ایک سیاہ ترین دن
5 جولائی 1977ء کا دن پاکستان کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا
5 جولائی 1977ء کا دن پاکستان کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، جب رات کی تاریکی میں ایک جنرل نے جمہوریت کی پشت میں خنجرگھونپ دیا۔ پاکستانی قوم پر بدترین آمریت مسلط کر دی اور منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو پوری کابینہ سمیت حراست میں لے کر پابند سلاسل کر دیا گیا۔ یہ اس جمہوریت اور جمہوری نظام کا قتل تھا جو ایک طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد بھٹو نے اپنی اعلیٰ ذہانت، عمدہ کارکردگی اور شاندار قائدانہ صلاحیتوں سے جبر کی آہنی زنجیروں کو توڑکر حاصل کی تھی۔
بھٹو نے جنرل اسکندر مرزا سے لے کر صدر ایوب خان اور ایوب خان سے لے کر اس وقت کے آمر جنرل محمد یحییٰ کو عام انتخاب کروانے پر مجبورکیا۔ ان انتخابات میں مغربی پاکستان میں بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی اور مشرقی حصے میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے کامیابی حاصل کی۔ علیحدگی پسند عوامی لیگ نے شیخ مجیب الرحمان کی سربراہی میں انڈیا سے ساز باز کر کے ملک کے مشرقی بازو کو علیحدہ کر کے نیا ملک بنگلہ دیش بنا دیا، یوں جنرل یحییٰ کی عاقبت نااندیش پالیسی اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے رویے نے ملک کو دولخت کر دیا ۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایسا اندوہناک واقعہ تھا جس سے پوری قوم کا سر ندامت اور شرمندگی سے جھک گیا، لیکن جرنیل بے نیاز ہو کر ایوان صدر میں شراب و شباب کی محفلیں سجاتا رہا، عوامی لیگ کی علیحدگی پسند سیاست کے باعث ملک دو لخت ہو چکا تھا، ایسے میں عوامی لیڈر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کی رہنمائی کا بیڑہ اٹھایا۔ انھوں نے عوامی طاقت کے ذریعے یحییٰ خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور بکھرے ہوئے پاکستان کا اقتدار سنبھالا اور افسردہ قوم کو ایک نئے پاکستان کی تشکیل کی نوید سنائی۔
اقتدار سنبھالتے ہی انھوں نے پاکستان کے لیے انتھک محنت شروع کر دی۔ ایک طویل عرصے کے بعد ملک میں نہ صرف جمہوریت بحال ہوئی بلکہ پہلے عبوری آئین اورپھر 14 اگست 1974ء کو ایک جمہوری اور متفقہ آئین پاکستانی قوم کو دیا۔آج بھی سیاستدان اورجمہوری قوتیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی پارٹی سے ہو، 73ء کے آئین کو تسلیم کرتی ہیں۔ 1973ء کے متفقہ آئین کو متعدد بارمعلق کرنے، تبدیل کرنے اور ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن آئین آج بھی اپنی جگہ برقرار ہے، جب کہ اسے معطل کرنے والے معلق اور تبدیل کرنے والے حرف غلط کی طرح مٹ گئے جب تک پاکستان میں، پاکستان پیپلزپارٹی اور جمہوری قوتیں موجود ہیں، آئین موجود بھی رہے گا اور برقرار بھی۔
انسانی جذبات بھی عجیب چیز ہیں، قلم کی روانی کا احساس ہی نہیں ہوتا، بہرحال بات ہو رہی تھی۔ 5 جولائی کی جب اقتدار پرست جنرل ضیا نے رات کی تاریکی میں شب خون مار کر نہ صرف اقتدار پر قبضہ کر لیا بلکہ جمہوریت کو قتل کر کے پھانسیوں، کوڑوں اور سزائوں کا راج قائم کر دیا یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ وہ جنرل ضیا تھا جسے بھٹو نے بریگیڈیئر لیفٹیننٹ جنرل اور پھر مکمل جنرل بنا کر آرمی چیف مقررکیا یہ احسان فراموشی کی بھی بدترین مثال تھی۔ وقت کے آمر نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنے محسن ذوالفقارعلی بھٹو اور اس کے رفقا کو پابند سلاسل کر دیا ملک میں خوف کی وجہ سے خاموشی کا راج تھا، مطمئن ہو کر جنرل ضیا نے قائد عوام کو رہا کر دیا۔
رہائی ملتے ہی بھٹو صاحب نے بذریعہ ریل کراچی کا سفر شروع کیا تو ہر جگہ اور ہر سطح پر عوام نے والہانہ اور پرجوش انداز میں ان کا استقبال کیا۔ ہجوم کی وجہ سے اسٹیشن کے جنگلے ٹوٹ گئے، کھڑکیاں اوردروازے گر گئے لیکن لوگوں کا ایک جم غفیر تھا، جوسمندر کی طرح بہہ رہا تھا اور اپنے قائد سے والہانہ محبت کا اظہارکر رہا تھا، یہاں تو یہ سب کچھ ہو رہا تھا ادھر ایوان صدر میں بیٹھا جنرل ضیا بھٹو سے عوام کی محبت کو دیکھ کر اور سن کر پریشان ہو رہا تھا۔ یہ سب کچھ اس کی توقع کے برعکس تھا، سگریٹ کے کش پرکش لگاتے ہوئے ان کی آنکھیں سوچ میں گم تھیں جب کہ چہرے پر قدرے خوف کے آثار تھے کیونکہ جنرل ضیا ذوالفقارعلی بھٹوکے مزاج اور فطرات سے بخوبی آگاہ تھا، پریشانی کے اس عالم میں اس نے بھٹو سے دشمنی رکھنے والوں کی طرف دیکھا اور ان سے مدد مانگی، کسی کو وزارت کسی کو سفارت، بلاآخر آمر وقت نے اپنے لیے ایک بچت کا راستہ نکال ہی لیا۔
نواب محمد احمد خان قتل کیس کو بنیاد بنا کر بھٹو پر مقدمہ شروع کر دیا، ایک بار پھر بھٹو گرفتار ہوئے، عدالت پر حکومت وقت کی حکمرانی تھی، اپنے پسندیدہ اور بھٹو دشمنی رکھنے والے جج صاحبان نے لاہور ہائی کورٹ میں مقدمے کی ابتدا کی، پیشیاں چلتی رہیں، تمام من پسند کارروائی کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے چیئرمین بھٹوکے لیے ''سزائے موت'' کے احکامات صادرکر دیے، پوری پاکستانی قوم سناٹے میں آ گئی، کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا، بہرحال سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی گئی لیکن فیصلہ تو پہلے ہو چکا تھا، صرف کاغذی کارروائیاں تھیں جو چل رہی تھیں، اپیل کی پیشیاں چلتی رہیں، تمام واقعات سننے کے بعد سپریم کورٹ نے بھی لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا، یوں پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو کوٹ لکھپت جیل میں منتقل کر دیا۔ یہ سب کچھ آمر کے حکم پر ہو رہا تھا جس پر بھٹو کے بہت زیادہ احسانات تھے۔
پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس کا چیئرمین، اسٹیل ملزکی بنیاد رکھنے والا، بھارت سے نوے ہزار سے زائد فوجیوں کو رہائی دلانے والا، ایٹمی پروگرام کا بانی، شملہ معاہدے کا ہیرو، آمریت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ایک جھوٹے مقدمے کو بنیاد بنا کر 4 اپریل 1979ء کو ہمالیہ سے زیادہ قد آور شخصیت ذوالفقار علی بھٹو کو دار پر چڑھا دیا گیا۔ یوں جنرل ضیا نے اپنے محسن کے پے در پے احسانوں کا بدلہ چکا دیا۔ بھٹوصاحب شہید کر دیے گئے پوری قوم پر سکتہ طاری ہو گیا ہر شخص ایک دوسرے کا چہرہ دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہے کیا کہ یوں بھی ہو سکتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے جنرل ضیا سے بھٹو کے لیے رحم کی اپیل کی لیکن غیرملکی اشارے پر ناچنے والے کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، لوگوں نے خود سوزی کی پوری ملک میں صف ماتم بچھ گئی۔
کوٹ لکھپت جیل (لاہور) سے بھٹو کا جسد خاکی سی ون تھرٹی جہاز کے ذریعے لاڑکانہ لایا گیا جہاں نماز جنازہ کے بعد بھٹوکو آخری آرام گاہ گڑھی خدا بخش میں سپرد خاک کیا گیا۔ جہاں آج بھٹو کے جیالے لاکھوں کی تعداد میں حاضری دیتے ہیں۔ ساڑھے آٹھ سالہ ظلم و بربریت کے بعد وقت کی طنابین کھنچنے لگیں، مکافات کا عمل شروع ہو گیا، غیر ملکی آقائوں نے جو کام جنرل ضیا سے لینا تھا وہ تکمیل کو پہنچا، امریکا کے اس وقت کے وزیر خارجہ ہنری کسنجرکی بھٹو کو دی تھی۔