فیصل ایدھی کے نام

انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے۔ عبدالستار ایدھی نے عملی طورپراس قول کو درست ثابت کیا


Dr Tauseef Ahmed Khan July 13, 2016
[email protected]

KARACHI: انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے۔ عبدالستار ایدھی نے عملی طورپراس قول کو درست ثابت کیا ۔ انھوں نے پچاس کی دہائی میں عام آدمی کی بہبودکے لیے زندگی وقف کی اورمرتے دم تک اس مشن پر کاربند رہے۔ لاشوں کو دفنانے میں تعصب کو قریب آنے نہیں دیا، امیر غریب مسلمان، ہندو، عیسائی، ہر انسان کی میت کی اس کے مذہب کے مطابق آخری رسومات ادا کی۔ نوزائیدہ بچوں کی زندگی کو بچانے کے لیے ایک نئی روایت ڈالی۔ اپنے دفترکے سامنے جھولے لٹکادیے اور یہ سائن بورڈ لگا دیے کہ اپنے گناہوں کی سزا معصوم جانوں کو نہ دیں اورخاموشی سے بچوں کو جھولے میں ڈال کر چلے جائیں ،کتنے معصوم بچوں کی جانیں بچیں اورکتنے لوگ قتل ہونے سے بچ گئے۔ عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی کو بچوں کی جانیں بچانے پرمخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مسجدوں سے کافرہونے اور جہنم میں جانے کے فتوے جاری ہوئے فحاشی وعریانی پھیلانے کا الزام بھی لگا مگر ایدھی کے عزم میں فرق نہیں آیا۔

عبدالستارایدھی کی زندگی کوکئی دفعہ شدید مخالف حالات کا سامنا کرنا پڑا، ان کی سوانح عمری کے متعلق پتہ چلتا ہے کہ جب انھوں نے میٹھا در میں ایک ڈسپنسری قائم کی اور ایک ڈاکٹر کی مدد سے مریضوں کا علاج شروع کیا تو اپنے دفتر کے سامنے بینچ پر سونے لگے۔ لوگوں میں اعتماد پیدا ہوا اور اتنے عطیات ملے کہ ڈسپنسری والی عمارت خرید لی، دائیں بازو کی ایک مذہبی جماعت نے ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا ۔

نرسوں کی تربیت کے اسکول کو فحاشی کا اڈہ قرار دیا گیا مگر لوگوں نے اس پروپیگنڈے پر توجہ نہیں دی۔ کنورادریس ایک معروف سی ایس پی آفیسر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کراچی کے مضافاتی علاقے میں بھارتی طیارے نے بم گرائے مجھے بحیثیت چیف وارڈن سب سے پہلے حملے کی اطلاع ملی مگر جب میں متاثرہ جگہ پہنچا تو پتہ چلا کہ عبدالستارایدھی وہاںپہلے پہنچ گئے ہیں، عمارتوں کے ملبے سے لاشوں اور زخمیوں کو نکال رہے ہیں ۔کنور ادریس لکھتے ہیں کہ یہ میرے لیے شرمندگی کی بات تھی کہ مجھ سے پہلے ایدھی موقعے پر موجود تھے۔

90 کی دہائی میں کراچی میں لسانی فسادات شروع ہوئے، ہر شخص اپنی لسانی شناخت کی آگ میں جلنے لگا، مگر عبدالستار ایدھی تعصب کا شکار نہ ہوئے' انھوں نے ہر زخمی کی اس کی جان بچانے کی کوشش کی اس زمانے میں مضبوط ہونے والی لسانی تنظیم نے ایدھی پر دباؤ ڈالا کہ مخالف گروہوں کے زخمیوں کی مدد نہ کی جائے مگر انھوں نے انکار کیا یوں سپر ہائی وے اور سول اسپتال سے متصل ایدھی کی ایمرجنسی چوکیوں پر حملے ہوئے ایمبولینسوں کو پتھراؤ کا سامنا کرنا پڑا۔

قربانی کی کھالیں ایدھی کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تھیں، ایدھی کے رضا کاروں کو ہراساں کیا گیا ، کیمپوں پر حملے ہوئے تو ایدھی نے قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا کام چھوڑ دیا۔ بعض صحافی کہتے ہیں کہ جب ایدھی فاؤنڈیشن مشکل میں تھی توکور فائیو نے اس کو تحفظ فراہم کیا۔ یوں ایمبولینس سروس ایک بڑے سانحے سے بچ گئی ۔ پھر پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت میں حمید گل نے ایدھی کو جمہوری حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ حمید گل کے ہمراہ عمران خان بھی تھے۔ ایدھی نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انھیں دھمکی دی گئی تھی کہ انھیں اغوا کرلیا جائے گا اور ان کی جانب سے بیان جاری کیا جائے گا ۔ وہ اچانک لندن چلے گئے اوربھانڈا پھوڑ دیا۔

عبدالستارایدھی نے صرف لاشیں نہیں اٹھائیں اولڈ ہومز ذہنی امراض میں مبتلا گمشدہ بچوں بے گھر خواتین کے سینٹر قائم کیے۔ ایدھی نے گھر سے فرار ہونے والے بچوں کو ان کے والدین سے ملانے کے لیے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر مہم چلائی ان بچوں کو گھروں تک پہنچانے کے لیے شہر ، شہر اسپیشل بس چلائی گئی اس طرح ہر سال بہت سے بچے اپنے والدین کے گھروں تک پہنچ گئے۔ایدھی نے بھارت کی لڑکی گیتا کو کئی سال تک اپنے گھر میں رکھا اس کو مندر بنانے کی اجازت دی اورگیتا کو اس کے والدین سے ملانے کے لیے فیصل ایدھی اور ان کی والدہ بھارت گئے ۔

جب بھارتی وزیرا عظم مودی نے ایدھی فاؤنڈیشن کو ایک خطیر رقم بطور عطیہ دینا چاہی توان کے صاحبزادے فیصل ایدھی نے یہ امداد لینے سے اس بنا پر انکار کیا کہ ایدھی فاؤنڈیشن حکومتوں سے امداد نہیں لیتی۔ ایدھی صاحب کی خواہش تھی کہ ایدھی فاؤنڈیشن کی سرگرمیاں بھارت میں بھی شروع ہوجائیں اس مقصد کے لیے ایدھی نے اپنے ایک پرانے کارکن عمر عباس کے چھوٹے بھائی قیصر عباس کو بنگلور بھیجا مگر ایدھی اورقیصر عباس کی کوششوں کے باوجود بھارتی حکومت نے وہاں سرگرمیاں جاری کرنے کی اجازت نہیں دی۔ یوں یہ مشن نا مکمل ہے ۔ ستار ایدھی نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹے فیصل کو اپنا جانشیں مقرر کیا تھا ۔فیصل اپنے والد کی طرح ایک نڈر اور پُرخلوص سماجی کارکن ہیں۔ انھوں نے 2005 میں کشمیر اور خیبرپختونخوا میں ہونے والے تباہ کن زلزلے میں امدادی کاموں کی کامیاب نگرانی کی۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری جنرل ڈاکٹر شیرشاہ جو خودکشمیر میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف تھے ،کہتے ہیں کہ فیصل نے اس موقعے پر بہترین صلاحیتوں کا اظہارکیا۔فیصل نے سندھ اور پنجاب میں سیلاب میں ہزاروں لوگوں کو طبی امداد فراہم کی ۔فیصل بدین کے قریب سیلابی ریلے میں لا پتہ ہوگئے اورکئی گھنٹے بعد ان کی کشتی سے رابطہ ہوا تھا مگر فیصل کسی خوف کا شکار نہیں ہوئے یہ سب کارکردگی ان کی والد کی زندگی میں تھی مگر فیصل کو اب زندگی کے حقیقی چیلنج کا سامنا ہے،عبدالستار ایدھی نے ایدھی فاؤنڈیشن کو ساری زندگی کسی مذہبی سیاسی جماعت یا سول یا عسکری اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بننے نہیں دیا تھا ایدھی کی تدفین سرکاری طور پر ہوئی ۔

توپوں کی سلامی بھی ہوئی فوجی دستے نے سلوٹ بھی کیا مگر عام آدمی تدفین میں دور ہوگیا۔ یہ المیہ ہے۔ مگر شاید یہ سب کچھ سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے ہوا اب فیصل کو ایدھی فاؤنڈیشن کو عوامی رنگ کو برقرار رکھنے کے لیے ایک واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا ۔فیصل کو گزشتہ کئی سالوں سے سیکیورٹی کے مسائل کا سامنا ہے ، مگر فیصل کو ایک ایسا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کا عوام سے رابطہ مزید مضبوط ہوجائے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے مختلف یونٹ پرانے طریقوں پرکام کررہے ہیں، ان یونٹوں میں سماجی ترقی کے نئے طریقے استعمال نہیں ہورہے۔

اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال کم ہے ان یونٹوں میں شفافیت اورجدید طرز حکومت کے اصولوں کے تحت ترقی دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے یہ کام پروفیشنلز کو اپنی ٹیم میں شامل ہوئے بغیر نہیں ہوسکتا مگر سائنسی سوچ رکھنے والے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے اداروں کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے ایدھی فاؤنڈیشن سے پرانا تعلق رکھنے والے شاہد علی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ایدھی کی ایمبولینسوں کو بھی جدید ہونا چاہیے ان میں ڈاکٹر پیرا میڈیکل اسٹاف اور وینٹی لیٹر کی سہولت ہونی چاہیے اس طرح پورے ملک میں جہاںجہاں ایمبولینسز سروس کے مراکز ہیں وہاں چھوٹے بڑے اسپتال قائم ہونے چاہئیں تاکہ عام لوگوں کو ان اسپتالوں میں طبی امداد مل سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ مختلف شہروں میں رضاکاروں کے دستے ہونے چاہییں، ان رضاکاروں کو ابتدائی طبی امداد اور آگ لگنے والی عمارتوں سے انسانوں کو نکالنے کی تربیت دینی چاہیے۔

ایدھی صاحب کی زندگی میں بھارت میں ایدھی فاؤنڈیشن کی برانچ نہیں کھل سکی مگر اب فیصل کو دوبارہ اس محاذ پر کام کرنا چاہیے ایدھی فاؤنڈیشن کے بھارت میں کام کرنے سے دونوں ملکوں کے عوام میں رابطے بڑھیں گے یوں امن اور بھائی چارہ مضبوط ہوگا ۔ ایدھی کے خیر خواہ یہ امید رکھتے ہیں کہ ایدھی فاؤنڈیشن ایک جدید ترین ادارے میں تبدیل ہوجائے گی ایدھی صاحب نے کہا تھا کہ انھیں نہیں ان کے نظریے کو یاد رکھا جائے۔ جدید ایدھی فاؤنڈیشن، ایدھی کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دائمی طریقہ ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں