’’آج کا ادیب اپنی واضح کمٹمنٹ کے اظہار کی ہمت نہیں رکھتا‘‘

حفیظ الرحمن خان نے 1965ء سے 1967ء تک کراچی کے مختلف کالجوں میں اردو پڑھائی۔


Hassaan Khalid November 28, 2012
1967میں اردو کے لیکچرار کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں حفیظ الرحمن خان کا تقرر ہوا۔ فوٹو: فائل

کسی زمانے میں انھوں نے حضرت علیؓ کے ایک مشہور قطعہ کو اردو کے شعری قالب میں ڈھالا تھا۔ یہ قطعہ، جسے وہ حاصل زندگی قرار دیتے ہیں، ان کے نظریہ زندگی کی بہترین انداز میں ترجمانی کرتا ہے۔ وہ قطعہ کچھ یوں تھا:

ہم قاسم قدرت سے بہرحال ہیں راضی
ہے علم ہمارے لیے جاہل کے لیے مال
ہاں مال تو فانی ہے فنا ہوکے رہے گا
لیکن ہے بقا علم کی دولت کو بہرحال

شاید قناعت، درویشی اور استغنا کی اسی دولت نے ان کی تحریر کو وہ کاٹ اور توانائی عطا کی ہے، جو ان کے اسلوب کا خاصہ ہے۔ وہ دو ٹوک انداز میں اپنے موقف کا اظہار کرتے ہیں۔ مصلحت و مصالحت کا شکار ہوتے ہیں، نہ کوئی ترغیب و تحریص انھیں اپنے نظریات پر ''نظرثانی'' کرنے پر آمادہ کرسکی ہے۔ گرد، گدا، گرما اور گورستان کی سرزمین ملتان سے تعلق رکھنے والے حفیظ الرحمن خان، پاکستانی ادب کی توانا آواز ہیں۔ وہ اردو ادب کے نام ور استاد، ادیب اور نقاد ہیں۔ خطہ ملتان کی ایک ٹھوس ادبی روایت رہی ہے، یہاں کے لوگوں نے قابل قدر ادبی خدمات سرانجام دیں، جسے ملکی سطح پر مانا گیا ہے۔ ملتان کی اس ادبی روایت میں حفیظ الرحمن خان ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ وہ چھ کتابوں کے مصنف ہیں۔ ایک قومی روزنامہ کے ادبی صفحے کیلئے باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔ اب تک ان کے تقریباً 800 ادبی کالم شائع ہوچکے ہیں۔

حفیظ الرحمن خان یکم ستمبر 1940ء کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ بچپن کے ابتدائی پانچ سال ملتان میں گزرے۔ اس کے بعد والد کے ہمراہ آبائی وطن تونسہ شریف چلے گے۔ ان کے والد شیخ الحدیث مولانا خان محمد اپنے عہد کے جید عالم تھے۔ حفیظ صاحب نے قرآن مجید اور عربی و فارسی کی ابتدائی کتابیں والد محترم سے پڑھیں۔ بعدازاں 1957ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ سیر زمانہ کا شوق اور فکر معاش 1957ء میں کراچی لے گئی۔ کراچی ان دنوں امن کا گہوارہ تھا۔ اس غریب پرور شہر میں باہمی تعاون اور اتحاد و یگانگت کے بے مثال مظاہرے دیکھے۔ اسی زمانے میں مولوی عبدالحق نے اردو کالج قائم کیا۔ انجمن ترقی اردو، دہلی کی وقیع لائبریری کراچی منتقل کی۔ پھر نیاز فتح پوری اور جوش ملیح آبادی پاکستان آئے اور کراچی کو مستقر بنایا۔ ایسے یگانہ روزگار شخصیات کی مجالس میں بیٹھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس دور میں مفتی انتظام اللہ شہابی، حبیب اللہ غضنفر، پروفیسر کرار حسین، شان الحق حقی، شوکت سبزواری، مشفق خواجہ، رئیس امر ہوی اور دوسری شخصیات اپنے عروج پر تھیں۔ انٹر سال اول میں چند روز ممتاز حسین کی کلاس میں بیٹھنے کا اتفاق بھی ہوا۔1963ء میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں داخل ہوئے۔ یہاں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر سید شاہ علی، ڈاکٹر عبدالقیوم، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، پروفیسر جمیل اختر، ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور ڈاکٹر اسلم فرخی جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔1965ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم۔اے اردو کا امتحان نمایاں اعزاز کے ساتھ پاس کیا۔

تعلیم کے ساتھ ساتھ، گھریلو علمی ماحول کی وجہ سے بچپن سے ہی حفیظ صاحب میں مطالعے کا شوق پیدا ہو گیا۔ قلم سے رفاقت بھی ابتدائی زمانے سے شروع ہوگئی تھی۔ پہلی تحریر 1953ء میں ہفت روزہ چٹان میں شائع ہوئی۔ یہ بچوں کی کہانی تھی۔ بی۔اے کے بعد کچھ شاعری بھی کی۔ چنانچہ ''سیارہ'' میں کچھ غزلیں شائع ہوئیں، لیکن جلد ہی شاعری کو خیر باد کہہ دیا۔ تاہم ان کی نثری نگارشات کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ حفیظ الرحمن خان کی تحریریں ''قومی زبان''، ''سیارہ''، ''ماہ نو''، اور دوسرے بے شمار ادبی جرائد میں شائع ہوئیں۔ 1980ء میں روزنامہ ''نوائے وقت'' ملتان کے ادبی صفحے پر ''زاویے'' کے عنوان سے کالم نگاری کا آغاز کیا۔

حفیظ الرحمن خان نے 1965ء سے 1967ء تک کراچی کے مختلف کالجوں میں اردو پڑھائی۔ 1967ء میں اردو کے لیکچرار کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں ان کا تقرر ہوا۔ یہاں ممتاز دانشور علی عباس جلالپوری ان کے پیش رو تھے۔ ان دنوں حفیظ صاحب کا روز ہی لاہور آنا جانا رہتا تھا۔ لاہور میں اس وقت بڑے بڑے باکمالان ادب و فن موجود تھے جن سے انھیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔1968ء میں گورنمنٹ کالج ڈیرہ اسماعیل خان اور گورنمنٹ کالج مردان میں بطور لیکچرار خدمات انجام دیں۔ ون یونٹ ٹوٹنے پر مارچ 1971ء میں گورنمنٹ کالج لیہ تبادلہ ہوگیا۔ 1975ء سے 2000ء میں اپنی ریٹائرمنٹ تک ممتاز تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج ملتان میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے۔

اس وقت ملتان میں اور مجموعی طور پر پورے ملک میں ترقی پسند ادیب ایک پلیٹ فارم سے متحرک تھے۔ حفیظ الرحمن خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر 1982ء میں ملتان میں فاران اکادمی کے نام سے ایک ادبی پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی۔ اس کے بانیوں میں پروفیسر تاثیر وجدان، مرزا عبدالغنی، عبدالطیف اختر اور ڈاکٹر باقر خان شامل تھے۔ فاران اکادمی کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ اس پلیٹ فارم سے دوسری آواز بلند کی جائے اور دوسرا نقطہ نظر بیان کیا جاسکے۔ اس پلیٹ فارم سے نوجوان ادیبوں کی ایک پوری کھیپ تیار ہوئی، جن میں معروف شاعر اور کالم نگار خالد مسعود خان، مختار پارس، ذوالکفل بخاری، ڈاکٹر وحید الرحمن خان، عبدالودود شعیب اور منیر چوہدری کے نام قابل ذکر ہیں۔

حفیظ الرحمن خان کی تحریروں میں پاکستانی ادب کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ حفیظ صاحب کے نزدیک پاکستان کا ایک مخصوص نظریاتی اور قومی تشخص ہے۔ یہاں کے ادیبوں پر اس دھرتی کا قرض ہے کہ وہ اس نظریاتی اور قومی تشخص کو اپنی زندگی اور فکر کا لازمی جزو بنائیں، اور اس کا اظہار فطری رنگ میں ان کی تحریروں میں بھی ہونا چاہیے۔ پاکستانی ادب کی وضاحت کرتے ہوئے وہ مزید کہتے ہیں کہ ''پاکستان کے قومی اور نظریاتی تشخص کی بنیاد دراصل وہ تاریخی شعور ہے، جو اس خطے کے مسلمانوں کے اساسی تصورات اور تہذیب و ثقافت میں بسا ہوا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہمارے قومی تشخص کا بنیادی حوالہ ''پاکستانیت'' ہے تو اس سے مراد یہی ہے کہ تاریخ و تہذیب کے زندہ، تخلیقی اور لازوال خواص اس خطے میں رہنے والوں کے طرز فکر و احساس میں شامل ہیں۔ اس اعتبار سے پاکستانی ادب وہی ہوگا، جس میں پاکستانیت کی اصل روح کارفرما ہوگئی۔''

حفیظ الرحمن خان پاکستانی ادب کو پاکستان کی جغرافیائی حدود کے ساتھ بریکٹ نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں پاکستانی ادب میں پاکستانی فکر اور پاکستانیت نظر آنی چاہیے۔ کیا ہم پاکستان کی حقیقی روح کو اپنے تخلیقی تجربے کا جزو بناسکے ہیں؟ اس کے جواب میں حفیظ الرحمن خان کہتے ہیںکہ ابھی تک تو ہم پاکستانی قومیت کی تشکیل ہی نہیں کرسکے تو پاکستانیت کہاں سے آئے گی۔ تخلیقی تجربہ تو بعد کی بات ہے، قومی مرکزیت نہ ہونے کی وجہ سے آج بنیادی تصورات سے متصادم افکار خوب پروان چڑھ رہے ہیں۔ حفیظ الرحمن خان کے خیال میں آج کا دور بے سمتی کا دور ہے، ادیب کا کوئی نظریہ نہیں، کوئی کمٹمنٹ نہیں۔ آج کا ادیب اپنی واضح کمٹمنٹ کے اظہار کی ہمت نہیں رکھتا، بلکہ وہ مصالحت و مفاہمت اختیار کرتا ہے۔ عہدحاضر کے ادب کے بارے میں ان کا کہنا ہے ''سائنسی ایجادات کی بدولت زندگی آج میکانکی سانچے میں ڈھل گئی ہے۔ جس کے باعث قوت متخلیہ کو مہمیز دینے والے عناصر ختم ہورہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زندہ رہنے والا شعر اور بڑا افسانہ پڑھے ''صدیاں'' بیت گئی ہیں۔ آج کا ادیب عصری آگاہی سے آنکھیں بند کیے بیٹھا ہے۔ چند روایتی موضوعات ہیں، جو ان کی تحریروں میں نظر آتے ہیں۔ اکا دکا مستثنیات تو ہیں لیکن مجموعی طور پر آج کے ادب کی حالت بہت افسوسناک ہے۔''

حفیظ الرحمن خان نے مختلف اصناف ادب، شاعری، افسانہ، خاکہ، انشائیہ اور سفرنامے پر طبع آزمائی کی ہے۔ ان کا تنقیدی کام بھی بہت وقیع ہے۔ سرکاری ملازمت کی تکمیل پر عمر بھر کی جمع پونجی کا انھوں نے مصرف یہ نکالا کہ اہلیہ کے ہمراہ 2004ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ واپسی پر انھوں نے سفر حج کی روح پرور داستان کو اپنے سفر نامے ''سجدہ ہر ہر گام کیا'' میں بیان کیا۔ دیگر کتب میں، خیال و نظر، تناظرات، پاکستانی ادب کا منظرنامہ، سرائیکی نقد و ادب اور دل و نظر کا سفینہ شامل ہیں۔ تین بیٹوں ڈاکٹر وحید الرحمن، انجینئر توحید الرحمن، جاوید الرحمن اور ایک بیٹی عذرا حفیظ کے والد حفیظ الرحمن خان ایک علمی و ادبی خانوادے کے سربراہ ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اندر کی دنیا میں مقیم استاد نے چین سے نہ بیٹھنے دیا اور ایک نجی کالج سے وابستہ ہو گئے، جہاں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں