چند اخباری یادیں

ایسی یادوں کا ایک انبوہ ہے جو میرے اکلوتے دل کو پریشان رکھتا ہے

Abdulqhasan@hotmail.com

ایسی یادوں کا ایک انبوہ ہے جو میرے اکلوتے دل کو پریشان رکھتا ہے اور یادیں تو ہوتی ہی پریشانی کے لیے ہیں، اگر یادیں پریشان کن نہ ہوں تو پھر وہ کیا ہوتیں، یادیں نہ ہوتیں کچھ اور ہوتیں جو کسی دل اور بعض اوقات دماغ کو بھی پریشان نہیں کر سکتیں۔

بہرکیف لکھنا ہمارا کام اور دیر سویر سے اس لکھے کو قبول کرنا ہمارے دفتر کا کام بلکہ ہمارے ایڈیٹروں کا کام جن کو پہلے ہماری کسی تحریر کو درست کرکے قابل اشاعت بنانا ہوتا ہے پھر اس کو کتابت وغیرہ کے مرحلوں سے گزار کر بذریعہ اخبار قارئین کی خدمت میں پیش کرنا ہوتا ہے اور اس کے بعد صبر کے ساتھ قارئین کی طرف سے رد و قبول کو وصول کرنا ہوتا ہے اور سب سے مشکل مرحلہ یہی ہے جب کوئی لکھنے والا اپنی تحریر کو قارئین کی عدالت میں پیش کرتا ہے۔ کسی وکیل کے بغیر یہ تحریر تن تنہا عدالت کی کڑی نظروں کے سامنے حاضر ہو جاتی ہے اور رد و قبول کے مرحلوں سے گزر کر اخبار کی دنیا میں حاضر ہو جاتی ہے۔

جو لوگ اخبار میں لکھتے ہیں وہ گویا اپنے آپ کو ایک کڑی اور بے رحم عدالت کی خدمت میں حاضر کرتے ہیں۔ ہمیں وہ زمانہ یاد ہے جب بے حد محنت کے ساتھ کچھ لکھا اسے بار بار پڑھا اور اپنی حد تک اسے پاک و صاف کرکے بے رحم ایڈیٹر کے سامنے حاضر کر دیا، اب ایک ایڈیٹر کی سنئے۔ نادر روز گار ایڈیٹر جو اپنے خاص عہد کی پیداوار تھے۔ یہ تھے سید سبط حسن۔ کئی زبانوں میں لکھنے والے اور بڑے ہی بے رحم۔ ہفت روزہ لیل و نہار کا زمانہ تھا جس کے رسماً چیف ایڈیٹر تو فیض صاحب تھے جیسے وہ پروگریسو پیپر کی دوسری کئی اشاعتوں اور اخبارات وغیرہ کے ایڈیٹر تھے لیکن عملاً وہ اپنی دوستی کی وجہ سے لیل و نہار کے ایڈیٹر سید سبط حسن کے پاس ہی بیٹھتے تھے اور کبھی کبھار سبط کو مصروف دیکھ کر کوئی تحریر اٹھا لیتے تھے اور اس پر اپنی ایڈیٹری نکال لیتے تھے۔

اگر کبھی ہماری کوئی تحریر جسے سبط صاحب کسی فرصت کے وقت کے لیے پرے پھینک دیتے تھے کہ اطمینان سے دیکھ کر قابل اشاعت بنائیں گے۔ فیض صاحب پھر اس اناڑی رائٹر کی تحریر کو نہ صرف نئی زندگی دے دیتے بلکہ بعض اوقات موڈ میں ہوتے تو اس پر کچھ لکھ کر اسے واقعتاً قابل قبول بنا لیتے۔ فیض صاحب کی شاعری اپنی جگہ وہ خوبصورت نثر بھی لکھتے تھے جسے اہل زبان سبط صاحب بار بار پڑھتے اور کبھی ہمیں بھی پڑھنے کے لیے دے دیتے کہ اردو نثر ایسی لکھی جاتی ہے۔ بہر کیف فیض صاحب کی نگرانی میں کچھ وقت کام کرنے کا اعزاز ایسا تھا جس کا تذکرہ ختم ہی نہیں ہو سکتا اور لیل و نہار کے اسٹاف میں،میں بھی ایک پنجابی تھا اس لیے سبط صاحب میری تحریر شک کی نظروں سے دیکھتے تھے مگر بعض اوقات متاثر بھی ہو جاتے تھے اور ان کا یہ تاثر جب اکثر و بیشتر سید حسن عابدی مرحوم کے ذریعہ پہنچتا تھا تو دوگونہ مزا دیتا تھا۔ عابدی صاحب بذات خود ایک اچھے نثر نگار اور شاعر تھے۔ ان کا ایک شعر:


کچھ عجب بوئے نفس آتی ہے دیواروں سے
ہائے زندان میں بھی کیا لوگ تھے ہم سے پہلے

یہ شعر انھوں نے جیل میں لکھا تھا۔ فیض صاحب، سبط صاحب اور حسن عابدی جیسے لوگوں کے ساتھ لیل و نہار میں ایک وقت گزر گیا اور اپنی ناقابل فراموش یادیںچھوڑ گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کو حالات نے جمع کر دیا تھا اور قسمت کا تماشا ملاحظہ ہو کہ میرے جیسا ایک دیہاتی پنجابی قدرت نے ان سے فیض یاب ہونے کو بھیج دیا۔ کہاں فیض، سبط حسن اور کہاں حسن عابدی اور پھر کہاں میں کیا کوئی نسبت ہے۔ قدرت کے تماشے ہیں جو وہ کبھی کبھار موڈ میں آ کر دکھا دیتی ہے۔ یہ بھی ایک تماشا ہی تھا۔ بہر کیف میں ان اونچے لوگوں کے ساتھ ایک عرصہ تک کام کرنے کی کوشش کرتا رہا اور ان لوگوں کی مہربانی تھی کہ انھوں نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی اور میری تحریروں پر محنت کر کے انھیں قابل اشاعت بنایا۔ میں یہاں نہیں لکھوں گا کہ سبط صاحب کبھی کبھی دفتر کا کام گھر بھی لے جاتے تھے اور ہماری تحریروں پر مغز ماری کرکے انھیں قابل اشاعت بنا لیتے۔

لیل و نہار ایک ہفت روزہ تھا جو پاکستان ٹائمز امروز شایع کرنے والے وقیع ادارے کی طرف سے شایع ہوتا تھا۔ میں مرحوم ایڈیٹر امروز محترم احمد ندیم قاسمی کی وجہ سے اس ادارے میں شامل ہو سکا' ان کی تگڑی سفارش کوئی رد نہ کر سکا اور میں اس سفارش کی لاج رکھنے میں دن رات ایک کیے رہا بہر کیف جتنا وقت بھی گزرا قاسمی صاحب نے گلہ نہیں کیا اور وہ میری رہنمائی بھی مسلسل کرتے رہے جب کہ ہم دونوں دیہاتی پنجابی تھے لیکن قاسمی صاحب کو اللہ نے خاص صلاحیتیں عطا کی تھیں وہ شاعر تھے نثر نگار تھے مزاح نگار تھے اور افسانہ نگار اور ان کی یہ شفقت تھی کہ وہ مجھ پر ہمیشہ مہربانی کرتے رہے اور میری رہنمائی میں کبھی کنجوسی نہیں کی بلکہ جہاں تک ممکن رہا وہ میری راہیں آسان کرتے رہے اور اپنے ساتھی ایڈیٹروں سے کہتے رہے کہ مہربانی کرکے اس لڑکے کو کامیاب کریں۔ میری یہی خواہش ہے۔ قاسمی صاحب جیسے محترم کی ہر کوئی عزت کرتا تھا اوران کی سفارش تسلیم کی جاتی تھی۔

بہت ہی اونچے اور بلند مرتبت لوگوں کے ساتھ کام کرنے کی یہ چند یادیں تھیں جو سرسری طور پر نقل کر دی ہیں۔ بہر کیف زندگی باقی تو ان پر شاید کچھ اضافہ ہو سکے۔
Load Next Story