلی کا مظاہرہ کرنے پر آمادہ کریں اس سے پوری اسلامی دنیا میں ایران کے بارے میں بہت مثبت تاثّر قائم ہو گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مشکل گھڑی میں سعودی عرب نے ہمارا ہاتھ تھاما ہے اور ہمیں معاشی طور پر سہارا دیا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے عوام کے دلوں میں حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب کے لیے عقیدت اور محبت کی جڑیں بہت گہری ہیں اس لیے اس کے ساتھ ہمارے خصوصی مراسم ہیں اور قائم رہیں گے مگر ایران جیسے اہم ہمسایہ اسلامی ملک کو نظر انداز کرنا ہم افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔ ایران اور سعودی عرب کو قریب لانا بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان اور ترکی ملکر مصالحانہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جنابِ طیّب اردوان اور میاں نواز شریف یہ اہم کردار ادا کر جائیں تو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
ایدھی صاحب
عبدالستار ایدھی مرحوم نے خدا کے بندوں سے پیار کیا تو خدا نے اپنے بندوں کے دل اس درویش کی محبت اور عزت سے بھردیے ۔ اس نے کروڑوں پاکستانیوں کو Inspire کیاہے اسلیٔے امّید ہے کہ یہاں بہت سے ایدھی پیدا ہوں گے۔ اگر نوبل انعام میرٹ پر ملتا تو ایدھی صاحب سے زیادہ اس کا کوئی حقدار نہیں تھا ۔ پاکستان کی بہادر بچّی ملالہ نے تو ابھی عملی زندگی میں قدم ہی نہیں رکھا تھا اسے تو ـ" انھوں" نے اپنے طور پر ہی شائد ان 'خدمات'کے لیے نوبل انعام دیا ہے جو ابھی اس نے انجام دینی ہیں۔ مگر ایدھی صاحب کی خدمات کا تو ایک زمانہ دل وجان سے معترف ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ میڈیا پر صرف سیا ست بازی اور شوبز کا قبضہ ہے اس لیے ایدھی صاحب جیسی غیر معمولی شخصیات کو بھی مناسب میڈیا کوریج کے لیے موت کا انتظار کرنا پڑا ہے۔
اناللہ واناالیہ راجعون
عید کی پوری چھٹیوں میں ٹیلی ویژن بند رکھا۔ چھُٹیوں کے بعد ٹی وی آن کیا تو آنکھوں نے عجیب منظر دیکھا ۔ ہزاروں کشمیری نوجوان پاکستانی پرچم ہاتھوںمیں لیے سرینگر کی سڑکوں پر نکل آئے ہیں، بھارتی فوج درندگی کی تمام حدّیں پھلانگ کر بے گناہ نوجوانوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کر رہی ہے اور وہ اَن دیکھے پاکستان کی محبت اور عشق میں بھارتی فوجیوں کی درندگی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہر روز خوبرو جوان کٹ کٹ کر گررہے ہیں اور کشمیر کی گلیا ں اُن کے خون سے لالہ زار ہیں ۔ شہید برہان وانی کشمیریوں کے لیے آزادی اور حرّیت کی علامت بن چکا ہے جسکے جنازے میں چھ لاکھ افراد شریک ہوئے۔
پاکستان میں اتنا بڑا جنازہ انسانی آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا۔ کیا پاکستان کے عوام اور پاکستان کی حکومت اور فوج اپنی شاہ رگ کشمیر کے جوانوں کے جذبوں اور قربانیوں کا کوئی پاس نہیں کریگی؟ گزارش ہے کہ وزیرِاعظم صاحب فوری طور پر ملٹری کمانڈر ز اور اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مشاورت کریں اور ایک مؤثر لائحہ عمل ترتیب دیں۔ حکومت ، مودی سرکارکے وحشیانہ مظالم کو عالمی میڈیا کے ذریعے اجاگر کرے اور وفود بھیج کر بھارتی بربریّت کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔ بخُدا ! ان نوجوانوں کا خون رائیگاں نہیں جائیگا جنکی زبان پر اﷲ اکبر کے نعرے ہیں اور ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم!! مگر تاریخ کے اس اہم موڑ پر پاکستانی قیادت کو ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہو گا۔