ایدھی صاحب

جس کی حقیقت پر اس لیے کسی اضافے کا گمان ہوتا ہے کہ ایک انسان اور ایک زندگی کی مہلت میں ایسی مثال کم کم ہی نظر آتی ہے


Amjad Islam Amjad July 14, 2016
[email protected]

بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جن کے نام کے ساتھ صاحب کا اسم توصیف رسمی اخلاقیات سے ہٹ کر دل کی اتھاہ گہرائیوں اور سچائیوں کے ساتھ لگانے کو جی چاہتا ہے عبدالستار ایدھی مرحوم کا شمار بھی ایسے ہی انمول اور کمیاب انسانوں میں ہوتا ہے ان کی سادگی' خلوص' انسانیت سے محبت اور بے مثال سماجی خدمات کے بارے میں ان کی زندگی میں بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے اور اب ان کی وفات کے بعد تو اس کی مزید تفصیلات بھی سامنے آ رہی ہیں یہ ایک ایسی روشن اور مثالی زندگی کی کہانی ہے۔

جس کی حقیقت پر اس لیے کسی اضافے کا گمان ہوتا ہے کہ ایک انسان اور ایک زندگی کی مہلت میں ایسی مثال کم کم ہی نظر آتی ہے ایدھی صاحب کے پاس دنیا داری کے اعتبار سے ''بڑائی'' والی شاید کوئی بھی بات نہیں تھی نہ تعلیم نہ دولت' نہ حسن شکل و صورت' نہ عہدہ نہ زور و زر اور نہ ہی کسی نام نہاد ''این جی او'' کی اعانت اور سرپرستی کہ جس کے ڈالروں سے لوگوں کے ایمانوں یا سادگی اور کم علمی کے سودے کیے جاتے ہیں وہ ایک بھولے بھالے' دویش صفت اور خلیق سیرت کے حامل ایک ایسی عام سی وضع قطع کے انسان تھے جن کو ہم عام طور پر دیکھ کر بغیر رکے گزر جاتے ہیں مجھے یاد ہے آج سے تقریباً 35 برس قبل جب ایک فنون لطیفہ سے متعلق ایوارڈز کی تقریب میں تھے ان سے پہلی بار ملنے کا موقع ملا تو انھوں نے جو لباس پہن رکھا تھا وہ اایک ایسے لاوارث مردے کے جسم سے اترا ہوا تھا ۔

جس کو خود ایدھی صاحب نے اپنے ہاتھوں سے غسل میّت دے کر دفن کیا تھا حالانکہ وہ اگر چاہتے تو اس سے کہیں بہتر اور قیمتی لباس آسانی سے افورڈ کر سکتے تھے مگر ان کے اس عمل میں رسول پاکؐ کی اس سنت کا اتباع تھا کہ کسی بات کی تلقین کرنے سے پہلے خود اس پر عمل کر کے دکھاؤ کہ ایک عملی مثال سیکڑوں زبانی تقریروں سے زیادہ بہتر اور موثر ہوتی ہے اس تقریب میں بڑے بڑے صاحبان گفتار اور سامعین کو سحرزدہ کر دینے والے دانشور شامل تھے لیکن ایدھی صاحب کے چند سادہ' عام فہم اور خدمت خلق سے متتعلق شکستہ انداز میں کہے گئے جملوں نے نہ صرف اس وقت میلہ لوٹ لیا بلکہ آج بھی میں اپنی روح میں ان کا اثر محسوس کر سکتا ہوں۔

وہ گزشتہ کچھ عرصے سے بہت علیل تھے اور اگرچہ دل اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھا کہ وہ اب اس دنیا سے پردہ کرنے والے ہیں مگر دماغ بار بار یاد دہانی کرا رہا تھا کہ ''جب احمد مرسل نہ رہے کون رہے گا!'' اس دوران میں اخبارات میں ان کی جو تصویریں شایع ہوئیں ان میں واضح طور پر یہ تو محسوس ہو رہا تھا کہ موت کی زردی ان کے رخساروں پر پھیلنا شروع ہو گئی ہے لیکن اس عالم میں بھی وہ خاص طرح کی روحانیت سے لبریز جاذبیت ان کے چہرے پر موجود اور قائم تھی جو ان کی شخصیت کا لازمی جزو بن چکی تھی اور جس کی وجہ سے وہ ہر محفل میں دور سے اور الگ سے پہچانے جاتے تھے معمولی سے کپڑوں میں ملبوس اور ایک عام سی چپل پہنے ہوئے وہ جب بھی کسی محفل میں داخل ہوتے سب کی نظریں انھی پر مرکوز ہو جائیں اور سب اہل زور و زر اور بنی سجی شکلوں والے اہل جمال اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے

اس سادہ رو کے بزم میں آتے ہی بجھ گئے

جتنے تھے اہتمام' زیادہ کیے ہوئے

ان کی وفات کے بعد سے ان کو یاد کرنے اور مناسب تعظیم دینے کے لیے طرح طرح کے بیانات سامنے آ رہے ہیں جن میں سے ایک اسلام آباد کے ہوائی اڈے کو ان کے نام سے معنون کرنا ہے بلاشبہ یہ بہت اچھی تجویز ہے اور وہ سب لوگ قابل تعریف ہیں جو ان کے بارے میں اس طرح کی باتیں سوچ رہے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ شاید یہ ایئرپورٹ والی بات سب سے پہلے میرے ایک بہت عزیز اور محترم دوست امتیاز پرویز نے کی کہ ایدھی صاحب کی رخصت کے چند منٹ کے بعد انھوں نے SMS پر جو میسج مجھے بھیجا اس کے آخر میں یہ آئیڈیا بھی دیا کہ اگر اسلام آباد کے نئے ایئرپورٹ کا نام ایدھی ایئرپورٹ رکھ دیا جائے تو اس سے دنیا کو پاکستان کے Soft Image کے بارے میں جو پیغام جائے گا وہ شاید ہزاروں سیاسی اور حکومتی بیانات مل کر بھی نہ دے سکیں کہ ایدھی صاحب اس انسانیت کی خدمت کے علم بردار تھے جو ابن آدم کا اجتماعی ورثہ ہے۔

ان کی وفات سے کوئی ایک ماہ قبل مجھے ایک ہی دن میں برادرم یوسف صلاح الدین اور ڈاکٹر ہما بیگ کے پیغامات ملے کہ وہ تمام ایدھی دوستوں کو ساتھ ملا کر ان کی خدمات کے اعتراف میں کچھ اور منصوبوں کے ساتھ ساتھ ایک خصوصی گیت بھی تیار کرنا چاہتے ہیں جس میں ملک بھر کے نمایندہ گلوکار مل کر ایدھی صاحب کی خدمت میں ہدیہ عقیدت پیش کریں گے اور جسے بہترین انداز میں پروٹویوس کرنے کے بعد دنیا بھر میں پھیلا دیا جائے گا اور یہ کہ اس کے لیے بطور شاعر انھوں نے میرا انتخاب کیا ہے میں نے نہ صرف فوراً اس ''سعادت'' کو قبول کیا بلکہ دو تین دنوں میں اسے مکمل کر کے متعلقہ احباب کو بھجوا بھی دیا آخری اطلاعات کے مطابق نئی نسل کے بہت ہی ہونہار موسیقار ساحر علی بگا اسے کمپوز کر رہے ہیں امید کی جانی چاہیے کہ بہت جلد یہ گیت تیار ہو کر آپ تک پہنچ جائے گا کہ ایسی ہستیاں ہی اقبال کے اس شعر جیسی ہوتی ہیں کہ

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں

یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

ایدھی صاحب کے صرف سانسوں کا رشتہ منقطع ہوا ہے ان کا جذبہ' ان کے نظریات اور ان کی انسان دوستی آج بھی زندہ ہے اور انشاء اللہ تا حشر سلامت رہے گی۔

میں نے ایدھی صاحب کے لیے ایک نظم شروع کر رکھی ہے اس کی ابتدائی چند لائنیں درج کر رہا ہوں مکمل ہونے پر انشاء اللہ پوری نظم بھی پیش کر دی جائے گی

وہ اک منارہ تھا روشنی کا

سمندروں کی بپھرتی لہروں

سیاہ راتوں کی تیرگی میں

سلامتی کا پیام بر تھا

خود آگہی کا تھا وہ ستارہ

کہ جس کی جھل مل تھی

کہکشاؤں کے سارے چاندوں کی

چاندنی سے بھی کچھ زیادہ

وہ ایک دھارا تھا روشنی کا

وہ استعارہ تھا زندگی کا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔