ایدھی انقلابی مولانا 1

ان کے لیے کسی کا مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی یا یہودی ہونا اہمیت نہیں رکھتا تھا۔


Zahida Hina July 13, 2016
[email protected]

ISLAMABAD: ان کے لیے کسی کا مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی یا یہودی ہونا اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ وہ انسانوں کے عاشق تھے، ہر انسان کا درد، ان کا اپنا درد تھا۔ اور آخر آخر وہ حیوانوں کے زخموں پر بھی مرہم رکھتے تھے۔ ان بیمار جانوروں کے لیے پانی، چارے، مرہم اور ان کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کا علاج بھی ان کا مسئلہ بن گیا تھا۔

وہ ایدھی تھے۔ عبدالستار ایدھی۔ میمنوں کی بانٹوا کمیونٹی کے ایک فرد۔ ہندوستانی گجرات سے پاکستان آئے، ابتدا میں بزازے کا کام کیا لیکن ماں کی بیماری اور کسمپرسی ان کی زندگی بدل گئی۔ انھوں نے دیکھا کہ ناداروں پر کیا گزرتی ہے، بوڑھے اور بیمار بہ طور خاص تنہا عورتیں کس طرح روند دی جاتی ہیں۔ ان کی رگوں میں ان لوگوں کا لہو بہتا تھا جن کی اکثریت دان پُن اور خدمت خلق کو اپنا ایمان سمجھتی ہے۔ مذہب تبدیل کرلینے سے جین نہیں بدلتی، اپنے جدی پشتی بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انھوں نے میٹھادر میں ایک چھوٹا سا خیراتی دواخانہ کھولا اور وہاں جم کر بیٹھ گئے۔

کراچی کے قدیم باسیوں نے پرانے شہر میں دو دروازے بنائے تھے۔ یہ دروازے اس زمانے کی روایت کے مطابق محلوں کے اندر داخل ہونے کے لیے تھے اور ان کے نام کھارادر اور میٹھادر رکھے گئے تھے۔ ایدھی نے اپنا دواخانہ میٹھادر میں قائم کیا اور وہاں سے انسانیت کا ایسا چشمہ پھوٹا جس نے لاکھوں لوگوں کی پیاس بجھائی۔ پانچ ہزار روپے کی رقم سے قائم ہونے والے دواخانے میں ایدھی کی رہائش بھی تھی۔ آخر وقت تک وہ اسی تنگ جگہ میں رہے۔ ان کا جنازہ یہیں سے اٹھا۔ اسی گھر میں وہ نوجوان، خوش شکل اور خوش مزاج بلقیس کو بیاہ کر لائے۔ ان کے اردگرد کی لڑکیوں میں سے کوئی ایک سنکی، جھکی اور غریب مولانا سے شادی کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ ایدھی کی شرط تھی کہ میرے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے نہایت صبرو قناعت سے کام لینا ہوگا۔

نرسنگ کی ٹریننگ لینے والی بلقیس کو جانے اس 'مولانا' کی کون سی ادا پسند آئی کہ اس نے 'ہاں' کردی۔ شادی 1965 میں ہوئی اور 2016 میں ایدھی صاحب کی آخری سانس تک دونوں ایک دوسرے کے شریک حیات رہے۔ اس شادی کو اس قدر سلیقے سے گزارنے میں کمال بلقیس کا تھا۔ نوجوان اور امنگوں سے بھری ہوئی دلہن نے اگر بلند آواز سے ریڈیو سننا چاہا تو 'مولانا' کا پارہ آسمان کو چھونے لگا۔ چیخ پکار نے نئی نویلی دلہن کو سہما دیا۔ لیکن جلد ہی اسے اندازہ ہوا کہ یہ تو اب اس کی زندگی کا معمول رہے گا۔

ایدھی نے زکوٰۃ خیرات کے لیے ہزاروں پمفلٹ چھپوائے اور انھیں بھجوانے کے لیے ٹیلی فون ڈائریکٹری سے خوشحال لوگوں کے پتے لکھوائے۔ لفافے بلقیس کے سپرد ہوئے کہ ان میں پمفلٹ ڈالے جائیں لیکن لفافے سر بہ مہر نہ کیے جائیں۔ اس زمانے میں بک پوسٹ سے جانے والے لفافوں پر شاید 5 پیسے کا ٹکٹ لگتا تھا لیکن اگر اسی لفافے کو بند کردیا جائے تو ڈاک خرچ بہت بڑھ جاتا تھا۔ بلقیس نے لفافے ڈسپنسری میں کام کرنے والی لڑکیوں کے سپرد کردیے کہ ان میں پمفلٹ تہہ کرکے ڈال دیے جائیں۔ لڑکیوں نے لفافے گوند سے بند کردیے اور 'مولانا' کے سامنے رکھ دیے۔

کفایت شعار اور ایک ایک پائی دوسروں پر خرچ کرنے والے کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔ اس کے بعد جو چیخم پکار ہوئی اس کے لیے یہی کہا جاسکتا ہے کہ سننے والوں نے کانوں کو ہاتھ لگا لیا۔ بلقیس اس کے سوا اب کچھ نہیں کرسکتی تھیں کہ قینچی سے ان لفافوں کو اوپر سے کھول دیا جائے اور پھر 'مولانا' کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ اسی کے بعد بلقیس کی جاں بخشی ہوئی۔ اب لفافے کھلے ہوئے تھے اور پانچ یا دس پیسے کا ٹکٹ لگا کر بھیجے جاسکتے تھے۔

'مولانا' نے اپنی زندگی دو سوتی جوڑوں میں گزار دی۔ ایک دھویا، ایک پہنا، پھٹ گیا تو دوسرا بنوالیا۔ بلقیس پر یہ پابندی نہیں تھی لیکن وہ بھڑکیلا لباس نہیں پہن سکتی تھیں۔ سونے کا زیور ایدھی صاحب کو ناپسند تھا، وہ اسے روپے کا ضیاع کہتے۔ میک اپ کو وہ حماقت سمجھتے تھے۔ ایسے میں آپ ذرا سوچیے کہ بلقیس کیا کرتیں؟ انھوں نے ان معاملات پر 'مولوی' سے جھگڑا یا بحث مباحثہ کرنا بیکار جانا۔ مولوی کا کام بڑھتا گیا۔ مختلف علاقوں میں ڈسپنسریاں کھلتی گئیں۔

کہیں ذہنی بیمار عورتیں رکھی جاتیں اور کہیں گھروں سے بھاگی ہوئی لڑکیاں۔ اسی طرح بیمار اور بیکار مرد تھے جو کوئی کام نہیں کرسکتے تھے۔ ان سب کے لیے روزانہ تین وقت کا کھانا پکتا اور اس کے لیے اناج، سبزی اور گوشت خریدنا بلقیس کی ذمے داری تھی۔ وہ صبح سویرے سبزی منڈی اور اناج کی دکانوں کا رخ کرتیں۔ بلقیس کا یہ فرض تھا کہ وہ دکانداروں سے بحث مباحثہ کرکے دام کم سے کم کرائیں اور پھر منوں کے حساب سے چیزیں خرید کر مختلف علاقوں میں کام کرنے والے ایدھی سینٹروں پر پہنچائیں۔

مولانا بڑے بڑے حادثوں کے جائے وقوع پر پہنچتے اور خون میں ڈوبی ہوئی لاشیں یا نیم مردہ لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے اٹھاتے۔ اپنی ایمبولنسوں میں لٹاتے اور پھر ان کے ساتھ قریب ترین ایدھی سینٹر جاتے جہاں مُردوں کو نہلانا، دھلانا، کفنانا ان کی ذاتی ذمے داری تھی۔ لاوارث لوگوں کی وہ تصویریں اترواتے اور انھیں اپنے سینٹر کی دیواروں پر نمایاں طور سے چسپاں کراتے۔ ان کے رضاکار، ان کے ساتھ سائے کی طرح لگے رہتے۔

ایدھی صاحب کی کوشش ہوتی کہ لاوارث لاشیں چند دنوں تک سرد خانے میں رکھی جائیں تاکہ ورثا پیاروں کو ڈھونڈتے ہوئے ان کے پاس پہنچیں تو وہ انھیں کم از کم یہ دلاسہ تو دے سکیں کہ حادثے یا فسادات میں ہلاک ہونے والے لاوارث دفن نہیں ہوئے۔ وہ کہتے تھے کہ لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں تو انھیں صبر آجاتا ہے اور اس کے لیے میں کچھ بھی کرسکتا ہوں۔ ایک ایسا شہر جو تیز رفتاری سے پھیل رہا تھا، اس میں سیکڑوں ایمبولنسوں کا اہتمام کرنا ایدھی صاحب کا ہی کارنامہ تھا۔

ان کا اور بلقیس کا ایک بڑا کارنامہ یہ تھا کہ پاکستان جیسے قدامت پسند سماج میں انھوں نے اپنے ہر سینٹر پر 'جھولے' کو رواج دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر مطلوب بچوں کو قتل کرنے کے بجائے آپ انھیں ان جھولوں میں چھوڑ جائیں آپ سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ ان کے اس جرأت مندانہ اقدام سے ہزاروں بچیاں اور بچے ہلاکت سے محفوظ رہے اور ان میں سے بہت سے اچھے گھرانوں میں پلے بڑھے، تعلیم حاصل کی یا ہنرمند ہوئے اور سماج کے کارآمد فرد ہوئے۔

غیر مطلوب بچوں کے لیے مولوی اور بلقیس کی یہ اسکیم ابتدائی برسوں میں قہر کا شکار ہوئی۔ انھیں 'کافر' اور 'آوارگی' کو فروغ دینے والوں میں شامل کیا گیا لیکن مولانا اپنی جگہ پر ڈٹے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان معصوم بچوں کا کیا قصور ہے کہ ان کا گلا گھونٹ کر انھیں کچرے پر پھینک دیا جائے۔ اس میں اور قتل عمد میں آخر کیا فرق ہے۔ انھوں نے گھروں سے بھاگی ہوئی لڑکیوں کو پناہ دینے اور بعض حالات میں انھیں ان کے گھر والوں تک پہنچانے کا فرض بھی ادا کیا۔

وہ دنیا کے مختلف جنگ زدہ علاقوں میں جان ہتھیلی پر رکھ کر گئے اور وہاں خشک راشن، دوائیں اور لباس بہم پہنچایا۔ ان کے دشمنوں نے انھیں کبھی ہندوستان اور کبھی اسرائیل کا ایجنٹ کہا۔ انھوں نے ہزاروں لاوارث لاشیں دفن کیں تو ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ان لاشوں سے گردے نکال کر بیچ دیتے ہیں۔ کون سے دشنام اور الزام سے وہ اور بلقیس محفوظ رہے لیکن دونوں کی پیشانی پر شکن نہ آئی اور وہ اپنا کام کرتے رہے۔

لال مسجد کا واقعہ ہوا تو بلقیس اسلام آباد پہنچیں اور وہاں پہنچ کر انھوں نے بار بار یہ اعلان کیا کہ وہ محصور بچیوں کو نکال کر لے جائیں گی اور انھیں ان کے گھروں تک پہنچادیں گی لیکن ان کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ ان محصور بچیوں کے نام پر سیاست کرنے والوں کا مقصد یہ تو نہیں تھا کہ بچیاں حفاظت سے اپنے گھروں کو پہنچ جائیں۔ ان بچیوں کے نام پر زبردست سیاست ہورہی تھی اور بلقیس ایدھی مذہب کے نام پر سیاست کا دھڑن تختہ کیے دیتی تھیں۔ اُن پر اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ پھر وہ خاموشی سے کراچی واپس چلی گئیں۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں