مغرب کی ترقی ٹیلنٹ نہیں مجموعی نظام کی مرہون منت ہے

۔ایک دن ترجمہ کرتے وقت جملے میں لفظ شرمندہ آگیا۔یہ نہیں جانتے تھے کہ اس لفظ کو عربی میں کیا کہتے ہیں۔


Mehmood Ul Hassan November 28, 2012
ڈاکٹر خورشید رضوی نے 19مئی1942ء کو امروہہ میں سید حلیم الدین رضوی کے ہاں آنکھ کھولی. فوٹو : فائل

فکری افلاس میں مبتلااس معاشرے کوتو جانے دیجئے،وہ اگر علمی اعتبار سے کسی درخشاں عہد میں بھی زیست کررہے ہوتے، تواپنی علمیت کی بنیاد پر اوروں سے منفرد نظر آتے۔

عالم بننے کے لیے قدرت کی طرف سے علمیت کا بہرہ وافر ملنا کافی نہیں بلکہ یہ بلند کرداری کی کمک ہے، جو صحیح معنوں میں عالم بناتی ہے۔ انھیں قدرت نے ہر دو خوبیوں سے نواز رکھا ہے۔اتنے متنوع علمی گنوں کی حامل شخصیت موجودہ دور تو کیا ہماری پوری ادبی روایت میں بھی کم ہی ملے گی۔ گئے زمانوں میں اس شہر لاہور میں کئی ایسی باوقار ہستیاں موجود رہی ہیں، کہ اہل علم بھی جب کسی علمی مسئلے پر الجھن محسوس کرتے تو اپنی تشفی کے لیے، ان سے بے تامل رجوع کرتے۔ اب مگر ایسا نہیں۔اگر کسی علمی وادبی گمبھیرتا کو سلجھانا ہو تو جن اکا دکا ہستیوں کے نام ذہن کے پردے پرابھرتے ہیں، ان میں ایک ڈاکٹر خورشید رضوی ہیں۔ عربی زبان کے وہ عالم ہیں۔

عربی زبان کی قابل قدر علمی تصنیف قلائدالجمان کی پہلی جلدکے 120 صفحوں کی تدوین کا جوکھم اٹھایااور مصنف ابن الشعارکے حالات زندگی بھی قلم بند کئے۔اس قدیم عربی متن کو پڑھنے میں ان کی غیر معمولی صلاحیت سے متاثر ہوکرعراق کی ایک یونیورسٹی نے مذکورہ کتاب کی خواندگی کے اعتبار سے مشکل ترین جلد ان سے مدون کرائی۔ اردو میں عربی ادب سے متعلق، بہترین کتابوں کا تذکرہ ''عربی ادب قبل از اسلام'' کے بغیر ادھورا سمجھا جائے گا۔حالیہ برسوں میں اردو میں عالمانہ نثر کی اس سے بہتر شاید ہی کوئی دوسری مثال ملے۔

اس کتاب کے بارے میں کہتے ہیں ''پس منظر کی اہمیت ہوتی ہے۔لوگ کہتے ہیں، انھیں کتاب پڑھ کر اسلامی روایات سمجھنے کا موقع ملا ہے۔اور اس کا مطالعہ اسلامیات سمجھنے کے لیے مفید ہے۔ہمارے مدارس میں جو عربی ادب پڑھایاجاتاتھا، اس کا مقصد بھی عربیت مضبوط کرنا تھا تاکہ قرآن کی بلاغت کو سمجھا جاسکے۔اس کتاب سے وہ پس منظر مہیا ہوجاتا ہے کہ کیا قوم تھی، جس کو اسلام نے منقلب کرکے کہاں تک پہنچا دیا۔اس لیے تاریخ اور مذہب کے پس منظر میں اس کا مطالعہ مفید ہے۔ایک اور جلد لکھوں گا، جس پر کام جاری ہے۔''

عربی زبان میں ان کی غیر معمولی قدرت کے سبھی قائل ہیں۔اردو ادب میں وہ اپنی شاعری و نثر کی بنیاد پر منفرد مقام رکھتے ہیں۔''شاخ تنہا''،''سرابوں کا صدف'' ، ''رائگاں'' اور ''امکان'' کے نام سے شعری مجموعے ہیں، جو اب ''یکجا ''میں اکٹھے کر دیے گئے ہیں۔ ''تالیف ''اور ''اطراف'' علمی و ادبی مضامین کے مجموعے ہیں۔ترک عالم فواد سیزگین کے علمی خطبات کا وہ ''تاریخ علوم میں تہذیب اسلامی کا مقام ''کے عنوان سے ترجمہ کرچکے ہیں۔فارسی ادب کے بھی غواص ہیں۔انگریزی ادب کا بھی نتھرا ستھرا ذوق رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں اس دھوکے میں نہ رہیے کہ انھوں نے اپنے آپ کوصرف خالص علمی و ادبی سرگرمیوں کے واسطے وقف کررکھا ہے۔یہ حضرت سارے کاموں کے ساتھ آرتھر کونن ڈائل کو بھی چاٹ چکے ہیں ، حال میں ہی شرلک ہومز جیسے لافانی کردار کے اس خالق کی روحانیت سے دلچسپی کے بارے میں مضمون قلم بند کیا ہے اور شہد کے مکھیوں کے بارے میں بھی بہترین نثرکے ساتھ معلومات کے دریا اپنے ایک اور مضمون میں بہاچکے ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی سیاست کا بھی گہرا شعور ہے۔

عالمگیریت کے بطن سے جنم لینے والی اور بھی چیزوں کے ناقد ہیں مگر سب سے زیادہ تکلیف انھیں تاجرانہ تشہیر کاری سے ہوتی ہے۔کہتے ہیں، ماحولیاتی آلودگی اور سماعی آلودگی کی سب بات کرتے ہیں، مگر تشہیر کے صورت میں جو آلودگی پھیل رہی ہے، اس کا تذکرہ کوئی نہیں کرتا۔علمی اعتبار سے ان کا کلہ تو مضبوط ہے ، شخصی اعتبار سے بھی وہ نفیس اور نجیب ہیں۔علمیت اور بلندی کردار کا ایسا امتزاج فی زمانہ کم ہی دیکھنے کو ملے گا۔آپ ان کے پاس گھنٹوں بیٹھے رہیں، کان کسی کی برائی سننے کو ترس جائیں گے، کوئی اگر کسی کی خامی بیان کرے گا تو اپنے چہرے کے تاثرات سے اس کو پیغام پہنچا دیں گے کہ وہ بدمزہ ہورہے ہیں۔ڈاکٹر خورشید رضوی کی علمی حلقوں میں قدرومنزلت کا اندازہ اس ایک بات سے لگالیں کہ شہزاداحمدکے وفات کے بعد جب یہ سوال اٹھا کہ اب کون اس شہر میں ایسا ہے، جو مجلس ترقی ادب جیسے باوقار ادبی ادارے کی نظامت کا سب سے بڑھ کر اہل ہے، تو کم وبیش سبھی ثقہ لوگوں کی رائے تھی کہ ڈاکٹر خورشید رضوی سے موزوں اور کوئی نہیں۔

ڈاکٹر خورشید رضوی نے 19مئی1942ء کو امروہہ میں سید حلیم الدین رضوی کے ہاں آنکھ کھولی۔ ان کا تعلق سادات امروہہ سے ہے۔چار برس کی عمر میں وہ باپ کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ ان کا بچپن ننھیال میں گزرا۔48ء میں ہجرت کے بعدان کا گھرانہ ساہیوال آباد ہوگیا۔چھٹی سے بی اے آنرز تک کی تعلیم ساہیوال میں حاصل کی، جہاں کی علمی وادبی فضانے ان کے ذوق ادب کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا۔عربی زبان سے ان کی تعلق کی بنیادبھی اسی شہر میں پڑی، جب چھٹی جماعت میں انھوں نے اپنی والدہ کے کہنے پرعربی کو بطور مضمون اختیار کیا۔وہ سمجھتے ہیں کہ والدہ کے اس ارشاد کے پیچھے ان کی دینی حس اور جذبہ دینی کار فرما رہا ہوگا۔مولانا احمد حسن محدث ان کے ننھیالی بزرگوں میں سے تھے، اس لیے گھر میں دینی شعور تھا۔ڈاکٹر خورشید رضوی کی ایک بہن تھی،جو بچپن میں چیچک کی وجہ سے فوت ہوگئی اوریوں وہ اکلوتے رہ گئے۔

والدہ کے لیے وہ سب کچھ تھے مگرانھوں نے کبھی انھیں محبت کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانے دیا۔پڑھائی کے معاملے میں رورعایت سے کام نہیں لیا ۔ بچپن میں وہ اپنے خالو سے پڑھتے تھے، جن کی پڑھائی کے معاملے میں سخت گیری کا والدہ کا خوب علم تھا مگر انھوں نے کبھی دخل نہیں دیا۔ ساہیوال میں جس استاد نے یہ جانچاکہ ان میں عربی اخذ اور اسے پڑھنے کی خداداد صلاحیت ہے، وہ صوفی محمد ضیاء الحق ہیں، جن سے وہ ساہیوال کالج میں دوران تعلیم متعارف ہوئے اور عربی پڑھنے ان کے گھرجاتے رہے۔ استاد اس ہونہار برواکو اس شرط پر پڑھانے پر آمادہ ہوئے کہ کچھ بھی ہوجائے یہ ناغہ نہیں کریں گے اور اگر ایسا ہوا تو وہ پڑھانے کا سلسلہ موقوف کردیں گے۔انھیں یہ کڑی شرط قبول تھی۔استاد نے اس زمانے میں ان سے اردو سے عربی میں خوب ترجمے کرائے۔ کوئی غلطی اگریہ کرتے تو اس کے حساب سے قواعد بیان کردیتے۔قواعد کی الگ سے کتاب کوئی انھیں نہیں پڑھائی۔ایک دن عجب معاملہ ہوا۔ترجمہ کرتے وقت جملے میں لفظ شرمندہ آگیا۔یہ نہیں جانتے تھے کہ اس لفظ کو عربی میں کیا کہتے ہیں۔

استاد مکرم سے استفسار کیا کہ اس کا مادہ بتادیں تاکہ وہ صیغہ بناسکیں۔اس پر جواب ملاکہ ڈکشنری سامنے پڑی ہے، اس میں سے دیکھ لیں۔ اس پر یہ گویا ہوئے کہ یہ تو عربی سے اردو ڈکشنری ہے، جو اگر وہ ساری دیکھیں تب کہیں جاکر شایدمطلوبہ لفظ کا معانی جان سکیں۔خیر چاروناچار وہ ڈکشنری دیکھنے لگے، دو گھنٹے مغز ماری کی مگر بے سود۔ایسے میں مشفق استاد کہنے لگے،آج ضروری تو نہیں، شاباش جائو، کل آکر دیکھ لینا۔یہ اس پر بڑے افسردہ ہوئے کہ کم ازکم لفظ تو بتاناچاہیے۔اور سوچنے لگے کہ اب مجھے کیا الہام ہوگا کہ شرمندہ کو عربی میں کیا کہتے ہیں۔یہ الجھن ذہن پر سوار رہی ۔ان کے بقول ''لاشعور میں ایسی صلاحیتیں ہوتی ہیں، جس کا آدمی کو پریشر کے بغیر اندازہ نہیں ہوتا۔ اگلے دن شام کو میں نے جب ضیاء الحق صاحب کے لان میں قدم رکھا تو تب بھی میرے ذہن میں کچھ نہیں تھا، اور میں سوچ رہا تھا، آج بھی گھنٹہ دو گھنٹہ بٹھائیں گے اور پھر کہیں گے کہ جائو۔ اس اثناء میں بجلی کے کوندے کی طرح یہ خیال ذہن میں آیاکہ اسکول کے زمانے میں حافظ محمود شیرانی کی مرتبہ ''سرمایہ اردو'' میں میرانیس کی نظم ''آمدِ صبح'' میں شعر ہے

ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے
پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگارتھے

اب میں نے سوچا کہ اس شعر میں خجل، یہاں شرمندہ کے معنوں میں آیا ہے۔یہاں سے صیغہ بننا چاہیے۔ اب میں شیر ہوکر کمرے میں داخل ہواتو پوچھنے لگے۔ ہاں پھر لفظ تلاش کیا۔میں نے جب صحیح لفظ بتایا تو اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ مجھے سینے سے لگایا۔ماتھا چوما اور کہنے لگے، میں نے جانتا تھا، تم ڈھونڈ لوگے ، اسی لیے نہیں بتایا تھا، تو ایک طرح سے یہ بھی ان کا انداز تدریس تھا۔'' وہ جب بی اے میں تھے تو استاد کا تبادلہ لاہور ہوگیا۔جاتے ہوئے وہ کہہ گئے کہ ترجمے کی مشق جاری رہے گی۔اس پر طے پایا کہ یہ روزانہ خط کے ذریعے انھیں ترجمہ ارسال کریں گے، جس کو دیکھنے کے بعد وہ واپس بجھوایا کریں گے۔

اس فارمولے پراس وقت تک عمل ہوتا رہا جب تک وہ ایم اے عربی کے لیے اورینٹل کالج میں داخلے کے لیے لاہور نہ آگئے۔ایم اے عربی میں پنجاب یونیورسٹی سے پہلی پوزیشن انھوں نے حاصل کی اور پھر تدریس سے جڑ گئے۔ملازمت کا زیادہ عرصہ سرگودھامیں گزرا۔ بعدازاں گورنمنٹ کالج سے وابستہ ہوگئے اور صدر شعبہ عربی کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔سردست اسی تعلیمی ادارے میں وہ ڈسٹنگوش پروفیسر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا تو ہم نے ان سے پوچھا کہ مولانا عبدالعزیز میمن کے بارے میں سنتے ہیں کہ عرب بھی عرب دانی میں ان کے کمال کا اعتراف کرتے تھے،کیا واقعتا ایسا تھا، دوسرے ہمارے ہاں کے کن دوسرے لوگوں کی عربی میں استعداد سے وہ متاثر ہوئے؟

''مولانا عبدالعزیز میمن کاحافظہ غیر معمولی تھا۔ کلا سیکی ادب ان کی نظر سے بہت تفصیل سے گزرا تھا، اور وہ سب ان کے حافظے میں محفوظ تھا۔عرب بھی ان سے مرعوب تھے کہ غیر عرب ہوتے ہوئے بھی کلاسیکی ادب پرانھیں کس قدر عبور ہے۔یہ واقعی ان کا کمال تھا۔ مشاہیر میں ابوالحسن ندوی نے سب سے عمدہ عربی لکھی۔میمن صاحب کی عربی کلاسیکی انداز کی ہے۔آج کی عربی نہیں۔ ندوی صاحب کی عربی بڑی رواں دواں اور سلیس ہے۔ معاصر محاورے پر انھیں غیر معمولی قدرت تھی۔ پیر محمد حسن کو عربی میں بڑا کمال حاصل تھا۔ معاصرین میںظہور احمد اظہر کی عربی بولنے اور لکھنے کی صلاحیت نے متاثر کیا۔اپنے سے بعد میں آنے والوں میں کوئی ایسا نہیں، جسے آئوٹ اسٹینڈنگ کہا جا سکے۔''

ڈپٹی نذیر احمد کی عربی میں استعداد کس درجے پر تھی؟''ڈپٹی نذیر احمد کی استعداد اور ذوق کے بارے میں دو رائے نہیں۔بہت بڑے عالم تھے۔میمن صاحب کہا کرتے تھے، کہ انھوں نے بیسیووں استادوں سے استفادہ کیالیکن صحیح معنوں میں وہ ڈپٹی صاحب کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ڈپٹی صاحب میں علم سے آگے کی کوئی چیز تھی۔صرف عالم نہیں تھے، فنکار بھی تھے، تخلیقی آدمی تھے،ان کے ہاں جو تخیل تھا وہ نرے عالموں کے پاس نہیں ہوتا۔علمیت بھی بہت زیادہ تھی، اور عربی زبان پر قدرت بھی تھی اور اردو بھی بہت اچھی طرح جانتے تھے۔''

الف لیلہ جیسے شاہکار ، جس کو مغرب نے دنیا کے سامنے نمایاں کیا، عربوں کی اس سے بے اعتنائی کی وجہ جاننی چاہی تو وہ کہنے لگے '' عوام الناس کے لیے جو چیز جب تک فوکس میں نہ آجائے وہ اسے نہیں دیکھتے۔ مغرب میں کسی نے الف لیلہ کو پراجیکٹ کردیا تو انھوں نے بھی دیکھنا شروع کردیا۔مثلاً ہمارے ہاں اقبال کی ''اسرار خودی'' کو زیادہ اہمیت اس وقت ملی، جب نکلسن نے اس کا ترجمہ کردیا۔اس طرح کی چیزیں چلتی رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے چیزیں جو بعد میںبڑی اہم سمجھی گئیں، اپنے زمانے میں وہ اہم نہیں تھیں۔ ہر زمانے کی اپنی ترجیحات ہوتی ہے اور اب جب لکھی عربوں نے ہے تو یہ کیسے کہا جاسکتاہے کہ، عربوں نے اسے اہمیت نہیں دی۔''

طہٰ حسین صاحب اسلوب کے طور پر بے حد پسند ہیں لیکن علمی وتحقیقی اعتبار سے وہ انھیں سند نہیں مانتے۔نجیب محفوظ ان کے پسندیدہ ادیب ہیں۔ خلیل جبران انھیں پسند نہیں۔کہتے ہیں کئی بار اسے پڑھنا چاہا مگر وہ ان سے چلا نہیں۔ عربی کی راہ پربھی ان کی والدہ نے لگایا، شاعربن کر بھی ایک طرح سے انھوں نے والدہ کی خواہش کو پورا کیا، جنھیں شاعری سے فطری لگائو تھا اور چاہتی تھیں کہ خاندان میں کوئی تو شاعر ہو۔یہ آرزو ان کے فرزند ارجمند نے پوری کردی، جس نے اسکول کے زمانے میں ہی شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ محترم!علمی کاموں میں منہمک رہنے سے شاعری کا کس قدر متاثر ہوئی؟ ''وقت کے اندر مسام ہوتے ہیں۔ اس لیے آدمی ایک ہی وقت میں کئی کام کرنے کی اہلیت رکھتاہے۔شاعری تو باطنی جست ہے، جب آئے گی، کوئی چیزاسے روک نہیں سکتی۔آپ کسی علمی کام میں مصروف ہوں،وہ بیچ میںاپنی جگہ بنالے گی۔''

1967ء میں ان کی شادی ہوئی۔دو بیٹے ہیں۔دونوں بیرون ملک ہیں۔ چھوٹا بیٹاعاصم خورشیدشاعری بھی کرتا ہے۔انھوں نے اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ مل کر اس کا بکھرا کلام جمع کیا، اور اسے بتائے بغیر ''دوکھلے در''کے نام سے کتاب شائع کرادی اور شادی پر تحفے کے طور پر اسے پیش کرکے حیران اور خوشی سے سرشار کردیا۔انھیں مغربی معاشرے کو دیکھنے کا موقع بھی ملا ہے، ان کے بقول: ''مغرب ہم سے اپنے مجموعی نظام کی وجہ سے آگے ہیں، ٹیلنٹ کی بنا پر نہیں۔وہ نافذ کردہ نظام کی پابندی کرتے ہیں، اس لیے ادھر ٹیم ورک ممکن ہے۔ہم لوگ انفرادی کام بہتر کرتے ہیں،نظام کی پابندی اور حدود کا لحاظ نہیں کرتے۔افراد کی اہمیت اپنی جگہ اہم ہے مگر نظام کا مضبوط ہونا زیادہ اہم ہے۔'' زندگی سے انھیں کوئی شکوہ نہیں۔کہتے ہیں '' زندگی سے الحمد اللہ مطمئن ہوں۔زندگی میں مجھے میرے استحقاق سے زیادہ ملا ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں