سوشل ڈیموکریسی کی تعمیر

پاکستان انتقام پر یقین رکھنے والی سیکیورٹی اسٹیٹ ہے

ayazbabar@gmail.com

پاکستان انتقام پر یقین رکھنے والی سیکیورٹی اسٹیٹ ہے۔ اس قسم کی خارجہ پالیسی رکھنے والاملک سوشل ڈیموکریٹک اسٹیٹ نہیں ہو سکتا، کیوں کہ یہ دونوں چیزیں ساتھ نہیں چل سکتیں، جو ملک سوشل ڈیموکریٹک ریاستوں کی حیثیت سے کامیاب رہے ہیں، وہ طویل عرصے سے پرامن حالات کے ثمرات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہاں ہم سوئیڈن کی مثال لیتے ہیں، جس کا کسی دوسرے ملک کے علاقے پرکوئی دعویٰ نہیں ہے اور اس نے دونوں عالمی جنگوں میں خود کو غیرجانبدار رکھا۔اس سے سوئیڈن کے عوام کو ایک ایسا سوشل ڈیموکریٹک ملک قائم کرنے میں مدد ملی جسے پوری دنیا میں ایک مثال سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان کی موجودہ حکومت پر اس وجہ سے تنقید کی جا رہی ہے کہ اس میں ملک کی سمت طے کرنے کا شعور نہیں ہے، خارجہ پالیسی کے فوری نوعیت کے معاملات پر غور و خوض کے لیے کابینہ کا اجلاس نہیں بلایا جاتا اور کوئی باقاعدہ وزیر خارجہ نہیں ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم نوازشریف کومبینہ طور پر بدعنوان کہا جا سکتا ہے مگر جب انھوں نے خارجہ پالیسی کی سمت تبدیل کرنے کی کوشش کی تو اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ان کے ہاتھ باندھ دیے گئے۔ چنانچہ وہ اپنی حکومت کی باقی مدت پوری کرنے کے لیے خارجہ پالیسی کی رہنمائی کے حق سے دستبردارہو گئے۔ اب سرتاج عزیزکا کام یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ پھر بھی انھیں اتنا اختیار ہے کہ وہ یوگنڈا جیسے ملکوںکے معاملات نمٹا سکیں۔طارق فاطمی، اہم ملکوں کے سفیروں کو چھوڑ کر ہمہ وقت دفتر خارجہ کے اسٹاف کے تقرر و تبادلے میں مصروف رہتے ہیں۔

چین اور ویت نام جب سے مارکیٹ سوشلزم کی طرف آئے ہیں۔ ان کی غربت کم ہوئی ہے اور لوگوں کوایک بہتر طرز زندگی میسر ہوئی ہے۔ مارکیٹ سوشلزم کے ساتھ جو نمایاں تبدیلی آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کاروباری اداروں کی ملکیت اور مینجمنٹ میںتبدیل ہو جاتی ہے، جب کہ سوشل ڈیموکریسی، فلاحی پروگراموں پر سرمایہ کاری کے لیے زراعانت اور نجی ملکیت کے اداروں پر ٹیکس لگا کر یہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ پاکستان میں کرپشن کے معاملے پر سوشل سیکیورٹی کے مسائل سے زیادہ توجہ مرکوز رہتی ہے، حالانکہ ان دونوں کا ایک دوسرے سے تعلق ہے۔

حزب اختلاف اور میڈیا اس کو اس لیے اچھالتے ہیں کہ یہ آسانی سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنیوالا معاملہ ہے۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ کرپشن اہم معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ جب ہم صرف کرپشن کا ذکرکرتے ہیں تو اس اداراتی ڈھانچے کی بدانتظامی سے توجہ ہٹ جاتی ہے جو عوام کی فلاح وبہبود کے لیے قائم کیا گیا تھا۔سوئیڈن جیسے ملکوں میں تعلیم مفت ہے، اگرکوئی شہری کسی موضوع پر ڈاکٹریٹ کرنا چاہتا ہے تو بھی یہ سہولت مفت ہے۔ صحت کی دیکھ بھال ریاست کی ذمے داری ہے، اسی لیے لوگ طویل اور صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔ شہریوں کو پنشن اور بے روزگاری الاؤنس دیا جاتا ہے تا کہ انھیں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔


انھیں اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی اور یہ ایک بہت بڑی وجہ ہے جو ہم جیسے معاشروں میں لوگوں کو ٹیکس چوری کرنے اور بد عنوانی کی دوسری حرکتوں کی ترغیب دیتی ہے۔مگر ان ملکوں میں لوگوں کے سماجی تحفظ کے پروگراموں پر سرمایہ کاری کے لیے حکومت بہت زیادہ ٹیکس عائد کرتی ہے جس کی شرح43 سے51 فیصد کے درمیان ہے۔ اپنے سوئیڈن اور ڈنمارک کے حالیہ دورے کے دوران میں نے دیکھا کہ لوگ سوشل ڈیموکریٹک سسٹم سے خوش ہیں۔ وہ ٹیکس وصولی کی بہت زیادہ شرح سے پریشان نہیں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست سوشل سیکیورٹی پر بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتی ہے اور ان ملکوں کے لوگ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔ معاشیات کے معتبر عالمی جریدے ''اکانومسٹ'' نے ان ملکوں کے نظام حکومت کو بہترین قرار دیا ہے۔

سوشل ڈیموکریسی کا ایک اہم ستون ٹریڈ یونین تحریک ہوتی ہے، جو پاکستان میں ختم ہوتی جا رہی ہے، اگرچہ ان شمالی سوشل ڈیموکریٹک ملکوں میں سرمایہ داری نظام رائج ہے مگر یہاں ایک ایسا سہ فریقی نظام کام کر رہا ہے جس میں مالکان، حکومت اور کارکنوں کے درمیان زبردست مفاہمت پر مبنی خوش گوار تعلقات قائم ہیں۔ پاکستان میں کئی دہائیاں قبل ایک سہ فریقی نظام وضع کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں محنت کش طبقات کو کچھ سہولت ملی تھی۔ پاکستان میں بھی سوشل ڈیموکریٹس کے ایجنڈے میں ٹریڈ یونین ازم کا استحکام شامل ہونا چاہیے اور انھیں حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ سہ فریقی نظام کو بحال کرے تا کہ شرائط ملازمت طے ہوں اور وقتاً فوقتاً ان پر نظرثانی ہوتی رہے۔

پاکستان میں کسی حد تک سوشل سیکیورٹی کا بنیادی، قانونی اور اداراتی ڈھانچے موجود ہے، سوشل ڈیموکریٹک فورسزکو اس پر غور و غوض کرنا چاہیے۔ پاکستان کا آئین سوشل سیکیورٹی کو واضح طور پر ہر شہری کا حق قرار دیتا ہے۔ آئین پاکستان کے پالیسی اصولوں کے آرٹیکل38 (d) اور (e) میں کہا گیا ہے کہ '' ریاست، سروس آف پاکستان میں ملازم افراد یا دوسرے ملازمین کو لازمی سوشل انشورنس کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے سوشل سیکیورٹی فراہم کرے گی ۔ صنف، نسل، مذہب اور ذات پات کے امتیاز سے قطع نظر، ایسے تمام شہریوں کو روٹی، کپڑے، مکان، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرے گی، جو مستقل یا عارضی طور پر کسی معذوری یا بیماری کی وجہ سے روزی کمانے کے قابل نہیں ہیں، یا بے روزگار ہیں اور آمدنی میں تفریق کوکم کرے گی۔

EOBI اورپراونشل سوشل سیکیورٹی انسٹیٹیوشنز جیسے ادارے موجود ہیں جو غیر زرعی لیبر فورس کے صرف9 فیصد کا احاطہ کرتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق معیشت میں روزگارکے زیادہ ترمواقعے informal سیکٹر میں نکل رہے ہیں مگر لیبر فورس کے تناسب سے ان دو اداروں کا کوریج کا تناسب کم ہو رہا ہے۔

یہ دباؤ بھی ڈالنا چاہیے کہ ایسے ادارے محنت کش طبقے کے کوریج کوبڑھائیں، جن کی یہ ذمے داری ہے۔formal اورinformal انڈسٹریل اورکمرشل، دونوں شعبے اس نیٹ ورک میں آنے سے بچتے ہیں۔زرعی شعبے کے کارکنوں کو سماجی تحفظ کی اسکیموں میں مناسب طریقے سے شامل نہیں کیا جاتا، حالانکہ یہ طبقہ سب سے زیادہ استحصال زدہ اور غریب ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، بشمول دوسرے وسیلہ پروگراموں اور زکوٰۃ اسکیموں سے شاید ہی رتی برابر فرق پڑا ہو۔جو کام ضروری ہے وہ پہلے کیا جانا چاہیے اور لوگوں کے آج کو نظر نہ آنے والے مستقبل پرنہیں چھوڑنا چاہیے۔
Load Next Story