انسان اور تسخیرِ کائنات

غاروں سے لے کر جدید دنیا تک کے اب تک کے سفر میں اﷲ تعالی کا قانون ِ تدریج عمل میں رہا اور ائندہ بھی رہے گا۔

غاروں سے لے کر جدید دنیا تک کے اب تک کے سفر میں اﷲ تعالی کا قانون ِ تدریج عمل میں رہا اور ائندہ بھی رہے گا۔ فوٹو : فائل

ہماری زندگی کا مقصد حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی معیاری تکمیل ہے، حقوق اﷲ اور حقوق العباد واضح ہیں اور آپ ﷺ کی سیرت میں ان حقوق کی ادائی کا معیار بھی واضح ہے۔

ہم میں سے ہر ایک کو ان دو قسم کے حقوق کی تکمیل کے حوالے سے دنیاوی زندگی میں اپنے اختیار اور شیاطین کی موجودی میں، ایک آزمائش سے دوچار کردیا گیا ہے۔ علوم ِ قرآن و حدیث ﷺ کا مقصد بھی یہی ہے کہ ان کے ذریعے حقوق اﷲ اور حقوق العباد کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ عام لوگوں کو یہ صراط ِ مستقیم، ان کی اپنی زندگی کے تناظر میں بالکل صاف نظر آئے اور یوں زندگی میں پیش آمدہ کسی دوراہے پر صراط ِ مستقیم طے کرنے کا امکان میسر رہے۔ لیکن صراط ِ مستقیم پر چلنے کے بعد بھی کام یابی اﷲ کی مرضی پر منحصر ہے۔ ہم مسلمان، بچپن سے لڑکپن اور جوانی سے ادھیڑ عمری اور پھر بڑھاپے تک، صراط ِ مستقیم کو طے کرنے کے عمل سے دوچار رہتے ہیں اور یہ سب تدریجا ہوتا ہے۔

مادی علوم میں بھی انسانیت تسخیر ِ کائنات کے امکانات ممکن بنانے کے لیے کوشاں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں علمی، تکنیکی، فلسفیانہ، معاشرتی اور سماجی تبدیلیاں آئی ہیں۔ زندگی کی مقصدیت، مادیت اور مابعد الطبعیاتی حوالوں سے انسانی رویے، بہت سی غلطیوں کے مرتکب ہونے کے بعد رفتہ رفتہ ترقی پذیر ہوئے ہیں۔

بہ مطابق سورہ الیل سیدھی راہ کا بتا دینا اﷲ سے منسوب ہے۔ لہذا اﷲ تعالی نے مختلف ادوار میں کتابیں اور صحیفے نازل فرمائے ہیں۔ ہمارے لیے ہمارے پیارے نبی ﷺ پر معجزاتی کتاب قرآن ِ مجید کی شکل میں اتاری گئی ہے اور آپ ﷺ کی زندگی کا ہر ایک لمحہ محفوظ کر دیا گیا ہے۔ دوسری طرف، اﷲ تعالی نے مادی علم کی ترسیل کو قلم کے ذریعے تدریجا ً ممکن بنایا۔ خود قرآنی احکامات اور آیات بھی اﷲ تعالی کے تدریج کے قانون کے تحت اترے ہیں۔

ضروری ہے کہ اﷲ تعالی کے علم اور تکنیک اور انسانی علمی اور تکنیکی صلاحیت میں فرق بھی سامنے رہے۔ اﷲ تعالی کا علم اﷲ کی وہ قوت ہے کہ جس کے ذریعے سے اﷲ تعالی اس کائنات کی ہر ایک چیز کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں پر ایک فیصلہ کن دست رس رکھتے ہیں اور اس دست رس کو برقرار رکھنے کے لیے اﷲ تعالی کو کوئی کوشش نہیں کرنا پڑتی۔ جب کہ انسانی علم، انسان کی وہ صلاحیت ہے کہ جس کی مدد سے وہ اس کائنات کی چند اشیاء کے منفی یا مثبت پہلوؤں پر محدود اور تحفظ پذیر دست رس رکھتا ہے اور انسان کو اپنی اس دست رس کو برقرار رکھنے کے لیے مسلسل کوشش کرنا پڑتی ہے۔ یہ کوشش بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ تدریجا ً بڑھتی ہوئی تعلیم سے عبارت ہے۔

سورہ الانبیاء آیت 69 '' ہم نے فرمایا اے آگ تو ابراھیم کے لیے سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہوجا۔''

سورہ البقرۃ آیت 50 ''اور ہم نے تمہارے لیے دریا پھاڑ دیا اور تمہیں اس سے پار کرا دیا اور فرعونیوں کو تمہارے سامنے اس میں ڈبو دیا۔''


سورہ البقرۃ کی آیت 259 '' اس شخص کی مانند کہ جس کا گذر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی تھی وہ کہنے لگا کہ اﷲ تعالی اس کی موت کے بعد اسے کیوں کر زندہ کرے گا ؟ تو اﷲ تعالی نے اسے سو سال کے لیے مار دیا۔ پھر اسے اٹھایا، پوچھا کتنی مدت تم پر گذری؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا ایک حصہ۔ فرمایا تو سو سال اس طرح رہا۔ اب تم اپنے کھانے کی طرف نظر کرو، وہ بالکل سڑا بسا نہیں ہے۔ اور اپنے گدھے کی طرف بھی دیکھ ہم تجھے لوگوں کے لیے نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم کس طرح ہڈیوں کو اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ جب یہ سب کچھ ظاہر ہو چکا تو کہنے لگا کہ میں جانتا ہوں کہ اﷲ ہر چیز پر قادر ہے۔''



ان چند قرآنی حوالوں سے واضح ہے کہ اﷲ کا علم مادی و غیر مادی اشیاء کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں پر فیصلہ کن برتری کا حامل ہے۔ کسی بھی جائز علم کے معیار کا تعین اس علم کے ذریعے دست یاب ہونے والے قرب الی اﷲ کے مواقع سے ہے۔ اﷲ کی کائنات میں پھیلی اﷲ کی تمام مادی نشانیوں میں قرب ِ الہی کے تمام مواقع موجود ہیں یہی وجہ ہے اﷲ تعالی نے قرآن مجید میں جا بہ جا ان مادی نشانیوں پر غور و فکر کی عام دعوت دی ہے۔ علم و عمل کے بعد بھی کام یابی و ناکامی اﷲ کی مرضی پر منحصر ہے۔ مادی علوم میں سب انسان کائنات کی تسخیر کے لیے اپنی صلاحیتوں کو آزماتے آئے ہیں مگر کام یابی کی ایک نسبتا واضح اور بہتر عملی صورت آج کے دور میں ہی کیوں ممکن ہوئی۔۔۔ ؟

غاروں سے لے کر جدید دنیا تک کے اب تک کے سفر میں اﷲ تعالی کا قانون ِ تدریج عمل میں رہا اور ائندہ بھی رہے گا۔ اﷲ تعالی نے انسان کو تدریج کے ساتھ علم کی دولت سے فیض یاب کیا ہے۔ انسان کو آج تمام تر علمی اور تکنیکی ترقی حاصل کرنے کے بعد بھی آفاقی مظاہر پر ناتمام تسخیر ہی حاصل ہے۔ اس سے کائنات پر اﷲ تعالی زبردست گرفت کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر اﷲ تعالی نے سورہ ابراہیم آیت 33 میں کہا ہے کہ اسی نے سورج اور چاند کو ہمارے لیے مسخر کر دیا ہے لیکن مسخر کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سورج کو اب انسان جس سمت سے چاہے نکال سکتا ہے بل کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج پر تحقیق کرکے انسان اپنی زندگی کے اعتبار سے، سورج کے کچھ منفی اور مثبت پہلوؤں پر محدود اور ناتمام دست رس حاصل کر سکتا ہے۔

سورہ البقرۃ آیت 258 '' کیا تم نے اسے نہیں دیکھا جو بادشاہت پاکر ابراہیم ؑ سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا، جب ابراہیم ؑ نے اسے یہ کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے تو اس نے کہا کہ جلا اور مار تو میں بھی سکتا ہوں تو ابراہیم ؑ نے کہا کہ میرا رب سورج کو مشرق سے نکالتا تو اسے مغرب کی طرف سے لے آ، یہ سن کر کافر حیران رہ گیا اور اﷲ تعالی ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔''

یوں تدریج سے تسخیر ِ ناتمام تک کے سفر میں انسان کے لیے واضح ثبوت فراہم ہوتے ہیں کہ وہ خالقِ کائنات کی کامل گرفت میں ہے۔ انسان اس کائنات میں علم اور اختیار کے ساتھ ضرور بھیجا گیا ہے مگر اس کا یہ علم اور اختیار محدود ہے۔
Load Next Story