غلامی سے سپرمین تک کا سفر آخری حصہ
علی جیسی گہری، دیرپا عزت کرۂ ارض پر کسی دوسرے کھلاڑی کو نصیب نہ ہوئی
محمد علی نے بارہ سال کی عمر میں باکسنگ کا آغازکیا اور اٹھارہ سال کی عمر میں پہلی بار اولمپکس 1960ء میں گولڈ میڈل جیتا۔ جو ان کے لیے بہت قیمتی، انھیں بہت عزیز تھا، جسے وہ ہر وقت گلے میں ڈالے رہتے، سوتے وقت بھی نہ اتارتے۔ ان ہی دنوں وہ ایک ریسٹورنٹ میں گئے اور کھانا آرڈر کرنے لگے تو انھیں یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ وہ ریسٹورنٹ سیاہ فام کے لیے نہیں۔ انھوں نے ان کو باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ اولمپکس گولڈ میڈلسٹ ہیں جس نے باکسنگ میں امریکا کیلیے گولڈ میڈل جیتا، مگر ان کی ایک نہ سنی گئی۔ وہ غصے سے چیختے ہوئے بولے ''میں گولڈ میڈلسٹ ہوں، اس ملک کے لیے عزت کا باعث بنا ہوں اور میں اس ریسٹورنٹ میں کھانے کا حق نہیں رکھتا، صرف اس لیے کہ میرا رنگ کالا ہے؟'' وہ آگ بگولا باہر آئے اور اپنا وہ عزیز ترین گولڈ میڈل ہمیشہ کیلیے دریائے Ohio میں پھینک دیا۔
علی جیسی گہری، دیرپا عزت کرۂ ارض پر کسی دوسرے کھلاڑی کو نصیب نہ ہوئی۔ وہ ایک مقناطیسی شخصیت اور مضبوط اعصاب کے اصول پسند انسان تھے، جو حق بات پر ڈٹ جانے کے بعد نتائج کی پرواہ کیے بغیر کسی بھی طاقت سے ٹکرانے سے پیچھے نہ ہٹتے، چاہے ان کے سامنے کوئی فردِ واحد ہوتا یا پوری حکومتی مشینری۔ جس کی زبردست مثال ان کا 1967ء میں امریکی فوج میں بھرتی اور ویتنام میں معصوم شہریوں کا قتلِ عام کرنے سے انکار تھا۔ جس جرم کی پاداش میں ان کی باکسنگ پر تاحیات پابندی عائد کر دی گئی۔ ا
نھیں عالمی چیمپئن ٹائٹل سمیت تمام اعزازات سے محروم کر کے جیل بھیجنے کا اعلان کر دیا گیا۔ ان کا شاندار کیریئر اپنے نقطہ عروج پر پہنچنے کے ساتھ ہی شدید مشکلات کا شکار ہو کر خاتمے کے دہانے پہنچ گیا۔ مگر اس سب کے باوجود اپنے اصولی موقف سے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ان کے عروج کے تین قیمتی سال اسی طرح پابندی کی نذر ہو گئے۔ اس دوران انھیں انتہائی کٹھن دور سے گزرنا پڑا۔ 1970ء میں سپریم کورٹ نے علی کے حق میں فیصلہ جاری کر دیا، امریکی حکومت کو مجبوراً ان پر سے پابندی اٹھانا پڑی اور وہ ایک بار پھر پہلے سے کہیں زیادہ جذبے اور آب و تاب کے ساتھ چمکتے ستارے کی مانند رنگ میں اترے اور اب کی بار 'علی' کی گونج پوری دنیا میں گونجنے لگی۔
مجھے بہت سے مواقعوں پر یہ عظیم انسان اﷲ کا ''پیغام بر'' دکھائی دیا، جسے خدا نے کچھ اہم مقاصد کیلیے منتخب کر لیا تھا۔ نجانے اس کے ہاتھوں کتنے مسلمان ہوئے، اس نے اسلام اور انسانیت کی کہاں کہاں خدمت کی، اﷲ نے اسے وہ کچھ عطا کیا جو حالیہ تاریخ میں کسی کو نصیب نہ ہوا، اسے دنیائے باکسنگ کا عظیم ترین کھلاڑی ہی نہیں بنایا، غیر معمولی شہرت اور کردار سے ہی نہیں نوازا بلکہ اس کے ساتھ ہی طویل، صبر آزما بیماری سے بھی اس کا امتحان لیا، تا کہ دنیا دیکھ لے کہ علی شہرت اور طاقت کی بلندیوں پر اﷲ کو بھولا، نہ تھکا اور ہمت توڑ دینے والی بیماری کے زمانے میں اس سے غافل ہوا۔ اس نے جوانی کے مصروف ایام میں بھی اﷲ کی عبادت کی اور بیماری و ضعیفی کے تکلیف دہ لمحات میں بھی۔
وہ چاروں بر اعظموں اور مختلف مذاہب کے لوگوں کا مشترکہ ہیرو تھا، جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، وہ جس خطے میں جاتا لوگ بے ساختہ اس پر اپنی محبتیں نچھاور کرتے۔ باکسنگ سے کنارہ کشی کے دو سال بعد صرف 42 برس کی عمر میں علی میں Parkinson's (رعشہ) جیسی لاعلاج بیماری کے اثرات ظاہر ہونے لگے۔ جس صبر آزما بیماری کا وہ 32 سال مرتے دم تک مقابلہ کرتے رہے مگر کبھی اﷲ سے شکوے کا ایک لفظ زبان پر نہ لائے۔ اس دوران بھی انھوں نے خود کو اسلام اور انسانیت کی بھلائی کے کاموں میں مصروف رکھا۔
تین دہائیاں بیت گئیں، فتوحات و طاقت کا پیکر محمد علی اپنی بیماری سے مسلسل مقابلہ کرتا لاغر و ضعیف ہوتا ہوا ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا۔ اس کی عمر اب 74 برس ہو چکی تھی مگر عزم و حوصلہ وہی 22 سالہ نوجوان کا تھا۔ اب بھی جب کبھی تصویر کھنچوانے کا موقع آتا وہ اپنی اعصاب شکن بیماری کی تکلیف کو چھپا کر شرارت سے باکسنگ پوز بنا لیتا، تاکہ لوگ اسے بیماری کی حالت میں دیکھ کر دکھی ہونے کے بجائے مسکرائیں۔ مجھے یقین ہے محمد علی کا اﷲ سے قریبی تعلق اور راز و نیاز کا معاملہ تھا، اسی لیے خدا نے ہر شخص کے دل میں اپنے اس دوست کے لیے محبت ڈال دی۔
ایک سوال میرے ذہن میں اکثر اٹھتا کہ اگر Cassius Clay اسلام قبول نہ کرتا، محمد علی نہ بنتا تو کیا پھر بھی اس کی زندگی اتنی ہی کرشماتی، غیر معمولی کامیابیوں سے بھری ہوتی، اس کی موت کے آخری لمحات اتنے ہی شاندار ہوتے، ہر مذہب ہر عقیدے سے تعلق رکھنے والا شخص تب بھی اسی طرح اس کی موت کا غم محسوس کرتا؟ کیا وہ تب بھی تین بار عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن بننے کا ریکارڈ قائم کرتا، تب بھی پوری دنیا میں اسی طرح پسند کیا جاتا، تب بھی اس کا اﷲ سے اتنا ہی گہرا تعلق ہوتا؟ یا مسلمان نہ ہونے کی صورت میں اس کی زندگی، اس کی موت کچھ اور ہوتی؟ میرے لیے یہ سوال بہت اہم تھا۔ لہٰذا میں نے اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش شروع کی تو بالآخر تازہ مسلمان شدہ نوجوان محمد علی کا یہ جواب میرے سامنے آیا، جب وہ 1964ء پہلی بار غیر متوقع طور پر عالمی چیمپئن بنا تو اس سے سوال کیا گیا کہ ''کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے مسلمان ہونے، اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے آپ کی یہ چیمپئن شپ جیتنے کا کوئی تعلق ہے؟''
علی نے جواب دیا ''جی ہاں! میں سمجھتا ہوں ایسا ہی ہے۔ کیونکہ سو میں سے ننانوے فیصد لوگوں کی نظر میں میرا ہیوی ویٹ ٹائٹل جیتنے کا کوئی امکان نہ تھا، یہ مقابلہ بے معنی تھا، لوگ میرا تمسخر اڑاتے کہ یہ ہر اعتبار سے ایک بے جوڑ مقابلہ تھا، کسی کو میری جیت کا یقین نہ تھا۔ لہٰذا اﷲ سے میری دعائیں، اسلامی عقیدے پر ایمان و عمل، ایک صاف ستھری، پاکباز زندگی گزارنے کا اس کامیابی سے تعلق ہے۔''
علی کا یہ جواب حق کے متلاشی، سب انسانوں خصوصاً مسلمانوں کیلیے ایک بہت بڑا پیغام ہے۔ اس نے اپنی پوری زندگی کی انتھک جدوجہد اور پے درپے کامیابیوں کی جڑ اﷲ پر گہرے ایمان اور اسلامی تعلیمات پر صدق دل سے عمل کو قرار دیا۔ اس نے یہ راز کھول دیا کہ اگر وہ محمد علی نہ بنتا تو شاید اس کی فتوحات کا آغاز ہی نہ ہوتا۔ یہ نقطہ انتہائی اہم اور قابل غور ہے کہ اگر اسلام قبول کیے بغیر Cassius Clay عالمی چیمپئن بن بھی جاتا تو اسلامی تعلیمات تک رسائی اور ان پر عمل نہ ہونے کے باعث اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ بھی دیگر دولت و شہرت یافتہ چیمپئنز کی طرح غلط مشغولات کا شکار ہو کر جلد ہی منظر سے غائب اور معدوم ہو جاتا، اور اسلامی دنیا سمیت کئی ممالک آج اس کے نام سے بھی اسی طرح ناواقف ہوتے جس طرح ہم آج باکسنگ کے موجودہ عالمی چیمپئن کے نام سے ناآشنا ہیں۔ یہ اسلام قبول کرنے، اس پر عمل کرنے کے ہی روحانی و ایمانی اثرات تھے جس نے محمد علی کی زندگی اور موت کی داستان ہی بدل کر رکھ دی۔