پولیس کا فرض ہے مدد آپ کی
پولیس کا براہِ راست تعلق عوام سے ہوتا ہے اور مقامی سطح پر امن و امان کا قیام پولیس کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔
طنز و مزاح کی ایک نادر خوبی یہ ہے کہ اس میں ظرافت کے راستے معاشرے کی تلخ حقیقت کی نشاندہی کی جاتی ہے، اس کی ایک شاہکار مثال ملاحظہ کریں۔ ایک بھری بس اسٹاپ پر رکتی ہے اور کنڈیکٹر آواز لگاتا ہے ''بس ایک آدمی کی جگہ ہے'' اتنے میں ایک پولیس والا لپک کر بس میں سوار ہو جاتا ہے، پیچھے ہی ایک بڑے میاں بھی بس میں سوار ہونے کی کوشش میں ہوتے ہیں تو کنڈیکٹر انھیں جتلاتا ہے کہ ''بابا جی! بس میں ایک ہی آدمی کی جگہ تھی۔''
اس پر بڑے میاں بڑی معصومیت سے گویا ہوتے ہیں ''وہ تو پولیس والا ہے، آدمی تو میں ہوں۔'' اسی طرح پولیس کے طریقۂ تفتیش کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ چاہے تو ہاتھی سے بھی اعتراف کروا لے کہ ''ہاں، ہاں میں ہرن ہوں۔'' محکمہ پولیس کے متعلق ان تاثرات کی سچائی سے اختلاف شاید مشکل ہے، لیکن اگر انھیں سو فیصد درست قرار دیا جائے تو پھر اس رائے کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے اور اس کارِ خیر کی انجام دہی نہ صرف عوامی ذمے داری ہے بلکہ قومی شعور کا تقاضا بھی ہے اور اب تو حالات کی نزاکت کے سبب یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔
محکمۂ پولیس کا براہِ راست تعلق عوام سے ہوتا ہے اور مقامی سطح پر ہر لحاظ سے امن و امان کا قیام پولیس کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ خبروں کا ہجوم مذکورہ دونوں پہلوؤں کے حوالے سے عام آدمی کے سامنے پولیس کی جو تصویر کشی کرتا ہے وہ اسے پولیس کی کارکردگی سے مطمئن کرنے کے بجائے متنفر کرتی نظر آتی ہے، لیکن اس سارے حالات کا تجزیہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، اگر اس حوالے سے ہم تھوڑی محنت کرنے کے عادی ہو جائیں تو بڑی آسانی سے اس سچائی تک پہنچ سکتے ہیں کہ اس تمام تر صورتحال کی ذمے دار تنہا ہماری پولیس نہیں ہے بلکہ اس کی کہیں زیادہ ذمے داری ہماری بے لگام اور حدوں سے نکلی ہوئی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے پاورگیم میں اس محکمے کو اپنی طاقت کا پتا بنائے رکھا۔
بد دلی، کم دلی کو جنم دیتی ہے اور کم دلی زندہ موت کا عمل پذیر تماشہ ہوا کرتی ہے، ماتم کی حد تک افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ یہ تماشہ ہمارے ہاں تقریباً ہر سطح پر ہے۔ ہم نے اپنے ہر ادارے کی بدعنوانیوں اور بد اعمالیوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش میں عوام اور اداروں کے درمیان ایسی خلیج پیدا کر دی ہے کہ جس نے حسنِ ظن کے تمام سوتے خشک کر دیے ہیں اور عام آدمی بغیر کسی ذاتی تجربے یا مشاہدے کے محض تاثر کی بنیاد پر اداروں سے بد دل ہے، خبروں کے اس کھیل نے جس چیز کو سب سے زیادہ گزند پہنچائی ہے وہ ہے پیشہ وارانہ خلوص اور دیانت، بلکہ اسے حوصلہ شکنی کہنا زیادہ مناسب ہو گا، سیاہ کاریوں کے پرچار میں ہم اتنا بڑھ گئے ہیں کہ ہم نے اپنے فرائض اور ذمے داریوں سے مخلص اور اپنے منصب کے پاسداروں کو بھی اس پروپیگنڈے کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
جدید ذہن کی رو سے اس منظر نامے سے اگر تجزیہ کشید کیا جائے تو اسے اپنے حلفِ منصبی سے رو گردانی پر اُکسانے والی سازش بھی کہا جا سکتا ہے جس کے تحت جذبۂ دیانت اور نیک نیتی کو کمزور کرنے کے لیے پراپیگنڈے کے نادیدہ محرک کا سہارا لیا جا رہا ہے جب کہ دوسری جانب عام آدمی کی اداروں کی نسبت مثبت اور جائز امید کو بھی خوف، بے یقینی اور مایوسی میں جکڑ دیا گیا ہے۔ بے لاگ تبصروں اور خبر کی پیشکش میں حکمتِ عملی کی عدم موجودگی نے اداروں کے وقار کو کُہر زدہ کر دیا ہے اور اداروں کی حُرمت کی حدود بھی واضح متاثر دکھائی دیتی ہیں۔
اس سارے پس منظر میں جو ادارہ سب سے زیادہ سنگین حالات سے دوچار ہے وہ ہماری پولیس ہے، عوامی ادارہ ہونے کی حیثیت سے اس کا جو تاثر عوام میں ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس مجروح تاثر کی ذمے داری اس محکمے کی کالی بھیڑوں پر بھی عائد ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ اس سچائی کو مدِّنظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے تقریباً مسئلوں کی جڑ نظام کا سقم ہے اور نظام کی خرابی کی بنیادی وجہ مفاد پرستی اور طاقت کا کھیل ہے اور یہ بھی کوئی انکشاف نہیں کہ اس شیطانی کھیل میں اس محکمے کو اہم مہرہ بنایا گیا ہے جس نے غلط روایات اور غلط تاثر کی پیداوار میں ضربِ تقسیم کا کام کیا۔
ذرا سوچیے! کراچی جیسے شہر میں رہتے ہوئے ہمارے معزز اور شریف شہری اس بات کو ہضم کر سکتے ہیں کہ ''کوئی خاتون اپنے کسی مسئلے کے حل کے لیے ذاتی طور پر پولیس سے رجوع کرے؟'' سوچیے! اس خبر کو لے کر عام لوگوں کے تاثرات کیا کچھ نہیں ہو سکتے؟ یہ بات تو طے ہو گئی کہ مذکورہ خاتون کوئی عام خاتون نہیں ہو سکتی اس لیے کہ ''عام'' خواتین کا تھانے سے کیا کام؟ یہ خاتون سیدھی سادی بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ پھر وہی بات کہ کوئی ''شریف'' عورت تھانے جا کر کیا کرے گی؟ اب یا تو یہ آج کے دور کی ''ماڈرن'' پڑھی لکھی خاتون ہو سکتی ہے یا پھر اس خاتون کے ہاتھ بہت لمبے ہوں گے جو تھانے جیسے اداروں کو اپنے پرس میں رکھتے ہوں گے یا پھر یہ خاتون۔۔۔۔۔۔۔! اب سوچ پر تو کوئی پابندی یا اختیار ہوتا نہیں ہے لہٰذا اس خالی جگہ کو حسبِ ظرف پُر کیا جا سکتا ہے۔
خاتون کی بات تو رہی ایک طرف، ایک عام شہری کے لیے تھانہ ایسی خوفناک جگہ ہے جس سے واسطہ نہ پڑنے کی باقاعدہ دعائیں مانگی جاتی ہیں، ماحول میں بکھری کہانیوں نے عام آدمی کو کالی وردی والی اس مخلوق کے بارے میں اتنا سہما دیا ہے کہ اس کے خوف کا واہمہ ٹھوس شکل اختیار کر گیا ہے اور اسے پکا یقین ہے کہ اس ادارے میں رکھوالوں اور محافظوں کے بجائے ایسے لوگ موجود ہیں جو اس کے ''قصورِ شرافت'' سے میل نہیں کھاتے۔ اپنے انھی تصورات کی روشنی میں ذرا لمحے بھر کو غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم پولیس جیسے ادارے کی غرض و غایت سے جہالت کی حد تک نا آشنا ہیں اور اپنے خود ساختہ مفہوم کی اصلاح کو بھی تیار نہیں کیونکہ نظام کی خرابی کے ساتھ ساتھ پولیس کے بارے میں منفی تاثر کی ایک اور بُری وجہ عوامی آگاہی کی کمی بھی ہے۔
ہم تشدد، دھونس، دھمکی، ہراسگی کسی صورت میں بھی پولیس سے رابطے کو تیار نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ پولیس کا کردار معاملوں کے ''قابل دست اندازی پولیس'' کی حد کو پہنچ جانے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے، پولیس کی عملداری سے متعلق ہماری جانکاری نہ ہونے کے برابر ہے اور ہم پیچیدگیوں سے بچنے کی خاطر قانونی خطوط پر چلنے سے گھبراتے ہیں، نچلی سطح پر اگر ہماری حوصلہ شکنی ہو جائے تو ہم تگ و دو کے بجائے دل چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔
براہِ راست ذاتی کوششوں کے بجائے ہم قانونی امور کے بارے میں ایسے لوگوں سے حوصلہ لینے اور رہنمائی کی کوشش کرتے ہیں جو پہلے ہی سے ہمارے دلِ نیم مردہ پر ''بہت مشکل ہے'' کی مزید تھپکیاں لگاتے ہیں اور شاید ہم بھی یہی سننا چاہ رہے ہوتے ہیں اپنی اس کم دلی کا انتقام ہم اس محکمے پر انگلی اٹھا کر لیتے ہیں، ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے مسائل میں مشوروں کے لیے پولیس ہیلپ لائن 15 سے رابطہ کرتے ہیں جب کہ مددگار 15 سے نہ صرف یہ کہ فوری رسپانس ملتا ہے بلکہ مسئلے سے متعلق مناسب رہنمائی بھی فراہم کی جاتی ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے بہت سی تلخ مثالیں ماحول کا حصہ ہیں، لیکن کیا چوری چکاری، قتل کی اندھی وارداتوں کا سراغ اور مجرموں میں پایا جانے والا پولیس کا خوف دلوں کو حوصلہ نہیں دیتا؟ اس ضمن میں نئے سرے سے بہت کچھ سوچنے اور پولیس سے فاصلے گھٹانے کی ضرورت ہے، فاصلوں کی یہ کمی نہ صرف پولیس اور قانون کے حوالے سے آگہی بڑھانے کا سبب بنے گی بلکہ محکمے میں نچلی سطح پر ہونے والی بے ضابطگیوں کی اصلاح کا مؤجب بھی بنے گی۔ اس ادارے کی خامیوں کا اصلاحات کے نفاذ کے ذریعے سے یقینی تدارک سو فیصدممکن ہے۔
اس پر بڑے میاں بڑی معصومیت سے گویا ہوتے ہیں ''وہ تو پولیس والا ہے، آدمی تو میں ہوں۔'' اسی طرح پولیس کے طریقۂ تفتیش کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ چاہے تو ہاتھی سے بھی اعتراف کروا لے کہ ''ہاں، ہاں میں ہرن ہوں۔'' محکمہ پولیس کے متعلق ان تاثرات کی سچائی سے اختلاف شاید مشکل ہے، لیکن اگر انھیں سو فیصد درست قرار دیا جائے تو پھر اس رائے کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے اور اس کارِ خیر کی انجام دہی نہ صرف عوامی ذمے داری ہے بلکہ قومی شعور کا تقاضا بھی ہے اور اب تو حالات کی نزاکت کے سبب یہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔
محکمۂ پولیس کا براہِ راست تعلق عوام سے ہوتا ہے اور مقامی سطح پر ہر لحاظ سے امن و امان کا قیام پولیس کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ خبروں کا ہجوم مذکورہ دونوں پہلوؤں کے حوالے سے عام آدمی کے سامنے پولیس کی جو تصویر کشی کرتا ہے وہ اسے پولیس کی کارکردگی سے مطمئن کرنے کے بجائے متنفر کرتی نظر آتی ہے، لیکن اس سارے حالات کا تجزیہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، اگر اس حوالے سے ہم تھوڑی محنت کرنے کے عادی ہو جائیں تو بڑی آسانی سے اس سچائی تک پہنچ سکتے ہیں کہ اس تمام تر صورتحال کی ذمے دار تنہا ہماری پولیس نہیں ہے بلکہ اس کی کہیں زیادہ ذمے داری ہماری بے لگام اور حدوں سے نکلی ہوئی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے پاورگیم میں اس محکمے کو اپنی طاقت کا پتا بنائے رکھا۔
بد دلی، کم دلی کو جنم دیتی ہے اور کم دلی زندہ موت کا عمل پذیر تماشہ ہوا کرتی ہے، ماتم کی حد تک افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ یہ تماشہ ہمارے ہاں تقریباً ہر سطح پر ہے۔ ہم نے اپنے ہر ادارے کی بدعنوانیوں اور بد اعمالیوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش میں عوام اور اداروں کے درمیان ایسی خلیج پیدا کر دی ہے کہ جس نے حسنِ ظن کے تمام سوتے خشک کر دیے ہیں اور عام آدمی بغیر کسی ذاتی تجربے یا مشاہدے کے محض تاثر کی بنیاد پر اداروں سے بد دل ہے، خبروں کے اس کھیل نے جس چیز کو سب سے زیادہ گزند پہنچائی ہے وہ ہے پیشہ وارانہ خلوص اور دیانت، بلکہ اسے حوصلہ شکنی کہنا زیادہ مناسب ہو گا، سیاہ کاریوں کے پرچار میں ہم اتنا بڑھ گئے ہیں کہ ہم نے اپنے فرائض اور ذمے داریوں سے مخلص اور اپنے منصب کے پاسداروں کو بھی اس پروپیگنڈے کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔
جدید ذہن کی رو سے اس منظر نامے سے اگر تجزیہ کشید کیا جائے تو اسے اپنے حلفِ منصبی سے رو گردانی پر اُکسانے والی سازش بھی کہا جا سکتا ہے جس کے تحت جذبۂ دیانت اور نیک نیتی کو کمزور کرنے کے لیے پراپیگنڈے کے نادیدہ محرک کا سہارا لیا جا رہا ہے جب کہ دوسری جانب عام آدمی کی اداروں کی نسبت مثبت اور جائز امید کو بھی خوف، بے یقینی اور مایوسی میں جکڑ دیا گیا ہے۔ بے لاگ تبصروں اور خبر کی پیشکش میں حکمتِ عملی کی عدم موجودگی نے اداروں کے وقار کو کُہر زدہ کر دیا ہے اور اداروں کی حُرمت کی حدود بھی واضح متاثر دکھائی دیتی ہیں۔
اس سارے پس منظر میں جو ادارہ سب سے زیادہ سنگین حالات سے دوچار ہے وہ ہماری پولیس ہے، عوامی ادارہ ہونے کی حیثیت سے اس کا جو تاثر عوام میں ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس مجروح تاثر کی ذمے داری اس محکمے کی کالی بھیڑوں پر بھی عائد ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ اس سچائی کو مدِّنظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے تقریباً مسئلوں کی جڑ نظام کا سقم ہے اور نظام کی خرابی کی بنیادی وجہ مفاد پرستی اور طاقت کا کھیل ہے اور یہ بھی کوئی انکشاف نہیں کہ اس شیطانی کھیل میں اس محکمے کو اہم مہرہ بنایا گیا ہے جس نے غلط روایات اور غلط تاثر کی پیداوار میں ضربِ تقسیم کا کام کیا۔
ذرا سوچیے! کراچی جیسے شہر میں رہتے ہوئے ہمارے معزز اور شریف شہری اس بات کو ہضم کر سکتے ہیں کہ ''کوئی خاتون اپنے کسی مسئلے کے حل کے لیے ذاتی طور پر پولیس سے رجوع کرے؟'' سوچیے! اس خبر کو لے کر عام لوگوں کے تاثرات کیا کچھ نہیں ہو سکتے؟ یہ بات تو طے ہو گئی کہ مذکورہ خاتون کوئی عام خاتون نہیں ہو سکتی اس لیے کہ ''عام'' خواتین کا تھانے سے کیا کام؟ یہ خاتون سیدھی سادی بھی نہیں ہو سکتی کیونکہ پھر وہی بات کہ کوئی ''شریف'' عورت تھانے جا کر کیا کرے گی؟ اب یا تو یہ آج کے دور کی ''ماڈرن'' پڑھی لکھی خاتون ہو سکتی ہے یا پھر اس خاتون کے ہاتھ بہت لمبے ہوں گے جو تھانے جیسے اداروں کو اپنے پرس میں رکھتے ہوں گے یا پھر یہ خاتون۔۔۔۔۔۔۔! اب سوچ پر تو کوئی پابندی یا اختیار ہوتا نہیں ہے لہٰذا اس خالی جگہ کو حسبِ ظرف پُر کیا جا سکتا ہے۔
خاتون کی بات تو رہی ایک طرف، ایک عام شہری کے لیے تھانہ ایسی خوفناک جگہ ہے جس سے واسطہ نہ پڑنے کی باقاعدہ دعائیں مانگی جاتی ہیں، ماحول میں بکھری کہانیوں نے عام آدمی کو کالی وردی والی اس مخلوق کے بارے میں اتنا سہما دیا ہے کہ اس کے خوف کا واہمہ ٹھوس شکل اختیار کر گیا ہے اور اسے پکا یقین ہے کہ اس ادارے میں رکھوالوں اور محافظوں کے بجائے ایسے لوگ موجود ہیں جو اس کے ''قصورِ شرافت'' سے میل نہیں کھاتے۔ اپنے انھی تصورات کی روشنی میں ذرا لمحے بھر کو غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم پولیس جیسے ادارے کی غرض و غایت سے جہالت کی حد تک نا آشنا ہیں اور اپنے خود ساختہ مفہوم کی اصلاح کو بھی تیار نہیں کیونکہ نظام کی خرابی کے ساتھ ساتھ پولیس کے بارے میں منفی تاثر کی ایک اور بُری وجہ عوامی آگاہی کی کمی بھی ہے۔
ہم تشدد، دھونس، دھمکی، ہراسگی کسی صورت میں بھی پولیس سے رابطے کو تیار نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ پولیس کا کردار معاملوں کے ''قابل دست اندازی پولیس'' کی حد کو پہنچ جانے کے بعد ہی شروع ہوتا ہے، پولیس کی عملداری سے متعلق ہماری جانکاری نہ ہونے کے برابر ہے اور ہم پیچیدگیوں سے بچنے کی خاطر قانونی خطوط پر چلنے سے گھبراتے ہیں، نچلی سطح پر اگر ہماری حوصلہ شکنی ہو جائے تو ہم تگ و دو کے بجائے دل چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔
براہِ راست ذاتی کوششوں کے بجائے ہم قانونی امور کے بارے میں ایسے لوگوں سے حوصلہ لینے اور رہنمائی کی کوشش کرتے ہیں جو پہلے ہی سے ہمارے دلِ نیم مردہ پر ''بہت مشکل ہے'' کی مزید تھپکیاں لگاتے ہیں اور شاید ہم بھی یہی سننا چاہ رہے ہوتے ہیں اپنی اس کم دلی کا انتقام ہم اس محکمے پر انگلی اٹھا کر لیتے ہیں، ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے مسائل میں مشوروں کے لیے پولیس ہیلپ لائن 15 سے رابطہ کرتے ہیں جب کہ مددگار 15 سے نہ صرف یہ کہ فوری رسپانس ملتا ہے بلکہ مسئلے سے متعلق مناسب رہنمائی بھی فراہم کی جاتی ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے بہت سی تلخ مثالیں ماحول کا حصہ ہیں، لیکن کیا چوری چکاری، قتل کی اندھی وارداتوں کا سراغ اور مجرموں میں پایا جانے والا پولیس کا خوف دلوں کو حوصلہ نہیں دیتا؟ اس ضمن میں نئے سرے سے بہت کچھ سوچنے اور پولیس سے فاصلے گھٹانے کی ضرورت ہے، فاصلوں کی یہ کمی نہ صرف پولیس اور قانون کے حوالے سے آگہی بڑھانے کا سبب بنے گی بلکہ محکمے میں نچلی سطح پر ہونے والی بے ضابطگیوں کی اصلاح کا مؤجب بھی بنے گی۔ اس ادارے کی خامیوں کا اصلاحات کے نفاذ کے ذریعے سے یقینی تدارک سو فیصدممکن ہے۔