ایدھی کی آنکھیں
میں نا اُمید نہیں ہوں لیکن اُمید نظر بھی نہیں آرہی۔ میں ڈکٹیٹر شپ کو پسند نہیں کرتا
میں نا اُمید نہیں ہوں لیکن اُمید نظر بھی نہیں آرہی۔ میں ڈکٹیٹر شپ کو پسند نہیں کرتا لیکن جمہوریت کے ''ثمر'' سے پریشان ہوں۔ میں زرداری و نواز کا پجاری نہیں ہوں لیکن مجھے کوئی مسیحا نظر بھی تو نہیں آرہا۔ میں غیر ملکی امداد لینے کا حامی نہیں ہوں لیکن بغیر امداد کے ملک بھی تو نہیں چل رہا۔ میں موروثی سیاست کا حامی نہیں ہوں لیکن کوئی متبادل قیادت دل کو چھو بھی نہیں رہی، اس لیے ہمیں''وراثتی'' قائدین پرہی اکتفاء کرنا پڑے گا ۔ شاید اللہ نے ہمارے مقدر میں یہی سیاسی خاندان لکھ دیے ہیں تو کیوں نہ ہم دست بستہ فیصل ایدھی سے گزارش کریں کہ ایدھی مرحوم کی آنکھیں ان نئی نسل کے قائدین خواہ وہ مریم نواز ہوں یا بلاول کی آنکھوں کی جگہ لگا دیں تاکہ انھیں بھوک سے مرتے عوام نظر آجائیں، انھیں وہ نوجوان نسل نظر آجائے جو ہاتھ میں ڈگری لیے صبح شام نوکری کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
جس طرح ایدھی کا کام انسانیت کی خدمت تھا۔ وہ ہر لاش اُٹھاتا تھا ، اسے پرواہ نہیں تھی کہ لاش کا مذہب کیا ہے؟ بالکل اُسی طرح ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہنا ہمارا فرض ہے ۔ جس طرح والٹیر کے قلم نے فرانس کے شہنشاہ لوئی کے تخت کو لرزا دیا تھا۔ فسطائی مزاج اور فرعونی ذہنیت رکھنے والے مفرورحکمرانوں کے محلات شاہی جب بھی ڈوبے ہیں تو کسی کمزور سمجھے جانے والے قلم سے پھوٹنے والی شہ زور تحریر کے سیلاب میں یا کسی کلیم وقت کی نرم قیاس کی جانیوالی تقریر کے امڈے ہوئے نیل میں۔ میری اپوزیشن سے استدعا ہے کہ اس حکومت کے ''خاتمہ بالخیر'' کے لیے:
ایدھی صاحب نے تو اس ملک میں یہ منظر بھی دیکھے ہیں کہ امریکی شہریت کاحامل ایک شخص جب وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا چکا تو اس کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ تک نہ تھا۔ ہمارے حکمران اگر یہ کڑوی گولی نگل سکتے ہیں تو گالی یہ کہہ کر برداشت کر لیں گے کہ:
داغ برا نہ مان تو ان کے کہے کا
معشوق کی گالی سے تو عزت نہیں جاتی
پاکستان بنا تو خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوںکی تعداد کیا تھی؟ اور سوچئے! آج کیاہے۔ اور یہ بھی سوچیے کہ ایدھی صاحب کو پاکستان بننے کے بعد کیا سوُجھی کہ انھوں نے انسانی خدمت کا بیڑہ اُٹھایا، اُس شخص نے ہر سیاستدان کو امیر ترین ہوتے دیکھا، اُس نے ان سیاستدانوں کی اولادوں کو جوان ہوتے دیکھا... اُس نے یہ بھی دیکھا کہ زرداری اور نواز شریف پاکستان کی امیر ترین شخصیات کیسے بنیں؟ اس نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح حکمرانوں نے سسٹم کا ستیاناس کر کے رکھ دیا جو آج تک ٹھیک نہ ہو سکا حالانکہ انگریزوں کا بنایا ہوا نظام بہترین نظام تھا۔ اور جو کام ایدھی صاحب کر گئے ہیں کیا وہ کام ریاست کے کرنے والے نہیں تھے۔ کیوں ریاست کو یاد نہیں رہا کسی کو چھت فراہم کرنا ، کسی کو سہارا دینا۔ یا کسی کی داد رسی کرنا اور میرے نزدیک ریاست کی ناکامی کی اصل وجہ ہی ناانصافی ہے اور چیک اینڈ بیلنس کا نا ہونا ہے۔
ہم چھوٹے چور کو تو پکڑتے ہیں مگر بڑے چوروں میں ایک دوسرے سے آگے نکل کر زندگی گزارنے کی دھن سوار ہے۔ اگر ایک شاہی چشم و چراغ کے پاس 4گاڑیاں ہیں تو دوسرے کے پاس 6ہوں گی۔ بڑے بڑے فارم ہاؤسز، بڑے بڑے محل اور اربوں ڈالرز کے بینک بیلنس کے ساتھ شاہانہ زندگی گزارتے یہ حکمران نا جانے کس چیز کا بدلہ عوام سے لے رہے ہیں اور یہ بھی ریاست ہی کی ناکامی ہے کہ تمام ترکوششوں کے باوجود ''پرائز بانڈ''حکمرانوں کا راستہ نہیں روک سکی اور ایدھی صاحب کو ان پرائز بانڈ حکمرانوں کا خوب علم تھا کہ کون سا حکمران کس طرح اور کون سے پرائز بانڈ سے امیر بنا، اس کرپٹ نظام میں تو پڑھے لکھے سیاسی خاندانوں کی اولاد نے بھی کرپشن کے ریکارڈ قائم کیے ہوئے ہیں، اگر یہاں نظام بہتر ہوتا تو ان سیاسی قیادتوں کی اولادیں اور بڑی سیاسی قیادتیں بھی فلٹر ہو کر اقتدار میں آتی۔
نوجوانوں کی امید کی آخری کرن عمران خان لیکن کے پی کے حکومت نے مدرسہ حقانیہ کو 30کروڑ روپے کی گرانٹ کیوں دے دی۔اب اسی حکومت کو ایدھی کے مرنے کے بعد فیصل ایدھی کو امداد دینا بھی یاد آرہا ہے اور جگہ دینا بھی۔ خدارا عوام کو بے وقوف بنانا بند کیجیے۔مختصر یہ کہ ایدھی تو وہ شخصیت تھی جس نے کر کے دکھایا، کبھی عوام کو جھوٹی تسلی نہیں دی، کبھی جھوٹا وعدہ نہیں کیا تھا، کبھی کسی کا پیسہ نہیں کھایا ، کبھی وہ عیش و عشرت کی زندگی کا خواہاں نہیں تھا...، کبھی لگژری لائف نہیں گزاری تھی نہ کبھی غیر ملکی اسپتالوں میں علاج کا خواہاں رہا ، کاش ایسا ہو جائے کہ وہ عوام کو جس نظر سے دیکھتے تھے ہر سیاستدان بھی اُسی نظر سے دیکھنا شروع کردے، اگر ہر سیاستدان نہیں تو کم از کم وہی نومولود سیاستدان جن کے پلے یہ عوام پڑنے والے ہیں، ایدھی کی نظروں سے عوام کو دیکھنا شروع کردیں، یقین مانیں عوام سب کچھ بھلا کر انھیں کے ہو جائیں گے!!!