وہ موت جس پر زندگی بھی فخر کرے
جیسے جیسے ڈھاکا کے قتل عام کی یاد معدوم ہو رہی ہے تو بہادری و بے جگری کی حیرت انگیز مثالیں سامنے آ رہی ہیں
KARACHI:
جیسے جیسے ڈھاکا کے قتل عام کی یاد معدوم ہو رہی ہے تو بہادری و بے جگری کی حیرت انگیز مثالیں سامنے آ رہی ہیں ان میں سے ایک فراز حسین کی مثال بھی ہے۔ وہ امریکا کے ایک کالج میں اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کر رہا تھا جو چھٹیوں میں والدین سے ملنے گھر آیا تھا اس نے گھر میں تھوڑا ہی وقت گزارا کہ غیر ملکی آب و ہوا سے آنے والے اپنے دوستوں سے ملاقات کے لیے ڈھاکا کے پوش علاقے گلشن کے مشہور ہسپانوی ریسٹورنٹ ''ہولی آرٹیزن بیکری'' پہنچ گیا۔ جب داعش کے دہشت گردوں نے حملہ کیا فراز اپنے دوستوں کے ساتھ ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہا تھا۔ حملہ آور بنگلہ دیشیوں کو غیر ملکیوں سے الگ کر رہے تھے جس کے بعد انھوں نے اندھا دھند فائرنگ کر دی۔
وہ اس میز پر آئے جہاں فراز بیٹھا تھا۔ انھوں نے پوچھا' تم بنگلہ دیشی ہو یا غیر ملکی؟ اس نے جواب دیا' بنگلہ دیشی۔ اس پر دہشت گردوں نے اسے وہاں سے اٹھا کر پرے دھکیل دیا پھر دوسروں سے ان کی قومیت کے بارے میں استفسار کیا۔ سوائے فراز کے جب سب نے بتایا وہ غیر بنگلہ دیشی ہیں تو انھوں نے خود کار رائیفل سے فائرنگ شروع کر دی۔ فراز نے احتجاج کرتے ہوئے کہا' وہ بھی اپنے دوستوں کے گروپ کے ساتھ ہے اور ان سے الگ ہونا نہیں چاہتا تو حملہ آوروں نے کہا کہ اگر تم ادھر گئے تو تم بھی مار دیے جاؤ گے تاہم فراز نے اپنے غیرملکی دوستوں کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دی۔
اسے پتہ تھا اس کی قیمت اس کی زندگی ہو سکتی ہے۔ دہشت گردوں نے کوئی رحم نہ کھایا اور اسے بھی دوستوں کے ساتھ مار ڈالا۔ آج جب ڈھاکا قتل عام کی بات ہوتی ہے تو فراز کی جرات و شجاعت کا ذکر بھی آتا ہے۔ شاید یہ تعریف اس کے والدین اور والدین کے والدین کے لیے کچھ معنی نہ رکھتی ہو گی جنھیں میں بڑی اچھی طرح جانتا ہوں۔
سچ تو یہ ہے کہ میں نے رات کا کھانا بھی انھی کے گھر کھایا جو بہت سادہ مگر نہایت آسودہ زندگی گزار رہے ہیں۔
فراز سے میری ملاقات اس کے دادا کے گھر پر ہوئی تھی جس سے میں نے امریکا کے بارے میں بات چیت کی اور اپنے نوٹس کا تبادلہ کیا تھا میں نے بھی شمال مغربی یونیورسٹی سے جنرلزم میں ایم ایس سی کیا تھا۔ اس کے طرز عمل میں کچھ بھول پن تھا مگر اس کا رویہ اور نظریات مستحکم تھے۔ اگرچہ اس کا بہت مالدار گھرانے سے تعلق تھا لیکن اس میں غرور اور نخوت کا شائبہ تک نہیں تھا۔ وہ بھارت کے بارے میں جاننے کے لیے دلچسپی رکھتا تھا لیکن اس نے کہا کہ کبھی فرصت کے وقت وہاں جائے گا۔
وہ ہماری رنگا رنگ ثقافت سے بہت متاثر تھا اور چاہتا تھا کہ بنگلہ دیش میں ویسا ہی معاشرہ قائم ہو جائے کیونکہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی تعداد تقریباً بارہ ملین (ایک کروڑ بیس لاکھ) تک ہے جو کہ بھارت اور نیپال کے بعد ہندو اکثریت کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ میں نے قتل عام کے بارے میں تفصیلات اکٹھی کرے کوشش کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فراز نے اپنی جان اپنے غیر ملکی دوستوں پر قربان کر دی کیونکہ اصل میں حملہ ہی ان پر کیا گیا تھا۔ اس سے ایک ایسی داستان کا علم ہوتا ہے جو ناقابل یقین بہادری کی آئینہ دار ہے۔ اگرچہ آج اس کی بہادری اور قربانی کا ذکر بنگلہ دیش کے گھر گھر میں ہو رہا ہے مگر اس سے ان کے والدین اور والدین کے والدین کا دکھ کم تو نہ ہو گا جنہوں نے اپنے گھرانے کا ممتاز ترین اور ہونہار نوجوان کھو دیا۔
مشرق میں قربانی کی اس قسم کی مثالیں نئی نہیں۔ یہ مشرقی تہذیبی نظام اور اخلاقی اقدار کا تقاضا ہے جہاں پر افراد کو ان کے مال و دولت کی بنا پر توقیر نہیں دی جاتی جیسا کہ مغرب میں ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال مہاتما گاندھی ہیں۔ وہ خود کو ''نانگا فقیر'' کہلوانے کو ترجیح دیتے تھے اور اہل مغرب بھی ان کو یہی سمجھتے تھے بجائے اس کے کہ انھیں ان کی دولتمندی یا اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے دیکھیں حالانکہ ان کے پاس یہ دونوں چیزیں بھی موجود تھیں۔ مغرب والے نہ تو گاندھی کی عدم تشدد کی تحریک کو سمجھ سکے ہیں اور نہ ہی اس کی ستائش کی۔
ضروری نہیں کہ فراز حسین گاندھی جی کا پیروکار ہو لیکن فراز نے جس جذبے کا عملی مظاہرہ کیا ہے وہ گاندھی ہی کی سوچ کا حصہ ہے۔ بھارت میں جہاں کہیں فراز کا نام آتا ہے تو لوگ گاندھی کا ذکر بھی شروع کر دیتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ لوگ اپنے بچوں کا نام اس کے نام پر رکھیں گے اور یہ صرف بنگلہ دیش اور بھارت ہی میں نہیں ہر جگہ ایسا ہو گا۔ کم از کم اسکول کی نصابی کتابوں میں ایک باب اس کے نام منسوب ہونا چاہیے۔ اس کا مقصد ہندو مسلم اتحاد کو بڑھاوا دینا نہیں بلکہ نوجوانوں کو فراز کے بارے میں فخر کرنے کا موقع دینا ہے تاکہ وہ اپنے بڑوں کو یہ بتانے میں کامیاب ہو سکیں کہ فراز نے جو مثال قائم کی ہے اس سے مشرقی تہذیب اور اخلاقی اقدار کی آئینہ داری ہوئی ہے۔
مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ غیر بنگلہ دیشی فراز کو کس انداز میں یاد کر رہے ہوں گے۔ ان سب کو اپنے ملکوں میں فراز کا ذکر پھیلانا چاہیے تاکہ مختلف مذہبوں' نسلوں کے لوگ اس بات پر فخر محسوس کر سکیں کہ ایک عام نوجوان کس جرات اور استحکام کے ساتھ اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا جب کہ وہ بآسانی اپنی جان بچا سکتا تھا۔ یہ کسی خاص مذہب کی خصوصیت نہیں جس سے کہ آپ متعلق ہوں بلکہ ہر مذہب کی اصل حقیقت یہی ہے کہ عوام میں ایسا جذبہ پیدا کیا جائے کہ وہ فرقہ بندی کی سوچ سے بالاتر ہو کر پوری انسانیت کی سوچ کو مقدم جانیں۔ اس بات پر افسوس ہے کہ بھارت ایسی اعلیٰ مثالیں قائم کر سکتا تھا لیکن وہ عصبیت پرستی کے پراپیگنڈے کا شکار ہو گیا۔ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت پوری آبادی کی نمایندگی کا دعویٰ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
عورتوں پر مظالم کے بارے میں لکھنے والی بنگلہ دیش کی ادیبہ تسلیمہ نسرین جسے ملک سے نکال دیا گیا تھا' اس نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنا باطنی جائزہ لے کر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آخر وہ کیوں دین کی اصل حقیقت تک نہیں پہنچ سکے۔ فراز اس طریقہ کار کی یقیناً حمایت کرتے۔ ہندوؤں' مسلمانوں' سکھوں اور عیسائیوں میں جو متعصب لوگ موجود ہیں انھیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ بھارت ایک رواداری کا حامل ملک ہے جسے مختلف برادریوں کو ڈسٹرب کر کے دنیا میں بھارت کی ساکھ کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)