عبدالستار ایدھی ہمیں سوگوار چھوڑ گئے
عبدالستار ایدھی 1947ء میں 19 سال کی عمر میں گجرات سے کراچی آ گئے
عبدالستار ایدھی 1947ء میں 19 سال کی عمر میں گجرات سے کراچی آ گئے جہاں وہ بانٹوا میمن خدمت کمیٹی کے کارکن بنے۔ انھوں نے اس کمیٹی پر سرمایہ داروں کی اجارہ داری کے خلاف اور اس کے اغراض و مقاصد پر سخت تنقید کرنی شروع کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے فلاحی کام صرف برادری کے لیے نہیں ہونے چاہئیں۔ بیواؤں کو وظیفہ دے کر فقیر نہ بناؤ بلکہ ان کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے لیے مدد کرو۔ بانٹوا برادری کے بڑے سرمایہ داروں کو نوجوان بے باک عبدالستار ایدھی کی یہ بات پسند نہ آئی اور انھوں نے ایدھی کو تنظیم سے نکال دیا۔ 1962ء میں انھوں نے ایوب خان کو کہا تھا کہ 'تم جھوٹے ہو'۔ ایوبی آمریت میں انھوں نے بی ڈی انتخابات میں حصہ لیا۔ 1970ء میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا اور ناکام ہوئے۔ پھر انھوں نے سرمایہ دارانہ سیاست سے ہمیشہ کیلیے منہ موڑ لیا۔
میری ایدھی سے ملاقات 1974ء میں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ''میں نے گجراتی زبان میں کارل مارکس کی ایک کتاب پڑھی تھی، جس میں مارکس نے کہا کہ 'انسان کی پیدائش کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں کہ وہ اوروں کی خدمت کرے'۔ پھر میں اسی کام میں لگ گیا''۔ وہ حکومت اور مذہبی جماعتوں سے امداد نہیں لیتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان کی امداد کسی نہ کسی مفاد سے مشروط ہوتی ہے۔
انھوں نے شہرت اور عزت کے باوجود اپنی سادہ زندگی ترک نہیں کی۔ ان کے زیر ملکیت کپڑوں کے جوڑوں کی تعداد دو تین سے زیادہ کبھی نہیں رہی، زیر استعمال جوتے کا جوڑا بیس برس قبل خریدا تھا۔ انھیں حکومت پاکستان کے علاوہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، یو ایس ایڈ اور راک فیلر فاؤنڈیشن کی طرف سے اربوں روپے بطور امداد دینے کی پیشکش کی گئی جسے انھوں نے شکریہ کہہ کر واپس کردیا کہ میں پاکستانی عوام میں شعور پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے ساری زندگی کبھی کوئی پروٹوکول، سیکیورٹی، گارڈ آف آنر، خصوصی انتظام یا پرائیوٹ سیکریٹری نہیں رکھا۔
مخصوص لوگوں یا گروہ کی جانب سے جان کے خطرے کی وجہ سے ایک بار ملک چھوڑ کر باہر جارہے تھے لیکن عوام کے شدید اصرار پر نہ گئے۔ انھوں نے تو انتقال سے پہلے ہی اپنی قبر لاوارثوں کے قبرستان میں کھدوا رکھی تھی۔ انتقال سے قبل وہ وصیت کرگئے تھے کہ انھیں پہنے ہوئے پرانے کپڑوں میں ہی دفنایا جائے، کوئی پروٹوکول کی ضرورت نہیں۔ یہاں تک کہ اپنے جسم کے اعضا جو کسی کے بھی کام آئے، اسے دینے کے لیے کہہ گئے تھے اور ان کی دونوں آنکھیں کام آگئیں، باقی اعضا کام کے نہیں تھے۔خستہ تن تھے مگر انسانیت کے عظیم خادم تھے۔
ہماری حکومتیں ملک کی معروف شخصیات کی زندگی میں کام نہیں آتیں، مرنے کے بعد یاد کرتی ہیں یا اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ انقلابی شاعر حبیب جالب، فیض احمد فیض کو تو زندگی میں عزت و وقار دینا کجا، انھیں قیدخانوں میں قید کردیا جاتا ہے اور مرنے کے بعد یاد کیا جاتا ہے۔ پی ٹی وی کے بانی اسلم اظہر، معروف سائنسداں سلیم الزماں صدیقی، عبدالسلام کو بھی زندگی میں عزت دینے کے بجائے انھیں مختلف طریقوں سے پریشان ہی کیا گیا۔ عبدالستار ایدھی کے ساتھ جب ہر قسم کے اوچھے برتاؤ کیے گئے تو اس وقت حکومت وقت کوئی کارروائی کرنے کے بجائے خاموش رہی اور اب مرنے کے بعد سرکاری پروٹوکول دیا گیا۔
جو شخص ساری زندگی پروٹوکول سے گریزاں رہا اور عوام میں ہر وقت بسا رہا، اب اسے مرنے کے بعد سرکاری اعزازات؟ یہ اعزازات تھے یا فوٹو سیشن۔ اسپتال میں تو کوئی سرکاری عہدیدار یا سیاسی جماعتوں کے رہنما نظر نہیں آئے۔ اب مرنے کے بعد جنازے کی نماز میں صف اول میں نظر آئے۔ صف اول میں وزرائے اعلیٰ، گورنرز، جنرلز اور دیگر سرکاری عہدیدار نظر آئے اور ان کی حفاظت کے لیے ہزاروں افراد کی سیکیورٹی۔ اور عوام کی سیکیورٹی کہاں گئی؟ نیشنل اسٹیڈیم سے لے کر ایدھی ہوم تک عام لوگوں کی رسائی نہیں تھی، بلکہ سیکیورٹی کے جیالوں نے عوام کو آگے جانے سے روک دیا، جنھیں عبدالستار ایدھی کے پاس جانے سے زندگی بھر کوئی نہیں روک پایا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں؟
کم از کم جنازے میں تو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حکومتی اہلکاروں کی حفاظت کے لیے صف اول میں انھیں رکھنا ہے تو کیا صف آخر میں رکھ کر بھی تو حفاظت کی جاسکتی ہے۔ اب رہی حفاظت کی بات تو کیا خاص لوگوں کی حفاظت ضروری ہے یا سب کی۔ اگر سب کی حفاظت ضروری ہے تو سرکاری اہلکار اور جنرلز بھی جنازے کے بیچ یا کہیں اور یعنی جس کو جہاں جگہ ملے وہیں کھڑے ہوکر نماز ادا نہیں کرنی چاہیے تھی۔
یہی سرمایہ داری ہے، جہاں کچھ لوگ بیشتر لوگوں پر حکمرانی کررہے ہوتے ہیں۔ تب ہی طبقاتی تفریق باقی رہتی ہے، ورنہ عام لوگوں اور خاص لوگوں میں کیا فرق رہ جائے گا؟ ستار ایدھی ساری زندگی سرمایہ داری اور طبقاتی نظام کے خلاف لڑتے رہے اور ان کے نمایندوں سے مدد لینے کے بجائے عوام سے مدد لیتے رہے۔ آدمی تھے بڑے بے باک، ایک بار عمرہ کرنے گئے، واپس آنے پر جب ان سے صحافیوں نے سوال کیا کہ آپ نے شیطان پر کنکری کیوں نہیں ماری؟ تو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ کام پاکستان جاکر کروں گا۔ عراق میں ہونے والے ایک سانحہ کے سلسلے میں مدد کے لیے ہیلی کاپٹر لے کر ایدھی عراق گئے تھے۔
اسی دوران کراچی میں قائم امن کمیٹی جس میں معراج محمد خان، نزہت اقبال، صفیہ ہوت بائی وغیرہ پی ایم اے ہاؤس میں ایک اجلاس ہورہا تھا جس میں راقم خود بھی موجود تھا اور اس اجلاس میں ستار ایدھی کو دعوت دی گئی تھی۔ ہم ایدھی صاحب سے سوال جواب کر رہے تھے، انھوں نے ایک جواب میں برملا کہا تھا کہ عراق میں داخل ہونے کے لیے تین دن انتظار کرنا پڑا اور سرحد پر عراقی تھے اور نہ ایرانی، پھر جب سوال کیا گیا کہ کون تھے تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ بھی ہم سے کہلواؤ گے۔
اب اس تنظیم کو چلانے کے لیے فیصل ایدھی میں صلاحیت موجود ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک بار سمندر میں طوفان آنے کے باوجود سات دن موجود رہے اور اپنا مشن پورا کر کے واپس آئے، ایک بار سندھ میں سیلاب آنے پر جان جوکھم میں ڈال کر سیلاب زدگان کی مدد کرتے رہے، ایک نومولود کی بھی جان بچائی۔ بہرحال یہ سارے کام اچھے ہیں، وقت فیصل ایدھی کا منتظر ہے۔ صورتحال چیلنجنگ ہے۔ مگر مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی معاشرے یا کمیونسٹ نظام میں ہی مضمر ہے۔
میری ایدھی سے ملاقات 1974ء میں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ''میں نے گجراتی زبان میں کارل مارکس کی ایک کتاب پڑھی تھی، جس میں مارکس نے کہا کہ 'انسان کی پیدائش کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں کہ وہ اوروں کی خدمت کرے'۔ پھر میں اسی کام میں لگ گیا''۔ وہ حکومت اور مذہبی جماعتوں سے امداد نہیں لیتے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان کی امداد کسی نہ کسی مفاد سے مشروط ہوتی ہے۔
انھوں نے شہرت اور عزت کے باوجود اپنی سادہ زندگی ترک نہیں کی۔ ان کے زیر ملکیت کپڑوں کے جوڑوں کی تعداد دو تین سے زیادہ کبھی نہیں رہی، زیر استعمال جوتے کا جوڑا بیس برس قبل خریدا تھا۔ انھیں حکومت پاکستان کے علاوہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، یو ایس ایڈ اور راک فیلر فاؤنڈیشن کی طرف سے اربوں روپے بطور امداد دینے کی پیشکش کی گئی جسے انھوں نے شکریہ کہہ کر واپس کردیا کہ میں پاکستانی عوام میں شعور پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے ساری زندگی کبھی کوئی پروٹوکول، سیکیورٹی، گارڈ آف آنر، خصوصی انتظام یا پرائیوٹ سیکریٹری نہیں رکھا۔
مخصوص لوگوں یا گروہ کی جانب سے جان کے خطرے کی وجہ سے ایک بار ملک چھوڑ کر باہر جارہے تھے لیکن عوام کے شدید اصرار پر نہ گئے۔ انھوں نے تو انتقال سے پہلے ہی اپنی قبر لاوارثوں کے قبرستان میں کھدوا رکھی تھی۔ انتقال سے قبل وہ وصیت کرگئے تھے کہ انھیں پہنے ہوئے پرانے کپڑوں میں ہی دفنایا جائے، کوئی پروٹوکول کی ضرورت نہیں۔ یہاں تک کہ اپنے جسم کے اعضا جو کسی کے بھی کام آئے، اسے دینے کے لیے کہہ گئے تھے اور ان کی دونوں آنکھیں کام آگئیں، باقی اعضا کام کے نہیں تھے۔خستہ تن تھے مگر انسانیت کے عظیم خادم تھے۔
ہماری حکومتیں ملک کی معروف شخصیات کی زندگی میں کام نہیں آتیں، مرنے کے بعد یاد کرتی ہیں یا اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ انقلابی شاعر حبیب جالب، فیض احمد فیض کو تو زندگی میں عزت و وقار دینا کجا، انھیں قیدخانوں میں قید کردیا جاتا ہے اور مرنے کے بعد یاد کیا جاتا ہے۔ پی ٹی وی کے بانی اسلم اظہر، معروف سائنسداں سلیم الزماں صدیقی، عبدالسلام کو بھی زندگی میں عزت دینے کے بجائے انھیں مختلف طریقوں سے پریشان ہی کیا گیا۔ عبدالستار ایدھی کے ساتھ جب ہر قسم کے اوچھے برتاؤ کیے گئے تو اس وقت حکومت وقت کوئی کارروائی کرنے کے بجائے خاموش رہی اور اب مرنے کے بعد سرکاری پروٹوکول دیا گیا۔
جو شخص ساری زندگی پروٹوکول سے گریزاں رہا اور عوام میں ہر وقت بسا رہا، اب اسے مرنے کے بعد سرکاری اعزازات؟ یہ اعزازات تھے یا فوٹو سیشن۔ اسپتال میں تو کوئی سرکاری عہدیدار یا سیاسی جماعتوں کے رہنما نظر نہیں آئے۔ اب مرنے کے بعد جنازے کی نماز میں صف اول میں نظر آئے۔ صف اول میں وزرائے اعلیٰ، گورنرز، جنرلز اور دیگر سرکاری عہدیدار نظر آئے اور ان کی حفاظت کے لیے ہزاروں افراد کی سیکیورٹی۔ اور عوام کی سیکیورٹی کہاں گئی؟ نیشنل اسٹیڈیم سے لے کر ایدھی ہوم تک عام لوگوں کی رسائی نہیں تھی، بلکہ سیکیورٹی کے جیالوں نے عوام کو آگے جانے سے روک دیا، جنھیں عبدالستار ایدھی کے پاس جانے سے زندگی بھر کوئی نہیں روک پایا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں؟
کم از کم جنازے میں تو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حکومتی اہلکاروں کی حفاظت کے لیے صف اول میں انھیں رکھنا ہے تو کیا صف آخر میں رکھ کر بھی تو حفاظت کی جاسکتی ہے۔ اب رہی حفاظت کی بات تو کیا خاص لوگوں کی حفاظت ضروری ہے یا سب کی۔ اگر سب کی حفاظت ضروری ہے تو سرکاری اہلکار اور جنرلز بھی جنازے کے بیچ یا کہیں اور یعنی جس کو جہاں جگہ ملے وہیں کھڑے ہوکر نماز ادا نہیں کرنی چاہیے تھی۔
یہی سرمایہ داری ہے، جہاں کچھ لوگ بیشتر لوگوں پر حکمرانی کررہے ہوتے ہیں۔ تب ہی طبقاتی تفریق باقی رہتی ہے، ورنہ عام لوگوں اور خاص لوگوں میں کیا فرق رہ جائے گا؟ ستار ایدھی ساری زندگی سرمایہ داری اور طبقاتی نظام کے خلاف لڑتے رہے اور ان کے نمایندوں سے مدد لینے کے بجائے عوام سے مدد لیتے رہے۔ آدمی تھے بڑے بے باک، ایک بار عمرہ کرنے گئے، واپس آنے پر جب ان سے صحافیوں نے سوال کیا کہ آپ نے شیطان پر کنکری کیوں نہیں ماری؟ تو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ کام پاکستان جاکر کروں گا۔ عراق میں ہونے والے ایک سانحہ کے سلسلے میں مدد کے لیے ہیلی کاپٹر لے کر ایدھی عراق گئے تھے۔
اسی دوران کراچی میں قائم امن کمیٹی جس میں معراج محمد خان، نزہت اقبال، صفیہ ہوت بائی وغیرہ پی ایم اے ہاؤس میں ایک اجلاس ہورہا تھا جس میں راقم خود بھی موجود تھا اور اس اجلاس میں ستار ایدھی کو دعوت دی گئی تھی۔ ہم ایدھی صاحب سے سوال جواب کر رہے تھے، انھوں نے ایک جواب میں برملا کہا تھا کہ عراق میں داخل ہونے کے لیے تین دن انتظار کرنا پڑا اور سرحد پر عراقی تھے اور نہ ایرانی، پھر جب سوال کیا گیا کہ کون تھے تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ بھی ہم سے کہلواؤ گے۔
اب اس تنظیم کو چلانے کے لیے فیصل ایدھی میں صلاحیت موجود ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک بار سمندر میں طوفان آنے کے باوجود سات دن موجود رہے اور اپنا مشن پورا کر کے واپس آئے، ایک بار سندھ میں سیلاب آنے پر جان جوکھم میں ڈال کر سیلاب زدگان کی مدد کرتے رہے، ایک نومولود کی بھی جان بچائی۔ بہرحال یہ سارے کام اچھے ہیں، وقت فیصل ایدھی کا منتظر ہے۔ صورتحال چیلنجنگ ہے۔ مگر مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی معاشرے یا کمیونسٹ نظام میں ہی مضمر ہے۔