گریٹ گیم افغانستان اور ہم

نیٹو کے دونوں فیصلے مستقبل کی عالمی سیاسی چپقلش کا منظرنامہ پیش کرتے ہیں

latifch910@yahoo.com

ISLAMABAD:
وارسا میں 8 جولائی کو نیٹو کا غیر معمولی سربراہ اجلاس ہوا' افغانستان کی دو مقتدر ترین شخصیات صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ بھی وہاں موجود تھے' نیٹو نے مشرقی یورپ میں فوجی قوت بڑھانے کا فیصلہ کیا تاکہ روس کو محدود رکھا جا سکے، افغانستان میں فوج کی تعداد میں کمی نہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

نیٹو کے دونوں فیصلے مستقبل کی عالمی سیاسی چپقلش کا منظرنامہ پیش کرتے ہیں' اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نیٹو کا سب سے بڑا حریف چین نہیں بلکہ روس ہے۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نیٹو اجلاس میں شرکت کر کے وطن پہنچ چکے ہیں' انھوں نے گزشتہ روز کابل میں پریس کانفرنس کی اور فرمایا ''وہ پاکستان سے امن مذاکرات میں مدد کی کوئی توقع نہیں رکھتے۔ پاکستان سے میرا مطالبہ ہے کہ ان گروپوںکو اپنی سر زمین سے نکالے جو افغانستان کے خلاف لڑتے ہیں۔ نیٹو اور امریکا کا افغانستان میں فوجیں کم نہ کرنے کا فیصلہ خوش آیند ہے۔ نیٹو ہر سال افغانستان کو تقریباً دو ارب ڈالر امداد دے گا۔

برطانوی ہند اور سلطنت روس کے درمیان گریٹ گیم کے دور میں افغانستان بفر اسٹیٹ تھا' امیر عبدالرحمان کے دور میں برطانیہ ہی افغانستان کی خارجہ پالیسی کنٹرول کرتا رہا ہے۔ امیر عبدالرحمان کے دور تک افغانستان ایک گوشہ نشین یا عالمی برادری سے الگ تھلگ پسماندہ اور خانہ بدوش قبائلی معاشرت کا حامل ملک تھا۔ 1919ء میں تیسری اینگلو افغان جنگ کے خاتمے اور راولپنڈی معاہدے کے بعد افغانستان کے حکمران امان اللہ خان نے اعلان کیا کہ افغانستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے' انھوں نے اپنے ملک کی روایتی تنہائی کا خاتمہ کر کے عالمی برادری کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔

اس نے1927-28ء میں یورپی ممالک اور ترکی کا دورہ کیا' بہر حال اس کے باوجود افغانستان عالمی پاور گیم کا کھلاڑی نہیں بن سکا' افغانستان نے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لیا اور نہ ہی دوسری جنگ عظیم میں۔ سوشل ازم اور کیپٹل ازم کے درمیان سرد جنگ کے دور میں بھی افغانستان کسی کے ساتھ نہیں تھا' تاہم اس دور میں افغانستان پر سوویت یونین اور امریکا نے پوری توجہ مرکوز رکھی' سوویت یونین کے پالیسی سازوں کو افغانستان کی اہمیت کا احساس اس وقت ہوا جب انھوں نے وسط ایشیا سے نکل کر ایران اور مشرق وسطیٰ تک پیش قدمی کا پلان بنایا جسے گرم پانیوں تک پہنچنے کا منصوبہ کہا جاتا ہے ۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کوان منصوبوں کا علم تھا' انھوں نے فیصلہ کیا کہ سوویت یونین کو کسی صورت ازبکستان' تاجکستان سے آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا' یوں انھوں نے افغانستان میں کمیونسٹ مخالف طبقات پر اپنا ہاتھ رکھا ۔ افغانستان میں جو تھوڑا بہت انفراسٹرکچر قائم ہوا وہ اس زمانے میں قائم ہوا۔ اس میں سوویت یونین اور سرمایہ دار ممالک دونوں کی مدد و اعانت شامل تھی تاہم سب سے زیادہ امداد سوویت یونین نے دی۔ افغانستان میں تعلیم یافتہ طبقے میں سوویت یونین کی حمایت زیادہ تھی' امریکا اور اس کے اتحادیوں نے مذہبی اور قبائلی طبقے اور اس کے رہنماؤں کو اپنا ہمنوا بنایا۔


افغانستان میں بڑی اور اہم سیاسی تبدیلی 1973ء میں آئی جب سردار داؤ نے ظاہرشاہ کا تختہ الٹ دیا۔ اس کارروائی میں خاصا خون خرابا ہوا تاہم ظاہر شاہ بیرون ملک ہونے کی بنا پر بچ گئے۔ ابتدا میں سردار داؤد کا سویت یونین کی طرف زیادہ جھکاؤ تھا' یہی وہ دور تھا جب سردار داؤد اور سوویت یونین مخالفین نے پاکستان کا رخ کیا' اس وقت پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار تھے' برہان الدین ربانی' رسول سیاف' حکمتیار وغیرہ اس دور میں پاکستان میں آئے۔ یہاں سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی خرابی کا ایک نیا اور طویل دور شروع ہو گیا۔ بعض حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں کے باعث ہی افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب جسے انقلاب ثور کا نام دیا جاتا ہے کی راہ ہموار ہوئی۔

سردار داؤد جب سوویت یونین کے کنٹرول سے آزاد ہونے کی کوشش کرنے لگا اور اس کی حکومت نے کمونسٹوں کے خلاف تشدد کا راستہ اختیار کیا تو اپریل 1978ء میں افغانستان کی فوج نے عبدالقادر ڈگرال کی قیادت میں داؤد حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ سردار داؤد اپنے خاندان سمیت مارا گیا' ملک پر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (پی ڈی پی اے) کا اقتدار قائم ہو گیا' کمیونسٹ رہنما نور محمد ترکئی افغانستان کے نئے صدر بن گئے' پی ڈی پی اے افغانستان کی کمیونسٹ جماعتوں خلق اور پرچم کے اتحاد کا نام تھا' نور محمد ترکئی کے دور میں ہی افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہو گیا' 1979ء میں ترکئی قتل ہوا اور حفیظ اللہ امین نے حکومت سنبھال لی' پاکستان میں 1977ء میں بھٹو حکومت ختم ہو گئی اور ضیاء الحق نے اقتدار سنبھال کر 1979ء میں بھٹو کو پھانسی دے دی۔

اسی برس افغانستان میں سوویت فوجیں آئیں اور ببرک کارمل کو اقتدار سونپ دیا گیا' اس کے ساتھ ہی افغانستان میں مجاہدین کی گوریلا کارروائیوں کا آغاز ہو گیا' امریکا اور اس کے اتحادی کھل کر سوویت یونین کے خلاف میدان میں آ گئے' سوشلزم اور کیپٹل ازم کے مابین جنگ کا آخری معرکہ شروع ہو گیا۔ پاکستان افغان مزاحمت کاروں کا بیس کیمپ بن گیا' پاکستان مکمل طور پر اس آگ میں کود پڑا تھا' افغانستان ایک ملک کے بجائے میدان جنگ بن گیا۔ آگ و خون کے اس کھیل میں کیا کچھ ہوا' وہ باشعور حلقوں کو بخوبی معلوم ہے' نجیب اللہ کا اقتدار کیسے ختم ہوا' احمد شاہ مسعود اور دیگر مجاہدین گروپ جب کابل میں داخل ہوئے تو تب کیا ہوا' پھر طالبان کابل کے حکمران بنے تو انھوں نے کیا گل کھلائے' نجیب اللہ کا انجام کیا ہوا اور سوویت یونین کا انہدام کیسے ہوا' پھر نائن الیون کے بعد طالبان کے ساتھ کیا ہوا' زیادہ دور کی باتیں نہیں ہیں۔

میں اور آپ اس عہد کی وہ نسل ہیں جو کمیونزم اور کیپٹل ازم کے درمیان ہونے والی آخری جنگ کی عینی شاہد ہے۔ یہ ساری باتیں کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ایک گریٹ گیم ختم ہونے کے بعد دوسری شروع ہو جاتی ہے اور دوسری کے بطن سے بالکل نئی طرح کی تیسری گریٹ گیم کا آغاز ہو جاتا ہے۔ گریٹ گیم کے وہ کھلاڑی جو پہلے برطانیہ اور پھر امریکا کی ٹیم میں کھیلے' فتح کے بعد فائدے میں رہے' پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ہمارا حصہ یوں ہے کہ ہم برطانوی ہند کا حصہ تھے' ہندوستان نے ان دونوں جنگوں میں اپنے آقا کی منشاء مرضی کے مطابق قربانی پیش کی' اس وقت افغانستان کا معاملہ تین میں نہ تیرہ میں والا تھا' ہندوستانیوں کی اس خدمت کے صلے میں یہاں دو آزاد ملک قائم ہوئے' سرمایہ داری نظام کی حفاظت کی ذمے داری برطانیہ کے کندھوں سے اتر کر امریکا کے کندھوں پر آپڑی' سوویت یونین اور امریکا کے درمیان سرد جنگ میں ہم نے اپنا روایتی کردار ادا کیا اور بے پناہ فوائد سمیٹے۔ پاکستان میں 80 فیصد سرمایہ دار گھرانے اسی جنگ کے فیوض و برکات کی نشانیاں ہیں اور یہی پاکستان کے اقتدار پر قابض ہیں لیکن آج کی نئی گریٹ گیم میں پاکستان کس ٹیم میں ہے' کسی کو پتہ نہیں ہے ۔

افغانستان جو گریٹ گیمز میں کبھی شامل نہیں رہا' وہ آج اس کھیل کا حصہ بن گیا ہے' ذرا وارسا کے اس ہال پر نظر دوڑائیں جہاں نیٹو کے جھنڈے تلے دنیا کے 28 امیر ترین اور ترقی یافتہ ممالک کے سربراہ نئی گریٹ گیم کے نقشے اور اصول و ضوابط ترتیب دے رہے ہیں' اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ وہاں موجود ہیں' تاریخ میں پہلی بار افغانستان عالمی شطرنج کی بساط پر موجود ہے' میں سوچ رہا ہوں کہ ہمیں اتنے اہم اجلاس میں کیوں نہیں بلایا گیا حالانکہ ہم تو نان نیٹو اتحادی تھے۔ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔لیکن شاید عالمی کھلاڑیوں کے نزدیک ہم مشکوک ہوگئے ہیں۔یاد رکھیں، افغانستان اس خطے میں ایک اہم کردار ادا کرنے جا رہا ہے، مشتری ہوشیار باش۔
Load Next Story