مصر کی بگڑتی ہوئی سیاسی صورتحال

عالمی طاقتیں مصر کی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے کوششیں شروع کردیں گی ۔


Editorial November 28, 2012
مصرکی سیاسی صورتحال دن بدن گمبھیر اور پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ فوٹو : اے ایف پی

دنیا کی قدیم ترین تہذیب کا وارث مصر،آج پھر تاریخ کے ایک نئے دوراہے پرکھڑا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصر ی عوام کی آزمائش کے دن ابھی باقی ہیں اورانھیں اپنی منزل کے حصول کے لیے اپنی جمہوری جدوجہد کا سفر مزید جاری رکھنا ہوگا۔

ایک مطلق العنان آمر حسنی مبارک کے خلاف طویل صبر آزما اور اعصاب شکن تحریک کا ثمر جمہوریت کی بحالی کی صورت میں انھیں ملا اوراخوان المسلمین نے انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی لیکن نومنتخب مصری صدر ڈاکٹر محمد مرسی نے وسیع تر اختیارات کو اپنی ذات میں مرکوز کرنے کی خاطر جو صدارتی فرمان جاری کیا ہے اس کے خلاف مصر کے عوام گزشتہ پانچ روز سے سراپا احتجاج ہیں۔ عوام،سول سوسائٹی ،ججز، وکلا اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے اس عزم کا اظہار کیا ہے وہ حکم نامے کی منسوخی تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے ۔

جب کہ مصر ی صدر نے صدارتی حکم نامہ واپس لینے سے انکارکردیا ہے ۔ مصرکی سیاسی صورتحال دن بدن گمبھیر اور پیچیدہ ہوتی جارہی ہے ۔مصری صدر ڈاکٹر محمد مرسی نے قاہرہ میں ملکی عدلیہ کے اعلیٰ ترین نمایندوں سے ملاقات کے بعد اپنے اختیارات میں اضافے کا باعث بننے والا صدارتی حکم نامہ واپس لینے سے انکار کر کے حالات کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے، ذرایع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق صدر ڈاکٹر محمد مرسی نے منگل کو سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان سے ملاقات کی، انھوںنے اپنے اختیارات میں اضافے کے حوالے سے ان کے خدشات دور کیے ہیں، متنازعہ حکم نامے کے تحت صدارتی فیصلوں کو محدود عرصے تک کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا،دوسری جانب اسٹیٹ کونسل کے نائب سربراہ عبدالمقید مقنن کا کہنا ہے کہ مصری صدر کے اختیارات واپس لیے جانے سے متعلق 12 مقدمے دائر ہوئے ہیں۔ملک میں ہونے والے مظاہروں کے دوران منگل تک دو افراد ہلاک اور 450 کے قریب زخمی ہوچکے ہیں ۔

دوسری جانب اسرائیل کی نہتے فلسطینیوں پر جارحیت کے سبب صدر مرسی پاکستان میں منعقد ہونے والی D-8 کانفرنس میں بھی شرکت نہ کرسکے ۔صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مرسی کی لامحدود اختیارات کے حصول کی خواہش کے خلاف مصر میں بائیں بازو کے سیکولر طبقات باہم شیروشکر ہوچکے ہیں اور سابق صدارتی امیدواروں ڈاکٹر محمد البرادعی، عمرو موسیٰ اورحمدین الصباحی نے مل کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہوئے صدر سے مذاکرات کرنے سے انکار کردیا ہے۔ مصری عوام کی طویل جدوجہد کے بعد جمہوریت کی بحالی سے انھیں امید ہوچلی تھی کہ مصر اب ایک نئے دور میں داخل ہوگا لیکن حیرت انگیز امر ہے کہ ایک آمر سے نجات کے بعد دوسرا شخص آمر بننے کی کوشش کررہا ہے۔

کیا صدر مرسی کو اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ عالمی طاقتیں مصر پر بری نگاہ رکھتی ہیں اور وہ ملک میں جاری کشیدہ صورتحال کا فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے کوششیں شروع کردیں گی ۔ مصر میں کشیدہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں امریکا نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ کسی فردِ واحد کے پاس بے انتہا اختیارات ہوں۔امریکی تشویش کے پس منظر میں چھپی ہوئی خواہشات کو سمجھتے ہوئے مصری صدر کو ملک میں جاری احتجاج کو ختم کرنے کے لیے اپوزیشن رہنمائوں سے مذاکرات کے در وا کرنے ہونگے کیونکہ اختلاف، ضد اور ہٹ دھرمی کی خلیج اگر وسیع ہوگئی تو اس سے غیر ملکی قوتیں فائدہ اٹھائیں گی ۔ دانش مندی ،بردباری اور حکمت کا تقاضہ یہی ہے کہ اختلافات کو ختم کر کے مصری حکومت اور اپوزیشن ایک نقطے پر اپنی توجہ مرکوز کریں اور وہ ہے عظیم تر مصر کی تعمیر وترقی اور عوام کی فلاح ۔ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں