بگڑا کیا ہے بس آوے کا آوا
خبر یقیناً اس لیے بھی کم اہم رہی کہ کسی غریب لڑکی کی شادی کے لیے رکھے گئے روپے بھلا کیوں اہم ہو سکتے ہیں؟
KARACHI:
اخبار میں یک کالمی ایک اندرونی صفحے پر خبر نظر سے گزری کہ فلاں جگہ، فلاں علاقے، فلاں تھانے کی حدود میں فلاں جناب اور ان کے کچھ ہمسائیوں کے گھر چوری ہوئی اور نامعلوم افراد اہل خانہ کو بے ہوشی کی کسی مخصوص دوا کے زیر اثر کرکے سب زیورات و نقدی سمیٹ کر چلتے بنے۔ شاید ایک عام سی معمول کی خبر سمجھ کر ہی اس کو بھی راقم نظر انداز کردیتا اگر متاثرین سے ذاتی حیثیت میں مل نہ چکا ہوتا۔ خبر کی ایک اور خاص بات متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او صاحب کے نام کے ساتھ یہ بیان بھی تھا کہ اس طرح کی کسی بھی قسم کی واردات کی اطلاع یا درخواست نہیں دی گئی۔ یعنی ان کے نزدیک ایسی کوئی واردات سرے سے ہوئی ہی نہیں ہے۔
کم و بیش 50 لاکھ یا اس سے کچھ اوپر نیچے کے نقصان پر مبنی ڈکیتی کی اس واردات کو جس طرح ایک چھوٹی سی خبر بنا کر پیش کیا گیا ہے اس سے نہ صرف پولیس کی لاعلمی ظاہر ہوتی ہے بلکہ غیر ذمہ دارانہ صحافت کا پردہ بھی چاک صاف نظر آتا ہے۔ صحافی حضرات شاید خبروں کے حصول کے لیے صرف خود کو تھانوں تک محدود رکھتے ہیں اور باقاعدہ خبر کے حوالے تک جانے کی زحمت نہیں کرتے۔ خبر تو ویسے یہ یقیناً بنتی ہی نہیں کہ لٹنے والوں میں ایک ایسی بیوہ بھی شامل ہے جس کے کم و بیش ایک لاکھ تیس ہزار روپے وہ بھی ضرورت مند ڈاکیوں نے نہ چھوڑے جو اس کو حالیہ رمضان الکریم میں صاحب ثروت لوگوں نے زکوٰۃ و فطرہ کی مد میں دیے تھے اور اس کا ارادہ ایک پکا کمرہ بنوانے کا تھا۔ یقیناً یہ خبر اس لیے بھی پولیس و صحافیوں کی توجہ حاصل نہیں کر پائی کہ ایک غریب کی دونوں بیٹیوں و بہوئوں کے گہنے ایسے لوٹ لیے گئے جیسے لوٹنے والوں کے باپ کا مال ہو۔ اور خبر یقیناً اس لیے بھی کم اہم رہی کہ کسی غریب لڑکی کی شادی کے لیے رکھے گئے روپے بھلا کیوں اہم ہو سکتے ہیں؟
یہ تمام الف لیلوی داستان متاثرہ فریق نے بتائی۔ پوچھا آپ نے پولیس کو مطلع کیا؟ جواباً چند خوبصورت پھول جیسے الفاظ سننے کو ملے کہ دوبارہ سوال کی جرات ہی نہ ہو پائی۔ افسوس ہوا کہ وہ آج کے جدیدیت کے دور میں پرانے دور کے کھوجیوں کو یاد کرکے آہیں بھر رہے تھے۔ بقول ان کے کھوجی بناء کسی مدد کے بڑی سے بڑی واردات کا کھرا نکال لیتے تھے جبکہ آج پولیس کو سب بتایا کہ یہاں یہاں ڈاکو بیٹھے۔ یہاں چیزیں کھولیں۔ یہاں سے نکالیں۔ کھیت میں یہاں ان کے قدموں کے نشان ہیں۔ پھر بھی پولیس کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ لٹنے والوں میں ایک عزیز دوست بھی شامل تھے۔ افسوس کیا کہ تمہارا بڑا نقصان ہوا۔ فکر نہ کرو پولیس کچھ نہ کچھ کرے گی۔ ان کے بجائے ان کے ساتھ بیٹھے ایک حکومتی کونسلر صاحب نے جواب دیا کہ کچھ نہیں ہوپائے گا۔ کونسلر صاحب کے بقول چند دن قبل ایک جھگڑے کی اطلاع پولیس ایمرجنسی پر دی کہ تصادم کا خطرہ ہے کچھ نفری بھیج دیں۔ تو کال سننے والے موصوف بولے کہ ابھی تصادم ہوا تو نہیں نا جناب۔ مجبوراً کونسلر صاحب نے سیاسی دباو استعمال کروایا تو آناً فاناً پولیس موبائل پہنچ گئی۔ ان حالات میں کیا واقعی ہم سیاسی مداخلت کے بناء کوئی بھی کام کروا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔
کوئی ایک شخص بگڑا ہو یا اس کے رویے میں خرابی ہو تو درست کرنا ممکن بھی ہوتا ہے۔ جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو وہاں درستگی صرف باقاعدہ صفائی مہم سے ہی ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں جن اداروں کا کام عوام کا تحفظ تھا وہ چند نو دولتیوں یا پھر سیاستدانوں کی حفاظت پہ مامور ہیں۔ سنے آئے تھے کہ پولیس کا ہے فرض، مدد آپ کی۔ اب حالات مختلف ہیں۔ عام آدمی پولیس سے دور بھاگتا ہے۔ جن کے ٹیکسوں سے سیکیورٹی ادارے تنخواہ پاتے ہیں ان کو سوائے ''اوئے'' کے مخاطب ہی نہیں کیا جاتا اور جو ٹیکس چرانے کے نت نئے طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں ان کے آگے جی حضوری ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کا خاصہ بنتا جا رہا ہے۔ خدارا کچھ عام آدمی کی حالت پہ رحم کیجیے۔ سوال ہوگا تو جواب دینا مشکل ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اخبار میں یک کالمی ایک اندرونی صفحے پر خبر نظر سے گزری کہ فلاں جگہ، فلاں علاقے، فلاں تھانے کی حدود میں فلاں جناب اور ان کے کچھ ہمسائیوں کے گھر چوری ہوئی اور نامعلوم افراد اہل خانہ کو بے ہوشی کی کسی مخصوص دوا کے زیر اثر کرکے سب زیورات و نقدی سمیٹ کر چلتے بنے۔ شاید ایک عام سی معمول کی خبر سمجھ کر ہی اس کو بھی راقم نظر انداز کردیتا اگر متاثرین سے ذاتی حیثیت میں مل نہ چکا ہوتا۔ خبر کی ایک اور خاص بات متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او صاحب کے نام کے ساتھ یہ بیان بھی تھا کہ اس طرح کی کسی بھی قسم کی واردات کی اطلاع یا درخواست نہیں دی گئی۔ یعنی ان کے نزدیک ایسی کوئی واردات سرے سے ہوئی ہی نہیں ہے۔
کم و بیش 50 لاکھ یا اس سے کچھ اوپر نیچے کے نقصان پر مبنی ڈکیتی کی اس واردات کو جس طرح ایک چھوٹی سی خبر بنا کر پیش کیا گیا ہے اس سے نہ صرف پولیس کی لاعلمی ظاہر ہوتی ہے بلکہ غیر ذمہ دارانہ صحافت کا پردہ بھی چاک صاف نظر آتا ہے۔ صحافی حضرات شاید خبروں کے حصول کے لیے صرف خود کو تھانوں تک محدود رکھتے ہیں اور باقاعدہ خبر کے حوالے تک جانے کی زحمت نہیں کرتے۔ خبر تو ویسے یہ یقیناً بنتی ہی نہیں کہ لٹنے والوں میں ایک ایسی بیوہ بھی شامل ہے جس کے کم و بیش ایک لاکھ تیس ہزار روپے وہ بھی ضرورت مند ڈاکیوں نے نہ چھوڑے جو اس کو حالیہ رمضان الکریم میں صاحب ثروت لوگوں نے زکوٰۃ و فطرہ کی مد میں دیے تھے اور اس کا ارادہ ایک پکا کمرہ بنوانے کا تھا۔ یقیناً یہ خبر اس لیے بھی پولیس و صحافیوں کی توجہ حاصل نہیں کر پائی کہ ایک غریب کی دونوں بیٹیوں و بہوئوں کے گہنے ایسے لوٹ لیے گئے جیسے لوٹنے والوں کے باپ کا مال ہو۔ اور خبر یقیناً اس لیے بھی کم اہم رہی کہ کسی غریب لڑکی کی شادی کے لیے رکھے گئے روپے بھلا کیوں اہم ہو سکتے ہیں؟
یہ تمام الف لیلوی داستان متاثرہ فریق نے بتائی۔ پوچھا آپ نے پولیس کو مطلع کیا؟ جواباً چند خوبصورت پھول جیسے الفاظ سننے کو ملے کہ دوبارہ سوال کی جرات ہی نہ ہو پائی۔ افسوس ہوا کہ وہ آج کے جدیدیت کے دور میں پرانے دور کے کھوجیوں کو یاد کرکے آہیں بھر رہے تھے۔ بقول ان کے کھوجی بناء کسی مدد کے بڑی سے بڑی واردات کا کھرا نکال لیتے تھے جبکہ آج پولیس کو سب بتایا کہ یہاں یہاں ڈاکو بیٹھے۔ یہاں چیزیں کھولیں۔ یہاں سے نکالیں۔ کھیت میں یہاں ان کے قدموں کے نشان ہیں۔ پھر بھی پولیس کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ لٹنے والوں میں ایک عزیز دوست بھی شامل تھے۔ افسوس کیا کہ تمہارا بڑا نقصان ہوا۔ فکر نہ کرو پولیس کچھ نہ کچھ کرے گی۔ ان کے بجائے ان کے ساتھ بیٹھے ایک حکومتی کونسلر صاحب نے جواب دیا کہ کچھ نہیں ہوپائے گا۔ کونسلر صاحب کے بقول چند دن قبل ایک جھگڑے کی اطلاع پولیس ایمرجنسی پر دی کہ تصادم کا خطرہ ہے کچھ نفری بھیج دیں۔ تو کال سننے والے موصوف بولے کہ ابھی تصادم ہوا تو نہیں نا جناب۔ مجبوراً کونسلر صاحب نے سیاسی دباو استعمال کروایا تو آناً فاناً پولیس موبائل پہنچ گئی۔ ان حالات میں کیا واقعی ہم سیاسی مداخلت کے بناء کوئی بھی کام کروا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔
کوئی ایک شخص بگڑا ہو یا اس کے رویے میں خرابی ہو تو درست کرنا ممکن بھی ہوتا ہے۔ جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو وہاں درستگی صرف باقاعدہ صفائی مہم سے ہی ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں جن اداروں کا کام عوام کا تحفظ تھا وہ چند نو دولتیوں یا پھر سیاستدانوں کی حفاظت پہ مامور ہیں۔ سنے آئے تھے کہ پولیس کا ہے فرض، مدد آپ کی۔ اب حالات مختلف ہیں۔ عام آدمی پولیس سے دور بھاگتا ہے۔ جن کے ٹیکسوں سے سیکیورٹی ادارے تنخواہ پاتے ہیں ان کو سوائے ''اوئے'' کے مخاطب ہی نہیں کیا جاتا اور جو ٹیکس چرانے کے نت نئے طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں ان کے آگے جی حضوری ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کا خاصہ بنتا جا رہا ہے۔ خدارا کچھ عام آدمی کی حالت پہ رحم کیجیے۔ سوال ہوگا تو جواب دینا مشکل ہوجائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔