امریکا ہمیشہ وہی کرے گا جس میں اُس کا اپنا مفاد ہے

امریکی انتخابات کا نتیجہ کچھ بھی ہو یہ بات بڑی واضح ہے امریکی عوام نے امریکا کا صدر منتخب کیا ہے پاکستان کا نہیں .


Shehzad Amjad/Shahbaz Anwer Khan November 28, 2012
اس طرح نہیں سوچتے کہ آج پالیسی بنائیں اور اس پر عمل کریں, ایکسپریس فورم پر ماہرین کی رائے۔ فوٹو : فائل

بین الاقوامی سطح پر امریکا اس وقت دنیا کی سپر پاور کے طورپر اپنی ایک اہمیت ،عالمی سیاست کے حوالے سے اپنا ایک مقام اور اثرونفوذ رکھتا ہے ۔

اس کی پالیسیاں امریکا کے اندر ہی نہیں امریکا سے باہر کے ممالک پر بھی بلاواسطہ یا بالواسطہ طورپر اثر انداز ہوتی ہیں ۔امریکی اثر اندازی صرف حکومتوں اور سیاست پرہی نہیں معیشت پر بھی ہوتی ہے ۔ سابق چار سالہ مدت اقتدار کے دوران امریکی معیشت کے زوال آمادہ ہونے اور بیروزگاری کی شرح 7 فیصد سے بڑھ جانے کے باوجود صدر باراک اوباما دوسری مرتبہ صدارت کے امیدوار کے طورپر کامیاب ہوگئے ہیں اس موقع پر انہوں نے امریکی قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ ''ہمیں ایک ایسے ملک کی ضرورت ہے جو جنگوں سے دور ایک ایسے امن کے قیام کو ممکن بناسکے جس کی بنیاد ہر انسان کے لیے آزادی اور وقار ہو۔میں اب امریکا کو مزید آگے لے جانے کے لیے پرامید ہوں ۔امریکا کے لیے اب بہترین وقت آنے والا ہے ۔اب جنگ مسائل کا حل نہیں بلکہ امن ہر انسان کابنیادی حق ہے ۔امریکا کی کامیابی دولت اور فوج نہیں بلکہ مضبوط اقتدار کی وجہ سے ہے ''۔

انہوں نے اپنی قوم کو یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ ''جنگ کی دہائی ختم ہوگئی ،بہترین وقت آنے والا ہے ۔آئندہ نسلوں کو محفوظ ملک دینا چاہتے ہیں ،امریکیوں کے تحفظ پر سمجھوتہ نہیں ہوگا '' صدر اوباما کے یہ جذبات و احساسات آنے والے دور اور ان کے نئے صدارتی tenure میں کیا شکل اختیار کرتے ہیں اور نئی صدارتی مدت کے دوران ان کے مذکورہ خطاب کی روشنی میں ان کی نئی حکمت عملی سے پاکستان میں حکومت ، اہم اداروں اور ہماری معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اس سوال کا جواب معلوم کرنے اور اپنے قارئین کی آگاہی کے لیے ہم نے خارجہ ، عسکری اور اقتصادی امور کے ماہرین کو ''ایکسپریس فورم '' میں مدعو کیا ہے۔انہوں نے اس موضوع پر جن خیالات کااظہار کیا اس کی تفصیلات نذر ِ قارئین ہیں۔

شمشاد احمد خان
سابق سیکرٹری خارجہ

امریکی انتخابات کا نتیجہ کچھ بھی ہو یہ بات بڑی واضح ہے امریکی عوام نے امریکا کا صدر منتخب کیا ہے پاکستان کا نہیں، امریکی صدر کے انتخاب سے یہ سمجھ لینا کہ اس میں ہمارے لئے کوئی مضمرات و فوائد ہیں سمجھ میں نہیں آتا ، ہماری مثال محلے کی ایسی حسینہ جیسی ہے جو سمجھتی ہے کہ میری قیمت کوئی نہیں دے سکتا مگر انتظار میں بھی رہتی ہے کہ کوئی اس کی قیمت لگائے گا۔امریکی صدر نے اپنی پالیسیاں پاکستان کے فائدے کیلئے نہیں بلکہ امریکی عوام کیلئے بنانی ہیں۔امریکی اپنی پالیسیاں بناتے وقت اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہیں انہوں نے اگر پاکستان کو ایف 16طیارے بھی دیئے ہیں تو اس لئے نہیں دیئے کہ ہم ان کے طیاروں کو مارنے کے قابل ہو جائیں بلکہ اُن کے اپنے ایف 16 ہمارے والوں سے کہیں بہتر ہوں گے۔ دونوں امریکی صدارتی امیدواروں کی آخری تقاریر دیکھیں تو ان میں صرف الفاظ مختلف تھے پیغام ایک ہی تھا کہ ان کی پالیسیاں وہی رہیں گی۔

اوبامہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ ہر کام کرتی ہے میں کوئی بھی کام کروں گا تو پاکستان کو بتاؤں گا نہیں اسامہ کے بارے میں بھی اگر پاکستان کو بتا دیتے تو نتائج مختلف ہوتے۔ اگر ہم اوبامہ کی جیت سے یہ امید رکھیں کہ وہ ہماری معیشت بہتر کردے گا تو یہ امید چھوڑ دیں کیونکہ وہ اپنے ملک کیلئے پالیسیاں بنائے گا ہمارے لئے نہیں وہاں پینٹا گان کا اثرو رسوخ ہے اور وہ رہے گا چاہے صدر کوئی بھی بن جائے۔ سابق امریکی صدرریگن ہر جگہ کمیونزم کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتاتھا اور کہتا تھا کہ امریکا اتنا طاقتور ہے کہ دنیا کو بدل سکتا ہے اور اس نے صحیح کہا تھا کیونکہ اس کے بعد آنے والے ایک امریکی صدر بش نے پوری دنیا کو بدل کر الٹ پلٹ کردیا۔

گزشتہ 12سالہ تاریخ دیکھ لیں دنیا کا امن تباہ ہوگیا اور خاص کر مسلمان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد دنیا میں ایسی تبدیلیاں آئیں ہیں کہ پاکستان کی آپشنز سکڑ گئی ہیں اب ہم ہر معاملے میں کھل کر اپنے مفادات کا دفاع بھی نہیں کرسکتے۔ سابق صدر بش کے دور حکومت میں امریکا نے بھارت کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ کیا اور ہمارے ساتھ معاہدے کا وعدہ کیا تھا کہ ہمیں برابری کی سطح پر رکھاجائے گا مگر ایک سال بعد ہی پاکستان کے حوالے سے سارا نقشہ بدل گیا جب کہ انڈیا کو وہ سہولتیں دی گئیں جو ان کے اپنے قانون کے بھی خلاف ہیں۔

امریکا کو چونکہ چین کے خلاف انڈیا کو مضبوط کرنے کی ضرورت تھی اس لئے انڈیا کو نوازا گیا۔ مگر پاکستان کے صدر نے قومی مفاد کا بالکل خیال نہیں رکھا حالانکہ انہیں رکھنا چاہیئے تھا۔ کوئی بھی نیوکلیئر ڈیل انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن میں جائے بغیر نہیں ہوسکتی مگر جب امریکا کی انڈیا کے ساتھ ڈیل وہاں گئی تو پاکستانی سفیر نے اپنے اختیارات کے تحت اسے بلاک کردیا اور کہا کہ اس پر کوئی طریقہ کار طے ہونا چاہیئے اور 90 فیصد ممبر ممالک نے اس موقف کی تائید کی، اس کے فوراً بعد امریکی سفیر نے امریکی صدر بش کو فون کیا بش نے نو منتخب پاکستانی صدر کو حکم دیا جس نے آگے پاکستانی سفیر کو فوری حکم دیا اور اس نے بلاک ختم کردیا جس کے بعد 24گھنٹے میں باہمی مفاہمت سے ڈیل ہوگئی۔ امریکا اپنے تمام مفادات و مطالبات پورے کرتا ہے ، امریکی پالیسی صرف پاکستان یا افغانستان کیلئے نہیں ہے بلکہ پورے خطے کیلئے ہے وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اس خطے میں موجود ہے امریکا ہمیشہ اپنے مفادات کا خیال رکھتا ہے مگر ہم اپنے مفادات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔

ہمیں اپنا چہرہ دیکھنا چاہیئے جس پر کرپشن، دہشت گردی و نااہلی کی سیاہی ملی ہوئی ہے ، پوری دنیا میں ہماری کوئی عزت نہیں کسی بھی ملک میں جانا ہو امیگریشن والے پاکستان کا نام سن کر ہی روک لیتے ہیں ۔ ایک دفعہ ہم ایک وفد کے ساتھ امریکا گئے جس میں بھارتی کے لوگ بھی شامل تھے ایئرپورٹ پر بھارتی لوگوں کو پورے پروٹوکول کے ساتھ باہر لے جایا گیا مگر ہمیں امیگریشن والوں نے روک لیا اور کئی گھنٹے کی تفتیش کے بعد جانے دیا گیا۔ ہمیں ابھی تک اندازہ نہیں ہوسکا کہ ہم کیا ہیں یا تو ہم سوچتے ہیں کہ ہم بکیں گے نہیں اور جب بکتے ہیں تو بہت سستے بک جاتے ہیں۔ ہمیں یہ بتایا گیا افغانستان میں سویت یونین گرم پانیوں کی تلاش کیلئے آیا ہے اور ضیاء الحق نے صرف 3بلین ڈالرز کی خاطر سوویت یونین کو ختم کردیا۔ جو مدرسے دین کی بقاء کے ضامن تھے انہیں امریکا کے حوالے کردیا جہاں سے جہادی پیدا ہوئے امریکا نے انہیں انکیوبیٹر بنا دیا جہاں سے جہادی چوزے نکلتے تھے۔

امریکا میں تھنک ٹینکس ہیں جن میں موجود ماہرین اپنی حکومت کیلئے سوچتے ہیں جو لوگ ریٹائر ہوجاتے ہیں ان کو تھنک ٹینکس میں جگہ دے کر ان کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں الٹ ہے یہاں جو لوگ ریٹائر ہوجاتے ہیں پالیسی بناتے وقت ان کو پوچھا تک نہیں جاتا بلکہ اُلٹا ان کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ ہمیں مس گائیڈ کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت مسئلہ یہ نہیں کہ امریکا ہمیں کیا دے گا بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنا مفاد حاصل کرسکیں گے یا نہیں۔ امریکا اپنی پالیسیوں میں حق بجانب ہے کیونکہ وہ طاقتور ہے اور طاقتور ہمیشہ اپنے لئے سوچتا ہے دوسروں کیلئے نہیں ۔ اس وقت چین اور روس سمیت کوئی بھی ملک امریکا کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اگر ایسا ہوتا تو وہ ضرور کرتے۔

ہم نے اسلام کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے اور امت کی بات کرتے ہیںجبکہ سعودی عرب سمیت کسی اور ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ قائداعظم کا اصول تھاکہ دوستی سب سے رکھو دشمنی کسی سے نہ رکھو ہمیں اسی اصول پر عمل کرنا چاہیئے۔ یہ غلط ہے امریکا کی خارجہ پالیسی باقاعدہ تحریر کی گئی ہے، خارجہ پالیسی تو سڑک پرچلنے والا ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ خارجہ پالیسی وہ ہونی چاہیئے جس میں اپنا فائدہ ہو وہ اپنی خارجہ پالیسی فالو کررہے ہیں ہمیں اپنی پالیسی پر چلنا چاہیئے۔ امریکا ہماری معیشت کو بہتر نہیں کرسکتا وہ ہمیں کیا دے گا وہ تو خود معاشی بدحالی کا شکارہے۔ اوبامہ نے اپنی معاشی بدحالی کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی مگر نہیں کرسکا، یہ باتیں کرنا کہ وہ شام، ایران اور پاکستان پر حملہ کردے گا تو اب وہ ہمت نہیں کرسکتا وہ پہلے ہی افغانستان سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔

امریکی عوام جنگوں سے تنگ آچکے ہیں۔ امریکا جہاں بھی جاتا ہے یہی کہہ کر جاتا ہے کہ جمہوریت لانے جارہے ہیں مگر لوگ اب جان گئے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔ عراق ابھی تک سلگ رہا ہے افغانستان جل رہا ہے اور اب پاکستان کے بغیر ان کا افغانستان سے نکلنا ممکن نہیں ہے، اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اسے کیسے استعمال کرتے ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے پالیسیاں نہیں، پالیسیاں ماہرین بناتے ہیں مگر نیٹو سپلائی کے معاملے پر ہم نے کہہ دیا کہ جو پارلیمنٹ کہے گی وہی کریں گے، ہم نے اسے بھی اپنے مفاد کیلئے استعمال نہیں کیا۔ جس دن پاکستان میں ایسا حکمران آگیا جو پاکستان کے مفاد کا تحفظ کرے گا تو امریکا کو بھی اس کی عزت کرنا پڑے گی مگر موجودہ حکمرانوں کی صورتحال تو یہ ہے کہ شکاگو کانفرنس میں ہمارا صدر موجود تھا مگر 4دن تک اکٹھے رہنے کے باوجود اوبامہ نے اس سے ملنا تک گوارہ نہیں کیا بلکہ صورتحال یہ ہے کہ نیٹو کا سیکرٹری جنرل جو ایک سرکاری ملازم ہے اس نے بھی پاکستانی صدر سے ملنے سے انکار کردیا، موجود ہ حکمرانوں میں ملکی مفاد کے تحفظ کی اہلیت ہی نہیں ہے۔

ہم دو نمبر قوم ہیں جو ہر چیز میں دھوکہ کرتی ہے اسی لئے ہمارے حکمران بھی ویسے ہی ہیں۔ ہمیں امریکا سے پیسے لینے کی بجائے یہ دیکھنا چاہیئے کہ ہم امریکا سے کیا سیکھ سکتے ہیں اگر امریکا نے پیسے دیئے تو وہ پہلے کی طرح سیاستدانوں کی اپنی نسلیں سنوارنے میں لگ جائیں گے۔

جاوید اقبال
(سابق وائس ایڈمرل اور سفیر )

ہم یہ اندازہ لگاتے ہیں امریکی صدر پالیسیاں بناتا ہے مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے جو پالیسی اس وقت اختیار کرنی ہے وہ دس سال پہلے بن چکی ہے کیونکہ وہ اس طرح نہیں سوچتے کہ آج پالیسی بنائیں اور اس پر عمل کریں بلکہ عمل انہوں نے اسی پالیسی پر کرنا ہے، ہاں طریقہ کار میں فرق ہوسکتا ہے اور پالیسی پر عمل کرنے کیلئے بہت سے طریقہ کار ہیں۔ ابھی اوبامہ اپنا سافٹ امیج بنانے کی کوشش کریں گے اور اسلامی ممالک میں ان کا جو امیج بنا ہوا ہے اس کو بہتر کریں گے۔ پاکستان کے حوالے سے امریکا کی پالیسی وہی رہے گی اس میں فرق نہیں آئے گا البتہ اس پر لیپا پوتی کرکے اسے تبدیل شدہ دکھانے کی کوشش کی جائے گی مگر پاکستان کے اندر ان کی سٹریٹجک دلچسپیاں وہی رہیں گی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی صورتحال میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔

ہم اپنے مفاد کا خیال نہیں رکھ سکتے نہ اپنی خود مختاری کا ، پاکستان میں اسامہ کے خلاف آپریشن کا واقعہ ہوا جو بہت بڑا واقعہ تھا مگر ہم خاموشی سے اسے پی گئے، سلالہ پوسٹ پر حملہ میں فوجی جوان شہید ہوئے ہم نے کوئی ایکشن نہیں لیا، کب زیر کو زبر اور کب زبر کو زیر لکھنا ہے وہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس وقت مڈل ایسٹ میں رشین لابی کے ممالک میں تبدیلی لانا امریکا کا سب سے بڑا مقصد ہے اور سپر پاور ہونے کے ناتے یہ ان کیلئے ضروری ہے۔ لیبیا میں کیمونسٹ حکومت تھی اس کو ختم کردیا اور دیگر ممالک میں یہ کوششیں جاری ہیں، ان کی یہ بھی کوشش ہے کہ مسلمانوں کے اندر سے اسلامی روح نکال دی جائے اور اس کیلئے ان کی کوششیں جاری ہیں اور رہیں گی۔مسلمانوں کے لئے امریکا کی طرف سے نرم رویئے کا سوچنا صرف سراب ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے بفر اسٹیٹ افغانستان تھی پاکستان کا مقصد وہ بفر سٹیٹ بنانا تھا جو افغانستان سے آنے والی گرم ہوا کو اپنے سینے پر برداشت کرسکے کیونکہ پہلے یہ گرم ہوا ڈائریکٹ دہلی کو ہٹ کرتی تھی مگر اب وہ اسلام آباد کو ہٹ کرتی ہے۔

یہ بات بھارتیوں نے چاہے نہ سوچی ہو مگر گورے نے ضرور سوچی اور اب بھارت سپر پاور بننے کی طرف جارہا ہے اور یہ سب کچھ علم ودانش کی بنیاد پر ہے۔ بش سینئر نے نیا ورلڈ آرڈر جاری کیا جس کا مقصد نئی دنیا پیدا کرنا تھا ، نئی بلڈنگ بنانے کیلئے پرانی بلڈنگ گرانا پڑتی ہے اسی طرح نیو ورلڈ آرڈر کو دنیا میں لاگو کرنے کیلئے پرانی سرحدیں ختم کرکے نئی سرحدیں بنائی جارہی ہیں، امریکا کوئی بھی کام کرتا ہے تو اپنے دفاع اور مفاد کو سامنے رکھ کر کرتا ہے۔ اس وقت اس بات پر جھگڑا چل رہا ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اس نظریئے کو ختم کردو، انفرادی طور پر لوگوں کے نماز روزے سے اسے کوئی مسئلہ نہیں ہے اصل مسئلہ اسے اسلامی نظریئے سے ہے۔ امریکا نے پہلے سوچا کہ اسلام کے مطابق زندگی کو ڈھالنے کے خواب دیکھنے والوں کو پہلے ختم کرو تو اس کیلئے اس نے روشن خیالی کا نعرہ لگایا ۔

وہ ہمیں ایسا مسلمان بنانا چاہتا ہے جہاں نماز روزہ تو ہو مگر ساتھ ہی سٹوروں پر وہسکی بھی موجود ہو جس پر کسی کو اعتراض نہ ہو اور یہی اوبامہ چاہتا ہے۔اس کا مقصد اس خطے کو پریشان کرکے اتنا تھکا دینا ہے کہ یہ تھک کر خود ہی ہار جائیں۔ اوبامہ کی جیت صرف اخبار کی لیڈ سٹوری تھی جو لگ گئی اور اس کے بعد بات ختم، امریکا کیلئے ہم اس خطے کے معاملات میں حصے دار نہیں بلکہ چائے پلانے والے لڑکے کی حیثیت رکھتے ہیں اور آئندہ بھی ہم اسی تنخواہ میں کام جاری رکھیں گے۔

محمد مہدی
(ماہر امور خارجہ)

امریکی انتخابات کا اثر صرف امریکا پر نہیں بلکہ پوری دنیا پر پڑتا ہے۔ اوبامہ کی جیت سے امریکا میں ایک تبدیلی آئی ہے کہ امریکا کی آزادی سے لے کر آج تک اوبامہ پہلے سیاہ فام ہیں جو امریکی صدر بنے ہیں اور پچھلے چار سال سے اوبامہ ہمارے سامنے ہیں اور ہم ان کی پالیسیز کو دیکھ رہے ہیں۔ اس نے بش کی پالیسیوں میں تبدیلی کی ہے اور کوشش کرے گا کہ مزید تبدیلی کرے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں وہ کیا کردار ادا کرتا ہے اور ہمارے قریبی ممالک میں اس کا کردار کیا ہوگا۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور دنیا بھر کے کسی بھی اسلامی ملک میں کوئی معاملہ ہو پاکستان کے عوام اس کا براہ راست اثر لیتے ہیں۔

امریکا نے افغانستان سے نکلنے کے لیے 2014ء کا وقت دیا ہوا ہے اور افغانستان میں امریکا کی شکست واضح ہے مگر وہ پاکستان سے یہ چاہیں گے کہ یہ شکست دنیا کو نظر نہ آئے۔ امریکا میں صدر کوئی بھی ہو مگر ہر معاملے میں پینٹا گان ہی سامنے نظرآتا ہے اور آگے بھی یہی ہوگا۔امریکا نے افغانستان میں نیشنل آرمی اور پولیس بنائی ہے جس کے ذریعے ملک چلانے کی کوشش کرے گا اور خود پس منظر میں رہے گا، دوسری طرف امریکا کی اب تک کوشش رہی ہے ایران کو ٹیکنالوجی کے حصول سے روکا جائے اور آئندہ بھی اس کی یہ کوشش جاری رہے گی اور آئندہ چار سال اس حوالے س ایران کیلئے نہایت اہم ہوں گے کہ وہ ایٹم بم بناسکتا ہے یا نہیں۔ پاکستان میں امریکی ڈرون حملے جاری رہیں گے اور اگلے 6ماہ تک اس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی کیونکہ تب پاکستان میں کوئی نئی حکومت نہیں بنے گی ہاں نئی حکومت آکر کیا فیصلہ کرتی ہے یہ اس پر ہے۔

مڈ ل ایسٹ کے ممالک لیبیا، شام اور دیگر ممالک کے حالات پاکستان پر اثر انداز ہو رہے ہیں، امریکا نے اس حوالے سے دوہرا معیار قائم کیا ہوا ہے پاکستان میں وہ القائدہ کے خلاف ہے مگر و ہ لیبیا اور شام کے ساتھ مل کر وہاں کی حکومتیں گرا رہا ہے۔ معاشی صورتحال بھی اہم ہے یہ بنیادی سوال ہے جو امریکا اور پاکستان کے درمیان ہے چائینہ بھی پاکستان کے لئے اقتصادی حوالے سے اہم ہے امریکا اور چائینہ کے اقتصادی تعلقات ہیں اور چائینہ کی امریکا کے خلاف پالیسیاں بھی ہیں اس لئے ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ معاشی طور پر امریکا پاکستان کیلئے کیا کرتا ہے۔

صدیق الرحمن رانا
(سینئر ممبر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرزآف کامرس اینڈ انڈسٹریز)

اوبامہ کا اکنامک ایجنڈا بڑا واضح ہے ۔جس میں آئندہ چار برسوں کے دوران سمال اینڈ میڈیم انڈسٹریز کوقومی اقتصادی ترجیح حاصل رہے گی ۔ورلڈ بنک اور دوسرے عالمی مالیاتی ادارے مینوفیکچرنگ کے لیے فنڈز دیں گے دوسرا پہلو اعلیٰ ایجوکیشن کا ہے جس کا مقصد اس کے ذریعے ہائی ٹیکنیک کے زور پر دنیا پر حکمرانی کرنا ہے۔ہماری ضرورت انرجی ہے اور کوئی بھی حکومت جلد سے جلد بھی 900 دنوں میں یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتی چنانچہ ہمیں پرو رئیل اکانومی یعنی ایگری کلچر انڈسٹری اور بائیو ٹیکنالوجی کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ ہماری اس وقت سب سے اہم ضرورت بجلی ہے واپڈا 18سے 20روپے یونٹ خریدتا ہے تو عوام کو کیسے سستی دے سکتا ہے اس کیلئے سستے ذرائع ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔

انڈیا اس وقت اپنی ضرورت کا 20فیصد اور فرانس 60فیصد بجلی ایٹمی ذرائع سے حاصل کررہا ہے ایران ہمیں سستی گیس دینے کو تیار ہے ہمیں لینی چاہئیے ۔بہر حال یہ طے ہے کہ امریکا کی پالیسی وہی رہے گی جو اس وقت ہے۔ہم اگر اپنی معاشی پالیسی پرو ایگری کلچر بنائیں گے تو تب ہی اس سے فائدہ ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح نو، دس سالوں میں تعلیم کے میدان میں جو ترقی ہوئی ہے اس سے بھی فائدہ اٹھایاجا نا چاہئے ۔گویا مینوفیکچرنگ اور اعلیٰ تعلیم ہماری اصل ترجیح ہونی چاہئے۔

خالد اعوان
(اعزازی انوسٹمنٹ قونصلر ، سینئر رہنما پیپلزپارٹی امریکا)

امریکا میں عرصہ سے رہائش پذیر رہنے کی بنا پر بطور تارک وطن اپنے پچیس سالہ تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ امریکا میں افراد نہیں تھنک ٹینک اہم ہوتے ہیں جو پالیسیاں بناتے ہیں ۔امریکا کے عوام نے ملک کے برے معاشی حالات کے باوجود صدر بارک اوبامہ کو دوبارہ منتخب کرکے اس پر اعتماد کاجو اظہار کیاہے لائق تحسین ہے ۔کیونکہ امریکا میں ڈیموکریٹس جمہوریت کے حامی جبکہ ری پبلکن آمر کا ساتھ دیتے ہیں اور صدر اوباما کو کامیاب کروانے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی عوام باعزت طریقے سے آمرانہ سوچ سے باہر نکلتے جا رہے ہیں ۔

صدر اوباما نے جو اپنی ٹیم رکھی ہوئی ہے اوراگر ہیلری بھی اسی طرح حکومت میں شامل رہی تو اس کے نتیجے میں امید ہے کہ معاملات بہتری کی طرف جائیں گے ۔امریکا میں لوگ پالیسیوں سے تواختلاف کرتے ہیں لیکن ملک کے تشخص کو نقصان نہیں پہنچاتے جبکہ ہمارا بڑ ا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اختلاف کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ اس سے ملک کے تشخص کو نقصان تو نہیں پہنچ رہا۔ امریکا میں مقیم پاکستانی اپنے ملک کا امیج بنانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کابھرپور استعمال کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں