بارودی سرنگوں کا سراغ لگانے والے ’’سائی بورگ ٹڈّے‘‘
بڑی جسامت کے ٹڈوں کو بارودی مواد کا سراغ لگانے والی مشینوں میں تبدیل کیا جائے گا۔
بارودی سرنگوں اور بموں کا سراغ لگانے اور انھیں ناکارہ بنانے کے لیے جدید روبوٹ کئی برسوں سے استعمال کیے جارہے ہیں، تاہم جسامت بڑی ہونے کی وجہ سے یہ تنگ جگہوں پر کارآمد نہیں ہوتے۔ امریکی بحریہ اب کیڑوں کو بموں اور بارودی مواد کی کھوج لگانے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ زندہ کیڑوں کو انسانی اشاروں پر چلنے کے قابل بنانے کے لیے انھیں 'سائی بورگ' یعنی آدھی مشین اور آدھا جان دار بنایا جائے گا۔
امریکی بحریہ کے آفس آف نیول ریسرچ ( او این آر) نے اس منصوبے کے لیے واشنگٹن یونی ورسٹی کو ابتدائی طور پر ساڑھے سات لاکھ ڈالر کی رقم جاری کردی ہے۔ یونیورسٹی کے ماہرین بڑی جسامت کے ٹڈوں کو بارودی مواد کا سراغ لگانے والی مشینوں میں تبدیل کریں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائنس دانوں کی نظر کرم فصلوں کو نقصان پہنچانے والے ٹڈے ہی پر کیوں جا ٹھہری ہے؟َ اس کی وجہ اس کیڑے کی غیرمعمولی قوت شامّہ ہے جس کی مدد سے یہ اپنی غذا کا سراغ لگاتا ہے۔
'سائی بورگ ٹڈّے' کے منصوبے کے سربراہ بھارتی نژاد ایسوسی پروفیسر برانی رامن ہیں۔ وہ مذکورہ یونیورسٹی کے اسکول آف انجنیئرنگ اینڈ اپلائڈ سائنسز سے وابستہ ہیں۔ برانی کہتے ہیں کہ کیمیکلز کا سراغ لگانے والے چھوٹے چھوٹے آلات میں چند سینسرز نصب ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ٹڈے کے سر پر موجود شاخک ( اینٹینا) میں مختلف اقسام کے لاکھوں سینسرز ہوتے ہیں۔ چناں چہ یہ ان گنت قسم کے اشاروں کو محسوس کرسکتا ہے۔ رامن کا کہنا ہے سرجری کے ذریعے ٹڈے کے دماغ میں مخصوص برقیرے نصب کیے جائیں گے۔
بعدازاں ان برقیروں یا سینسرز کو ٹڈے کی پیٹھ پر لدی ہوئی بے حد کم وزن ڈیوائس سے منسلک کردیا جائے گا جو معلومات کو ڈی کوڈ کرنے کے بعد ریسیور کو ارسال کرے گی۔ رامن کا کہنا ہے کہ سرجری کے ذریعے ٹڈّے کے دماغ میں برقیرے نصب کرنا کوئی مشکل کام نہیں، تین سال پہلے وہ یہ آپریشن کام یابی سے انجام دے چکے ہیں۔ 2013ء میں انھوں نے بڑی جسامت کے ٹڈے کے سر پر سینسرز نصب کرکے اسے چند مخصوص بوئیں محسوس کرکے ردعمل ظاہر کرنے کے قابل بنایا تھا۔
ٹڈے کی اڑان کو کنٹرول کرنے کے لیے اس کے دماغ میں نصب کردہ برقیروں ہی سے مدد لی جائے گی۔ برقیروں کے ذریعے برقی لہریں اس کے دماغ میں منتقل کی جائیں گی جو دماغ کے اڑان کنٹرول کرنے والے حصے پر اثرانداز ہوں گی۔ یوں ٹڈّے کو حسب منشا سمت میں اڑنے یا چلنے پر مجبور کیا جاسکے گا۔ پروفیسر رامن کو امید ہے کہ ایک سال کے عرصے میں وہ بارودی مواد سونگھنے والا سائی بورگ ٹڈا بحریہ کے حوالے کردیں گے۔
امریکی بحریہ کے آفس آف نیول ریسرچ ( او این آر) نے اس منصوبے کے لیے واشنگٹن یونی ورسٹی کو ابتدائی طور پر ساڑھے سات لاکھ ڈالر کی رقم جاری کردی ہے۔ یونیورسٹی کے ماہرین بڑی جسامت کے ٹڈوں کو بارودی مواد کا سراغ لگانے والی مشینوں میں تبدیل کریں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائنس دانوں کی نظر کرم فصلوں کو نقصان پہنچانے والے ٹڈے ہی پر کیوں جا ٹھہری ہے؟َ اس کی وجہ اس کیڑے کی غیرمعمولی قوت شامّہ ہے جس کی مدد سے یہ اپنی غذا کا سراغ لگاتا ہے۔
'سائی بورگ ٹڈّے' کے منصوبے کے سربراہ بھارتی نژاد ایسوسی پروفیسر برانی رامن ہیں۔ وہ مذکورہ یونیورسٹی کے اسکول آف انجنیئرنگ اینڈ اپلائڈ سائنسز سے وابستہ ہیں۔ برانی کہتے ہیں کہ کیمیکلز کا سراغ لگانے والے چھوٹے چھوٹے آلات میں چند سینسرز نصب ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ٹڈے کے سر پر موجود شاخک ( اینٹینا) میں مختلف اقسام کے لاکھوں سینسرز ہوتے ہیں۔ چناں چہ یہ ان گنت قسم کے اشاروں کو محسوس کرسکتا ہے۔ رامن کا کہنا ہے سرجری کے ذریعے ٹڈے کے دماغ میں مخصوص برقیرے نصب کیے جائیں گے۔
بعدازاں ان برقیروں یا سینسرز کو ٹڈے کی پیٹھ پر لدی ہوئی بے حد کم وزن ڈیوائس سے منسلک کردیا جائے گا جو معلومات کو ڈی کوڈ کرنے کے بعد ریسیور کو ارسال کرے گی۔ رامن کا کہنا ہے کہ سرجری کے ذریعے ٹڈّے کے دماغ میں برقیرے نصب کرنا کوئی مشکل کام نہیں، تین سال پہلے وہ یہ آپریشن کام یابی سے انجام دے چکے ہیں۔ 2013ء میں انھوں نے بڑی جسامت کے ٹڈے کے سر پر سینسرز نصب کرکے اسے چند مخصوص بوئیں محسوس کرکے ردعمل ظاہر کرنے کے قابل بنایا تھا۔
ٹڈے کی اڑان کو کنٹرول کرنے کے لیے اس کے دماغ میں نصب کردہ برقیروں ہی سے مدد لی جائے گی۔ برقیروں کے ذریعے برقی لہریں اس کے دماغ میں منتقل کی جائیں گی جو دماغ کے اڑان کنٹرول کرنے والے حصے پر اثرانداز ہوں گی۔ یوں ٹڈّے کو حسب منشا سمت میں اڑنے یا چلنے پر مجبور کیا جاسکے گا۔ پروفیسر رامن کو امید ہے کہ ایک سال کے عرصے میں وہ بارودی مواد سونگھنے والا سائی بورگ ٹڈا بحریہ کے حوالے کردیں گے۔