طلاق کا سبب بننے والا ’ماوں کا خواب‘
جب ریحان نے طلاق کے یہ تین لفظ بولے تو شادی کے ان پانچ ماہ میں پہلی بار ایسا لگا کہ میں نے کھل کر سانس لی ہو۔
میری نظریں بیڈ کے سرہانے پر رکھے فوٹو فریم پر ٹکی تھیں جس میں میری اور سعدیہ کے ولیمے والے دن کی ایک فوٹو لگی ہوئی تھی اور اس وقت بیٹھا ہوا میں اس تصویر میں شرمیلے انداز میں مسکراتی ہوئی سعدیہ کے نقوش کو گھورہا تھا۔ مناسب قدوقامت، سانولا سلونا روپ، بولتی ہوئی خوبصورت آنکھیں۔ بھلا سعدیہ کی شخصیت میں ایسی کیا خرابی تھی جو میں نے شادی کے صرف تین ماہ بعد ہی اُسے طلاق دے دی؟
اب یقیناً آپ سوچ رہے ہونگے شاید سعدیہ کا کردار یا اُس سے طبعیت کا نہ ملنا وغیرہ وغیرہ۔ جی نہیں سعدیہ کو طلاق دینے میں ایسے کسی پہلو کا دخل نہیں رہا بلکہ ان تین ماہ میں اُس نے خود کو ایک مثالی بیوی بننے کا اہل ثابت کیا۔ یہ تو میری ہی غلطی تھی جو سعدیہ کی ان خوبیوں کو نہ پرکھ سکا۔ بس اس طلاق کا سہرا اُس ایک خواب کو جاتا ہے جس نے میرے سہرے کے پھول مرجھانے سے قبل ہی میری ازدواجی زندگی کو مرجھا کر رکھ دیا۔
جی ہاں میں اُسی خواب کی بات کررہا ہوں جو اکثر مائیں اپنے بچوں کی آنکھوں میں کم سنی سے ہی سجادیتی ہیں اور پھر آپ کے ساتھ ساتھ وہ خواب بھی جوان ہوتا جاتا ہے۔ بچپن میں بارہا بولا جانے والا امی کا وہ جملہ کہ میں تو اپنے بیٹے جمال کے لئے 'چاند سی' دلہن لاؤں گی اور جب تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ایک پرائیوٹ بینک میں ایک اچھی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو امی بہنوں پر جہاں میری شادی کی فکر سوار ہوئی وہیں میری آنکھیں بچپن سے دکھائے جانے والے اُس خواب کی تعبیر کی راہ دیکھنے لگیں جو کسی چاند سی چہرے والی کی صورت سے جُڑا ہوا تھا۔
لیکن شادی کی پہلی رات ہی سعدیہ میرے اُس خواب کے معیار پر پوار نہ اُتر سکی جو ایک چاند سے چہرے سے وابستہ تھا لہذا شادی کے دو ہفتے بعد ہی میری سعدیہ سے بے زاری اس قدر بڑھنے لگی کہ صرف تین ماہ کے مختصر عرصے میں ہی ابھی پانچ روز قبل میں نے اُسے طلاق دے دی۔ ابھی تک تو اُس کے گھر والوں کی طرف سے اُس کا سامان بھی واپس نہیں اُٹھایا گیا تھا اور اب کمرے کی اس تنہائی میں بیٹھا جب میں گزرے دنوں کے متعلق سوچ رہا تھا کہ سعدیہ کے روئیے اور حرکتوں سے متعلق کوئی ایک چیز ہی ایسی مجھے یاد آجائے کہ اُسے طلاق دینے کا اپنا یہ فیصلہ مجھے درست لگے لیکن لاکھ چاہنے کے باوجود بھی ایسی کوئی چیز یاد نہیں کرسکا اور جتنا یاد کرنے کی کوشش کرتا تو رہ رہ کر صرف اور صرف سعدیہ کی وہ اچھائیاں ہی یاد آرہی تھیں جو شاید اُس نے میری خود سے بے زاری محسوس کرکے میرے دل میں اپنی محبت جگانے کے لئے روا رکھی تھیں۔
میرا نام عائشہ ہے۔ ریحان سے طلاق ہوئے ابھی صرف پانچواں ہی دن ہوا تھا اور گزرنے والے یہ پانچ دن ہی مجھے اچھی طرح سمجھا چکے تھے کہ میں اپنی زندگی کی کتنی بڑی غلطی کر آئی ہوں اور اب رہ رہ کر مجھے اپنی ماں پر غصہ آرہا تھا جس نے چھوٹی عمر سے ہی میری آنکھوں میں وہ خواب سجا دیا تھا کہ جب بھی امی مجھے تیار کرے میری بلائیں لیتیں تو ایک یہ جملہ ضرور بولتی تھیں
بس جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی میری آنکھیں اُس شہزادے کی راہ دیکھنے لگیں اور اس خواب کا میری زندگی پر اتنا گہرا اثر تھا کہ کم شکل و صورت والے یا چھوٹی موٹی نوکری پیشہ والے لڑکوں کی جانب میں نگاہ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتی تھی اور دیکھتی بھی کیوں آخر کو میرا شمار خاندان کی خوبصورت لڑکیوں میں ہوتا تھا۔
لیکن یہ خواب اُس روز ٹوٹ گیا جب ایک بڑی فارما کمپنی میں اچھے عہدے پر کام کرنے والے اپنے دوست کے بیٹے ریحان سے ابو جان نے میرا رشتہ طے کردیا۔ ریحان کی اچھی بھلی صورت تھی مگر اُس کا چہرہ میرے خوابوں کے اُس شہزادے سے میل نہیں کھاتا تھا جو میں جوان ہونے کے بعد سے اب تک اپنے خوابوں میں دیکھ رہی تھی۔ اس شادی سے انکار کرنے کے لئے میں نے لاکھ واویلا کیا، روئی شور مچایا لیکن امی ابو نے میری ایک نہیں سُنی۔ اُن کے خیال میں یہ میری وقتی ضد تھی اور شادی کے بعد سب درست ہوجائے گا کہ مصداق انہوں نے میری ریحان سے شادی کرا کر ہی دم لیا۔ اِدھر میں اپنے دل میں ٹھان چُکی تھی اگرچہ گھر والوں نے میری شادی تو کردی لیکن اِس کو قائم رکھنا یا نا رکھنا تو میرے اوپر ہی ہے نا لہذا شادی کے پندرہ دن بعد ہی میں نے اپنی حرکتوں سے ساس نندوں کا وہ جینا حرام کیا کہ خدا کی پناہ۔ دوپہر ایک دو بجے تک سو کر اُٹھنا، پھر گھر کے کسی کام کو ہاتھ تک نہیں لگانا اور جب کھانا لگا دیا جاتا تو شہزادیوں کی طرح دسترخوان پر جاکر بیٹھ جاتی۔ ریحان کی ماں بہنیں آخر میرا یہ رویہ کب تک برداشت کرتیں انہوں نے ریحان سے کہا تو میں نے شور مچا کر ہنگامہ کھڑا کردیا کہ میرے خلاف ماں بیٹیاں میرے شوہر کو بھر رہی ہیں اور آئے روز کی یہ 'تو تو میں میں' بلاخر میری شادی کے پانچ ماہ بعد ہی طلاق کی صورت ختم ہوئی۔ جب ریحان نے طلاق کے یہ تین لفظ بولے تو شادی کے ان پانچ ماہ میں پہلی بار ایسا لگا کہ میں نے کھل کر سانس لی ہو۔
لیکن ماں باپ کے گھر واپس طلاق کا داغ سجا کر آنے کی صورت میں (بھلے اس طلاق میں میری اپنی خواہش کا کتنا ہی دخل کیوں نہ تھا) محلے والے اور رشتے دار ایسی روتی صورتوں سے آکر اماں سے اظہار افسوس کررہے تھے جیسے اس گھر میں کسی کی میت ہوگئی ہو اور دو دن بعد تو واقعی جب میں نے بھی ہرچیز کو سوچا سمجھا تو مجھے بھی یہی لگا کہ واقعی اس گھر میں میت ہی تو ہوئی ہے۔ موت میری زندگی کی، موت میرے مستقبل کی اور اب میرا سارا غصہ ریحان یا اُس کی ماں بہنوں کے لئے نہیں خود اپنی ماں کے لئے تھا۔ نہ وہ یوں میرے کچے ذہن میں کسی شہزادے کے آنے کا تصور بٹھاتی اور نہ میں اپنے ہاتھوں اپنی زندگی برباد کرتی!
( جاری ہے )
اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ لو کہانی آگے بھی نہیں بڑھی اور جاری بھی لکھا ہے۔ تو جناب یہ کہانی اب بھی جاری ہے۔ دراصل یہ تحریر اِس کہانی سے متعلق نہیں بلکہ اُس خواب سے متعلق ہے جو نجانے کتنے جمال کی مائیں اپنے بیٹوں کی آنکھوں میں سجادیتی ہیں اور نجانے کتنی عائشہ کی مائیں اپنی بیٹیوں کو کسی شہزادے کی راہ دیکھنے پر لگا دیتی ہیں اور جب یہ خواب پورے نہیں ہوتے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے جو جمال نے کیا یا جو عائشہ کر بیٹھی۔ جن کے نتیجے میں انسان کو پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عام طور پر ہماری زندگی میں ایسے کہے جانے والے کچھ جملے اُن بچوں کے ذہنوں پر کتنے گہرے نقوش چھوڑتے ہیں جو خواب کا مطلب تو سمجھتے ہیں لیکن تعبیر کے مفہوم سے ناآشنا ہوتے ہیں کہ دیکھنے یا دکھایا جانے والا ہر خواب سچ ہونے لگے تو پھر کیا چیز ہے جو خواب رہے گی؟
ہوسکتا ہے جب ایک ماں اپنے بیٹے کو کسی چاند سے چہرے والی دلہن کا خواب دکھاتی ہو تو اس چاند سے چہرے سے مراد وہ گن والی دلہن ہو جو آتے ہی گھر کو جنت بنادے یا جب کوئی ماں اپنی بیٹی کو کسی شہزادے کے ساتھ بیاہ کر لے جانے کی نوید دیتی ہے تو اس سے مراد یقیناً یہ ہوتی ہوگی کہ ایک ایسا شخص اُس کی بیٹی کو بیاہ کر لے جائے جو اُس کی شہزادی کا دامن خوشیوں سے بھر کر اپنے گھر کی شہزادی بنا کر رکھے۔
بس اب اُن ماؤں سے بھی درخواست و التجا ہے کہ اپنے بچوں کی آنکھوں میں خواب ضرور سجائیں مگر ساتھ ساتھ اُن کو یہ بھی بتائیں کہ 'چاند سی' سے مراد کوئی چہرہ نہیں بلکہ 'چاند سی' سے مراد تو وہ لڑکی ہوتی ہے جو گھر کو آکر جنت بنادیتی ہے اور حقیقی شہزادہ بھی وہ ہوتا ہے جو بھلے تخت و تاج نہ رکھتا ہو لیکن اپنے ایک کمرے کے گھر میں اُن کی بیٹی کو شہزادی بنا کر رکھے۔
ہمارے یہاں بڑھتی ہوئی طلاق کا رحجان اس لئے نہیں بڑھ رہا کہ آپس میں طبعیتیں میل نہیں کھاتیں، بلکہ طلاقوں کا رجحان کی وجہ تو آپس میں بڑھتے ہوئے اختلافات ہیں۔ شادی کو اسی لئے تو بندھن کہا جاتا ہے کہ دو مختلف طبعیت دو مختلف مزاج والے لوگوں کو یہ بندھن آپس میں باندھ کر رکھے اور یہ وہ بندھن ہے جس میں بندھنے کے بعد انسان خود کو سمجھنے سے زیادہ دوسرے کو سمجھنے کی کوششوں کریں۔ یقین مانیں اگر ایسا کرلیا گیا تو ایک عام سی صورت والی آپ کی شریک حیات بھی آپ کے آنگن کا چاند ثابت ہوسکتی ہے اور ایک قبول صورت والا شخص بھی خود کو آپ کے خوابوں کا شہزادہ ثابت کرسکتا ہے۔
[poll id="1163"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب یقیناً آپ سوچ رہے ہونگے شاید سعدیہ کا کردار یا اُس سے طبعیت کا نہ ملنا وغیرہ وغیرہ۔ جی نہیں سعدیہ کو طلاق دینے میں ایسے کسی پہلو کا دخل نہیں رہا بلکہ ان تین ماہ میں اُس نے خود کو ایک مثالی بیوی بننے کا اہل ثابت کیا۔ یہ تو میری ہی غلطی تھی جو سعدیہ کی ان خوبیوں کو نہ پرکھ سکا۔ بس اس طلاق کا سہرا اُس ایک خواب کو جاتا ہے جس نے میرے سہرے کے پھول مرجھانے سے قبل ہی میری ازدواجی زندگی کو مرجھا کر رکھ دیا۔
جی ہاں میں اُسی خواب کی بات کررہا ہوں جو اکثر مائیں اپنے بچوں کی آنکھوں میں کم سنی سے ہی سجادیتی ہیں اور پھر آپ کے ساتھ ساتھ وہ خواب بھی جوان ہوتا جاتا ہے۔ بچپن میں بارہا بولا جانے والا امی کا وہ جملہ کہ میں تو اپنے بیٹے جمال کے لئے 'چاند سی' دلہن لاؤں گی اور جب تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ایک پرائیوٹ بینک میں ایک اچھی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو امی بہنوں پر جہاں میری شادی کی فکر سوار ہوئی وہیں میری آنکھیں بچپن سے دکھائے جانے والے اُس خواب کی تعبیر کی راہ دیکھنے لگیں جو کسی چاند سی چہرے والی کی صورت سے جُڑا ہوا تھا۔
لیکن شادی کی پہلی رات ہی سعدیہ میرے اُس خواب کے معیار پر پوار نہ اُتر سکی جو ایک چاند سے چہرے سے وابستہ تھا لہذا شادی کے دو ہفتے بعد ہی میری سعدیہ سے بے زاری اس قدر بڑھنے لگی کہ صرف تین ماہ کے مختصر عرصے میں ہی ابھی پانچ روز قبل میں نے اُسے طلاق دے دی۔ ابھی تک تو اُس کے گھر والوں کی طرف سے اُس کا سامان بھی واپس نہیں اُٹھایا گیا تھا اور اب کمرے کی اس تنہائی میں بیٹھا جب میں گزرے دنوں کے متعلق سوچ رہا تھا کہ سعدیہ کے روئیے اور حرکتوں سے متعلق کوئی ایک چیز ہی ایسی مجھے یاد آجائے کہ اُسے طلاق دینے کا اپنا یہ فیصلہ مجھے درست لگے لیکن لاکھ چاہنے کے باوجود بھی ایسی کوئی چیز یاد نہیں کرسکا اور جتنا یاد کرنے کی کوشش کرتا تو رہ رہ کر صرف اور صرف سعدیہ کی وہ اچھائیاں ہی یاد آرہی تھیں جو شاید اُس نے میری خود سے بے زاری محسوس کرکے میرے دل میں اپنی محبت جگانے کے لئے روا رکھی تھیں۔
میرا نام عائشہ ہے۔ ریحان سے طلاق ہوئے ابھی صرف پانچواں ہی دن ہوا تھا اور گزرنے والے یہ پانچ دن ہی مجھے اچھی طرح سمجھا چکے تھے کہ میں اپنی زندگی کی کتنی بڑی غلطی کر آئی ہوں اور اب رہ رہ کر مجھے اپنی ماں پر غصہ آرہا تھا جس نے چھوٹی عمر سے ہی میری آنکھوں میں وہ خواب سجا دیا تھا کہ جب بھی امی مجھے تیار کرے میری بلائیں لیتیں تو ایک یہ جملہ ضرور بولتی تھیں
'کیسی شہزادی لگ رہی ہے میری گڑیا دیکھنا ایک دن میری شہزادی کو کوئی شہزادہ اپنی دلہن بنا کر لے جائے گا'
بس جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی میری آنکھیں اُس شہزادے کی راہ دیکھنے لگیں اور اس خواب کا میری زندگی پر اتنا گہرا اثر تھا کہ کم شکل و صورت والے یا چھوٹی موٹی نوکری پیشہ والے لڑکوں کی جانب میں نگاہ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتی تھی اور دیکھتی بھی کیوں آخر کو میرا شمار خاندان کی خوبصورت لڑکیوں میں ہوتا تھا۔
لیکن یہ خواب اُس روز ٹوٹ گیا جب ایک بڑی فارما کمپنی میں اچھے عہدے پر کام کرنے والے اپنے دوست کے بیٹے ریحان سے ابو جان نے میرا رشتہ طے کردیا۔ ریحان کی اچھی بھلی صورت تھی مگر اُس کا چہرہ میرے خوابوں کے اُس شہزادے سے میل نہیں کھاتا تھا جو میں جوان ہونے کے بعد سے اب تک اپنے خوابوں میں دیکھ رہی تھی۔ اس شادی سے انکار کرنے کے لئے میں نے لاکھ واویلا کیا، روئی شور مچایا لیکن امی ابو نے میری ایک نہیں سُنی۔ اُن کے خیال میں یہ میری وقتی ضد تھی اور شادی کے بعد سب درست ہوجائے گا کہ مصداق انہوں نے میری ریحان سے شادی کرا کر ہی دم لیا۔ اِدھر میں اپنے دل میں ٹھان چُکی تھی اگرچہ گھر والوں نے میری شادی تو کردی لیکن اِس کو قائم رکھنا یا نا رکھنا تو میرے اوپر ہی ہے نا لہذا شادی کے پندرہ دن بعد ہی میں نے اپنی حرکتوں سے ساس نندوں کا وہ جینا حرام کیا کہ خدا کی پناہ۔ دوپہر ایک دو بجے تک سو کر اُٹھنا، پھر گھر کے کسی کام کو ہاتھ تک نہیں لگانا اور جب کھانا لگا دیا جاتا تو شہزادیوں کی طرح دسترخوان پر جاکر بیٹھ جاتی۔ ریحان کی ماں بہنیں آخر میرا یہ رویہ کب تک برداشت کرتیں انہوں نے ریحان سے کہا تو میں نے شور مچا کر ہنگامہ کھڑا کردیا کہ میرے خلاف ماں بیٹیاں میرے شوہر کو بھر رہی ہیں اور آئے روز کی یہ 'تو تو میں میں' بلاخر میری شادی کے پانچ ماہ بعد ہی طلاق کی صورت ختم ہوئی۔ جب ریحان نے طلاق کے یہ تین لفظ بولے تو شادی کے ان پانچ ماہ میں پہلی بار ایسا لگا کہ میں نے کھل کر سانس لی ہو۔
لیکن ماں باپ کے گھر واپس طلاق کا داغ سجا کر آنے کی صورت میں (بھلے اس طلاق میں میری اپنی خواہش کا کتنا ہی دخل کیوں نہ تھا) محلے والے اور رشتے دار ایسی روتی صورتوں سے آکر اماں سے اظہار افسوس کررہے تھے جیسے اس گھر میں کسی کی میت ہوگئی ہو اور دو دن بعد تو واقعی جب میں نے بھی ہرچیز کو سوچا سمجھا تو مجھے بھی یہی لگا کہ واقعی اس گھر میں میت ہی تو ہوئی ہے۔ موت میری زندگی کی، موت میرے مستقبل کی اور اب میرا سارا غصہ ریحان یا اُس کی ماں بہنوں کے لئے نہیں خود اپنی ماں کے لئے تھا۔ نہ وہ یوں میرے کچے ذہن میں کسی شہزادے کے آنے کا تصور بٹھاتی اور نہ میں اپنے ہاتھوں اپنی زندگی برباد کرتی!
( جاری ہے )
اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ لو کہانی آگے بھی نہیں بڑھی اور جاری بھی لکھا ہے۔ تو جناب یہ کہانی اب بھی جاری ہے۔ دراصل یہ تحریر اِس کہانی سے متعلق نہیں بلکہ اُس خواب سے متعلق ہے جو نجانے کتنے جمال کی مائیں اپنے بیٹوں کی آنکھوں میں سجادیتی ہیں اور نجانے کتنی عائشہ کی مائیں اپنی بیٹیوں کو کسی شہزادے کی راہ دیکھنے پر لگا دیتی ہیں اور جب یہ خواب پورے نہیں ہوتے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے جو جمال نے کیا یا جو عائشہ کر بیٹھی۔ جن کے نتیجے میں انسان کو پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عام طور پر ہماری زندگی میں ایسے کہے جانے والے کچھ جملے اُن بچوں کے ذہنوں پر کتنے گہرے نقوش چھوڑتے ہیں جو خواب کا مطلب تو سمجھتے ہیں لیکن تعبیر کے مفہوم سے ناآشنا ہوتے ہیں کہ دیکھنے یا دکھایا جانے والا ہر خواب سچ ہونے لگے تو پھر کیا چیز ہے جو خواب رہے گی؟
ہوسکتا ہے جب ایک ماں اپنے بیٹے کو کسی چاند سے چہرے والی دلہن کا خواب دکھاتی ہو تو اس چاند سے چہرے سے مراد وہ گن والی دلہن ہو جو آتے ہی گھر کو جنت بنادے یا جب کوئی ماں اپنی بیٹی کو کسی شہزادے کے ساتھ بیاہ کر لے جانے کی نوید دیتی ہے تو اس سے مراد یقیناً یہ ہوتی ہوگی کہ ایک ایسا شخص اُس کی بیٹی کو بیاہ کر لے جائے جو اُس کی شہزادی کا دامن خوشیوں سے بھر کر اپنے گھر کی شہزادی بنا کر رکھے۔
بس اب اُن ماؤں سے بھی درخواست و التجا ہے کہ اپنے بچوں کی آنکھوں میں خواب ضرور سجائیں مگر ساتھ ساتھ اُن کو یہ بھی بتائیں کہ 'چاند سی' سے مراد کوئی چہرہ نہیں بلکہ 'چاند سی' سے مراد تو وہ لڑکی ہوتی ہے جو گھر کو آکر جنت بنادیتی ہے اور حقیقی شہزادہ بھی وہ ہوتا ہے جو بھلے تخت و تاج نہ رکھتا ہو لیکن اپنے ایک کمرے کے گھر میں اُن کی بیٹی کو شہزادی بنا کر رکھے۔
ہمارے یہاں بڑھتی ہوئی طلاق کا رحجان اس لئے نہیں بڑھ رہا کہ آپس میں طبعیتیں میل نہیں کھاتیں، بلکہ طلاقوں کا رجحان کی وجہ تو آپس میں بڑھتے ہوئے اختلافات ہیں۔ شادی کو اسی لئے تو بندھن کہا جاتا ہے کہ دو مختلف طبعیت دو مختلف مزاج والے لوگوں کو یہ بندھن آپس میں باندھ کر رکھے اور یہ وہ بندھن ہے جس میں بندھنے کے بعد انسان خود کو سمجھنے سے زیادہ دوسرے کو سمجھنے کی کوششوں کریں۔ یقین مانیں اگر ایسا کرلیا گیا تو ایک عام سی صورت والی آپ کی شریک حیات بھی آپ کے آنگن کا چاند ثابت ہوسکتی ہے اور ایک قبول صورت والا شخص بھی خود کو آپ کے خوابوں کا شہزادہ ثابت کرسکتا ہے۔
[poll id="1163"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔