سندھی ادب کی نامور شخصیت طارق اشرف آخری حصہ
عبدالستار پیرزادو جو طارق کے قریبی دوستوں میں سے ایک تھے
ISLAMABAD:
عبدالستار پیرزادو جو طارق کے قریبی دوستوں میں سے ایک تھے، جس کے گھر پر اکثر طارق آتے رہتے تھے اور ستار پیرزادو بھی طارق کے دفتر اور گھر میں آتے جاتے رہتے تھے، خاص طور پر اس کا ساتھ طارق کے کام آیا، جب طارق جیل میں تھا یا پھر جب پولیس طارق کو پکڑنے کے لیے گھر پر چھاپے مارتی تھی تو وہ ستار پیرزادو کے گھر پر چھپ جاتے تھے، اس کے علاوہ جب کمپیوٹر سسٹم پاکستان میں آیا تو طارق نے اپنے میگزین کو کمپیوٹر پر لانے کی شروعات کی اور حیدرآباد سے کراچی آتے تھے اور ستار پیرزادو کو اپنے ساتھ لے کر پورا پورا دن کبھی رات بھر اپنے ساتھ رکھتے تھے۔
جب طارق جیل میں تھا تو ستار اس کو اپنی ذمے داری سمجھتے تھے کہ وہ طارق کی ماں کے پاس چلے جاتے تھے اور اس کے گھر کے کام کاج کے لیے پوچھتے تھے، خاص طور پر وہ طارق کی ماں کا خیال رکھتے اور اسے علاج معالجے کے سلسلے میں پوچھتے رہتے تھے۔ طارق کی ماں ایک دلیر عورت تھیں جو دلیرانہ طریقے سے پولیس والوں سے نمٹتی تھیں، جب وہ طارق کی تلاش میں اکثر گھر پر چھاپے مارتے رہتے تھے۔
طارق کا ''سوہنی'' میگزین کا اجرا بھی ایک اتفاق ہے، کیوں کہ جب سندھی ادب کا ایک بڑا نام حمید سندھی ایک میگزین ''روح رھان'' نکالتے تھے جس میں طارق اشرف اپنی کہانیاں اور دوسری تحریریں بھیجتے تھے، ایک دن ہوا ایساکہ کوئی تحریر حمید سندھی کے رسالے میں شایع نہیں ہوئی جس کے لیے طارق نے ان سے شکایت کی کہ آپ نے میری تحریر اپنے تازہ شمارے میں شامل نہیں کی ہے۔
جس پر حمید نے ناراض ہوتے ہوئے کہا کہ تمہیں کیا پتہ کہ میگزین نکالنا کتنا مشکل ہے، ان الفاظ نے طارق میں یہ اعتماد پیدا کیا کہ وہ نہ صرف میگزین شایع کرے گا بلکہ وہ سندھی ادب پر ایک معیاری رسالہ ہو گا۔ اور اس نے یہ سب کچھ کر کے دکھایا۔ آگے چل کر حمید کا رسالہ بند ہو گیا اور طارق کے میگزین کو عروج حاصل ہو گیا۔ طارق نے ماہانہ سوہنی کے علاوہ اس کی خاص اشاعت بھی نکالی، جو خاص طور پر شیخ ایاز، کہانی نویس نسیم کھرل اور امر جلیل پر تھے۔ باقی تین چھوٹے اسپیشل اشاعت بھی مارکیٹ میں لائے جس نے بڑی دھوم مچائی اور سندھی ادب کی دنیا میں ایک ریکارڈ بن گیا۔
طارق اشرف ذوالفقار علی بھٹو سے بڑے متاثر تھے اور جب پی پی پی بنی تو اس نے اپنے گھر پر جو حیدرآباد کھوکھر محلہ میں تھا اور جہاں پر جماعت اسلامی کا غلبہ تھا پی پی پی کا جھنڈا لہرایا اور الیکشن میں پارٹی کی حمایت کی۔ جب بھٹو اقتدار میں آئے تو طارق نے بھٹو کو سندھ کے مسائل اور اس سے ہونے والی زیادتیوں کو اپنے ایڈیٹوریلز میں پوائنٹ آؤٹ کیا، تا کہ بھٹو باخبر رہیں۔
اکثر ایجنسیوں کے نمایندے سوہنی کے خلاف الٹی رپورٹیں بھیجتے تھے تا کہ حکومت سمجھے کہ طارق حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف ہے۔ آخر ایک دن ایک اشاعت میں امر جلیل کی کہانی سرد لاش جو سفر شایع ہوئی، جس میں شاید دو مذہبی گروہوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہونے کا خطرہ تھا۔ اب پولیس نے طارق کے خلاف مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی، مگر اس سے پیشتر اطلاع ملنے پر وہ روپوش ہو گئے۔ اس دوران امر جلیل نے بھی اپنا تبادلہ اسلام آباد کروا لیا۔ آخرکار ایک دن طارق کو گرفتار کر لیا گیا، اس کا میگزین اور پرنٹنگ پریس بند کر دیا گیا۔
طارق تقریباً 22 مہینے سلاخوں کے پیچھے رہے اور اس دوران اس نے جیل کی ڈائری کے نام سے کتابیں دو حصوں میں لکھیں۔ وہاں پر جن سیاسی اور کرمنل لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اس کے بارے میں بھی لکھا۔ اسیری کے دور میں ان کے دوست ستار پیرزادو طارق کی ماں اور بیوی بچوں کے پاس جاکر ان کے مسائل کے بارے میں ملتے رہتے تھے۔ جیل میں طارق اپنی تحریروں میں نیا پن لائے اور ادب کی دنیا اور صحافتی سفر کے بارے میں پڑھنے والوں کو ایک نیا انداز دیا اور لوگوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں ، سندھ کے ساتھ کی ہوئی زیادیتوں کے بارے میں احتجاجی تحریریں لکھیں اور عوام میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کا مقصد تھا کہ وہ زمینداروں اور حق تلفی کرنے والوں کو بے نقاب کرے اور ان لوگوں کی آواز کو بلند کرے، جن پر ناانصافی کے پہاڑ گرائے گئے ہیں۔
جب بھٹو کی حکومت کو ضیا الحق نے ختم کر کے مارشل لا نافذ کیا تو کچھ ہی عرصے کے بعد طارق کو رہا کر دیا گیا، بعد میں کیس کے خاتمے پر اس کے رسالے کی ڈیکلریشن بحال ہو گئی اور پھر اس نے دوبارہ اپنے میگزین کا اجرا شروع کر دیا، لیکن وہ مارشل لا کے مظالم کو بھی رپورٹ کرتا رہا۔ سکھر جیل میں رہنے کے دوران جب انھیں حیدرآباد لایا جاتا تھا تو اس سے ملنے کے لیے دوستوں اور چاہنے والوں کا ایک مجمع لگ جاتا تھا۔
طارق کتابیں پڑھنے کو ترجیح دیتے تھے، لیکن اس کے ساتھ اسے موسیقی سے بھی بڑا لگاؤ تھا اور وہ اکثر ہندوستان کے مشہور گلوکار کشور کمار کے گانوں کی آڈیو کیسٹس اور اس سے پہلے فونو ریکارڈز خرید کر لاتے تھے اور پھر تنہائی میں یا پھر کام میں مصروف ہونے کے دوران سنتے تھے۔ اچھے کپڑے پہننا اور صاف ستھرا رہنا پسند کرتے تھے۔ اسے اچھے کھانے پسند تھے اور پینے میں وہ اسپیشل چائے پینا پسند کرتے تھے، جس میں دودھ، پانی، چائے کی پتی اور چینی الگ الگ ہو۔ چائے کی پتی میں اسے ارل گرے بلینڈر پسند تھی جو سری لنکا کی بہترین پتی تھی۔ وہ نہ تو شراب کو ہاتھ لگاتے تھے اور اسے سگریٹ سے نفرت تھی، وہ بڑے محنتی تھے اور کئی کئی گھنٹے کرسی پر بیٹھ کر کام کرتے تھے اور آرام بہت ہی کم کرتے تھے، اس کی نیند پوری نہیں ہوتے تھی، کیوں کہ وہ مسلسل کام کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ مسلسل کام کرنے اور بیٹھنے کی وجہ سے اسے کمر کا درد ہوگیا اور نیند کم کرنے کی وجہ سے اسے نروس بریک ڈاؤن کی شکایت ہوگئی، جس کی وجہ سے انھیں دل کی تکلیف بھی پیدا ہوگئی۔
طارق نے رہائی کے بعد گھر چلانے کے لیے سوہنی پبلی کیشن کی طرف سے کئی کتابیں شایع کیں۔ اس کے علاوہ اس نے تخلیقی پبلی کیشنز اور نیو فیلڈز پبلی کیشن ادارے قائم کیے جس نے کئی اچھی کتابیں چھاپیں، جب اس کی میگزین کی ڈیکلریشن اور پریس بحال ہوا تو پھر وہ اس میں مصروف ہو گئے۔ طارق چاہتے تھے کہ وہ اپنے میگزین کے ذریعے سندھی ادب اور صحافت میں کچھ ایسے Trends ڈال جائیں جس سے آنے والی اس پروفیشن کی نسلیں مزید بہتر معیار کے رسائل اور اخبار نکالیں اور سندھی زبان کو ترقی ہو اور ادب کی دنیا میں انقلاب پیدا ہوجائے۔
طارق کا یہ خواب ادھورا رہ گیا اور زندگی نے ان کا ساتھ نہیں دیا ۔ ایک دن جب وہ اپنے دوست کے فلیٹ پر کراچی میں اپنے رسالے کے کام سے آئے ہوئے تھے تو انھیں اچانک دل کی تکلیف ہو گئی، وہاں پر موجود نوکر جلدی میں ڈاکٹر کو بلانے گئے مگر قسمت کا کھیل یہ ہوا کہ آٹومیٹک دروازہ بند ہو گیا اور نوکر چابی لے جانا بھول گیا، جب وہ علی احمد بروہی کو ساتھ لے کر واپس آئے تو دروازہ بند تھا اور بڑی مشکل سے دروازے کا ایک حصہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو طارق اشرف کی روح اس کے جسم سے نکل چکی تھی۔ اور یہ دن تھا 14 اپریل 1992ء کا، جس نے سندھی ادب کے ایک اور درخشاں ستارے کو کہکشاں سے ہٹا دیا۔ طارق کی موت سے سندھی ادب اور صحافت کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے اور جو خلا طارق کی موت سے پیدا ہو گیا تھا وہ ابھی تک پر نہیں ہو سکا ہے۔
عبدالستار پیرزادو جو طارق کے قریبی دوستوں میں سے ایک تھے، جس کے گھر پر اکثر طارق آتے رہتے تھے اور ستار پیرزادو بھی طارق کے دفتر اور گھر میں آتے جاتے رہتے تھے، خاص طور پر اس کا ساتھ طارق کے کام آیا، جب طارق جیل میں تھا یا پھر جب پولیس طارق کو پکڑنے کے لیے گھر پر چھاپے مارتی تھی تو وہ ستار پیرزادو کے گھر پر چھپ جاتے تھے، اس کے علاوہ جب کمپیوٹر سسٹم پاکستان میں آیا تو طارق نے اپنے میگزین کو کمپیوٹر پر لانے کی شروعات کی اور حیدرآباد سے کراچی آتے تھے اور ستار پیرزادو کو اپنے ساتھ لے کر پورا پورا دن کبھی رات بھر اپنے ساتھ رکھتے تھے۔
جب طارق جیل میں تھا تو ستار اس کو اپنی ذمے داری سمجھتے تھے کہ وہ طارق کی ماں کے پاس چلے جاتے تھے اور اس کے گھر کے کام کاج کے لیے پوچھتے تھے، خاص طور پر وہ طارق کی ماں کا خیال رکھتے اور اسے علاج معالجے کے سلسلے میں پوچھتے رہتے تھے۔ طارق کی ماں ایک دلیر عورت تھیں جو دلیرانہ طریقے سے پولیس والوں سے نمٹتی تھیں، جب وہ طارق کی تلاش میں اکثر گھر پر چھاپے مارتے رہتے تھے۔
طارق کا ''سوہنی'' میگزین کا اجرا بھی ایک اتفاق ہے، کیوں کہ جب سندھی ادب کا ایک بڑا نام حمید سندھی ایک میگزین ''روح رھان'' نکالتے تھے جس میں طارق اشرف اپنی کہانیاں اور دوسری تحریریں بھیجتے تھے، ایک دن ہوا ایساکہ کوئی تحریر حمید سندھی کے رسالے میں شایع نہیں ہوئی جس کے لیے طارق نے ان سے شکایت کی کہ آپ نے میری تحریر اپنے تازہ شمارے میں شامل نہیں کی ہے۔
جس پر حمید نے ناراض ہوتے ہوئے کہا کہ تمہیں کیا پتہ کہ میگزین نکالنا کتنا مشکل ہے، ان الفاظ نے طارق میں یہ اعتماد پیدا کیا کہ وہ نہ صرف میگزین شایع کرے گا بلکہ وہ سندھی ادب پر ایک معیاری رسالہ ہو گا۔ اور اس نے یہ سب کچھ کر کے دکھایا۔ آگے چل کر حمید کا رسالہ بند ہو گیا اور طارق کے میگزین کو عروج حاصل ہو گیا۔ طارق نے ماہانہ سوہنی کے علاوہ اس کی خاص اشاعت بھی نکالی، جو خاص طور پر شیخ ایاز، کہانی نویس نسیم کھرل اور امر جلیل پر تھے۔ باقی تین چھوٹے اسپیشل اشاعت بھی مارکیٹ میں لائے جس نے بڑی دھوم مچائی اور سندھی ادب کی دنیا میں ایک ریکارڈ بن گیا۔
طارق اشرف ذوالفقار علی بھٹو سے بڑے متاثر تھے اور جب پی پی پی بنی تو اس نے اپنے گھر پر جو حیدرآباد کھوکھر محلہ میں تھا اور جہاں پر جماعت اسلامی کا غلبہ تھا پی پی پی کا جھنڈا لہرایا اور الیکشن میں پارٹی کی حمایت کی۔ جب بھٹو اقتدار میں آئے تو طارق نے بھٹو کو سندھ کے مسائل اور اس سے ہونے والی زیادتیوں کو اپنے ایڈیٹوریلز میں پوائنٹ آؤٹ کیا، تا کہ بھٹو باخبر رہیں۔
اکثر ایجنسیوں کے نمایندے سوہنی کے خلاف الٹی رپورٹیں بھیجتے تھے تا کہ حکومت سمجھے کہ طارق حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف ہے۔ آخر ایک دن ایک اشاعت میں امر جلیل کی کہانی سرد لاش جو سفر شایع ہوئی، جس میں شاید دو مذہبی گروہوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہونے کا خطرہ تھا۔ اب پولیس نے طارق کے خلاف مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی، مگر اس سے پیشتر اطلاع ملنے پر وہ روپوش ہو گئے۔ اس دوران امر جلیل نے بھی اپنا تبادلہ اسلام آباد کروا لیا۔ آخرکار ایک دن طارق کو گرفتار کر لیا گیا، اس کا میگزین اور پرنٹنگ پریس بند کر دیا گیا۔
طارق تقریباً 22 مہینے سلاخوں کے پیچھے رہے اور اس دوران اس نے جیل کی ڈائری کے نام سے کتابیں دو حصوں میں لکھیں۔ وہاں پر جن سیاسی اور کرمنل لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اس کے بارے میں بھی لکھا۔ اسیری کے دور میں ان کے دوست ستار پیرزادو طارق کی ماں اور بیوی بچوں کے پاس جاکر ان کے مسائل کے بارے میں ملتے رہتے تھے۔ جیل میں طارق اپنی تحریروں میں نیا پن لائے اور ادب کی دنیا اور صحافتی سفر کے بارے میں پڑھنے والوں کو ایک نیا انداز دیا اور لوگوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں ، سندھ کے ساتھ کی ہوئی زیادیتوں کے بارے میں احتجاجی تحریریں لکھیں اور عوام میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کا مقصد تھا کہ وہ زمینداروں اور حق تلفی کرنے والوں کو بے نقاب کرے اور ان لوگوں کی آواز کو بلند کرے، جن پر ناانصافی کے پہاڑ گرائے گئے ہیں۔
جب بھٹو کی حکومت کو ضیا الحق نے ختم کر کے مارشل لا نافذ کیا تو کچھ ہی عرصے کے بعد طارق کو رہا کر دیا گیا، بعد میں کیس کے خاتمے پر اس کے رسالے کی ڈیکلریشن بحال ہو گئی اور پھر اس نے دوبارہ اپنے میگزین کا اجرا شروع کر دیا، لیکن وہ مارشل لا کے مظالم کو بھی رپورٹ کرتا رہا۔ سکھر جیل میں رہنے کے دوران جب انھیں حیدرآباد لایا جاتا تھا تو اس سے ملنے کے لیے دوستوں اور چاہنے والوں کا ایک مجمع لگ جاتا تھا۔
طارق کتابیں پڑھنے کو ترجیح دیتے تھے، لیکن اس کے ساتھ اسے موسیقی سے بھی بڑا لگاؤ تھا اور وہ اکثر ہندوستان کے مشہور گلوکار کشور کمار کے گانوں کی آڈیو کیسٹس اور اس سے پہلے فونو ریکارڈز خرید کر لاتے تھے اور پھر تنہائی میں یا پھر کام میں مصروف ہونے کے دوران سنتے تھے۔ اچھے کپڑے پہننا اور صاف ستھرا رہنا پسند کرتے تھے۔ اسے اچھے کھانے پسند تھے اور پینے میں وہ اسپیشل چائے پینا پسند کرتے تھے، جس میں دودھ، پانی، چائے کی پتی اور چینی الگ الگ ہو۔ چائے کی پتی میں اسے ارل گرے بلینڈر پسند تھی جو سری لنکا کی بہترین پتی تھی۔ وہ نہ تو شراب کو ہاتھ لگاتے تھے اور اسے سگریٹ سے نفرت تھی، وہ بڑے محنتی تھے اور کئی کئی گھنٹے کرسی پر بیٹھ کر کام کرتے تھے اور آرام بہت ہی کم کرتے تھے، اس کی نیند پوری نہیں ہوتے تھی، کیوں کہ وہ مسلسل کام کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ مسلسل کام کرنے اور بیٹھنے کی وجہ سے اسے کمر کا درد ہوگیا اور نیند کم کرنے کی وجہ سے اسے نروس بریک ڈاؤن کی شکایت ہوگئی، جس کی وجہ سے انھیں دل کی تکلیف بھی پیدا ہوگئی۔
طارق نے رہائی کے بعد گھر چلانے کے لیے سوہنی پبلی کیشن کی طرف سے کئی کتابیں شایع کیں۔ اس کے علاوہ اس نے تخلیقی پبلی کیشنز اور نیو فیلڈز پبلی کیشن ادارے قائم کیے جس نے کئی اچھی کتابیں چھاپیں، جب اس کی میگزین کی ڈیکلریشن اور پریس بحال ہوا تو پھر وہ اس میں مصروف ہو گئے۔ طارق چاہتے تھے کہ وہ اپنے میگزین کے ذریعے سندھی ادب اور صحافت میں کچھ ایسے Trends ڈال جائیں جس سے آنے والی اس پروفیشن کی نسلیں مزید بہتر معیار کے رسائل اور اخبار نکالیں اور سندھی زبان کو ترقی ہو اور ادب کی دنیا میں انقلاب پیدا ہوجائے۔
طارق کا یہ خواب ادھورا رہ گیا اور زندگی نے ان کا ساتھ نہیں دیا ۔ ایک دن جب وہ اپنے دوست کے فلیٹ پر کراچی میں اپنے رسالے کے کام سے آئے ہوئے تھے تو انھیں اچانک دل کی تکلیف ہو گئی، وہاں پر موجود نوکر جلدی میں ڈاکٹر کو بلانے گئے مگر قسمت کا کھیل یہ ہوا کہ آٹومیٹک دروازہ بند ہو گیا اور نوکر چابی لے جانا بھول گیا، جب وہ علی احمد بروہی کو ساتھ لے کر واپس آئے تو دروازہ بند تھا اور بڑی مشکل سے دروازے کا ایک حصہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو طارق اشرف کی روح اس کے جسم سے نکل چکی تھی۔ اور یہ دن تھا 14 اپریل 1992ء کا، جس نے سندھی ادب کے ایک اور درخشاں ستارے کو کہکشاں سے ہٹا دیا۔ طارق کی موت سے سندھی ادب اور صحافت کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے اور جو خلا طارق کی موت سے پیدا ہو گیا تھا وہ ابھی تک پر نہیں ہو سکا ہے۔