کراچی کا مقدمہ پہلا حصہ
کراچی دنیائے اسلام کا وہ منفرد شہر ٹھہرا جہاں لاکھوں افراد صرف اسلام کے نام پر ہجرت کر کے آئے اور مستقل آباد ہو گئے .
تقسیم ہند سے پہلے کا کراچی اتنا وسیع و عریض تھا اور نہ ہی اس قدر گنجان آباد، اپنی صفائی اور نفاست کی وجہ سے اسے عروس البلاد کہا جاتا، شہر کی سڑکیں بلا مبالغہ روزانہ دھلتیں۔ ٹاور، صدر، رنچھوڑ لائن، گارڈن، لیاری، کھارادر، میٹھادر، کیماڑی اور گرو مندر شہر کے چند معروف علاقے تھے۔ یہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہو کہ کراچی ٹاور سے گرو مندر تک میمن، گجراتی، مکرانی، پارسیوں اور ہندوؤں پر مشتمل پانچ لاکھ سے بھی کم آبادی کا شہر تھا۔ اس وقت نیو کراچی، اورنگی ٹائون، ناظم آباد، ایف بی ایریا، لیاقت آباد، گلشن اقبال اور گلستان جوہر وغیرہ جیسے گنجان آباد علاقے وجود میں نہ آئے تھے۔
شہر کے پھیلائو میں اضافہ قیام پاکستان کے بعد ہوا جب یہ نئی مملکت کا دارالحکومت ٹھہرا۔ تقسیم کے ساتھ ہی ہندوستان کے مختلف علاقوں سے لاکھوں مہاجرین کی پاکستان آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہجرت کر کے آنے والوں میں نوابزادہ لیاقت علی خان، راجا صاحب محمود آباد اور مخدوم خلیق الزمان جیسے سیاستدان، سید سلیمان ندوی، مفتی شفیع عثمانی، سید ابوالاعلٰی مودودی اور مولانا شبیر احمد عثمانی جیسی قد آور دینی شخصیات، جوش ملیح آبادی، رئیس امروہوی اور ماہر القادری جیسے شعراء، زاہد حسین اور آغا حسن عابدی جیسے بینکار، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی جیسے سائنسدان شامل تھے، غرض بابائے اردو مولوی عبدالحق، گلوکار مہدی حسن، لٹل ماسٹر حنیف محمد اور کامیڈی کنگ لہری سمیت ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی نابغہ روز گار ہستیوں نے پاکستان کا رخ کیا۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی اپنے زمانہ طالب علمی میں ریاست بھوپال سے ہجرت کی۔
یوں کراچی دنیائے اسلام کا وہ منفرد شہر ٹھہرا جہاں لاکھوں افراد صرف اسلام کے نام پر ہجرت کر کے آئے اور مستقل آباد ہو گئے۔ ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین اپنے ساتھ اپنی ثقافت لے کر آئے تھے۔ ان کی اکثریت پان اسلام ازم کے جذبے سے سرشار اور اسلام سے محبت رکھتی تھی غالباً یہی وجہ تھی کہ 80ء کی دہائی تک شہر کی سیاست مذہبی جماعتوں کے گرد گھومتی رہی۔ مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کی کراچی آمد کے بعد شہر کی آبادی کا توازن یکسر تبدیل ہو گیا، مقامی آبادی اب معمولی اقلیت بن کر رہ گئی۔
وفاقی حکومت کا انتظام چلانے کے لیے ہندوستان سے آنے والے تجربے کار افسران نے سخت محنت اور جانفشانی سے کام کیا اور اپنے تجرے اور صلاحیت کے سبب جلد ہی نئی مملکت کو درپیش بیشتر مسائل پر قابو پا لیا۔ سندھی جو صوبہ سندھ میں اکثریت رکھتے تھے وفاقی حکومت سے بہت زیادہ خوش نہ تھے جب کہ مہاجر، پنجابی افسران کے ہمراہ حکومت کا انتظام چلا رہے تھے۔ یوں ابتدائی گرمجوشی کے بعد ان دونوں قومیتوں کے درمیان ایک خلش ضرور حائل ہو گئی تھی۔ شاید اس کا ایک سبب مہاجر افسران میں پایا جانے والا احساسِ برتری بھی تھا تاہم اس نے کسی لسانی کشمکش کی شکل اختیار نہیں کی۔ مہاجرین ہجرت کے بعد اب نئے وطن میں اپنے قدم جمانے اور معاشی خود انحصاری کے حصول کی کوششیں کر رہے تھے۔
دراصل، تحریک پاکستان کا مرکز شمالی ہند کے علاقے تھے اور ان علاقوں میں ماضی میں تحریک خلافت اور عدم تعاون کی تحریکیں بھی چلتی رہی تھیں اس لیے اردو بولنے والوں کا سیاسی شعور زیادہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایوب خان نے اقتدار سنبھالا تو کراچی میں اس کا خوشگوار تاثر نہیں اُبھرا اور پھر جلد ہی دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ اسی دوران کراچی کی مختلف طلباء تنطیموں نے ایک اتحاد قائم کیا اور حکومت مخالف جلسوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
1964ء میں صدارتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا تو محترمہ فاطمہ جناح مخالف امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔ انھیں کراچی میں بھرپور حمایت حاصل تھی لیکن صدر صدارتی انتخابات جیتنے میں کامیاب رہے۔ ان کے صاحبزادے نے کراچی میں جلوس نکالا، جس نے لیاقت آباد میں مقامی آبادی سے تصادم کی شکل اختیار کر لی۔ اس مسئلے نے باقاعدہ فسادات کی شکل تو اختیار نہیں کی لیکن کراچی کے عوام کو باقی پاکستان کے مقابلے میں اپنی تنہائی کا احساس ضرور ہوا۔ اسی زمانے میں شہر میںصوبہ سرحد( موجودہ خیبر پختونخوا) سے بڑی تعداد میں عوام نے محنت مزدوری کے لیے کراچی کا رخ کیا۔
یحییٰ خان مسند اقتدار پر بیٹھے تو سندھی قوم پرستوں کے رہنما جی ایم سید نے مہاجر قیادت کو یہ مشورہ دیا کہ ون یونٹ ختم کیا جا رہا ہے لہٰذا کراچی کو علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے جو ظاہر ہے کہ مہاجر اکثریتی صوبہ ہو گا۔ کراچی کی سیاست اس وقت جماعت اسلامی، نیپ کے محمود الحق عثمانی اور چند دیگر زعماء کے گرد گھومتی تھی۔ ان شخصیات نے جی ایم سید کی تجویز یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی کہ مہاجر صرف کراچی میں نہیں بلکہ اندرون سندھ میں بھی بستے ہیں اور دونوں قومیتیں امن و اتحاد کے ساتھ رہتی ہیں اس لیے سندھ کی تقسیم کی ضرورت نہیں ہے۔
دراصل، سندھی قو م پرستوں کو یہ اندیشہ لاحق تھا کہ مہاجر جلد پورے صوبے پر حاوی ہو جائیں گے لہٰذا انھیں صرف کراچی تک محدود رکھنا مناسب حکمت عملی ہو گی۔ اس عرصے میں جلد ہی سقوط ڈھاکہ کا المناک سانحہ رونما ہوا اور پھر جو کچھ بنگال میں بہاریوں کے ساتھ ہوا۔ اس سے مہاجروں کو سندھ میں اپنے تحفظ کے حوالے سے تشویش لاحق ہوئی۔
بھٹو اقتدار میں تو پنجاب کی حمایت سے آئے تھے تاہم جلد ہی سندھ میں پیپلز پارٹی مقبول جماعت بن گئی۔ بھٹو صاحب کے کز ن اور وزیر اعلیٰ سندھ ممتاز بھٹو نے سندھ میں سندھی زبان کا نعرہ لگایا تو رئیس امروہوی نے مشہور قطعہ لکھا کہ اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔ اندرون سندھ میں سندھی مہاجر کشمکش نے تصادم کی شکل اختیار کر لی۔ بھٹو صاحب نے صوبے میں کوٹہ سسٹم بھی متعارف کرا دیا جسے مہاجرین نے اپنے حق پر کھلے ڈاکے سے تعبیر کیا۔
اسی دوران نیپ جو کہ قوم پرست جماعتوں کا اتحاد تھا کے رہنما محمو الحق عثمانی نے مہاجر کو پانچویں قومیت تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جسے نیپ نے مسترد کر دیا اور محمود عثمانی نے الگ ہو کر مہاجر نیپ بنا لی۔ اہل کراچی کو وفاق کے بعد اب براہ راست صوبائی حکومت سے بھی ٹکرائو کا سامنا تھا۔ پنجاب اور سندھ دونوں وفاقی حکومت کے ساتھ تھے تاہم کراچی میں بھٹو کی مخالفت عروج پر تھی۔ اس وقت کی مہاجر قیادت لسانی بنیادوں پر سیاست کے بجائے ملکی سطح پر سیاست میں زیادہ دلچسپی رکھتی تھی اور اس کا خیال تھا کہ جب پاکستان میں اسلامی نظام نافذ ہو گا تو یہ مسائل ختم ہو جائیں گے۔
یوں جلد ہی کراچی ایک بار پھر اپوزیشن جماعتوں کا مرکز بننے لگا اور پھر بھٹو صاحب کے خلاف تحریک کھڑی ہوئی تو کراچی اس کا مرکز بنا۔ شہر قائد میں گلی گلی، محلے محلے شمع رسالت ﷺ کے پروانے ملک میں نظام مصطفیٰ ﷺ کے نفاذ کی خواہش لیے صف آراء ہو گئے۔ بھٹو صاحب کو فوج نے اقتدار سے بے دخل کیا تو اہل کراچی جو تحریک نظام مصطفٰی میں پیش پیش تھے اب جنرل ضیاء الحق کے اسلامی نظام سے امید باندھ بیٹھے تاہم ضیاء الحق نے اسلام کی سر بلندی کے دعوے تو بہت کیے مگر عملاً کوئی ٹھوس کام نہ کر سکے۔
(جاری ہے)