اگر جوہری جنگ چھڑگئی تو

ہٹ دھرمی کی انتہا تو یہ تھی کہ خود امریکا و یورپ کے باضمیر لوگ اس جارحیت کی مخالفت کر رہے تھے



یادش بخیر1981ء کا ذکر ہے کہ مغربی برلن کی سوشلسٹ یونٹی پارٹی کے اخبار ڈی دہارہائٹ کے جشن میں بہت ساری غیرکمیونسٹ سیاسی جماعتوں نے بھی شرکت کی جب کہ غالب اکثریت کمیونسٹوں کی تھی۔ ان کمیونسٹ و غیرکمیونسٹ فکر رکھنے والوں کو جس چیز نے یکجا کیا تھا وہ چیز تھی جنگ مخالف نظریات۔ چنانچہ اس میلے میں کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی خواتین کی تنظیم کے ایک کیبن پر یہ الفاظ درج تھے کہ بلاشبہ تم ہم سے اور ہم تم سے شدید نظریاتی اختلافات رکھتے ہیں لیکن اگر جوہری جنگ چھڑ گئی تو اختلاف کرنے کے لیے ہم تم میں سے کون بچ رہے گا؟

بلاشبہ ایسی مہلک ترین جنگی کیفیت میں کرہ ارض کے تمام گنجان آباد علاقوں کے تمام متحارب فریق غائب ہو جائیں گے اور کرہ ارض پر زندگی کے تحفظ کے امکانات معدوم ہو جائیں گے یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ جنگ مسائل کا حل نہیں۔ البتہ جنگ انگنت مسائل کو جنم ضرور دیتی ہے اگرچہ گزشتہ صدی میں دنیا نے دو ہولناک عالمگیر جنگوں کا سامنا کیا تھا اس کے باوجود امریکا و اس کے اتحادیوں کا جنگی جنون ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ مقام حیرت ہے کہ امریکا جہاں بھی جارحیت کرتا ہے اس جارحیت کو جنگ کا نام دے دیا جاتا ہے جیسے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے 1991ء میں عراق پر تاریخ کی بدترین جارحیت کی مگر اسے بھی جنگ کا نام دیا گیا، ایسے ہی 2001ء میں امریکا جب دنیا کے غریب ترین ملک افغانستان پر اپنے اتحادیوں سمیت حملہ آور ہوا تو یہ جارحیت بھی افغان جنگ کے نام سے یاد کی جاتی ہے بہرکیف آج ہم تذکرہ کریں گے۔

امریکا کی اس جارحیت کا جو اس نے 20 مارچ 2003ء کو اپنے اتحادیوں سمیت عراق پرکی تھی اس جنگ میں جنگی ماہرین نے قوت کا جو توازن پیش کیا تھا وہ یہ تھا عراقی عسکری قوت تھی ایک 80 سالہ بڑھیا کے مساوی جب کہ امریکا و اس کے اتحادیوں کی قوت کا معیار تھا۔ دنیا کے 12 طاقتور ترین پہلوان کے مساوی قابل افسوس امر یہ ہے کہ اس ننگی جارحیت کو بھی جنگ کا نام دیا گیا اس کارخیر میں دنیا کے نامور ترین نشریاتی ادارے حصہ لے رہے تھے۔ امریکا اس جارحیت کی منصوبہ بندی ایک طویل عرصے سے کر رہا تھا، چنانچہ اس سلسلے میں جب 14 جولائی 2002ء کو امریکی صدر بش جونیئر نے اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر سے مدد کی درخواست کی تو برطانوی وزیر اعظم نے غیر مشروط طور پر تمام قسم کی امداد کا یقین دلایا۔

اسی قسم کے مشورے بش جونیئر نے اپنے تمام اتحادیوں سے کیے اور مکمل منصوبہ بندی کے بعد امریکا نے دنیا کے تباہ حال ملک عراق پر جارحیت کا آغاز کر دیا اور کھلی جارحیت کا یہ جواز پیش کیا کہ عراق کے پاس مہلک ہتھیار ہیں جوکہ دنیا کے لیے خطرہ ہیں۔ اس جارحیت میں برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے پورا پورا حصہ لیا۔ اس جارحیت کے نتیجے میں پورا عراق کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا۔ بدبخت جارحیت پسندوں نے اس امر کا بھی خیال نہ کیا کہ ان کا ہدف مسلمانوں کے مقدس مقامات بھی بن رہے ہیں۔

ہٹ دھرمی کی انتہا تو یہ تھی کہ خود امریکا و یورپ کے باضمیر لوگ اس جارحیت کی مخالفت کر رہے تھے ان لوگوں کے احتجاج کو نظرانداز کیا گیا اور جارحیت جاری رکھی گئی نتیجہ یہ کہ ایک لاکھ پچاس ہزار عراقی شہید ہو گئے، لاکھوں زخمی ہوئے، عراق کی نصف آبادی اپنے گھروں سے محروم ہو چکی تھی کیونکہ ان عراقیوں کے گھر اتحادیوں کی فضائی کارروائیوں میں زمین بوس ہوگئے تھے عراقی صدر صدام حسین کو مجرم قرار دے کر عید کے دن یکم جنوری 2007ء کو پھانسی دے دی گئی جب کہ عراقی کے دونوں بیٹے بھی اس جارحیت کی نظر ہو گئے مگر عراق میں مہلک ہتھیار برآمد نہ ہو سکے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب صدر بش جونیئر نے بھی یہ اعتراف کر لیا کہ عراق میں مہلک ہتھیار موجود نہیں تھے گو کہ امریکی سامراج کی عراق جارحیت آج بھی جاری ہے البتہ اس جارحیت کے خدوخال تبدیل ہو چکے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ اس امریکی جارحیت میں فرانس و ترکی نے حصہ نہیں لیا تھا اس کے باوجود کہ یہ دونوں ممالک بھی نیٹو کا حصہ ہیں۔

عراق میں امریکا کی جارحیت ابھی جاری تھی کہ وہ مزید شکار کی تلاش میں مصروف عمل ہو گیا اوراس نے نیا شکار لیبیا کو تلاش کر لیا اور انجام کار لیبیا کے صدر معمر قذافی اپنے بیٹوں سمیت شہید کردیے گئے۔ بہرکیف عراقی صدر صدام حسین کی موت و عراق میں مہلک ہتھیار نہ ملنے کے باعث برطانیہ میں ایک نئی بحث نے جنم لیا وہ بحث یہ تھی کہ کیا برطانیہ کو اس بے مقصد امریکی جارحیت کا ساتھ دینا چاہیے تھا؟ جب اس بحث نے طول پکڑا تو برطانیہ نے ایک انکوائری کمیشن قائم کر دیا۔ یہ ذکر ہے 2009ء کا اس انکوائری کمیشن نے سات برس میں ایک رپورٹ تیارکی اور یہ رپورٹ6 جولائی 2016ء کو منظر عام پر آئی۔

سر جان چلکوٹ اس انکوائری کمیشن کے سربراہ تھے، چنانچہ انکوائری کمیشن نے 26 لاکھ الفاظ پر مشتمل اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس وقت کے برطانوی وزیراعظم کا امریکی جارحیت میں جو اس نے عراق پر کی تھی، امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ غلط تھا۔ دوم، اس جارحیت کے آغاز پر جنگی تیاری نامکمل تھی رپورٹ میں لفظ جنگ ہی استعمال کیا گیا ہے۔ سوم یہ کہ اس جنگ سے بچا جا سکتا تھا کیونکہ دیگر آپشن بھی موجود تھے جنگ ہی آخری حربہ نہ تھا۔ الغرض کہ انکوائری کمیشن نے اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو اس جارحیت کا مکمل حصہ دار قرار دیا ہے جب کہ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ٹونی بلیئر نے یہ اعتراف کر لیا ہے اس جارحیت میں ان کا امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ غلط تھا۔

مگر صدر صدام حسین کو اقتدار سے محروم کرنا ضروری تھا۔ چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس وقت برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر ایک لاکھ پچاس ہزار عراقیوں کے قتل میں شریک جرم نہیں تھے کیا؟ اور اگر شریک جرم تھے اور لازمی بات ہے کہ شریک جرم تھے تو کیا ان کے خلاف عالمی عدالت میں بے گناہ عراقیوں کے قتل کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے؟ اس بارے میں قانونی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ ٹونی بلیئر پر عالمی عدالت ہیگ میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے جنگی جرائم کے الزامات کے تحت اور یہ مقدمہ بہت جلد بھی قائم ہو تو پھر بھی دو برس بعد قائم ہو سکتا ہے مگر ہماری نظر میں اول تو ٹونی بلیئر پر مقدمہ قائم ہونا ہی ناممکنات میں سے ہے پھر انھیں سزا دینا تو بہت بعد کی بات ہے آخر وہ برطانوی وزیر اعظم تھے نا کہ کسی تیسری دنیا کے غریب ملک کے وزیر اعظم تھے البتہ مستقبل میں اگر ہمیں اپنی نسلوں کو عالمگیر جنگ سے محفوظ رکھنا ہے تو پھر عصر حاضر میں دنیا کے ہر انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر اس سیاست دان کی حوصلہ شکنی کرے جو جنگ کا حامی ہے۔

ایسے سیاستدان و حکمران نہ صرف سامراجی قوتوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں بلکہ مہلک ترین جنگی ہتھیاروں کے تاجروں کے ایجنٹ کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں یوں بھی جنگی ہتھیاروں کے تاجر پوری طرح کوشاں ہیں کہ کوئی عالمگیر قسم کی جنگ چھڑ جائے تاکہ ان تاجروں کے جنگی ہتھیاروں کی فروخت کا سامان ہو سکے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ جنگ مخالف نظریات رکھنے والے ممالک ایک ایسی تنظیم کا قیام عمل میں لائیں جس تنظیم کا یہ نعرہ ہو کہ ہم تمام قسم کے جنگی ہتھیاروں کا مکمل بائیکاٹ کرتے ہیں اور عزم کرتے ہیں کہ ہم آنے والی نسلوں کو جنگی ہتھیاروں سے پاک دنیا دیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں